ساری زندگی قربانی کا جذبہ

ساری زندگی قربانی کا جذبہ

سوال: دلوں میں قربانی کے جذبے کو ہمیشہ برقرار رکھنے کے لئے کن کن بنیادی اصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟

جواب: سب سے پہلے حق کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے والے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان بہت سے افعال اور تصرفات سے بچیں جو اعتماد کے معیار کو ٹھیس پہنچا سکتے ہیں جبکہ میں یہ بات سمجھتا ہوں اور نہ ان لوگوں سے توقع رکھتا ہوں (جن کے دل میں سچے جذبات موجزن ہوئے تو انھوں نے دنیا کسی بدلے کی تمنا کے بغیر اپنے آپ کو ایک اعلیٰ دعوت اور ہدف کے لئے وقف کر دیا) کہ وہ جان بوجھ کر کوئی ایسا کام کریں گے جس سے ان کے ساتھیوں کی بدنامی ہو یا ان کی جماعت کو نقصان ہو لیکن ایسا ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ منصوبہ بندی اور غور وفکر کے بغیر کوئی قدم اٹھا لیں یا کوئی ایسا کام کریں جس کی وجہ سے ان کی بدنامی کا ذریعہ بن جائیں۔ ایسی صورت حال کا تقاضہ ہے کہ یہ لوگ جو ایک سوچ اور جذبے کے گرد اکٹھے ہوئے ہیں فورا مشورے اور اجتماعی حرکت سے ان غلطیوں کی تلافی کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو غلطی کرنے والا شرمندگی سے بچ جائے گا اور اس گروہ کے خلاف کوئی منفی سوچ پیدا نہ ہوگی جس سے ان کا تعلق ہے۔

یا اللہ میری وجہ سے میرے دوستوں کو رسوا نہ کر

حضرت مولانا خالد بغدادی مخلوق سے استغناء کے مسئلے میں انتہائی باریک بینی سے کام لیتے تھے جو اس بارے میں ہمارے لئے ایک مثال اور نمونہ ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے شاگردوں اور مریدین کو آغاز سے ہی اس زمانے میں پھیلے بعض منفی امور کی جانب متوجہ فرماتے اور ان سے دور رھنے کا کہتے تاکہ وہ امور ان پر اثر انداز ھو کر ان پر غالب نہ آ جائیں۔ آپ ان سے کہا کرتے تھے کہ ’’مالداروں، سرکاری عہدیداروں اور حکمرانوں سے میل جول نہ رکھو کیونکہ یہ لوگ تمہیں پیش کئے جانے والے تحفوں، تمہاری ان کی جانب توجہ بلکہ تمہارے چہرے کی مسکراہٹ کو بھی تمہیں رشوت دینے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اوراگر تم ان کے سامنے جھک گئے تو ساری عمر اپنے کئے کا کفارہ ادا کرتے رہو گے۔ اس لئے جو کچھ تمھارے پاس ہے اس پر قناعت کر لو اور کسی سے کچھ نہ مانگو۔ اگر تم ایک شادی کر چکے ہو تو دوسری کی خواہش نہ کرو اور اس بات کو نہ بھولو کہ یہ حکام اور ارباب حکومت تمہارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگا کر تم پر غلبہ پانا چاہتے ہیں‘‘۔ اسی بنیاد پر میں بھی یہ سمجھتا ہوں جس شخص نے خدمت کو ترجیح دی ہے وہ ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے بدگمانی پیدا ہوسکتی ہو اور تہمت اور شبہے کے مقام کے قریب بھی نہ جائے۔ مثال کے طور پر احتیاط کرے اور کسی قحبہ خانے کے باہر سے بھی نہ گزرے تاکہ کسی کو یہ کہنے کا بھی موقع نہ ملے کہ : یہ لوگ وہاں کیا کر رہے تھے؟ اس لئے ضروری ہے کہ نہایت احتیاط سے کام لیا جائے تاکہ فرد کے عیب کو جماعت کی جانب منسوب نہ کیا جائے۔

