پُرمسرت ازدواجی زندگی کے دشمن

Fethullah Gülen: Mutlu bir yuvanın düşmanları

سوال: ایک حدیث مبارک میں آیا ہے کہ زوجین کے درمیان دوری پیدا کرنا اور ان کے ازدواجی تعلقات کو خراب کرنا شیطان کا پسندیدہ عمل ہے۔ آپ شادی شدہ جوڑوں کو اس خطرے سے محفوظ رہنے اور شادی کو طلاق جو کہ خدا کی نظر میں ناپسندیدہ ترین مباح عمل ہے، پر منتج ہونے سے بچانے کے سلسلے میں کیا مشورہ دیں گے؟

جواب:شیطان ہر قسم کے بُرے کاموں کی ترغیب دیتا اور اچھے اور نیک کاموں کو برباد کرتا ہے۔قرآن کریم میں بھی منفی کاموں کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے: ﴿فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ﴾  [النحل: 63] (تو شیطان نے ان کے کرتوت ان کو آراستہ کر دکھائے) اور﴿فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ﴾ [الأعراف: 20]  (تو شیطان ان دونوں کو بہکانے لگا)۔

پوشیدہ اورجھگڑالو دشمن

قرآن کریم میں شیطان کو ’’غرور‘‘ (دھوکے باز)بھی کہا گیا ہے: ﴿وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُور﴾ [لقمان: 33]) اور نہ وہ بڑا فریب دینے والا شیطان تمہیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے)۔ غرور کا لفظ جس لفظ سے ماخوذ ہے،  اس میں شدت کا مفہوم پایا جاتا ہے، لہٰذا اس کا اصل مفہوم ’’انتہائی دھوکا باز‘‘ ہے۔شیطان کا فریب دینے کا طریقہ بڑا موثر اور چکر دینے والا ہوتا ہے۔ وہ اپنی سازشوں اور الجھے ہوئے خیالات کے ذریعے اولادِ آدم کے ارادوں اور خیالات کو پراگندہ کرکے انہیں مسلسل بھٹکانے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن کریم کی آخری سورت میں اس کے لیے ’’خناس ‘‘ (پیچھے ہٹ کر وسوسے ڈالنے والا)  کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ شیطان نظروں سے اوجھل ایک ایسی مخلوق ہے، جو ہر ممکنہ طریقے سے لوگوں کو ورغلانے کی کوشش کرتی ہے، پسپائی اختیار کرتی ہے، مگر ہر مناسب موقع پر دوبارہ حملہ کرتی ہے، مددگار اور ’’بظاہر دیندار‘‘ کے روپ میں ان تک رسائی اختیار کرتی ہے، اچھے اعمال کو بدنما کرکے پیش کرتی ہے اورانسانوں کو پھسلانے اور گناہوں میں مبتلا کرنے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ بدیع الزمان کے الفاظ میں شیطان کا خطرناک ترین فریب یہ ہے کہ وہ لوگوں سے اپنے وجود کاانکار کراتا ہے ، جس کے نتیجے میں وہ اپنے اعمال پر اس کے اثرات اور ان میں اس کے عمل دخل کی اس حد تک نفی کردیتے ہیں کہ اگرچہ وہ مکمل طورپر اس کے زیر اثر اور شیطانی محرکات کے نتیجے میں سرگرم ہوتے ہیں، لیکن وہ ان تمام معاملات میں اپنے آپ کو بڑا مفکر، مدبر، فیصلہ ساز اور سرگرم سمجھتے ہیں۔ نفس جسمانی جو کہ انسانی حقیقت کا فطری حصہ ہے، شیطان کے بنیادی آلہ کار کے طورپرکام کرتا ہے۔ قرآن کریم کے بیان کے مطابق نفس جسمانی انسان کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑتااور ہمیشہ اس کے دل میں بُرے خیالات ڈالتا رہتا ہے۔ مثال سے وضاحت کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ شیطان ضابطہ مورس (Morse code) میں درج پیغامات جیسے پیغامات نفس جسمانی کی طرف مسلسل بھیجتا رہتا ہے۔ نفس جسمانی ان پیغامات کو غیرمرموز (decode) کرکے انسان کو ان کے مطابق عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

