آزمائش کی اقسام
سوال: اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کو بہت سی قسم کی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دور حاضر میں ایمان والے دلوں کے لئے سب سے خطرناک آزمائش کیا ہے؟
جواب: اللہ تعالی کی سنت کا تقاضا ہے کہ انسان ساری زندگی مختلف قسم کی آزمائشوں کا سامنا کرتے رہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالی برے کو اچھے سے اور نیک کو بد سے اس طرح علیحدہ کردے جس طرح ہیرے کو کوئلے اور سونے کو پتھروں اورمٹی سی الگ کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر آزمائش کا مقصد ہمیں اپنی ماہیت سے آگاہ کرناہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی ازل سے ہماری قدر وقیمت کو جانتا ہے اور وہ ان آزمائشوں کے ذریعے ، ہماری جانب سے ان مصائب اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کی قوت اور برتاؤ کے طریقے کو دیکھنا چاہتا ہےکہ کیا ہم نے ان پر صبر کیا یا ان سے بھاگنے کی کوشش کی، کیا ہم نے ان کو برداشت کیا یا ان کے بارے میں مخالفین کا موقف اپنا لیا جو اللہ کی تقدیر کو مخالفت اور تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
جی ہاں ! یہ آزمائشیں ہمیں اپنی ماہیت سے آگاہ کرتی ہیں، جیسے کہ ترکی شاعر یونس امرہ کہتےہیں: ”یہ رستہ بہت طویل ہے، اس کی منزلیں بہت ہیں، اس کی گزرگاہیں بند اور اس کے پانی گہرے ہیں“۔ ان الفاظ سے ہمیں وہ ایک حقیقت بتانا چاہتے ہیں کہ : لوگ دنیوی زندگی میں ہمیشہ تکلیف اور مشکلات کا شکار رہیں گے اور صفائی ستھرائی کے عمل سے اس طرح گزرتے رہیں گے جس طرح لوہا کانوں میں گزرتا ہے۔
آزمائش کی شدت ہدف کی عظمت کے برابر
اللہ تعالٰی قرآن شریف میں فرماتے ہیں: ﴿ وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ﴾ (البقرة: 115) (اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوؤں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے، توصبر کرنے والوں کو (خدا کی خوشنودی کی) بشارت سنا دو)۔ پس اس آیت کے شروع میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ اس دنیا میں لوگ مختلف آزمائشوں سے گزرتے ہیں اور اس کے بعد ان مصائب وآلام پر صبر کرنے والوں کو بشارت سنائی ہے۔ پس جس طرح عبادات انسان کے رتبے کو بڑھاتی ہیں، اسی طرح آزمائشیں بھی انسان کو گناہوں سے پاک کرتی ہیں، بشرطیکہ وہ ان پر صبر کرے، اور اسے اعلٰی ترین مقام پر پہنچا دیتی ہیں کیونکہ وہ ”سلبی عادات“ (1) سمجھی جاتی ہیں۔اس لئے مؤمن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی جانب سے اپنے اوپر آنے والی مختلف اورمسلسل آزمائشوں پر صبر کرے اور ہر آزمائش کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑا ہوجائے او راس کو اپنے نفس کا مقابلہ کرنے اور اس پر غور کرنے کا ایک موقع سمجھے اور اپنے دل سے سوال کرے کہ : کیا وہ ان سب باتوں کے مقابلے میں ایک ”پختہ“ مومن کی طرح کھڑا رہا ہے۔