البتہ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ہم جتنی بھی احتیاط کر لیں، ضرور تنقید اور الزام تراشی کے تیروں کا شکار ہوں گے کیونکہ ایسے لوگ موجود ہیں جن کے دل میں تمہارے لئے بغض اور کینہ سوا کچھ بھی نہیں، وہ تم سے ہاتھ نہیں ملاتے، تمہیں گلے نہیں لگاتے بلکہ تمہاری مسکراہٹوں کا جواب ماتھے کی شکنوں سے دیتے ہیں حالانکہ تم اپنے ارد گرد کے لوگوں کے درمیان وحدت ویگانگت پیدا کرتے ہو، ہمیشہ محبت کے گیت گاتے ہو اور کسی سے دشمنی نہیں کرتے۔ ایسے میں تمہارے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے حال کو اپنے رب کے سامنے پیش کرو اور رو رو کر عاجزی کے ساتھ اس کی جانب رجوع کرو اور یہ نہ بھولو کہ یہ باتیں حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے موجود تھیں اور قیامت تک جاری رہیں گی۔

بہر حال حق والوں کو اپنی زندگی میں انفرادی، خاندانی اور معاشرتی ہر سطح پر ہر اس کام اور تصرف سے بچنا چاہئے جس سے اس تحریک کی بدنامی اور رسوائی ہو سکتی ہو جس سے وہ وابستہ ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اللہ کی جانب سے عطا کردہ قوت کے ختم ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع کریں اور اس کی حفظ وامان کی مدد چاہتے ہوئے یہ کہیں:’’یا اللہ ہماری وجہ سے ہمارے دوستوں اور ہمارے دوستوں کی وجہ سے ہمیں رسوا نہ فرما‘‘ کیونکہ انسان ہمیشہ اپنے نفس کے دام میں آ سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے گناہ اور کمزوریاں ان خواہشات سے پیدا ہوتی ہیں جو انسان کو ہلاکتوں می ڈال سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں شیطان ان خواہشات، گناہوں اور برائیوں کو ہمیشہ بنا سنوار کر ہیش کرتا ہے۔ اس لئے جو شخص اس طرف توجہ نہیں دے گا وہ بلا سوچے سمجھے ان کے پیچھے چل پڑے گا اور (نعوذ باللہ) دوسروں کے لئے باعث عار ہوگا۔

اس وجہ سے اس انسان پر لازم ہے (جو اس تحریک سے وابستی ہے جس سے امیدیں لگی ہیں) کہ وہ ہر اس چیز سے بچے جس سے اس کی عزت اور شرافت پر حرف آتا ہو اور شیطان اور نفس کے بہلاوے کے سامنے ڈت جائے اور کبھی بھی اپنی سچائی اور اخلاص سے دستبردار نہ ہو اور ان لوگوں کے حقوق غصب کرنے سے بچے جو اس کے ساتھ اسی کے رستے پر چل رہے ہیں اور جب بھی آسمان کی جانب دست دعا بلند کرے تو اطمینان اور سکون سے یوں کہے: ’ یا اللہ میری ہزار روحیں ہوں تو بھی مجھے زمین میں دھنسا دے مگر میری وجہ سے میرے احباب کو شرمندہ نہ فرما‘۔ یہ اس دعوت کے ساتھ اخلاص اور وفاداری کا اظہار ہے۔ اس لئے خدمت لے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے والی روحوں پر لازم ہے کہ وہ اس طرح پوری کوشش کر لیں کہ گویا وہ اپنے دوستوں کو بدنامی سے بچانے اور کسی بھی معمولی سی غلطی کو رستہ نہ دینے کے لئے امن، سچائی اور عصمت کی نمائندہ ہیں۔ جی ہاں ان کو ہمیشہ استغنا سے کام لیتے ہوئے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا چاہئے، اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر قناعت کرنی چاہئے اور ہر اس عمل سے دور رہنا چاہئے جس سے عزت پر حرف آتا ہو۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ جو انسان حق اور حقیقت کی آواز بننے کی کوشش کرتا ہے، اس کے سچے افعال اور تصرفات اس کے اقوال سے زیادہ قائل کرنے والے ہوتے ہیں کیونکہ ایسی مبالغہ آرائی جو حقیقت سے دور ہو اور مقصد سے زیادہ ہو، وہ مخاطب پر کچھ دیر کے لئے تو چھا جاتی ہے لیکن بعد میں اس کی دل پر کوئی مثبت اثر چھوڑنے کی بجائے قائل کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن کاموں میں دوام نہیں ہوتا ان میں جھوٹ شامل ہو جاتا ہے کیونکہ یہ صفت ہمیشہ اپنے رستے پر چلتی ہے اور قائل کرنے والا آدمی وہی ہوتا ہے جو ہمیشہ صدق ووفا کا پیکر ہوتا ہے اور کبھی بھی اپنی عزت اور شرافت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور اپنے ارد گرد کے لوگوں میں امن اور اعتماد کی روح پھونکتا ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمثیل (کوئی کام کر کے دکھانا) تبلیغ پر مقدم ہے۔

