مصائب کے بارے میں مومن اور منافق کا موقف

مصائب کے بارے میں مومن اور منافق کا موقف

سوال: نبی اکرم ﷺ نے ایک حدیث میں مومن کو کھیتی اور منافق کو صنوبر کے درخت سے تشبیہ دی ہے۔ اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟

جواب: سوال میں مذکور حدیث کئی طرف سے مروی ہے۔ اس لیے اس کے الفاظ میں اختلاف ہوگیا ہے۔ انہی میں سے ایک روایت صحیح مسلم میں آئی ہے جس میںآنحصرت ﷺ فرماتے ہیں:’’ مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ الزَّرْعِ لَا تَزَالُ الرِّيحُ تُمِيلُهُ، وَلَا يَزَالُ الْمُؤْمِنُ يُصِيبُهُ الْبَلَاءُ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ كَمَثَلِ شَجَرَةِ الْأَرْزِ، لَا تَهْتَزُّ حَتَّى تَسْتَحْصِدَ ‘‘ (مومن کی مثال کھیتی کی طرح ہے جس کو ہوا موڑتی رہتی ہے اور مومن کو آزمائش کا سامنا ہوتا رہتا ہے جبکہ منافق صنوبر کے درخت کی طرح ہے وہ نہیں ہلتا یہاں تک کہ گر پڑتا ہے۔)(1) نبی کریم ﷺ کی جانب سے مومن کو کھیتی سے تشبیہ دینا، پریشانیوں اور آزمائشوں کے مقابلے میں اس کی حالت کے بیان کی بہترین مثال ہے کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ جب ہوائیں چلتی ہیں تو وہ کھیتی کو ہلاتی ہیں اور کبھی دائیں اور کبھی بائیں موڑتی ہیں اور کبھی آگے اور کبھی پیچھے کی طرف۔ اس کے نتیجے میں کھیتی منہ کے بل زمین پر آجاتی ہے مگر جیسے ہی ہوائیں اور جھکڑ رک جاتا ہے تو دوبارہ سیدھی کھڑی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح مومن بھی ہمیشہ آزمائشوں اور مصیبتوں سے دوچار رہتا ہے لیکن (اللہ کے فضل و کرم سے) ہلنے کے باوجود کبھی گرتا نہیں۔ جی ہاں مسلمان اس دنیا میں ہمیشہ ابتلاء اور مصائب کا شکار رہتا ہے تاکہ وہ روحانی طور پر ترقی کرے، اس کا باطن صاف ہو، اپنی اصل فطرت کی طرف لوٹے اور شرور اور گناہوں کے مقابلے میں اپنی روحانی طاقت کو برقرار رکھے۔ اس کی اس کے علاوہ بھی حکمتیں ہو سکتی ہیں جو ہم نہیں جانتے یا نہیں جان سکتے۔ عربی زبان میں ایک مقولہ ہے کہ’’مومن مصیبتوں والا ہوتا ہے۔‘‘اس کا مطلب ہے کہ مومن ہمیشہ آزمائش کا شکار رہتا ہے اور اس پر مصیبتیں آتی رہتی ہیں۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے : معانی کا اعتبار ہوتا ہے الفاظ کا نہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ: ’’ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ: “الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ‘‘ (سب سے سخت آزمائش کس پر آتی ہے؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: انبیاء پر اور ان کے بعد اچھے لوگوں پر اور ان کے بعد اچھے لوگوں پر)۔ (2)

اگر ہم اس مسئلے پر اس حدیث کی روشنی میں نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ اہل بیت رضوان اللہ علیہم پر لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائشیں اور مصیبتیں آئی ہیں کیونکہ ان کو اصحاب حکومت کی جانب سے طرح طرح کی تکالیف اور ظلم کا سامنا رہا ،چنانچہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے بلکہ بعض کو سولی پر چڑھایا گیا اور بعض کو ذبح کیا گیا اس کے بعد شہادت کاجام نوش کرکے خالق حقیقی سے جا ملے۔ لیکن اس کے باوجود ان حضرات کی تکالیف سابقین اولین کی تکالیف سے بہت کم اور سابقین اولین کی آزمائش آنحضرت ﷺ پر آنے والی مشکلات سے بہت کم ہے کیونکہ ہر انسان پرآزماش اس کے مرتبے اور قدروقیمت کے مطابق آتی ہے۔