ایک اصول ہے کہ ”الغنم بالغرم“ (غنیمت تکلیف کے بعد ملتی ہے) یعنی آخر کار مشقت اور مشکل ثواب اور جزا کے مطابق ہوتی ہے۔ اس لئے اس قاعدے کے مطابق آزمائش کی شدت اس ہدف کی قیمت اور عظمت کے مطابق مختلف ہوتی ہے جو انسان کو مطلوب ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر شہید ہوجانا اور ”زندگی کے ایک اور مرتبے“ تک پہنچنا بڑے فخر کی بات ہے، مگر یہ شرف اللہ کے راستے میں جہاد اور حق سبحانہ وتعالٰی کی خوشنودی کے لئے جان کی بازی لگائے بغیر نہیں مل سکتا۔ اس لئے جس شخص کا دل کسی اعلٰی مقصد میں اٹکا ہو اور وہ اس ہدف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کررہا ہو ، تو اسے ہر مصیبت اور آزمائش کو برداشت کرنا اور اس پر صبر کرنا پڑے گا ، خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو بلکہ اسے بادلِ ناخواستہ جینا پڑے گا۔
معذرت اور آپ کی اجازت کے ساتھ تھوڑی دیر کے لئے الگ ہو کر حضرت استاد بدیع الزمان سعید نورسی کے ان الفاظ کو سنتے ہیں: ”میں نے اپنی زندگی میدانِ جنگ ، قیدخانوں، ملک کے زندانوں اور عدالتوں میں گزار دی، مصائب وآلام کی کوئی ایسی قسم باقی نہیں رہی جو میں نے نہ چکھی ہو۔ مجھ سے فوجی عدالتوں میں مجرموں جیسا سلوک کیا گیا، مجھے بے خانماں برباد لوگوں کی طرح ملک کے کونے کونے میں علاقہ بدر کیا گیا۔ ملک کے قیدخانوں میں کئی کئی ماہ تک مجھے لوگوں سے ملنے سی بھی محروم رکھا گیا۔ کئی بار مجھے زہر دیا گیا۔ طرح طرح کی توہین کا شکار رہا۔ زندگی میں ایسے بھی مواقع آئے کہ میں موت کو زندگی پر ہزار بار ترجیح دینے لگا۔ اگر میرا دین مجھے خود کشی سے منع نہ کرتا ، تو شاید سعید مٹی میں مل کر مٹی ہو چکا ہوتا“۔ (بدیع الزمان سعید نورسی، السیرۃالذاتیہ: 457)
جی ہاں ! چونکہ حضرت سعید نورسی کو پیش آنے والی مشکلات اس قدر شدید تھیں ، اس لئے اللہ تعالٰی نے ان کو انسانی کمالات کی چوٹی تک پہنچا دیا۔ ہمیں کیا معلوم کہ شاید اللہ تعالٰی نے ان کو پیش آنے والی ان آزمائشوں اور مصیبتوں کی وجہ سے ہی ان کے درجات کو بلند کردیااوران پر احسان اور فضل کرتے ہوئے ان کے بعد آنے والوں کے لئے انہیں رہبر ورہنما بنا دیا۔
بہت سے لوگ رستے میں گر پڑتے ہیں
انسان کی زندگی اول سے آخر تک، آزمائشوں کا ایک سلسلہ ہے، جبکہ انسان کو اس دنیا میں صرف مصائب اور تکلیفوں سے ہی نہیں آزمایا جاتا بلکہ نعمتوں اور مادی اور روحانی کامیابیوں سے بھی آزمایا جاتا ہے۔
جی ہاں، ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں کئی ایسی منزلوں اور مرحلوں سے گزرے جن میں سےبعض اس کو حیران کر دیتے ہیں، جبکہ بعض مراحل اس کے قدموں کو ڈگمگا دیتے ہیں (اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ رکھے) بلکہ ایسی منزلوں اور مقامات سے اس کو لگنے والے جراثیم اس کی روحانی زندگی پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ مختصر بات یہ کہ انسان ایسے مقامات اور مناصب سی گزرتے وقت کبھی راحت اور آرام میں مبتلا ہوجاتا ہے اور کبھی شہرت اور نام نمود میں، کبھی منصب وجاہ کی آزمائش میں پڑتا ہے اور کبھی لوگوں کی واہ واہ کا شکار ہوجاتا ہے۔
امام غزالی انسان کو پیش آنے والی آزمائشوں کی کئی مثالیں(2) بیان کرتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ:’’ انسان پورے عزم اور ہمت کے ساتھ جنت جیسے خوبصورت شہر کی طرف چلتا ہےکیونکہ اسے اس شہر کے حسن وجمال اور خوبصورتی اور جاذبیت کے بارے میں پہلے سے بتا دیا گیا ہے، لیکن رستے میں وہ ایک ایسے آرام دہ اور پر لطف مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں پانی ہے ، اس کے گرد درخت ہیں جن پر پرندے چہچہا رہے ہیں اور وہاں کا سایہ اسے آرام اور سکون کی دعوت دیتا ہے ۔ چنانچہ وہ اپنے مطلوبہ شہر کو بھول جاتا ہے اور اس جگہ رکنےکا فیصلہ کر لیتا ہے اور فوراً ایک جھونپڑی بنا کر وہا ں رہنا شروع کردیتا ہے“۔ یہ مثال مختصر اور دلچسپ انداز میں اس زندگی میں انسان کے سفر کو بیان کرتی ہے۔
