جہاد اور سستی کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے

جہاد کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ دنیا اور اسکی لذتوں میں کھو جانا ہے۔جو شخص اپنے آرام و راحت اور مرغوباتِ نفس کو قربان نہیں کر سکتا اس کے لیے جہاد جیسی عظیم مہم میں شمولیت کی کوئی توقع نہیں ۔اس لیے کہ جہاد جیسے عظیم کارنامے انجام دینا اسی کا کام ہے جو اپنی نفسانی خواہشات اور مادی لذتوں کایکسر قربان کر سکے۔

جہاد سے محبت کرنے والوں کا کام یہ ہے کہ جہاد کے ذریعے انسانی صفوں میں ہمیشہ کی سعادت مندی شامل کر دیں ۔یہاں تک کہ ابدی جنتوں کے دروازے ان کے لیے کھل جائیں ۔ حوریں ان کے استقبال کے لیے کھڑی ہوں ایسے خوبصورت بچے ان کی خدمت پر مامور ہوں جو ہمیشہ بکھرے موتیوں کی طرح ہی رہیں ۔کیونکہ یہ لوگ ہی ہیں جنہوں نے جہاد جیسے عظیم کام کو پایا تکمیل تک پہنچایا تھا۔

میں آپ کودنیا کی زندگی اور اس کی چکا چوندکی مثال دیتا ہوں : حقیقی مجاہدوہ ہوتا ہے جو میدانِ جہاد کی ادنیٰ سی خدمت کو دنیا کے بڑے سے بڑے منصب کے مقابلہ میں اعلیٰ و افضل سمجھے۔ایک طرف اگر اسے پارلیمنٹ کاممبر بنایا جارہا ہویا اسے وزارت ِعظمیٰ اور صدارت کامنصب پیش کیا جارہا ہواوردوسری طرف میدان جہادگرم ہو تو وہ ان عظیم مناصب کو پاﺅں کی ٹھوکر پر رکھے۔

ہم تو کئی برسوں سے ایسے جذبات سے سرشارمجاہد کو دیکھنے کے لیے ترس گئے ہیں جس کے اندر جہادی روح ہوجسے میدانِ جنگ اور محاذوں پر رہنے ہی کی لگن ہو۔اور وہ شخص جو اپنے مادی اور معنوی مفاد کو قربان نہ کر سکتا ہواور جہاد پر نکلنے کا مصمم ارادہ نہ کرتا ہواس سے ہمیں کوئی اچھی امید نہیں بلکہ اگر وہ کہیں میدان میں چلا بھی جائے تو ہمیں خطرہ رہے گا کہ وہاں ہمارے لیے مشکلات و مسائل ہی پیدا کرے گا۔

اگر وہ اس دنیا کے فانی فوائد کونہ چھوڑے اور نہ چھوڑنے کا ارادہ کرے اور اس بات کا یقین بھی نہ رکھے کہ جہاد کے راستے میں جومزہ ہے وہ کہیں نہیں اور خود غرضی اور ذاتی مفادات کی کوئی حیثیت نہیں اور جب تک یہ نہ کہے کہ اے اللہ تیرے راستے میں ملنے والی موت کتنی اچھی ہے۔اس وقت تک ہم اس کے جہاد کا یقین نہیں کرسکتے اور نہ ہی کر یں گے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ایسے آدمی کا جہاد فائدہ مند ہے نہ اسلام کی خاطر،نہ ہی امت کو کسی مشکل سے نکالنے کے لیے ہے۔ ہم توایسے جہاد کرنے والوں سے کسی فائدے کی امید رکھتے ہیں جو ذاتی اغراض اور نفسانی خواہشات کو پس پشت ڈال کر اپنے گھر بار چھوڑیں اور کسی مفاد کو پیش نظر نہ رکھیں جیسا کہ صحابہ کرام کی زندگیوں سے ثابت ہے۔بالکل ایسے ہی اخلاص کے پیکر جو مادی لذتوں اور نفسانی خواہشات پر قابو پا چکے ہوں ،ان کا ہمیں مدتوں سے انتظار ہے۔ایسے لوگ جہاد کریں گے تو عنایات الٰہی کے اسباب بھی پیدا ہونگے۔

