حقیقیاورظاہری اسلام

حقیقیاورظاہری اسلام

سوال: کیاآپ اس بات کی وضاحت فرمائیں گے کہ’’اسلام فقط شکل و صورت کا نام نہیں؟‘‘

جواب: اسلام (جیسے کہ سوال میں ذکر کیا گیا) صرف شکل و صورت ، منظر ، شور شرابہ اور خواہ مخواہ کی باتوں کا نام ہے اور نہ کچھ ظاہری امور کو انجام دینے کا بلکہ اس کے برعکس یہ دل کی بات ہے یعنی ظاہر کے ساتھ ساتھ زیادہ اہم اور بنیادی بات جو ہر اور معنی ہے۔نبی اکرمﷺ نے اس حقیقت کی جانب توجہ ان الفاظ سے مبذول فرمائی ہے:( إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلٰكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ) (بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری شکلوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا لیکن وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔)(1) بلبل اناطولیہ شاعر ترکی ’’یونس امرہ ‘‘ اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں:

تصوف خرقہ اور تاج پہننے کا نام نہیں

کیونکہ جو شخص دل کو درویش بنا لیتا ہے اسے جسم پرچیتھڑوں کی ضرورت نہیں رہتی

ان دو مصرعوں میں وہ یہ بتا رہے ہیں کہ جس چیز کو جاننا اور اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ شکل اور ظاہر نہیں بلکہ دل ہے۔

ہماری اندرونی صورت حال منکشف ہو جائے تو کیا ہوگا؟

اس رخ سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آگے بڑھتے ہیں اور اسلام کو شور شرابے اور تکبر کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ترازو میں وہ مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہوتے ۔ جی ہاں، اگرچہ یہ لوگ دنیا میں اسلام کے ہراول دستے میں نظر آئیں تو بھی آخرت میں کسمپرسی اور افسوسناک حالت میں ہوں گے۔ اس کے بالمقابل دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی دنیا میں وہ قدر نہیں جس کے وہ مستحق ہیں اور اس سفر میں وہ پچھلی صفوں میں نظر آتے ہیں لیکن آخرت میں معلوم ہو گا کہ وہ تو آگے بڑھنے والوں سے بھی آگے نکل گئے اور اپنی روحانی زندگی میں انہوں نے اولیاء واصفیاء اور ابرار مقربین کا مقابلہ کیا۔اس وجہ سے صرف ظاہری شکل و صورتاور اقوال کو ہی دیکھ کر دوسروں کے بارے میں حکم لگانے سے ہم ہمیشہ درست نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس حقیقت کی جانب نبی کریم ﷺ نے یوں ارشاد فرمایا ہے :(رُبَّ أَشْعَثَ مَدْفُوعٍ بِالْأَبْوَابِ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ)’’ہو سکتا ہے کہ کوئی پراگندہ بال دروازوں سے ہٹایا جانے والا شخص ایسا ہو کہ اگر وہ اللہ کے بارے میں قسم کھا لے تو وہ اس کی قسم پوری کردے۔‘‘(2)

اس مقام پر کلام کو اپنے محمل پر ہی محمول کیا جانا ضروری ہے کیونکہ ایسا نہ ہو کہ آ پ یہ سمجھنے لگ جائیں کہ اس طرح کے مقامات اور اعلیٰ مراتب حاصل کرنے کے لیے انسان کا فقیر اورحقیر ہونا ضروری ہے کیونکہ جو لوگ دنیا میں خاص مقامات حاصل کرتے ہیں وہ اللہ کے حکم سے اللہ کے ہاں بھی اعلیٰ مراتب تک پہنچ سکتے ہیں بشرطیکہ ان کے دل سالم ہوں اور انہوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہوں۔ اس بارے میں حضرات خلفائے راشدین نے دوسروں سے زیادہ خوبصورت نمونہ پیش کیا ہے۔