انسان کی زندگی کی منازل میں مذکورہ آزمائشوں کے علاوہ اور بھی امتحانات آتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی کا پاؤں رستے میں بہت سی چیزوں کے ساتھ اٹک سکتا ہے اور سستی، آرام طلبی اور راحت پسندی اس کے علاوہ ہے جبکہ جنت اور اللہ تعالٰی کی رضا تک رسائی ان سب مراحل سے گزرے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔
دولت کی لالچ
دنیا کی زندگی میں پیش کرنے والی آزمائشوں کی سب سے اہم قسم ملک ومتاع کی رغبت اور مال کی لالچ ہے، بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ چیزیں پوری تاریخ میں لوگوں کی اکثریت کو پیش آنے والی سب سے بڑی کمزوری رہی ہیں۔ اسی حقیقت کو نبی کریمﷺ نے حدیث شریف میں یوں فرمایا ہے: ” لَوْ أَنَّ لِابْنِ اٰدَمَ وَادِيًا مِنْ ذَهَبٍ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ لَهُ وَادِيَانِ وَلَنْ يَمْلَأَ فَاهُ إِلَّا التُّرَابُ وَيَتُوبُ اللهُ عَلَى مَنْ تَابَ“ (اگر آدم کی اولاد کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ چاہے گا کہ اس کے پاس دو وادیاں ہو
جائیں جبکہ اس کے منہ کو مٹی کے سوا کوئی چیز نہ بھر سکے گی اور جو توبہ کرتا ہے اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے) (البخاري، الرقاق: 10؛ مسلم، الزكاة: 116)
جی ہاں، طمع اورنہ ختم ہونے والی لالچ کے ساتھ مال کی طلب، بڑی بڑی کمپنیوں کا مالک بننے کی کوشش اور ہر شے کا مالک بننے کی سعی، اکثر لوگوں کی کمزوری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے بہت سے جھگڑوں اور معاشرے میں جاری دھینگا مشتی کا سبب اس قسم کے مفادات کی خاطر ایک دوسرے سے مقابلہ ہے۔
جب محی الدین ابن عربی ایک بار دمشق میں دباؤ اور تنگی کا شکار ہوئے تو زمین پرپاؤں پٹخ کر بولے : ”تم جس معبود کو پوجتے ہو وہ میرے پاؤں تلے ہے“۔ بعض حضرات ان کلمات کو ان کی تکفیر کا سبب سمجھتے ہیں حالانکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مخاطبین مال کی محبت میں مبتلا ہیں اورقارون کی مانند ہیں اور گویا وہ مال کو پوجنے لگے ہیں۔ دوسری طرف ایک لمبے عرصے بعد معلوم ہوا کہ”تم جس معبود کو پوجتے ہو“ سے مراد ایک زبردست خزانہ تھا جو ان کے پاؤں کی جگہ دفن تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں (افسوس ہے کہ) بہت سے لوگ اس بارے میں اپنے آپ کو ہلاک کرتے ہیں اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کے بچاری اس رستے پر اس سوچ کے ساتھ داخل ہوتے ہیں کہ میرے پاس ایک مکان ہونا چاہئے۔ اس کے بعد ان کی زندگی پر یہ سوچ طاری ہوجاتی ہے کہ مجھے اپنے بیٹے کے لئے بھی ایک گھر خریدنا ضروری ہے، اور ایک اور مکان بیٹی کے لئے بھی ہونا چاہئے، اور میرے پوتے کے پاس ایک بنگلہ ہونا چاہئے ..... بلکہ آپ ایسے لوگوں سے بھی دو بدو ہوسکتے ہیں جنہوں نےاللہ کی راہ میں خدمت کی خاطر سفر شروع کیا، مگر اس کے بعد اس قسم کی خواہشات کے پیچھے اس طرح دوڑ پڑے کہ مال کی پوجا کرنے لگے، یہاں تک کہ ان میں سے بعض لوگ اپنی تنخواہوں پر اکتفا نہیں کرتے، چنانچہ بہت سا مال کمانے کی خاطر دین اور امت کے لئے انتہائی ضروری خدمات سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ اس طرح وہ سلف صالحین کا رستہ چھوڑ کر دنیا والوں کی رستے پر ہولیتے ہیں۔
