حمزہ بن عبدالمطلب (رضی اللہ عنہ)

یہ ممکن نہیں ہے کہ شہیدوں کا تذکرہ ہو اور سیدنا حمزہ کا تذکرہ نہ کیا جائے۔جو سیدالشھداءاور شیر خدا کے القاب سے مشہور ہیں ۔

سیدنا حمزہ جنگِ احد میں اپنی شجاعت کی انوکھی اوربے مثال داستان رقم کر رہے تھے ۔حمزہ جیسی بہادری کی مثال آج تک کوئی مجاہد،غازی یا شہید رقم نہیں کر سکا۔وہ واقعی جرات اور بہادری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ تاریخ نگاروں کے بیانات کے مطابق احد کے روز انہوں نے اپنے ہاتھوں سے تینتیس کافروں کو جہنم واصل کیا اور پھر شہید ہوئے۔یعنی کافروں کے مجموعی طور پر قتل ہونے والوں میں سے نصف کے قریب لوگوں کوانہوں نے خود قتل کیا اور پھر جان دے دی۔ان کی ہمشیرہ صفیہ رضی اللہ عنھاان کے جسد خاکی کے ٹکڑے چن رہی تھیں اور ساتھ ساتھ آنسو بھی بہا رہی تھیں ۔ایک طرف رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) شیر خدا سیدنا حمزہ کی شہادت پر غمگین تھے تو دوسری طرف اپنی پھوپھی اور حمزہ کی ہمشیرہ کا روناآپ کی برداشت سے باہر ہو رہا تھا۔اس روز مسلمانوں میں سے کوئی ایسا نہ بچا تھا جو زخمی نہ ہو اہو۔اس پر مستزاد یہ کہ انہتر مسلمان شہید بھی ہوگئے تھے۔یعنی ہر کسی کا کوئی نہ کوئی عزیز اس جنگ میں شہید ہو چکا تھا اور مدینہ واپسی پر تمام اہل مدینہ کے گھر صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔شہیدوں کا دکھ، زخمیوں کی آہ و بکا، ان زخمیوں کا افسوس جو زخموں کی تاب نہ لا کر جان ہارتے جا رہے تھے۔

ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی تھی۔دوسروں کادکھ یا دہی نہ تھا۔اس قدر الم ناک صورت حال میں لوگ اپنے اپنے شہیدوں اور زخمیوں کے پیچھے پڑے تھے۔اور سید الشہداءپر آنسوبہانے والا کوئی نہیں تھا۔یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) بہت رنجیدہ ہوئے۔اور بڑے ٹوٹے ہوئے دل سے کہا۔افسوس ”حمزہ کے لئے رونے والا بھی کوئی نہیں ۔“

جب سید الانصار سعدؓ بن معاذ نے یہ بات سنی تو فوراً گئے اور تمام انصار خواتین کو حضرت حمزہؓ کے گھر بھیجا۔اور کہا پہلے حمزہؓ کی تعزیت کرو پھر اپنے مرنے والوں کو یاد کرنا۔یعنی قیامت تک یہ حقیقت بن گئی کہ لوگوں نے سید الشہداءکے لئے اپنے مرنے والوں سے پہلے افسوس اور تعزیت کی۔اس زمانے میں کئی دن تک یہ معمول رہا۔یعنی اگر یہ لوگ حمزہؓ کے دکھ پر رونے سے پہلے اپنے شہیدوں پر آنسو بہاتے تو شیرِ خدا کا حق ادا نہ ہوتا۔