حقیقی رہنماؤں کی دل پر اثر کرنے والی زندگی

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی مثال لے لیجئے کہ جب آپ خلیفہ مقرر ہوئے تو بیت المال سے اتنا وظیفہ مقرر کیا گیا جس سے ان کے اور ان کے اہل و عیال کا گزر بسر ہو سکے اور حج اور عمرہ کر لیں لیکن جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو وصیت فرمائی کہ ان کی تنخواہ کا وہ حصہ جو ان کی ضرورت سے زائد ہے ان کے بعد آنے والے خلیفہ کے حوالے کیا جائے۔ آپ نے بستر مرگ پر ارشاد فرمایا:’’امارت سنبھالنے کے وقت سے میرے مال میں ہونے والے اضافے کو دیکھو اور اسے میرے بعد آنے والے خلیفہ کے حوالے کردو۔‘‘ چنانچہ جب یہ مال حضرت عمر کے پاس لایا گیا تو وہ رو پڑے اور کہنے لگے:’’اللہ ابو بکر پر رحم فرمائے۔ اس نے اپنے بعد آنے والے کو سخت مشقت میں ڈال دیا۔‘‘ (3) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے قبل صاحب ثروت تھے لیکن اسلام لانے کے بعد ساری دولت اللہ کی راہ میں لٹا دی اور اس میں سے ایک ذرے کو بھی اپنے لیے استعمال میں لانے کا نہ سوچا۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے پناہ نعمتیں اور وسائل نصیب فرمائے تھے مگر جب دار آخرت کی جانب کوچ فرمایا تو دونوں ہاتھ خالی تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مختلف نہ تھی۔ چنانچہ جب حکومت سنبھالی تو اتنی تنخواہ مقرر کرنے کا حکم فرمایا جس سے قوم کا ایک متوسط آدمی زندگی گزار سکتا ہو۔ اسی طرح ’’عام الرمادۃ‘‘ (قحط کے سال) غریب ترین آدمی کے کھانے سے زیادہ کھانے کو اپنے اوپر حرام قرار دیا جبکہ یہ کھانا تیل اور روٹی ہوتا تھا۔ چنانچہ شدت بھوک کی وجہ سے آپ کے پیٹ سے آواز آتی تھی۔ آپ نے اپنے پیٹ کو انگلی سے دبایا اور فرمایا:’’آواز دو یا نہ دوہمارے پاس اس کے سوا کچھ نہیں جب تک لوگ زندہ نہ ہو جائیں۔‘‘(4)اس زمانے کی دو عظیم سلطنتوں کو ہزیمت سے دو چار کرنے والے وہ عظیم خلیفہ دنیا سے رخصت ہوا تو پیچھے کچھ بھی نہ چھوڑا۔ اس سے معلوم ہواکہ دنیوی اور اخروی توفیق کی بنیاد اور اساس ایسے طریقے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے اپنے مخصوص فضائل ہیں۔ آپ امیر ترین مسلمان تھے ۔ آپ ﷺ کے کہنے پر چھ سو اونٹ سازو سامان کے ساتھ بلا تردد اللہ کی راہ میں خیرات کر دیئے ۔ اس طرح اپنی اعلیٰ سخاوت کے ذریعے ایسے مرتبے پر فائز ہو گئے جس کے ذریعے دونوں سابق خلفا کے فضائل کو حاصل کرسکتے تھے۔

اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ساری زندگی جو بھی مال ملتا رہا اسے راہ خدا میں لٹاتے رہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے:’’اے میری دنیا، میرے علاوہ کسی اور کو دھوکہ دے۔‘‘(5)چنانچہ وسائل کی کثرت کے باوجود فقر کی حالت میں دار آخرت کی جانب کوچ فرمایا۔

ان عظیم شخصیات نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ملنے والے تصرف کے وسیع حقوق اور منصب کی وجہ سے ملنے والے وسائل کو کبھی بھی ذاتی مصلحت کے لیے استعمال نہیں کیا۔ اسی طرح انہوں نے اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے تگ و دو بھی نہیں کی۔ انہوں نے اپنے وسائل اور اختیارات کو اپنے بیٹوں اور بیٹیوں اور حاشیہ برداروں اور حمایتیوں کو کچھ دینے کے لیے استعمال نہیں کیا۔