برف، آندھی اور جھکڑوں کو چوٹیوں پر جگہ ملتی ہے۔

چونکہ بلند روحیں اپنا مقام ہمیشہ اونچی چوٹیوں پر بناتی ہیں۔ اس لیے برف جب پڑتی ہے تو سب سے پہلے ان پر پڑتی ہے۔ برف کے گالے جب بھی گرتے ہیں تو سب سے پہلے وہ انہیں لوگوں سے ٹکراتے ہیں۔ اسی طرح پہلے ان لوگوں کے سر پر جمی برف میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر شے کی پہلی ضرب ان ہی لوگووں پر پڑتی ہے۔ مثلاً امام غزالی کو ان کی زندگی کے ایک خاص حصے میں ان کے زمانے کا معاشرہ سمجھ ہی نہ سکا۔ چنانچہ ذلت کا شکار ہوئے اور لوگوں کی نگاہوں سے دور چلے گئے اور قبرستان میں تنہا رہنے پر مجبور ہوئے۔ اسی طرح اگر ہم حضرت عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی دعاؤں پر غور کریں تو اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ اس نیک انسان کو کس قدر مصائب اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا جبکہ حضرت ابوالحسن شاذلی کا حال بھی ان سے پہلے لوگوں سے مختلف نہیں تھا۔

اگر ہم آج کے زمانے پر نگاہ ڈالیں اور اس مشکل کا احساس کریں جو عصر حاضر کے فکری مہندس حضرت بدیع الزمان نورسی کو درپیش تھی تو ہمیں معلوم ہوگا کہ گویا مسکراہٹ کو ان کی جانب جانے کا رستہ ہی معلوم نہ تھا۔ اس عظیم انسان نے جب استنبول میں قدم رکھا تو وہ عنفوان شباب میں تھا۔ ان کے ذہن میں ایسے ایسے زبردست افکار تھے کہ وہ آج بھی ہمارے ذہن میں خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتے۔ یہاں تک کہ جب سلطان کے مشیروں کو ان کی وہاں آمد کی وجہ سمجھ میں نہ آسکی تو اس دلیل کی بنیاد پر پاگلوں کے ہسپتال میں ڈال دیا گیا کہ وہ ہذیانی باتیں کرتے ہیں۔ پھرجب سلطان کے مشیر ان افکار و آراء کے مقابلے پر کمر بستہ ہوگئے تو ان (نورسی) کے زمانے کے اصحاب بصیرت اور اہل دانش کے لیے بھی ان کے کلام کو سمجھنا مشکل ہوگیا۔

سچی بات یہ ہے کہ انسان، ایمان کے کمال تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اسے اپنے ایمان کی وجہ سے جنون کا الزام نہ سہنا پڑے(3)۔ چونکہ یہ عظیم شخصیت ایمان کے کمال کو پہنچ چکی تھی اس لیے اس پر جنون کا داغ لگایا گیا۔

اس کے بعد حضرت نورسی نے روسیوں کے خلاف جنگ میں شرکت کی تو انتہائی سخت حالات میں وہاں وقت گزارا۔ پھر اسیر ہوگئے اور اسارت کے دوران تکلیف اور ظلم کا شکار ہوئے۔ پھر اپنے وطن کی جانب اس امید کے ساتھ لوٹے کہ وہاں چین نصیب ہوجائے گا مگر اس بار ایک اور طرح کی سزا کا شکار ہوگئے کیونکہ آپ ’’وان‘‘ شہر میں تنہا ایک غار میں رہنے لگے مگر زیادہ وقت نہیں گزرنے پایا تھا کہ اچانک ان کو گرفتار کر لیا گیا حالانکہ وہ عزلت کی زندگی گزار رہے تھے اور اس کے بعد (پورے پینتیس سال کے عرصے میں جو اس واقعے کے بعد گزرے) ان لوگوں سے کبھی خلاصی نہ پاسکے جو دین کی وجہ سے آپ سے دشمنی رکھتے تھے یا آپ سے حسد، بغض اور کینہ اور عناد رکھتے تھے۔ چنانچہ ان کے خلاف ایک کے بعد دوسرا حکم صادر ہوتا رہا یہاں تک کہ جلاوطنی، قید و بند، تنہائی ، زہر خورانی اور مقدمات کا شکار رہے اور آپ کے خلاف پھانسی کا حکم جاری ہوا۔ اس کے علاوہ بھی طرح طرح کی تکالیف کا سامنا کیا۔

ان لوگوں نے یہ ساری مشقت برداشت کی اور ہم اپنے اوپر آنے والی چیزوں کو مشقت کہتے ہیں!