قال سے پہلے حال ضروری ہے

تبلیغ آنحضرتﷺکی نبوی صفات میں سے ایک اہم صفت ہے اور تبلیغ کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے احکام کو اپنی امت تک پہنچانا لیکن یہ قرآن معجز بیان جس کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے، اگر نبی اکرم ﷺجیسی کوئی شخصیت اس کا نمونہ پیش نہ کرتی اور اس کو منطبق نہ کرتی تو کوئی ایسا بیان نہ ہوتا جو آج ہمارے کانوں میں گونجتا اور نہ دلوں میں اس کی ایسی گونج ہوتی۔ پس وہ قرآن کریم جس کو ہم اپنے گھروں اور خوابگاہوں میں لٹکاتے ہیں اور ریشم کے جزدانوں میں اسے محفوظ رکھتے ہیں، اس کی تاثیر ماضی میں ان لوگوں کے ہاتھ پر ظاہر ہوئی ہے جو اس کی حقیقی نمائندگی کرتے تھے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی اکرمﷺکے حال سے تمثیل کی گہرائی قال کی تبلیغ کی گہرائی پر مقدم ہے۔ آپ ﷺ کو آسمانوں پر صرف اس وجہ سے نہیں بلایا گیا کہ آپ نے قرآن کی تبلیغ کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بہترین انداز میں اس کا نمونہ بھی پیش فرمایا۔

تواضع اور دوسروں میں رشک کی رگ کو نہ چھیڑنا

نبی اکرمﷺارشاد فرماتے ہیں:”سيد القوم خادمهم“[1]( قوم کا سردار ان کا خادم ہے) اور اس سوچ کا سب سے بڑا نمونہ اسلام کے بطل جلیل سلطان صلاح الدین ایوبی تھے۔ وہ پہلے حاکم ہیں جنہوں نے ’خادم الحرمین‘ کا لقب اختیار کیا۔ جب سلطان ’یاووز سلیم‘ (اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے) نے امام کو خطبے میں ’حاکم الحرمین‘ کہتے سنا تو بہت تنگ ہوئے کیونکہ ان کے اندر بھی وہی روح تھی اور گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے اور فورا کہا: ھرگز نہیں بلکہ میں خادم الحرمین ہوں۔ چنانچہ ان کے بعد آنے والے سلاطین نے بھی یہی لقب اختیار کیا۔ اس لئے خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے والوں پر لازم ہے کہ ان کا سماجی مرتبہ کتنا ہی بلند ہو جائے، وہ دوسروں کی خدمت کو سب سے اعلیٰ مرتبہ سمجھیں اور ضرورت ہو تو دل میں کہیں:’انسان کو چاہئے کی وہ ان لوگوں کے درمیان اپنے آپ کو خادم اور ساقی سمجھے جن کو خدمت سے عشق ہے اور ایک سوچ اور ایک مقصد کے گرد جمع ہیں‘ اور دوسروں کی خدمت کی کوشش کریں۔