ایسی صورت حال میں ہوسکتا ہے کہ اولادِ آدم شیطان اور نفس جسمانی کی چال میں آکر گناہوں کا ارتکاب کربیٹھیں، لہٰذا ازدواجی زندگی کو ختم کرنا، بچوں کو ماں باپ سے جدا کرنا اور اس کے نتیجے میں انہیں مادی و روحانی بدحالی میں مبتلا کرنا کبیرہ گناہ ہیں۔

نقصان کا حجم

جیسا کہ اوپر سوال میں مذکورہے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ شیطان کو میاں بیوی کے درمیان تفریق کرانے سے سے زیادہ کسی بات پر خوشی نہیں ہوتی۔ ذیل میں پوری حدیث مبارک بیان کی جاتی ہے:  ’’ابلیس سمندر پر اپنا عرش لگاتا ہے۔‘‘ اس سے ہمیں اس بارے میں بھی رہنمائی ملتی ہے کن کن جگہوں پر شیاطین بکثرت جاتے ہیں اور کہاں کہاں وہ لوگوں کو آسانی سے گناہوں میں مبتلا کرسکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں شیاطین ایسی جگہوں پر رہتے ہیں، جنہیں غیر اخلاقی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ایسے مقامات مثلاً ساحل سمندر پر ڈیرے ڈالتے ہیں، جوہر قسم کی برائی کے لیے موزوں ہوتے ہیں۔ ’’اس کے بعد وہ اپنے لشکر کو ادھر ادھر برائیاں پھیلانے کے لیے بھیجتا ہے۔‘‘  ان میں سے کچھ لوگوں کو سود میں مبتلا کرتے ہیں، کچھ انہیں بد نظری پر اکساتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان میں سفلی جذبات ابھرتے ہیں اور وہ نفسانی خواہشات پر عمل کرنے لگتے ہیں۔ کچھ شیاطین لوگوں کی زبان پر قابو پاکر ان سے جھوٹ بلواتے اور غیبت اور بہتان طرازی کراتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں شیطان کے کارندوں میں سے ہر ایک ورغلانے کی اپنی مخصوص صلاحیتوں کے مطابق ہر حیلہ کرتا ہے۔ ’’اس کے نزدیک ان میں سے سب سے بلند مرتبہ شیطان وہ ہوتا ہے، جو سب سے زیادہ فتنہ برپا کرتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک ابلیس کے پاس آ کراسے بتاتا ہے کہ میں نے یہ یہ کام کیا ہے، لیکن ابلیس جواب میں کہتا ہے کہ تو نے کوئی قابل فخر کام سرانجام نہیں دیا ۔‘‘

درحقیقت ابلیس کو گناہ کے ہر کام پر مسرت ہوتی ہے، کیونکہ ہر گناہ میں کفر تک پہنچانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ہر گناہ دل پر ایک سیاہ نقطہ لگا دیتا ہے، نیز کسی بھی گناہ کا ارتکاب کرنے والا شخص عملی طورپر خدا کی رحمت سے ایک قدم دور ہو جاتاہے، تاہم ابلیس اپنے کارندوں سے اس سے زیادہ کی توقع رکھتا ہے۔’’ پھر ایک کارندہ اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فلاں شخص کے پیچھے لگا رہا یہاں تک میں نے اس کے اوراس کی بیوی کے درمیان جدائی کرادی۔ اس پرابلیس اسے اپنے قریب بلا کر اسے شاباش دیتے ہوئے کہتا ہے: ’’تم بہت خوب ہو۔‘‘(1)