نام نہاد قائدین اور رو بہلاکت معاشرہ

سوال یہ ہے کہ کیا وہ لوگ کفر میں داخل ہو جائیں گے جوقوم کی طرف سے ان کے پاس امانت رکھے گئے وسائل کو اپنی ذات یا بیوی بچوں کے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں؟ قطعاً نہیں۔ یہ رویہ اگرچہ برا ہے مگر ان کو ایمان کے دائرے سے نکالتا ہے اور نہ کفر کے دائرے میں داخل کرتا ہے۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ کفر کی صفات میں سے ایک صفت سے متصف ہو جائیں گے یہاں تک کہ اگر یہ لوگ پنجگانہ نمازیں پڑھتے رہیں، روزے رکھتے رہیں، حج کرتے رہیں تو بھی ان کے جسموں میں کافروں کی صفات جراثیم کی طرح اس وقت تک موجود رہیں گی جب تک وہ اس بارے میں اپنی کمزوریوں کو دور نہ کرلیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی وجہ سے ان کے تصرفات اور برتاؤ میں کچھ غلطیاں بھی پیدا ہو جائیں۔ جی ہاں، وہ اپنے جسموں میں خطرناک جراثیم کی موجودگی کی وجہ سے غلط سوچیں گے، غلط فیصلے کریں گے اور غلط تصرفات کے مرتکب ہوں گے اور اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اپنی رعیت کو ہلاکت کی جانب لے جائیں گے۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے بارے میں فیصلے ان کے اخلاق کے مطابق کرتا ہے۔ اس لیے سچ، دوسروں کی عزت و ناموس کی حفاظت ، عفت اور عصمت کی زندگی گزارنا، دوسروں کے مال یا ملکیت کی لالچ نہ کرنا، بھلائی میں تعاون کی کوشش کرنا، سستی کے خلاف انقلاب لانا، وقت کی پابندی، وسائل سے مکمل طورپر مثبت انداز میں فائدہ اٹھانا اور حقیقت اور تلاش کے عشق میں کائنات پر غور و فکر کرنے جیسے تکوینی اور تشریعی امور سے متعلق اخلاق یکجا ہو کر حقیقی مومن کی صفت بنتے ہیں۔ پھر جس شخص میں یہ صفات آجاتی ہیں اللہ تعالیٰ اس کو توفیق دیتا ہے اور جو ان سے غافل ہو جاتا ہے اس کو دنیا و آخرت میں سزا دیتا ہے۔

جی ہاں ، اگرچہ کوئی انسان کہے کہ:’’میں دیندار ہوں‘‘ اور کسی کو بھی اپنے سے زیادہ اسلام نافذ کرنے اور اس کا دفاع کرنے والا نہ سمجھے، اگر وہ سستی سے چائے خانوں میں بیٹھا رہے اور اس پر بھی اکتفا نہ کرے بلکہ دوسروں کی غیبت کرے، چغلیاں کھائے، جھوٹ بولے ، بہتان تراشی کرے اور حقائق کی بجائے گمان پر چلے اور اپنے علاوہ مسلمانوں کے بارے میں غلط سوچے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی زندگی میں کافر وں کی صفات موجود ہیں اور جس آدمی میں یہ صفات ہوں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوئی قیمت نہیں اگرچہ (بفرض محال) اپنی حرکت سے آسمان سے ستارے اتار لائے اور دنیا کو آتش بازی کے کھیل کی طرح حیران کردے اور اس میں نور کی میزین پھیلا دے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا شخص لوگوں کو ایک مدت تک دھوکہ دے کر گمراہ کرے لیکن ایسا انسان صبح کاذب کی طرح ہوتا ہے جس کی روشنی بہت جلد ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق قوی اور درست نہیں ہوتا، وہ ایمان کے رستے پر نہیں چلا، وہ انبیاء کے نقش قدم پر نہیں۔ عنقریب ایسا شخص اپنے پیروکار وں کی ہلاکت کا سبب بنے گا کیونکہ ایسے بہت سے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو گمراہ کیا اور ایک مدت تک اپنے پیچھے چلایا لیکن وہ بہت تھوڑے وقت میں مٹ کر نیست و نابود ہو گئے اور اپنے پیچھے کوئی نشانی نہ چھوڑ سکے۔