دوسری طرف بعض لوگوں کی خاص میدانوں کامیابیاں دوسروں میں رشک کے جذبات پیدا کر سکتی ہیں بلکہ کبھی رشک کا احساس کمزور نفس کے مالک لوگوں میں حسد اور غیرت میں بھی بدل سکتا ہے اور اس مقام پر ان خدائی اصولوں کا خیال رکھنا چاہئے جو اسلام نے نفس کی تربیت کے لئے بنائے ہیں۔ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی (رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ) نے ان اصولوں کی روشنی میں ایک دستور مرتب کیا ہے جس میں انہوں نے قرآن کریم کے حقیقی شاگردوں کی جانب سے اپنے بھائیوں میں رشک کے جذبات پیدا نہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے(2) حالانکہ اسلام میں رشک کے احساس میں کوئی خرابی نہیں لیکن اگر ہم اس بات کو یوں دیکھیں کہ رشک حسد کی حدود سے بالکل جڑا ہوا ہے تو وضاحت ہو جائے گی کہ جس انسان میں رشک کا جذبہ ہوگا ہو سکتا ہے وہ حسد کی حدود میں داخل ہو جائے۔ اس لئے حضرت نورسی نے رشک کے جذبات کو نہ بھڑکانے کو قرآن کے شاگردوں کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ اس مشکل سے نکلنے کا رستہ یہ ہے کہ ہر اس شخص کا احترام کیا جائے جو خدمت اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ بعض لوگوں پر اپنے کاموں کی ستائش، واہ واہ، پسندیدگی اور مقام ومنصب کی محبت جیسی کمزوریاں غالب آ سکتی ہیں۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ ہر شخص کے لئے اس کا مناسب میدان مخصوص کیا جائے اور اس کے کام کے دائرے کو وسعت دی جائے کیونکہ کام کے میدانوں کے تنوع سے لوگوں کو خدمت کے وسیع تر مواقع حاصل ہوں گے اور وہ اپنے کام پر راضی ہو جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے ایمان اور اخلاق حسنہ اور اللہ تعالیٰ سے ان کے تعلق کو مضبوط کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ ان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ کی دین ہے۔

چوٹی پر ثابت قدم رہنے کے خطرات

سیدھے رستے پر قائم رہنا ان کاموں میں سے ہے جن کا خیال رکھنا ضروری ہے کیونکہ ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں راہ راست کی جانب لے جائے لیکن اس صراط مستقیم پر چلنا ہی کافی نہیں بلکہ نہایت احتیاط سے اس رستے کے آخر تک سفر جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس بارے میں ایک خوبصورت قول ہے جس کو بعض حضرات نے حدیث بھی کہا ہے:”الناسُ كلُّهم موتىٰ إلا العالمون، والعالمون كلهم هلكى إلا العاملون، والعاملون كلهم غرقى إلا المُخلِصون، والمخلصون على خَطَر عظيم“[3] یعنی سارے لوگ مردہ ہیں سوائے علم والوں کے، سارے علم والے ہلاک ہیں سوائے عمل کرنے والوں کے، سارے عمل کرنے والے غرق ہیں سوائے اخلاص والوں کے اور اخلاص والے بھی زبردست خطرے میں ہیں۔