یہ حدیث دورِ حاضر کے ایک بہت ہی عمومی سماجی مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ازدواجی رشتے کو توڑنا ابلیس کی نظر میں اتنا اہم ہے کہ وہ لوگوں سے دوسرے مختلف گناہ کرانے والے اپنےبہت سے کارندوں کی کوئی تعریف نہیں کرتا، لیکن میاں بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنے والے کارندوں کی نہ صرف تعریف کرتا ہے، بلکہ انہیں اس پر انعام بھی دیتا ہے،  لیکن سوال یہ ہے کہ یہ بات شیطان کے نزدیک اتنی اہم کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ازدواجی رشتے کو توڑ کر وہ نہ صرف دو انسانوں بلکہ بچوں، والدین، رشتہ داروں، پیاروں اور ایک لحاظ سے پورے معاشرے کی زندگیوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ چونکہ خاندان معاشرے کے سالموں(molecules) کی مانند ہوتے ہیں، اس لیے ٹوٹے ہوئے خاندانوں کی موجودگی اس بات کی غماز ہے کہ معاشرہ شدید بگاڑکا شکار ہے۔ مزید برآں طلاق یافتہ جوڑے دوسروں کے لیے بُرا  نمونہ پیش کرتے ہیں اور یہ صورت حال متعدی مرض کی طرح دیگر گھرانوں کی طرف بھی منتقل ہوسکتی ہے۔ اگرچہ بادی النظر میں یہ معمولی معاملہ دکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت میں شیطان اور اس کے کارندوں کا یہ فعل بد بہت سے معاملات پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ شیطان پُرسکون گھرانوں کو جہنم کا نمونہ بنانے کی پوری کوشش کرتاہے اور میاں بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ مزید برآں وہ اپنے تسلط میں آئے ہوئے شیطان صفت لوگوں کے ذریعے خاندانی نظام کو درہم برہم کرنے کی بھی مسلسل کوشش کرتا رہتاہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تصادم اور جھگڑوں میں الجھے ہوئے خاندان کے بچے ایسی صورت حال سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ مسلسل بے چینی کے شکار خاندانی ماحول میں بچوں کے لیے صحت مند شخصیت کا مالک بننا ممکن نہیں ہوتا۔ ماں باپ کے درمیان مسلسل تصادم کی فضا میں بچہ جو عام طور پر والدین کےدرمیان میں پھنس کر رہ جاتا ہے، ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہوتا ہے اور والدین کی طرف سے ایک دوسرے کےخلاف استعمال کیا جانے والا ہر بُرا لفظ اس کی یاداشت پرنقش ہوجاتا ہے ۔پھر بچہ پے در پے مایوسیوں کا شکارہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ والدین اس کی نظروں میں عزت و احترام کھو بیٹھتے ہیں۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انسانوں کا ازلی دشمن شیطان ایسی صورت حال پر کیوں نہ خوش ہو؟

طلاق آخری راستہ ہے

نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ طلاق حلال کردہ امور میں سے خدا کی نظرمیں ناپسندیدہ ترین عمل ہے۔ لہٰذا فریقین کو چاہیے کہ وہ شادی کے بارے میں ضروری علم حاصل کریں تاکہ وہ طلاق کا سبب بننے والی باتوں سے بچ سکیں۔ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں کسی کو بھی بعض تربیتی پروگراموں میں شرکت اور شادی سے متعلق کچھ کتابوں کےمطالعہ کے بغیر شادی کی اجازت نہ دیتا۔ میں کم از کم ایک یا دو ماہ تک عنقریب ازدواجی رشتے سے منسلک ہونے والے جوڑوں کی تربیت کرتا تا کہ انہیں ازدواجی زندگی کی اہمیت، ایک دوسرے کے حقوق و واجبات، باہمی تعلقات اوربچوں کی پرورش وغیرہ کے بارے میں علم حاصل ہوجائے۔ ازدواجی ذمہ داریوں سے ناواقف جوڑے کے درمیان صحت مند ازدواجی تعلق کا پایا جانا بہت مشکل ہے۔ اس کے برعکس شادی کو شروع ہی سے معقول بنیادوں پر استوار کرنا ایک حکیمانہ احتیاطی اقدام ہے، کیونکہ شادی کے معاملے میں جذباتیت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ جذبات کے ساتھ ساتھ عقل و خرد بھر پورطریقے سے فعال ہونی چاہیے۔ صرف خدوخال اور خوبصورتی کی بنیاد پر پُرسکون اور دیرپا ازدواجی زندگی کا حصول بہت مشکل ہے، کیونکہ ازدواجی زندگی مشکل مرحلے میں بھی داخل ہوسکتی ہے اورایسی صورت حال میں جب حسن و جمال کو زوال آتا ہے تو ازدواجی رشتہ بھی ٹوٹ جاتا ہے،لہٰذا اگرچہ جذبات کی اپنی اہمیت ہے، لیکن عقل ، منطق اورجانچ پرکھ کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور شادی سے پہلے خوب سوچ و بچارکرلینی چاہیے۔ میں ایک بات کااوراضافہ کروں گا کہ شادی کا ارادہ رکھنے والے شخص کو صرف اپنی رائے پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے، بلکہ درست رائے تک پہنچنے کے لیے اسے دوسروں سے بھی ضروری صلاح و مشورہ کرنا چاہیے۔ مزید برآں منگنی کے بعد دونوں خاندانوں کے درمیان آنے جانے کے روایتی طریق کار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے، کیونکہ جائز حدود میں رہتے ہوئے یہ طریق کار اس بات کا اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے کہ آیا فریقین کی طبیعتوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے یا نہیں۔