نہ ختم ہونے والا لالچ

اس لیے مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ظاہر سے دھوکہ نہ کھائے اور یہ بات نہ بھولے کہ اصل روح، معنی اور جوہر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اخلاص اور سچائی پر قائم رہے اوراپنی تمام حرکات و سکنات کو اللہ تعالیٰ کی رضا سے جوڑ دے اور اپنے ہر قدم میں اللہ تعالیٰ کے ارادے کی پیروی کرے کیونکہ جو شخص اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق ترتیب نہیں دیتا وہ نفس اور شیطان اور ان کے احکامات کے لیے لقمہ تر ثابت ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو اگر موقع ملے گا تووہ اپنے خزانے اور بینک اکاؤنٹ بھرے گا یہاں تک کہ جب اس کے لیے اس کے ملک کے بینک کافی نہیں ہوں گے تو وہ مال باہر بھیجنا شروع کرے گااور قوم کو ایسے طریقوں اور حیلوں سے لوٹے گا جو کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہوں گے اور قوم سے چھینے ہوئے مال سے اپنی خاص سلطنت بنانا چاہے گا۔ اس لیے جو شخص اس طرح کے شیطانی افکار کے ساتھ کام کرے گا وہ کفر کے رستے پر چل پڑتا ہے اگرچہ وہ بظاہر مومن کیوں نہ ہو۔ کامیابیوں اور کامرانیوں کے ذرائع اور طریقے متعین ہیں اوران کی پابندی لازمی ہے اور کسی جائز ہدف تک ناجائز رستوں سے پہنچنا ناممکن ہے کیونکہ جس طرح ہدف کا معقول ، جائز اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہونا ضروری ہے اسی طر ح اس تک پہنچنے کا رستہ بھی جائز ہونا چاہیے۔ اس لیے میکاؤلی کا یہ نظریہ کہ ’’جائز ہدف تک رسائی کے لئے ناجائز طریقوں کا استعمال درست ہے کیونکہ مقصد ذریعے کی دلیل پیش کرتا ہے‘‘، یہ بات بلاشبہہ شیطانی اشارہ ہے اور انسان اگرچہ مسجد جانے والوں میں ہو تو بھی اس کا حال ان لوگوں سے مختلف نہیں جو شراب خانوں میں جاتے ہیں اوربت خانوں میں رہتے ہیں۔

ایک ظلم کو دوسرے بڑے ظلم سے چھپانا

جو لوگ قوم کا مال چرانے، ٹھیکوں سے کھلواڑ کرنے، رشوت لینے ، خود غرضی کی زندگی گزارنے ، یا بغیر حق کے اپنے عزیزں کو دوسروں پر ترجیح دینے جیسے برے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں، آپ ان کو دیکھیں گے کہ خواہ وہ انتظامیہ کے کسی بھی عہدے پر ہوں وہ یہ نہیں چاہتے کہ دوسروں کو ان کے ملعون اور غلط کاموں کا پتہ چلے۔ اس وجہ سے ان کو اس بات سے تکلیف ہوتی ہے کہ ایسے مخلص اور پاکیزہ لوگ جو ان کی طرح نہیں اوران کے ناجائز کاموں کو پسند نہیں کرتے، وہ حکومت کے کسی بھی ایسے عہدے اور منصب پر فائز ہوں جس کی وجہ سے ان کے کرتوتوں سے آگاہ ہو سکیں۔ ان کو خوف ہوتا ہے کہ ان کا راستہ کھوٹہ نہ ہو جائے ، ان کا پول نہ کھل جائے، لوگوں میں ان کی ساکھ خراب نہ ہو جائے ۔ ان سب باتوں کو روکنے کے لیے یہ لوگ ان پاکیزہ لوگوں پر دباؤ ڈالتے ہیں اور ایسے طریقوں اور حیلوں سے ان کی سرکوبی کرتے ہیں جو کسی کے خیال میں بھی نہیں آتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مجرم اپنے جرم کو چھپانے اور اپنے کرتوتوں سے مد د چاہتا ہے بلکہ یہ لوگ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے دوسروں پر الزام تراشی سے بھی باز نہیں آتے۔