اگر ہم اس عظیم خطرے کو کوئی عنوان دینا چاہیں تو ’چوٹی پر ثابت قدم رہنے کا خطرہ‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس لئے ہمیں اللہ نے جس بھی چوٹی پر پہنچایا ہو، اس بات کے خوف سے ہمارے رونگھٹے کھڑے ہو جانے چاہیئں کہ ہم سر کے بل گر نہ جائیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے سابقہ ادیان سماویہ کے پیروکاروں کو بھی صراط مستقیم کی ہدایت دی تھی لیکن ان سے کچھ کجی ہوئی جس کی وہ تلافی نہ کر سکے کیونکہ انھوں نے دائرے کے مرکز میں واقع واضح اصولوں کا خیال نہیں رکھا جس کی وجہ سے ان پر ’ضالین‘ اور ایک دوسرے گروہ پر ’مغضوب علیہم ‘ کا ٹھپہ لگا دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ: اگر صراط مستقیم پر چلنا مشکل ہے تو اس پر سفر جاری رکھنا مشکل تر ہے۔

جی ہاں چوٹی تک پہنچنا مشکل ہے لیکن وہاں پر برقرار رہنا اس سے زیادہ مشکل ہے۔ اس پس منظر میں حضرت نورسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’جو شخص اخلاص کے برج سے گرے گا وہ کسی گہری کھائی میں ہی گر سکتا ہے کیونکہ رستے میں اور کوئی جگہ نہیں‘۔[4]

صلاحیتوں کے مطابق کام لینا

یہاں ایک اور اہم بات ہے جس کی جانب قربانی دینے والی روحوں کا متوجہ ہونا ضروری ہے تاکہ ان کے لئے اپنی خدمات زیادہ وسیع اور کشادہ سطح پر پیش کرنا ممکن ہو سکے۔ وہ یہ کہ چیزوں اور اشیاء پر غور اور فطرت کے خلاف جنگ سے بچنا کیونکہ حق سبحانہ و تعالی نے لوگوں کے مزاج مختلف بنائے ہیں اور ان کو الگ الگ صلاحیتیں اور مہارتیں بخشی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اپنے ماحول پر کوئی براہ راست اثر نہ ڈال سکیں کیونکہ سماجی زندگی سے ان کا تعلق کمزور ہوتا ہے۔ مثلا کچھ لوگ اپنے قلم سے حق اور حقیقت کا اظہار کر سکتے ہیں، بہت سے لوگوں پر اثر ڈال سکتے ہیں اور اپنی تحریروں کے ذریعے ان میں ایک نئی روح پھونک سکتے ہیں لیکن اگر ان کو کسی جگہ بات کرنے کے لئے کھڑا کر دیا جائے تو پہلے ہی لیکچر کے دوران وہ مرتبہ کھو دیں گے جو ان کو تحریر کی وجہ سے ملا تھا کیونکہ اللہ نے ان کو بولنے کی مہارت لکھنے جتنی نہیں دی لیکن یہ لوگ جب تحریر، کتابوں اور ان جیسے دوسرے وسائل کے ذریعے ان اقدار کا تذکرہ کرتے ہین جن پر وہ یقین رکھتے ہیں تو ان کو بڑی کامیابی ملتی ہے۔ اس لئے انتظامی اور ادارتی امور چلانے والے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کو اس امر کا پورا ادراک ہو اور لوگوں کے ذمے وہی کام لگائیں جو ان کی صلاحیتوں اور قابلیت سے مناسبت رکھتے ہوں۔

