رسول اللہ اور صحابہ کرام کی زندگیاں اور آرام وراحت کی قربانی

دنیا و آخرت کی قربانی کے لیے خود رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم) نے اپنے گھر بار اور بیت اللہ شریف جیسے مرکزکو خیر باد کہہ دیا۔مکہ مکرمہ جہاں آپ پیدا ہوئے، جہاں آپ نے بچپن اور جوانی گزاری۔ جہاں آپ کو وحی کا فیض ملا، جس کی گھاٹیوں اور وادیوں میں آپ پر قرآن نازل ہوتا رہا۔وہ غارِ حرا چھوڑ دی جہاں آسمانی مخلوق سے ملاقات ہوتی تھی۔یہ سب کچھ اللہ کے لیے ترک کر کے ہمیں یہ سبق دے گئے کہ دعوت حق کے راستے میں کس قدر محبوب چیزوں کو چھوڑا جاتا ہے۔جب آپ کی قوم نے آپ کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا تو آپ کا دل غمگین نہ تھا کہ آپ کیا کچھ چھوڑ کر جارہے ہیں ، بلکہ آ پ تو اپنے سامنے ایک روشن مستقبل دیکھ رہے تھے۔

دشمن جان کے پیچھے پڑے تھے،ہر طرف سے پہرے اور رکاوٹیں تھیں ۔قدم قدم پر محاصرہ تھا۔آگ کے حلقہ کی طرح آپ کوگھیرا گیا تھا۔آپ نے ہجرت کے آغازمیں غار ثور میں پناہ لی۔پھر مدینہ منورہ کی طرف عازم سفر ہوئے۔

وہاں دعوت کا مرکز بنایا تاکہ اسے ساری دنیا میں پھیلایا جاسکے اور انسانیت تک اس عظیم پیغام کو پہنچایا جائے۔آپ ہر لحظہ موت کے منہ میں ہوتے،گویا موت ہر طرف سے آپ کو گھیرے ہوئے تھی لیکن ہر قسم کی رکاوٹوں کے باوجود آپ کے اندر کمال سکون اور اطمینان تھااور کبھی پریشانی اور اضطراب نہ ہوا۔یعنی جب آپ غار ثور میں تھے اور غار کے دہانے میں سے دشمنوں کے پاﺅں نظر آرہے تھے اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ رسول اللہ کی زندگی کی خاطر سخت پر یشان تھے تو بھی آپ کمال اطمینان سے بیٹھے تھے۔گویا کہ اپنے جانثار صحابہ کے درمیان بیٹھے ہیں ۔ پھر پریشانی، ڈر اور اضطراب کیسا؟یعنی اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس دنیا سے اٹھا لیا تو اس سے توآپ کی عظیم ترین ذمہ داریوں میں ہی کمی ہو گی اور ابدی سکون و نعمتوں کی دنیا میں بھیج دے گا۔اس لیے آپ کو کوئی بے چینی نہ تھی۔

کیا وہ اس فانی دنیا سے نجات نہیں پائیں گے جس میں ہر چیز فنا ہونے والی ہے اور اس عالم بالا میں جائیں گے جو ہمیشہ رہنے والا ہے۔کیا اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ نہیں ہے؟کیا وہ اس کے تمام حالات سے واقف نہیں ۔اس لیے آپ نے غار میں ابو بکر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

”مَاظَنُّکَ بِاثنَینِ اللّٰہُ ثَالِثُھُمَا“

”ان دو کے بارے میں تمہارا کیا خیا ل ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے ۔ “

یعنی کیا تم گمان کرتے ہو کہ محمد اور ابوبکر اکیلے ہیں ؟ ہر گز نہیں ۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔وہ ابو بکر کو اس طرح تسلی دیتے تھے کہ اگر ساری دنیا بھی آپ کی دشمن بن جاتی تو آپ پریشان نہ ہوتے اور دنیا آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکتی۔اگر سارے دوست بھی آپ کو چھوڑ جاتے، حتیٰ کے ابوبکر بھی آپ سے علیحدہ ہوجاتے تو اللہ پر آپ کا اعتماد اور بھروسہ آپ کے دل کو مزید اطمینان سے بھر دیتا۔اللہ تو آپ(صلى الله عليه و سلم) کی مدد ایسے لشکروں سے کرتا ہے جنہیں ہم نہیں دیکھ سکتے۔

