ابو عقیل (رضی اللہ عنہ)

ابو عقیل اپنی ذات میں ایک افسانوی کردار تھے۔انہوں نے بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم) کے ساتھ مل کر شرکت کی لیکن جس شہادت کی تمنا تھی پوری نہ ہو سکی۔ان کے نصیب میں یہ تمغہ یمامہ کے روز آیا۔ اس جنگ میں جہاں مسیلمہ کذاب کے ساتھ مقابلہ تھااور بڑی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے۔جنگ یمامہ کادن ان کی زندگی کا آخری دن تھا۔یہ کہنا درست ہے کہ اس دن وہ امر ہوگئے اور ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگئے۔اس دن آپ نے اپنے خون سے ایساپرآشوب قصیدہ رقم کیا کہ کوئی شاعر ایسا قصیدہ نہیں لکھ سکتا۔ابو عقیل کے واقعے کو سیدنا ابن عمر کی زبانی سنتے ہیں :

یمامہ کے روز جنگ شروع ہونے سے پہلے لوگ صف بستہ ہوئے تو پہلا تیر ابن عقیل کو دل اور کندھے کے درمیان آکر لگا اور آپ شدید زخمی ہوگئے۔اور جنگ میں شرکت کیے بغیر آپ کو خیمہ میں بھیج دیا گیا۔ آپ کی بائیں جانب بالکل جواب دے گئی تھی۔یہ سب کچھ صبح سویرے ہو چکا تھا۔لڑائی بہت شدید تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کے پاﺅ ں اکھڑنا شروع ہوگئے اور مسلمانوں نے بھاگنا شروع کر دیا۔بھاگتے ہوئے اس جگہ سے گزرے جہاں ابو عقیل موجود تھے اور زخموں کی وجہ سے حرکت کرنے سے قاصر تھے۔انہوں نے معن بن عدی کی آواز سنی جو با آواز بلندانصار کو پکار رہے تھے”اللہ“ ”اللہ“پلٹو دشمن پرحنین کی طرح خود کوپھر سے مناؤ۔ یہ اس وقت ہوا جب انصار شور مچا رہے تھے کہ ہمیں بچاﺅ اور ایک ایک کر کے لوگوں کو نکالا جا رہاتھا۔حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ابو عقیل جو ہلنے کی طاقت بھی نہ رکھتے تھے،جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگے۔میں نے کہا ابو عقیل آپ کیا چاہتے ہیں آپ تو لڑ نہیں سکتے۔ابو عقیل کہتے ہیں منادی کرنے والے نے مجھے ہی تو بلایا ہے۔ابن عمر کہتے ہیں میں نے کہا وہ تو انصارکو بلا رہے ہیں زخمیوں کو نہیں ۔ ابو عقیل نے کہا:میں انصار میں سے ہوں اور میں منادی کرنے والے کے بلانے پر جاﺅں گا چاہے مجھے گھسٹ کر ہی جاناپڑے۔ابو عقیل دائیں ہاتھ میں تلوار گھسیٹتے ہوئے آہستہ آہستہ نکلے جبکہ ان کا بایاں پہلو جواب دے چکا تھا۔پھر انہوں نے خود منادی شروع کر دی۔اے انصار لوٹ آﺅ حنین کی طرح۔چنانچہ انصار پر اللہ رحم فرمائے جمع ہونا شروع ہوگئے۔اور ایک بڑی طاقت بن کر یکبارگی دشمن پر ٹوٹ پڑے۔

دونوں فوجوں کے درمیان تلواریں چلنے لگیں ۔لوگ گتھم گتھا ہوگئے۔حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ابو عقیل کا بایاں بازو کندھے سے الگ ہو کر گر چکا ہے اوران کے جسم پر چودہ کے قریب زخم ہیں اور سارے جنگ کے دوران لگے۔بالآخر اللہ کا دشمن مسیلمہ کذاب قتل ہوا۔عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں ابو عقیل کے پاس پہنچا وہ زمین پر پڑے تھے۔زندگی کی آخری سانسیں تھیں ۔میں نے آواز دی اے ابو عقیل۔جواب دیا لبیک۔ان کی زبان کانپ رہی تھی۔پوچھا جنگ میں کس کو شکست ہوئی۔میں نے کہا،خوشخبری ہے مبارک ہو اور اونچی آواز سے کہا: اللہ کادشمن مارا گیا۔ابو عقیل نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا۔الحمدللہ۔ساتھ ہی اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے مدینہ پہنچ کر اپنے والدسیدنا عمرکو یہ سارا واقعہ سنایاتو آپ نے فرمایا کہ وہ ہمیشہ شہادت مانگا کرتے تھے۔