جو انسان آج کے دور میں جہاد کے نام پر تگ ودو کر رہا ہے ،ہم امید کرتے ہیں کہ اگر وہ اس طرز کا اخلاص پیدا کر لے اور وہی اسلوب اختیار کر لے جو ان پاک طینت صحابہ کرام نے کیا تھا یعنی ایسے جذبہ اور نیت سے جہاد کرے تو ہمارے انتظار کی گھڑیاں ختم ہو سکتی ہیں اور ہمیں بہتری کی امید لگ سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہمیں اسی طرز کے جہاد کی نصیحت کرتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے

یٰاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا مَا لَکُم اِذَاقِیلَ لَکُمُ انفِرُوا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ اثَّاقَلتُم اِلَی الاَرضِ اَرَضِیتُم بِالحَیٰوةِ الدُّنیَا مِنَ الاٰخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الحَیٰوةِ الدُّنیَا فِی الاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیل اِلَّا تَنفِرُوا یُعَذِّبکُم عَذَابًا اَلِیمًا وَّ یَستَبدِل قَومًا غَیرَکُم وَلَاتَضُرُّوہُ شَیئًا وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیر۔(التوبۃُ:۳۸۔۳۹)

”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تمہیں اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا ہے تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سرو سامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔تم نہ اٹھو گے تو خدا تمہیں درد ناک سزا دے گا،اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔“

یعنی حق بات کو دوسروں تک پہنچا دو۔دنیا کے فانی مفادات اور شہوات حیوانیہ کو ترک کر دو۔اللہ کے حکم کی سربلندی کے لیے اور اسے چہار دانگ عالم میں پھیلانے کے لیے کھڑے ہو جاﺅ۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اسی زمین سے چمٹے جارہے ہو،نہ اس سے دور ہٹتے ہو اور نہ اس کی لالچ کو چھوڑتے ہو،اسی زوال پذیر دنیا کے ہو کر رہ گئے ہو اور اس کے آگے ہتھیار ڈال چکے ہو کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا ہی کی زندگی سے راضی ہو گئے ہو؟کیا اس زندگی میں کھو گئے ہو جس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ہر چیز کو زوال ہے۔یہ جوانی، یہ صحت، یہ مال، یہ دولت سب فنا ہو جائے گا۔تم اسے نہیں بچا سکتے۔

تمہاری روحوں سے یہ حسرتیں نکل جائیں گی تم ان سے بہت دور کر دئیے جاﺅ گے ۔ آخرت کی زندگی اور ہمیشہ کا ٹھکانا تمہارے انتظار میں ہے۔ وہاں جو آدمی جنت میں جائے گا اسے ایسی نعمتیں ملیں گی، ایسی لذتیں میسر ہوں گی جو کبھی ختم نہ ہوں گی ۔ اس کے علاوہ پروردگار عالم کے حسن کا جلوہ بھی ہو گا ۔اگر حقیقت یہ ہے تو پھر اس آخرت کے بدلے اس فانی زندگی سے کیونکر راضی ہو کر بیٹھ گئے ہو ؟ ایک اور آیت قرآنی دنیا پرستی کوجہاد میں بڑی رکاوٹ ہونے کا اشارہ کر رہی ہے:

” لَو کَانَ عَرَضًا قَرِیبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوکَ وَ لٰکِنم بَعُدَت عَلَیھِمُ الشُّقَّۃُ وَ سَیَحلِفُونَ بِاللّٰہِ لَوِ استَطَعنَا لَخَرَجنَا مَعَکُم یُھلِکُونَ اَنفُسَھُم وَ اللّٰہُ یَعلَمُ اِنَّھُم لَکٰذِبُونَ۔ “ (التوبہ:۲۴)

”اے نبی، اگر فائدہ سھل الحصول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تووہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو جاتے۔مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہوگیا۔اب وہ خدا کی قسم اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناتمہارے ساتھ چلتے۔وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں ۔اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں ۔“