ہم ان لشکروں کی کیفیت تو نہیں سمجھتے لیکن یہ بات ضرور سمجھتے ہیں کہ رسول کریم(صلى الله عليه و سلم)کی لشکروں کے ذریعے کئی مرتبہ مدد کی گئی۔ایسا صحابی جس نے غزوہ بدر میں شرکت کی ہو باقی صحابہ سے نمایاں اور افضل شمار ہوتا ہے۔اور اعزاز کے طور پر کہا جاتا ہے بدری صحابی۔ اسی طرح فرشتوں میں سے جو فرشتے غزوہ بدر میں شریک ہوئے ان کو بدری فرشتے کہا جاتا ہے اور یہ ان کا اعزاز بھی ہے اور فرشتوں کی مدد کی دلیل بھی۔حضرت معاذ بن رفاع بن رافع زرقی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ( وہ بدری صحابی ہیں ) کہ ایک مرتبہ جبرائیل رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم) کی خدمت میں آئے اور کہا آپ اپنے لوگوں میں اہل بدر کو کیا اہمیت دیتے ہیں ؟رسول اللہ نے فرمایا :مسلمانوں میں سب سے افضل۔کہا اس طرح فرشتوں میں سے جس نے بدر میں شرکت کی اسے بھی بدری کہا جاتا ہے۔

ایک جلیل القدرصحابی اس طرح کے ایک انوکھے اورمنفردمعرکہ کا تذکرہ یوں کرتے ہیں : مسلمانوں میں سے ایک شخص ایک مشرک کے پیچھے بڑی تیزی سے حملہ کے لیے بڑھ رہا تھا کہ اس نے کوڑا برسنے کی ایک زوردار آواز سنی اور ایک گھوڑاسوار کو سنا جو کہہ رہا تھا حیزوم آگے بڑھو۔اسی اثناءمیں مسلمان نے دیکھا کہ مشرک سر کے بل نیچے پڑا ہے۔اس کی ناک پھٹ چکی ہے اور کوڑے کے بھرپور وارسے اس کا چہر ہ ایک طرف سے شدید زخمی ہے۔

جب اس مسلمان نے یہ قصہ رسول اکرم(صلى الله عليه و سلم) کو سنایا تو آپ نے فرمایا کہ” حیزوم“ جبرائیل کے گھوڑے کا نام ہے اور اسی نے کوڑا مارا تھا۔اس وقت جبرائیل نے زبیر بن عوام کی پگڑی کی طرح زرد رنگ کی پگڑی باندھ رکھی تھی اور دائیں بائیں وار کر رہے تھے۔

احد میں مصعب بن عمیر کو رسول اللہ نے نہ پایا اور اسی اثناءمیں مصعب آپ کے سامنے مسلسل تیغ بازی کے جوہر دکھارہے تھے۔جب سورج ڈھلنے لگا اور کفار بھاگ گئے رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم) نے فرمایااے مصعب آگے آﺅ۔یہ سن کر عبدالرحمٰن نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول کیا مصعب شہید نہیں ہو چکے؟ آپ(صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا ہاں شہید ہو چکے ہیں لیکن ان کی جگہ ایک فرشتے نے جنگ لڑی ہے اور اس کا نام بھی مصعب ہے۔

اس واقعے سے سمجھ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح مومنین کی مدد کرتا ہے۔یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو نہ تو کبھی چھوڑا اور نہ بھولا۔حنین جیسے خطرناک معرکہ میں انتہائی خطرناک حالات میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے آپ(صلى الله عليه و سلم) کی مدد کی۔

جو لوگ جہاد میں شرکت نہیں کرتے درحقیقت وہ موت کے خوف اور زندگی سے پیار کی وجہ سے اس طرح کرتے ہیں حالانکہ جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتا ہے اسے نہ تو بے یارومددگار چھوڑا جاتا ہے اور نہ ہی وہ جنگ میں اکیلا ہوتا ہے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رب العالمین نے انتہائی نامساعد حالات میں کبھی اکیلا نہیں چھوڑا۔