یہ بات آپ کے علم میں ہوگی کہ نبی اکرمﷺنے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ان کی خواہش کے مطابق دعوت وتبلیغ کی غرض سے یمن بھیجا (جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے)۔ اس کے بعد دو دن، تین دن، دو ہفتے، تین ہفتے گزر گئے مگر کوئی آنے جانے والا نہیں۔ در حقیقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایسے شخص نہیں تھے کہ تقریر نہ کر سکتے تھے لیکن حق تعالی نے ان کو تبلیغ کے میدان میں مرجوح اور قیادت کے میدان میں راجح بنایا تھا یعنی اللہ نے ان کو ایک اور رخ سے فضیلت بخشی تھی۔ اس لئے اگر حضرت خالد بھی دوسرے بعض صحابہ کی طرح خطیب ہوتے جن کی خطابت کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، تو بیزنطینیوں اور ساسانیوں کی سلطنتوں کو کون نیست ونابود کرتا۔ اس وجہ سے حضرت خالد واپس مدینہ تشریف لائے اور آنحضرتﷺنے ان کی جگہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو یمن بھیجا جبکہ آپ وہ عظیم صحابی ہیں جنہوں نے اپنے کلام سے روحوں پر اثر ڈالا، اپنی آواز زمانوں سے بھی آگے پہنچائی۔ اللہ نے آپ کو ایک خصوصیت عطا فرمائی تھی۔ آپ خطیب، واعظ اور ناصح تھے اور جیسے ہی آپ یمن پہنچے اور وہاں چند دن گزارے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے کیونکہ اس عظیم نسل کے لوگ جانتے تھے کہ کب، کہاں اور کیا کہنا ہے؟ تاکہ دلوں تک پہنچا جا سکے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ادارتی کام کرنے والے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ارد گرد موجود ہر آدمی کی صلاحیتوں کو جانیں اور ہر ایک کو اس کے درست مقام پر استعمال کریں تاکہ نتیجہ خیز انداز میں استفادہ کیا جا سکے۔ پس جس طرح چیونٹی پر ہاتھی کا بوجھ ڈالا جائے تو وہ اسے پیس کر رکھ دے گا، اسی طرح ہاتھی پر چیونٹی کا بوجھ ڈالنا (حالانکہ وہ جنگل کو اکھاڑ کر لے جا سکتا ہے) اس کی ناقدری اور بے عزتی ہے۔

اگرچہ کاموں کی تقسیم کے وقت لوگوں کے مزاج کی ماہیت اور ان کی صلاحیتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے لیکن یہ بات بھی ہمارے ذہن میں رہنی چاہئے کہ حقیقی اثر اللہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں کہ ان میں بات کرنے کی مہارت نہیں ہے اور ان کے لئے اپنے مقصد کو بیان کرنے کے لئے مسلسل تین جملے بھی کہنا مشکل ہوتا ہے لیکن آپ دیکھیں گے کہ وہ لوگوں کے سامنے بات کریں گے تو سننے والوں میں نرمی اور رقت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہم اس اثر کو اس بولنے والے کی ہیئت یا اس کے اخلاق یا اس کی صلاحیتوں یا اس کی سوچ کی وسعت یا اس کی باتوں میں مہارت کی جانب منسوب نہیں کر سکتے۔ مطلب یہ ہے کہ دل اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں، وہی جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم پر چلاتا ہے۔ اس لئے دل والوں کو چاہئے کہ وہ اللہ کے رستے میں کئے جانے والے کسی بھی عمل کو ہلکا نہ سمجھیں، ان پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ان تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے انجام دیں جو دلوں تک پہنچا سکتے ہیں مثلا دوسروں کو چائے پر بلانا، کھانے کی دعوت دینا اور کبھی کبھی ان سے ملاقات کرنا۔۔۔۔۔۔

قربانی والے دلوں کے ہاں حقیقت اور مثالیت میں توازن

دوسری جانب حقیقت اور مثالی باتوں کو آپس میں نہیں ملانا چاہئے اگرچہ ہمت کو بلند کرنا اور اعلی اہداف تک پہنچنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح اعلی ہدف کے رستے پر چلنے والوں پر لازم ہے کہ وہ مثالی اہداف کو تلاش کریں تاکہ وہ ایک لمحے میں دنیا کا چہرہ بدل سکیں کیونکہ جب عزم بلند ہوگا اور وسائل ناقص ہوں گے تو اللہ تعالی اپنے فضل اور ان اچھی نیتوں کی وجہ سے اس کمی کو پورا کر دے گا اور ہر شخص کو اس ہدف کی مناسبت سے بدلہ دے گا جو اس کے خیالوں میں تھا یعنی انسان کو اس کے ان اچھے ارادوں کا بھی بدلہ ملے گا جو وہ پورے نہیں کر سکا۔