یعنی جس غرض کے لیے انہیں بلایا جارہا ہے اس میں بڑی آسانی سے مال غنیمت ملتا۔سفر بھی کم ہوتا، آرام وسکون ہوتااورموت کاخطرہ نہ ہوتاتو یہ لوگ بلا تردد آپ کے ساتھ چل پڑتے لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ہرچیز ان کی خواہشات نفس کے خلاف ہے۔یہاں کوئی مادی فائدہ نہیں ، کوئی منصب و مرتبہ ہے نہ کوئی شہرت،بلکہ یہاں تو جان جوکھوں میں ڈالنے والا سفر ہے۔ اس لیے ایسے موقع پر مومن اور منافق میں فرق بڑی آسانی سے واضح ہو جاتا ہے۔مومن وہ ہیں جو بلا چوں چراں نبی پاک(صلى الله عليه و سلم) کی بات پر لبیک کہتے ہوئے چل پڑتے ہیں اور منافق وہ ہیں جو بھاگنے اور پیچھے رہنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں اور جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں ۔ اس طرح در حقیقت اپنی ہی تباہی کا سامان کرتے ہیں ،ان کو کوئی چیز جہاد سے روکنے والی نہیں ہوتی۔ ان کے دل اس بات کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں اور ان کے جھوٹے عذرخود ان کے لیے دھوکے کا باعث بنتے ہیں ۔اس لیے اندر سے ان کے ضمیر پریشان اور مضطرب رہتے ہیں ۔ اورجس کے دل و وجدان کو بے چینی ہووہ بالآخرتباہ ہو جاتا ہے۔

مسئلہ کی تمام جہتوں کو سمجھنے کے لیے غزوہ تبوک کے وقت مدینہ منورہ کی عمومی فضا اورماحول کو سمجھنا ضروری ہے جس کی بہت بڑی اہمیت ہے۔اس لیے ہم یہاں اس فضا اور ماحول کا جائزہ لیتے ہیں ۔

مومنین اور مجاہدین ابھی سفر سے واپس ہی آئے تھے اور ضروری تھا کہ کسی دوسرے لمبے سفر سے پہلے تھوڑا سا آرام کر لیں ۔ ادھر فصلیں بھی پک چکی تھیں جن کی کاشت ضروری تھی۔ گرمی اپنے عروج پر تھی اور ایسے حالات میں نبی(صلى الله عليه و سلم) نے مومنین کو انتہائی مشکل کام کے لیے پکارا۔

مومنوں نے اس دعوت پر پورے اخلاص اور جوش سے لبیک کہا۔اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔حضرت ابو بکرصدیقؓ اپنے گھر کا سارا سامان لے کر آگئے۔ حضرت عمرؓفاروق اعظم نے آدھا سامان خدمت اقدس میں پیش کر دیا۔حضرت عثمانؓنے تو اس قدر مال دیا کہ حد کر دی۔حضرت علیؓ نے کچھ مال اعلانیہ دیا اور کچھ چھپا کر۔یہ ان کے اخلاص کا اپنا ہی انداز تھا۔

چنانچہ تمام مومنین نے حسب استطاعت مالی جہاد میں حصہ لیا۔ہر شخص مال قربان کرنے میں دوسرے سے مقابلہ کر رہا تھا اور جو کچھ تھا راہِ خدا میں لٹا رہا تھا۔اس کار خیر میں خواتین بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہی تھیں ۔اس لیے ام المومنین حضرت عائشہ کا حجرہ خواتین کے صدقات سے بھر چکا تھا۔خواتین نے اپنے زیور اتار دیے،کوئی گلے کا ہار پیش کر رہی تھی کوئی کنگن،کوئی پازیب تو کوئی کانٹے پیش کررہی تھی۔مومنین نے تو نبی کی ایک آواز پر سب کچھ پیش کر دیا۔ادھر منافقین یہ شرطیں لگا رہے تھے کہ ہم اسی صورت میں اس مہم میں شریک ہوں گے کہ سفر لمبا نہ ہو،موسم گرم نہ ہو اور فصل کا موسم نہ ہو۔