جس نے اللہ کے سامنے سر تسلیمِ خم کر لیا، نہ تو کبھی پریشان ہوا اور نہ ہی کبھی غمگین ہوا نہ خوفزدہ کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ اللہ میرے ساتھ ہے اور اس زبردست کی حفاظت اور نگہبانی میں میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔مجھے کوئی اس وقت تک خوفزدہ بھی نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ ذات میرے ساتھ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،تمام جہانوں کی بادشاہی اسی کی ہے وہ قادر مطلق ہے۔وہ میرا مددگار ہے۔اس ابتری اور خرابی میں پڑنا بالکل غلط ہے جس میں یہود جا پڑے کیونکہ جب ان کو جہاد کے لیے بلایا گیاتو انہوں نے نبی کی نافرمانی کی اور بلا وجہ پریشانی اور تشویش میں پڑ گئے اور اپنے رب پر ہی ان کا ایمان متزلزل ہو گیا۔جس خوف کی بنا پر انہوں نے جہاد سے پیچھے رہنے کا فیصلہ کیاوہ لایعنی تھا۔اس نے ان کو اس کے سوا کوئی فائدہ نہ دیا کہ جس بات سے ڈرتے تھے وہی ہوئی اور ان کی مرضی کے خلاف انہیں سزا کے طور پر چالیس سال تک صحراﺅں میں دھکے کھانے پڑے۔

اگر ہم بھی ان ٹھوکروں ،صحراءنوردی اور ذلت سے نکلنا چاہتے ہیں جن میں گزشتہ تین صدیوں سے پڑے ہیں تو ہمیں اپنے اصل دین کی طرف پلٹنا ہو گا۔اپنی ذات کو پہچانناہو گا۔اپنے آپ کو ایسے سانچے میں ڈھالنا ہو گا جو سیر ت محمدی علیہ الصلوٰت والتسلیمات کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ ہمیں کوشش کرنی ہو گی تاکہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندرسے خوف اور بے چینی کو ختم کرے اور اگر ہم مادی منفعتوں کے پیچھے نہ پڑیں ،انہی کو زندگی کا مقصد نہ بنائیں ،دنیوی لالچ کی خاطر اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے نہ گرائیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیامیں باعزت اور باوقار بنائے گا۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ زوال پذیر فانی لذتوں سے پیٹھ پھیریں اور انہیں کوئی اہمیت نہ دیں ۔

کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو دنیا کی نعمتوں اور عیاشیوں کی خاطر آخرت کو قربان کر دیتے ہیں ، لیکن مومن وہ ہے جو ساری دنیاوی نعمتوں کو آخرت کے لیے قربان کر دیتا ہے۔وہ اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت اور ہر طاقت کوآخرت کے لیے استعمال کرتا ہے۔

مومن وہ ہے جو دین کی سر بلندی کے لیے زندگی گزارتا ہے۔اس کی زندگی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس دنیا میں دین اسلام غالب آئے۔ ساری دنیا میں اسلام کا اقتدار قائم ہو،ورنہ روزگار اور مال کے لیے زندگی گزارنا تو فضول ہے۔

مومن ایسی طرز زندگی کو پسند نہیں کرتا جس پر دین کا غلبہ اور چھاپ نہ ہو۔بلکہ مومن کا نعرہ یہ ہے کہ ایسی زندگی کے لیے بربادی ہو۔مومن کے تحت الشعور میں ہمیشہ یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ معاشرہ کو دین پر کاربند کرنے کے لیے میری ہر چیز لگ جائے۔دنیا کو اسلام پر چلانے کی خاطر اگر میری آخر ت بھی لگ جائے تو مجھے کچھ پروا نہیں ۔مجھے نہ تو جنت میں جانے کی رغبت ہے اور نہ جہنم کا ڈر ہے بلکہ میری خوش بختی ہو گی کہ نہ صرف ترکی کے دو کروڑ عوام بلکہ ساری دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کی زندگی میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی خاطر میری زندگی لگ جائے۔یقینا اس میں مجھے زیادہ خوشی ہو گی۔اگر قرآن کریم پرعمل نہ ہو،قرآن کا علم زمین پر پڑا ہو اور میں اس کو سربلند نہ کر سکوں ، اس حال میں ملنے والی جنت بھی مجھے پسند نہیں ۔اسے بھی میں اپنے لیے جیل ہی سمجھوں گا۔

اگر ہماری امت کا ایمان سلامت ہو اور مجھے آگ میں جلنا پڑے تو میں اس جلنے پر راضی ہوں گا کیونکہ میرا جسم تو جل رہا ہو گا لیکن میرا دل اور روح دونوں پر سکون اورخوش ہوں گے۔ جس شخص کی مرغوبات نفس پر یہ کلمات غالب آجائیں ۔اس کے مقصد کے آگے کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی ۔