انسان کو چاہئے کہ وہ بلندیوں کی تلاش میں رہے اور اپنے اعلیٰ اہداف کے دائرے کو وسیع کرے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے افکار کو عملی جامہ پہنانے کے لئے زمان ومکان اور امکان جیسے عناصر کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ موجودہ حالات اور ان اچھے افکار کو عملی جامہ پہنانے کے امکان کی بھی رعایت رکھی جائے تاکہ اس کے اعمال غلطی اور نقصان کا شکار نہ ہوں۔

بعض اوقات کچھ لوگ دنیا کا رنگ بدلنے کے لئے کسی رستے پر چلتے ہیں اور ایک خیالی دنیا بسا لیتے ہیں جیسے فارابی کے ہاں ’اچھے شہر‘ اور کامبانیلا کے ہاں ’سورج کا شہر‘ کا تصور ہے اور اس خیالی دنیا میں وہ سمجھتا ہے کہ جب بھی لوگ ملتے ہیں وہ ایک دوسرے کے گلے لگ جاتے ہیں، جب شیر اور بھیڑئے بھیڑ بکریوں کے پاس جاتے ہیں تو ان سے اجازت طلب کرتے ہیں، بازار اس قدر خوبصورت ہو گیا ہے کہ اس میں خریدار فرشتہ صفت ہو گئے ہیں کیونکہ اس دنیا میں کوئی بھی شخص راہ راست سے انگلی برابر بھی آگے پیچھے نہیں ہوتا۔ یہاں تک بچے پندرہ سال کی عمر کو پہنچ کر بالغ اور پختہ ہو جاتے ہیں تو بغیر کسی تربیت کے فرشتوں کی مانند ہو جاتے ہیں۔

جی ہاں ان باتوں کا تصور کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا وقوع پذیر ہونا بالکل الگ بات ہے۔ یہاں آپ انسان کی طبیعت اور لوگوں کے آپس کے تعلقات کا خیال رکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ اس قسم کی زندگی انبیائے کرام کے ماحول میں بھی میسر نہیں ہو سکی، بازار اس قدر درست کبھی نہیں ہو سکے، بھیڑیوں اور بھیڑوں کے درمیان ایسا بھائی چارہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا اور شیروں کو کبھی بھی گوشت چھوڑ کر گھاس کھاتے نہیں دیکھا گیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ جب حقیقت اس جانب اشارہ کر رہی ہے تو پھر ہمیں بھی ان مثالی چیزوں کو عملی جامہ پہنانے کے مسئلے پر غور کرنا ہوگا جن تک ہم پہنچنا چاہتے ہیں کیونکہ اگر ہم اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے یہ امید رکھیں کہ وہ دنیا کا چہرہ بدل دیں گے اور اس کو ایک نیا چہرہ دیں گے تو پھر ہمیں مایوسی ہی ملے گی اور ان لوگوں کی تمنائیں چکنا چور ہو جائیں گی جنھوں نے ہم سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ہم احکام کی بنیاد خیال پر رکھ کر ایسے امور سے وابستہ ہو گئے جن کو پورا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس لئے ہر فرد کی صلاحیتوں کا الگ الگ خیال رکھنا اور ان کے مطابق کام تقسیم کرنا ضروری ہے تاکہ اس قسم کے انجام سے بچا جا سکے اور اگر ہم اپنے خوبصورت افکار کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں زمان ومکان اور امکان اور انسان جیسے عناصر کی رعایت رکھنی ہوگی۔

[1] البيهقي: شعب الإيمان، 10/582؛ الديلمي: المسند، 2/324.
[2] بديع الزمان سعيد النورسي: لمعات، اکیسواں لمعة، تمہارا دوسرا دستور ، ص 221.
[3] العجلوني: كشف الخفاء، 2/312.
[4] بديع الزمان سعيد النورسي: لمعات، اکیسواں لمعة، تمہارا چوتھا دستور، ص 224.