علاوہ ازیں یہ لوگ ان لوگوں کو بدنام کرتے ہیں اور اپنا مستقبل ا ور اپنے عہدے اورمنصب کی حفاظت کے لیے طرح طرح کے خود ساختہ القاب اور ناموں سے ان کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان صاف ستھرے لوگوں کے لیے تمام دروازے بند کرنے اور ان کو ان کے مناصب سے معزول کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ تمام صفات اور افعال اہل کفر کے ہیں اگرچہ وہ کسی مسلمان کے اندر ہی کیوں نہ ہوں۔

حق پر ثابت قدمی اور مشکلات کے حل کے لیے اعلیٰ ظرفی

اس سب کے باوجود حقیقی مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ طاغوتوں کے جبروت کے آگے سر نہ جھکائیں اور ایک جانب اس رستے پر سفر جاری رکھیں جس کو وہ جانتے ہیں تو دوسری جانب بھلائی اور خیرکاایسا رستہ تلاش کریں جس کے ذریعے وہ ان لوگوں کو بھی بچا سکیں جو ان کے ساتھ برا کرتے ہیں۔ اس طرح وہ حق تعالیٰ شانہ کے اس ارشاد گرامی :﴿وَلاَ تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلاَ السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾ (حم السجدہ:34)(اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی، تو سخت کلامی کا جواب ایسے طریق سے دو جو بہت اچھا ہو)کے بموجب ان کو برائیوں اور شرور کے ارتکاب سے بھی روکیں گے۔ کہاجاتا ہے کہ ایک شخص جس نے علماء جیسا حلیہ بنا رکھا تھا وہ مولانا جلال الدین رومی کے اس قول سے بڑا تنگ تھا کہ ’’میرا ایک پاؤں دین کے درمیان اور دوسرا بہتر فرقوں کے درمیان ہے ‘‘ یا یہ قول کہ: ’’آجاؤ آجاؤ، تم جو بھی ہو آجاؤ خواہ کافر ہو، مجوسی ہو یا بت پرست! آجاؤ کیونکہ ہمارا تکیہ مایوسی اور ناامیدی کا تکیہ نہیں، آجاؤ اگر تم نے سو بار توبہ توڑ ڈالی ہے تو بھی آجاؤ!‘‘ اس شخص نے مولانا پر سب دشتم کے تیرونشتر چلائے کہ’’تم زندیق ہو، تم فاسق ہو، تم لوگوں کو گمراہ کررہے ہو، تم سب کو گلے لگاتے ہو اور یہود و نصاریٰ اور مجوسیوں کی چاپلوسی کرتے ہو۔۔۔‘‘چنانچہ جس وقت وہ شخص اپنے من کا زہر اگل رہا تھا، مولانا رومی پورے اخلاص اور تواضع سے اس کی باتیں سنتے رہے اور جب اس نے اپنی بات ختم کی تو مولانا نے اس سے سوال کیا:’’کیا آپ نے اپنی ساری بات مکمل کرلی؟‘‘ وہ بولا:’’جی ہاں‘‘ تو مولانا بولے:’’میرا سینہ تمہارے لیے بھی کھلا ہے آجاؤ!‘‘