یہ لوگ قسم قسم کے بہانے تراشتے اور نبی(صلى الله عليه و سلم) سے اجازت طلب کرتے۔ان میں سے ایک شخص جد بن قیس تھا جو ہمیشہ اذان سنتے ہی نماز کے لیے پہنچ جاتا لیکن اس کے دل کی گہرائیوں میں قرآن نہیں پہنچا تھا جو اس کے دل کو پھیر دے۔اس کی خواہشاتِ نفس پر ایمان حاوی نہ ہو سکا۔اس لیے وہ جان و مال قربان کرنے والے گروہ میں شامل نہ ہو سکا۔وہ اس حالت میں رسول اللہ کے پاس اجازت لینے آیا کہ آپ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے گھوڑے کو تیار کر رہے تھے۔جب آپ نے اس کو دیکھا تو فرمایا: تم بھی ہمارے ساتھ نہیں جارہے؟ کیونکہ آپ کو توقع نہ تھی کہ یہ شخص پیچھے رہے گا۔لیکن وہ نہیں جارہا تھا۔اللہ نے اس کو اس عظیم سفر سے محروم کر دیا۔ وقح نامی ایک شخص بے شرم سا آدمی تھا۔رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) کے پاس حاضرہوا اور اجازت مانگتے ہوئے کہنے لگا: اے اللہ کے رسول مجھے اجازت دیجیے اور فتنہ میں نہ ڈالیے۔میری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کے معاملہ میں بہت کمزور ہوں اور مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان بنواصفر کی عورتوں کو دیکھ کر میں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ نہ بیٹھوں ۔قرآن کریم اس کے معاملہ پر اس طرح تبصرہ کرتا ہے۔

” وَ مِنھُم مَّن یَّقُولُ ائذَن لِّی وَلَا تَفتِنِّی اَلَا فِی الفِتنَۃِ سَقَطُوا وَ اِنَّ جَھَنَّمَ لَمُحِیطَ بِالکٰفِرِینَ ۔“ (التوبہ: ۴۹)

”ان میں سے کوئی جو کہتا ہے کہ مجھے رخصت دے دیجیے اور مجھ کو فتنہ میں نہ ڈالیے۔سن رکھو! فتنے ہی میں تو یہ لوگ پڑے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو گھیر رکھا ہے۔“

اور بعض منافقین کہتے ہیں ”قالوا لا تنفروا فی الحر“ کہنے لگے اس گرمی میں نہ نکلو۔رسول اللہ نے اس کا قرآن کی زبان میں یہ جواب دیا:

قل نار جدھنم اشد حراً لو کان یفقھون

”کہہ دیجیے کہ جہنم کی آگ سب سے زیادہ گرم ہے۔کاش یہ لوگ شعور رکھتے۔“

پس جن لوگوں نے اس وقت مشکلات برداشت کیں ، درد سہہ گئے، مصیبتوں پر صبر کیا وہ آخرت کے عذاب سے بچ گئے۔مگر جو لوگ دنیا کی عارضی زندگی کی لذتوں کے پیچھے پڑ گئے، اسی سے مزہ لیتے رہے وہ آخرت میں بدترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔فرمایا:۔

”وَیَومَ یُعرَضُ الَّذِینَ کَفَرُوا عَلَی النَّارِ اَذہَبتُم طَیِّبٰتِکُم فِی حَیَاتِکُم الدُّنیَا وَاستَمتَعتُم بِہَا فَالیَومَ تُجزَونَ عَذَابَ الہُونِ بِمَا کُنتُم تَستَکبِرُونَ فِی الاَرضِ بِغَیرِ الحَقِّ وَبِمَا کُنتُم تَفسُقُونَ۔ “

(الاحقاف:۲۰)

”پھر جب یہ کافر آگ کے سامنے لا کھڑے کیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا: تم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کرچکے ہو اور ان کا لطف تم نے اٹھا لیا۔ اب جو تکبر تم دنیا میں کسی حق کے بغیر کرتے رہے اور جو نا فرمانیاں تم نے کیں ان کی پاداش میں آج تم کوذلت کا عذاب دیا جائے گا۔“

قرآن کریم تمام مومنین کو جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دیتا ہے۔جس نے اس دعوت کو جس قدر قبول کیا، اس قدر کامیاب یا ناکام ہوا۔جس نے دعوت جہاد قبول کی کامیاب ہوااور جس نے رد کی، ناکام ہوا۔

ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جہاد کے لیے نکلنا مشکل ہے۔جیسا کہ منافقین نے کہاکہ دنیا کی لذتیں نہیں چھوڑی جاسکتیں ۔یا پھر صحابہ کرام کی طرح کا رویہ اختیار کریں اور جو کچھ بھی ہے لے کر جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوں ۔