خاتمہ

حقیقی مومن ذلت کی زندگی سے عزت کی موت کو ترجیح دیتا ہے۔عزت کی موت اس زندگی سے ہزار درجہ بہتر ہے جو دشمن کے تسلط کے خوف سے گھر کے کونے کھدرے میں ڈر ڈر کر گزار دی جائے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب انسان عرفان کی منزل کو پہنچ جائے۔ جو شخص مُردوں کی سی زندگی گزارنے کو ترجیح دے وہ اس حقیقت سے آشنا نہیں ہو سکتا۔

انسان کو یہ زندگی ایک ہی بار ملتی ہے ۔ اس کو آخرت کی سعادت کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔اس زندگی کو گناہوں سے پاک رکھنا بہر حال بہت مشکل ہے۔ہماری زندگیاں گناہوں کے سمندر میں ہیں ۔جو شخص بازاروں میں گھومتا ہے۔کتنی ہی بار اس کی نظر حرام پر پڑتی ہے۔ہر روز وہ کتنی مرتبہ مرتا ہے۔کتنی مرتبہ گندگی میں لوٹ پوٹ ہوتا ہے۔کتنی مرتبہ ہر روز اس سے گناہ سرزد ہوتے ہیں ۔کیا کیا چیز معدے میں چلی جاتی ہے، بلکہ کتنی مر تبہ حرام کے آگے سر بسجود ہوتا ہے۔کتنی مرتبہ چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے رب جلیل کی نافرمانی ہو جاتی ہے، بلکہ نعوذباللہ کتنی مرتبہ نبی کے فرامین کی توہین ہو جاتی ہے۔کتنی ہی مرتبہ قرآنی آیات کا انکار عمل میں آتا ہے۔آج کے بدترین زمانے میں قدم قدم پر گناہ انسان کو گھیرے رکھتے ہیں ۔ان گناہوں سے نجات اور جنت کا مختصر ترین راستہ شہادت کے علاوہ کوئی نہیں ۔یہی سوچ ہو یہی فکر ہو۔اسی مقصد کے حصول کے لئے انسان کوشاں رہے۔ابو عقیل کی طرح موقع کی تلاش میں رہے کہ کب مجھے شہادت کا مرتبہ ملے اور کامیاب ہو جاﺅں ۔جو شخص دعوتِ دین کو ایک امانت سمجھتا ہے اور اس کو ادا کرنے کاجذبہ اپنے اندر رکھتا ہے، اس کی زندگی کا مقصد و محور یہی ہونا چاہیے۔شہادت ہمارا مقصد ہے،شہادت ہمارا ہدف ہے، شہادت سے ہی ہمیں محبت ہے۔

جس شخص نے اپنی زندگی کاقصیدہ نیک، صالح اور دعوت دین کے مصرعوں سے ترتیب دیا ہے، اس کے اس قصیدے کا آخری قافیہ شہادت فی سبیل اللہ ہونا چاہیے۔ تب زندگی اپنی بہترین اور مہنگی ترین قیمت دے گی۔ وہ قیمت ایسی ابدی جنت کی صورت میں ہو گی جہاں حور و قصورہونگے،وہ کچھ ہوگا جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔جنت میں ہر نیک عمل کا بدلہ پورے کا پورا موجود ہو گا۔

یاد رہے کہ جنت اور جہنم دو سٹور ہیں ۔جن میں انسان کے اعمال جمع ہوتے رہتے ہیں ۔ نیک عمل اور خیر کے کام جنت میں جمع ہوتے رہتے ہیں اور برے اعمال جہنم میں اکٹھے ہوتے رہتے ہیں ۔اس لحاظ سے ہم جنت یا جہنم کو خود ہی بنتے ہیں اور خود ہی سیتے ہیں ۔

بلا شبہ نیک اعمال کا سردار شہادت فی سبیل اللہ ہے۔شہادت جان کی نیاز ہے جو انسا ن ادا کر دیتا ہے اور جانتے بوجھتے ہوئے اپنی روح کواللہ کی ذات پر قربان کردیتا ہے۔اس کی حقیقی نظر دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے بعد کی اسی زندگی کو دیکھ لیتی ہے۔شہید ان نعمتوں کے لئے اس زندگی کی قربانی دے دیتا ہے۔اس لحاظ سے وہ اپنی پوری مرضی اور منشاءسے یہ سودا کرتاہے۔

جو شخص چاہتا ہے کہ اچھی،بابرکت اور پاکیزہ زندگی کا پوراپورا حصہ حاصل کرے اسے چاہیے کہ اس زندگی میں اللہ کی خاطر اپنے قیمتی خون کے قطرے بہا دے اور شہادت کامنصب حاصل کر لے تاکہ اپنے کومقصد صحیح معنوں میں حاصل کرے۔جو زندگی شہادت پر اختتام پذیر نہ ہوچاہے جس قدر نیکیوں سے بھرپور ہوکوئی نہ کوئی کمی اس میں رہ جاتی ہے لیکن جس زندگی کا اختتام شہادت پر ہو، چاہے وہ شہادت کسی بھی اندازسے ہواس میں کوئی ایسا گوشہ نہیں بچتاجسے ہمیں کمی، کوتاہی، کجی یا غلطی کہہ سکیں ۔یہ اختتام ایسے قصیدے یا نظم کی طرح ہے جس کے تمام شعر مکمل ہوں ۔ تمام قافیے برابر ہوں اور کوئی مصرعہ نا مکمل نہ ہو۔اس میں ہم آہنگی،یکسانیت،نظم و ضبط اور محبت ہوتی ہے۔شہادت تو ایسی پر اسرار شاہ کلید ہے جو آسمانوں اور زمینوں کے تمام دروازوں کے تالے کھول دیتی ہے۔شہید کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔بلاحساب کتاب جنت کی اس اعلیٰ منزل تک چلا جاتا ہے۔جو اللہ نے صرف اس کے لئے خاص کر رکھی ہے۔شہید کو ان راستوں کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔اس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کے کپڑے خون آلود ہوتے ہیں ،اس لباس والے کو راستے میں کوئی روکنے والانہیں ہوتا۔

اللہ پر حقیقی ایمان رکھنے والے ہر زمانے میں یہی تمنا رکھتے ہیں کہ اگر موت آئے تو شہادت کی موت آئے۔چاہے کسی جنگ میں ، کسی معرکہ میں ، کسی قتال میں ، کسی آزادی کی تحریک میں ۔ الغرض ہر دور میں مومن کی شان یہی رہی ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے راضی ہو جاتا ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا :”اللہ تعالیٰ کو اس آدمی کا فعل بہت پسند آیا جو اللہ کے راستے میں لڑ رہا تھا۔ اس کے ساتھی شکست کھا گئے اور وہ اپنی ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے جنگ میں واپس آگیا۔یہاں تک کہ اپنا خون بہا دیا۔اس موقع پر اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے: میرے اس بندے کو دیکھو۔جو کچھ میرے پاس ہے اس کی محبت اور میرے خوف سے میرا بندہ جنگ میں واپس آیا اور لڑتا رہا یہاں تک کہ اپنا خون بہا دیا(یعنی اپنی جان میرے راستے میں قربان کر دی۔)“