جی ہاں، ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ مختلف فضول دلائل کی بنیاد پر آپ کے لیے سارے دروازے بند کردیں، ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کے معمولی ترین اور بنیادی ترین حقوق کو بھی آپ کے لیے زیادہ تصور کریں یہاں تک کہ وہ آپ کی رفاہی خدمات کو بھی روکنے کا مطالبہ کرسکتے ہیں اگرچہ وہ دنیا کے دور ترین کسی گوشے میں ہوں۔ ان سب باتوں کے مقابلے میں تمہارا کام یہ ہے کہ اپنی ذمہ داری ادا کرو اور ’’حسبنا اللہ‘‘ کہو اور تمہیں جو درست رستہ معلوم ہے اس پر بھلائی اور اچھائی کے کام کوجاری رکھو۔ آپ کو ان برائیوں کا انہی جیسی برائیوں سے بدلہ نہیں دینا کیونکہ ظلم کا مقابلہ ظلم سے کرنا خود ظلم ہے کیونکہ اسلام مظالم کا جواب مظالم سے دینے کو ظلم سمجھتا ہے۔ نبی کریمﷺ کا ا رشاد گرامی ہے:’’لا ضرر ولا ضرار‘‘(6) (نہ تکلیف پہنچاؤ اور نہ تکلیف کے مقابلے میں تکلیف دو) قاعدہ کلیہ ہے کہ:’’الضرر لایبزال بمثلہ‘‘(7) (ضرر کو اس جیسے ضرر سے نہیں دور کیا جائے گا)۔

آنحضرتﷺ اپنی ساری حیات طیبہ میں ان لوگوں سے حسن سلوک اورعفود و درگزر کا معاملہ فرماتے ر ہے جنہوں نے آپ علیہ السلام کے ساتھ برائی کی۔ یہاں تک کہ جب آپ علیہ السلام فاتح بن کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو سواری کے اوپر اتنا جھکے کہ آپ کی ڈاڑھی کجاوے پر پاؤں رکھنے کی جگہ کو چھونے کے قریب ہوگئی۔(8) یہ مکہ فتح ہونے پر اللہ تعالیٰ کے سامنے عجزی اور تواضع تھا۔ پھرجس وقت آپ کو ہر طرح کی تکالیف اور ایذائیں دینے و الے نہایت اضطراب اور خوف سے آپ علیہ السلام کی جانب سے اپنے حق میں صادر ہونے والے حکم کے منتظر تھے ، آپ علیہ السلام نے اپنا مشہور عظیم حکم جاری فرمایا کہ ’’جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘(9) جیسے کہ ہزار وں برس قبل حضرت یوسف علیہ اسلام نے اپنے بھائیوں سے فرمایا تھا کہ ﴿لاَ تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ﴾ (یوسف:92)(آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں)یہ ہے مروت اور اعلیٰ ظرفی ، اور یہی ہے وہ رستہ جس پر رہ کر انبیاء کے وارثوں کو چلنا ضروری ہے خواہ وہ ہمارے زمانے میں ہوں یا کسی بھی زمانے اور کسی بھی شہر میں۔ رستہ بس یہی ہے!۔۔۔

[1] صحيح مسلم، البر، 34؛ سنن ابن ماجه، الزهد، 9؛ مسند الإمام أحمد، 227/13.
[2] صحيح مسلم، البر، 138، الجنة، 48.
[3] ابن سعد: الطبقات الكبرى، 143/3؛ ابن عساكر: تاريخ دمشق، 229/30.
[4] ابن عساكر: تاريخ دمشق، 347/44.
[5] الإمام أحمد بن حنبل: فضائل الصحابة، 531/1.
[6] سنن ابن ماجه، الأحكام، 17 ؛ موطأ الإمام مالك، الأقضية، 26؛ مسند الإمام أحمد، 55/5.
[7] ابن نجيم: الأشباه والنظائر، ص 74.
[8] ابن هشام: السيرة النبويّة، 405/2. (العُثْنُون: وہ بال جو ٹھوڑی پر نیچے کی جانب اگتے ہیں).
[9] البيهقي: السنن الكبرى، 199/9.