خلاصہ کلام یہ ہے کہ سب سے زیادہ آزمائشیں انبیائے کرام پر آتی ہیں اور ان کے بعد درجہ بدرجہ ان سے قریب تر لوگوں پر۔ اس بات میں سب سے اہم حکمت یہ ہے کہ اگر دعوت کا بوجھ اٹھانے والے اس ہراول دستے کو اس طرح کی آزمائشیں اور بڑے بڑے مصائب پیش نہ آتے تو ان کے بعد ان کے پیروکار اپنے اوپر آنے والی اتنی سی مصیبت پر بھی چیں بجبییں ہوتے۔ شکوہ شکایت کرتے اور تنگ ہوتے کیونکہ مچھر کے کاٹنے یا شہد کی مکھی کے ڈنگ مارنے سے ان کی نیند حرام ہوجاتی ہیں اور جب وہ سانپ یا بچھوؤں کو دیکھتے ہیں تو ان کے قریب آنے سے قبل ہی شور شرابا برپا کرتے ہیں لیکن اگر یہ پیروکار اس ہراول دستہ کو اس قدر تکالیف برداشت کرتے ہوئے دیکھیں تو ان کو اس سے تسلی ہوگی اور وہ اپنے دل میں کہیں گے: ان لوگوں نے تو اتنی مشقت برداشت کرلی اور ہم اپنے اوپر آنے والی چیزوں کو مشقت کہتے ہیں! اس لیے رہنمائی کے مقام پر فائز لوگوں کے حالات اپنے پیچھے آنے والوں کو بہت سی چیزیں بتلاتے ہیں۔ اس لیے جو شخص ان کی جانب دیکھتا اور ان حالات کا مشاہدہ کرتا ہے جنہوں نے ان کی زندگی اجیرن کردی تھی تو اس کی سوچ اور نظر بدل جاتی ہے اور وہ ان پر آنے والے واقعات ایک اور انداز سے پڑھتا ہے اور آخر کار اس کو اپنے دکھ اچھے لگنے لگتے ہیں۔

’’منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی طرح ہے‘‘

نبی اکرمﷺ نے یہاں منافق کو صنوبر کے درخت سے تشبیہ دی ہے۔ ہمیں اس بات سے کچھ لینا دینا نہیں کہ حدیث میں مذکور درخت سے مراد سرو کا درخت ہے یا صنوبر کا یا سفیدہ یا کوئی اور بلکہ ہمارا مقصد اس صفت سے ہے جو منافق کو حاصل ہوئی ہے کہ وہ نہیں ہلتا یہاں تک کہ گر پڑتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ درخت جو بظاہر بڑا مضبوط معلوم ہوتا ہے، جب تیز ہوا کا سامنا کرتا ہے تو جڑ سے اکھڑ جاتا ہے اور گر پڑتا ہے اور دوبارہ سیدھا نہیں ہوسکتا۔ جی ہاں وہ منافق جو غرور کے ساتھ چلتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ نہیں گرے گا، جب تیزہوا کا سامنا ہوتا ہے تو فوراً گر جاتا ہے اور سیدھا کھڑا نہیں ہوسکتا جبکہ اس مقابلے میں کھیتی بہت جلد سیدھی کھڑی ہوجاتی ہے اگرچہ اسے لگنے والی ہوا کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو۔

یہاں ایک لطیف اشارہ دل میں آتا ہے جو اس حدیث شریف سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ: ہوسکتا ہے کہ کبھی مومن ہل جائے اور اکیلا جھک جائے اور لالچوں کی وجہ سے اس کا سر چکرا جائے اور آنکھیں چندھیا جائیں۔ اس لیے اگر وہ اپنے آپ کو گناہوں اور خطاؤں کے حوالے کردے گا تو ایک عارضی جھٹکے کا شکار ہوجائے گا۔

اس وجہ سے ہم پر لازم ہے کہ ہم اس کی دستگیری کریں۔ اسے نصیحت کریں، سیدھے رستے کی جانب اس کی رہنمائی کریں اور جس مشکل میں گھرا ہے اس سے نجات دلائیں۔ ایک فرد کے لحاظ سے یہ کام بہت آسان ہے لیکن اگر یہ حالت پھیل جائے اور سارا معاشرہ گناہوں کے دلدل میں گھر جائے، اندر سے کالا ہوجائے اور صنوبر کے بڑے درخت کی طرح دھڑام سے گر جائے، توہم پر لازم ہے کہ ہم اس کی جانب ہاتھ بڑھائیں اور دوبارہ کھڑا ہونے میں اس کی مدد کریں اور دوبارہ اس میں روح پھونکیں جبکہ یہ بات فرد کے مقابلے میں یقیناً بڑی مشکل ہے۔

لیکن اس کے باوجود، دین مبین اسلام کو قائم کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کا مقصد یہ اعلیٰ ہدف ہونا چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاشرے کے تمام طبقات کو گلے لگائیں اور ہر جگہ دھڑکنے والے دل کی طرح بن جائیں اور جس معاشرے میں رہتے ہیں اس کی احیاء کی جانب رہنمائی کریں کیونکہ ان لوگوں کے کاندھے پر آنے والی ذمہ داری اور سب سے بنیادی کام صنوبر کے اس گرے ہوئے درخت کو دوبارہ کھڑا کرنا اور اس میں نئی روح اور اطمینان پھونکنا ہے۔

1۔ صحیح مسلم، صفتہ المنافقین:58
2۔ سنن التزمذی، الزہد: 57، سنن ابن ماجہ، الفتن:23
3۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے، ’’اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ کہیں مجنون ہے‘‘(مسند احمد بن حنبل:195/18، مسند ابی یعلی:521/2)