علاوہ ازیں شادی کے بالکل ابتدائی دنوں ہی سے میاں بیوی کو خاندانی زندگی کے تحفظ کے لیےدیئے گیے دینی اصولوں کی سختی سے پابندی کرنی چاہیے اور رازدارانہ ازدواجی امور کے بارے میں بہت محتاط رہنا چاہیے۔ اگر ان امور کا خیال رکھا جائے تو شیطانی کارندوں اور شیطان نما انسانوں کو گھر میں گھس کر اسے اندر سے نقصان پہنچنے کا کوئی موقع نہیں ملے گا۔ ان احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ دعا اور ہر وقت حق تعالیٰ کی پناہ مانگنے کے ذریعے حفاظتی حصارکا قیام بھی پُرمسرت ازدواجی زندگی کے تسلسل کے لیے بہت اہم ہے۔

تاہم تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور عقل و حکمت کو نظر انداز نہ کرنے کے باوجود میاں بیوی کے درمیان اختلاف اور شدید غیرہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے۔ شیطان انسانوں اورجنوں میں سے اپنے کارندوں کے ذریعے ایسی صورت حال سے غلط فائدہ اٹھا سکتا ہے اور ان کے دلوں میں مسلسل بُرے خیالات کے وسوے ڈال کر انہیں ایک دوسرے کے خلاف کرسکتا ہے۔ ایسی صورت حال کے نتیجے میں یہ رائے بن سکتی ہے کہ ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے یہ شادی زیادہ عرصہ قائم نہ رہے گی۔ لہٰذا اگر ایسی صورت حال میں نبھاؤ کی کوئی امید باقی نہ رہے اورپُرامن ماحول قائم نہ کیا جاسکے تو آخری چارہ کار کے طورپر طلاق کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔

قرآن کریم کئی صفحات میں یہ بتاتا ہے کہ ایسی حساس صورت حال میں داخل ہونے والے جوڑوں کوکیسا طرزِعمل اختیارکرنا چاہیے حتی کہ طلاق کے نام سے ایک پوری سورت ہے۔ فخر انسانیت حضرت محمدﷺ نے ا پنی احادیث مبارکہ کے ذریعے متعلقہ آیات مبارکہ کی تشریح و توضیح فرمائی ہے۔صحابہ کرام اور بعد میں آنے والے علمائے کرام نے بھی اس معاملے پر غور و فکر کرکے مختلف نتائج اور احکام مستنبط کیے ہیں۔ اس تمام گفتگو سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ طلاق کوئی سادہ سا معاملہ نہیں ہے، بلکہ بہت ہی حساس مسئلہ ہے ۔ لہٰذا طلاق کے بارے میں عقل، منطق، صحیح فیصلے اور ضمیر کی ہدایت کی روشنی میں جذباتیت اوراناپرستی سے آزاد ہوکر جائز حدود میں رہتے ہوئے صرف اسی وقت سوچنا چاہیے جب ازدواجی رشتہ کو برقرار رکھنے کے لیے ہر کوشش کی جاچکے، لیکن اس کے باوجود امید کی کوئی کرن نظر نہ آئے۔

(1) صحیح مسلم، منافقوں، 67 ؛احمد بن حنبل، مسند، 3:314۔