خواہشات کی محبت
خواہشات سے محبت ہمارے دور کی مشکل اورخطرناک آزمائشوں میں سے ایک ہے۔اگرچہ شہوت کی آزمائش انسانیت کی پوری تاریخ میں کڑا امتحان رہی ہے، مگر آج وہ زیادہ خطرناک امتحان کا روپ دھار چکی ہے۔
مولانا جلال الدین رومی اپنی مثنوی میں شہوت سے متعلق ایک حکایت بیان کرتے ہیں کہ : شیطان اللہ تعالی سے وہ چیزیں مانگتا ہے جن سے وہ بعض انسانوں کو گمراہ کرسکے، چنانچہ اسے مال دے دیا جاتا ہے، منصب دے دیا جاتا ہے ،شہرت دے دی جاتی ہے... مگر وہ کسی شے پر راضی نہیں ہوتا اور آخر میں اسے عورت کو مرد اور مرد کو عورت کی خلاف استعمال کرنے کی طاقت دے دی جاتی ہے تو اس پر بہت خوش ہوتاہے۔
اگرچہ یہ حکایت دین کے اصل مصادر میں نہیں آئی، مگر اہم بات وہ حقیقت ہے جس کو میں نے بیان کیا کیونکہ شہوت بعض طبیعتوں کے لحاظ سے دنیا کے امتحان کےعناصر میں سے سب سے اہم عنصر ہے۔ اس لئے اس حقیقت کو اس حدث نبوی شریف سے بھی جوڑا جا سکتا ہے جس میں آیا ہے: ”حُجِبَتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ وَحُجِبَتِ الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ“ (البخاري،الرقاق:8؛ مسلم،الجنة: 1) (جہنم کو شہوات سےاور جنت کو مشکل کاموں سے ڈھانپ دیا گیا ہے)۔ جی ہاں ، جنت تک پہنچانے والا رستہ طویل ہے، اس کی منزلیں بہت ہیں اور اس کو جگہ جگہ سے سیلاب اور خون وپیپ کے دریا کاٹتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں جہنم تک پہنچانے والے راستے میں وہ چیزیں ہو جو نفس کو پسند ہیں ، جیسے کھانا ، پینا اور نفس کی خواہشات کے پیچھے دوڑ۔ اور جو شخص اس رستے پر ہو لیتاہے وہ بالکل غیر شعودی طور پر ایک ایک قدم کرکے اسفل سافلین کی طرف بڑھتا چلا جاتاہے۔
شہرت کی خواہش
احترام ، منصب اور مرتبے کے پیچھے دوڑ اور کامیابیوں کو لوگوں کی جانب سے احترام کے ساتھ جوڑنا، ان امتحانات میں سے ایک ہے جن میں بہت سے لوگ ناکام ہوچکے ہیں کیونکہ وہ شہرت جس کو حضرت بدیع الزمان نے اپنے رسالے " الہجمات الست" (چھ حملے) میں ”حب جاہ“ کا ، اور ”المثنوی النوری“ میں ”مسموم شہد“ کا نام دیا ہے ، ان اہم کمزوریوں میں سے ایک ہے جن سے بعض لوگ چمٹ سکتے ہیں اور اس بات کو ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ وہ کمزور انسان جو شہرت کی بیوقوفی کو آخرت کی جانب منتقل کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ اس دنیا میں شہرت کی خاطر کچھ بھی کرسکتا ہے۔
اللہ ہم سب کو اس مہلک مقام میں گرنے سے محفوظ فرمائے اور ایمان اور احسان کے شعور کے ویزے کے ذریعے آخرت کی جانب سفر آسان فرمائے۔
[1] ”سلبی عبادت“ سے مراد یہ ہےکہ مصیبت انسان کی خطاؤں کا کفارہ بنتی ہے حالانکہ اس نےاپنے ارادے سے کوئی عبادت نہیں کی۔ اس لئے یہاں سلبی سے مراد عدمی ہے کہ گویا گناہوں کی بخشش کی بنیاد عدم یعنی صحت ، لذتوں اور آرام وغیرہ سے محرومی ہے۔ علاوہ ازیں اگر اس پر صبر کرے تو بھی اجر ملتا ہے۔
[2] احیا ءعلوم الدین 3/214-219
- Created on .