تین مبارک مہینے : روحوں کو سننے کا وقت

تین مبارک مہینے : روحوں کو سننے کا وقت

سوال: کیا جناب ہمیں کوئی نصحیت فرمائیں گے جس کے ذریعے ہم تین مبارک مہینوں کے سرور کو محسوس کرسکیں او ران کے روحانی اور معنوی ماحول سے حقیقی استفادہ کرسکیں ؟

جواب: سب سے پہلے ہم اس طرف اشارہ کریں گے کہ یہ تین ماہ ، برکت کاسب سے بڑ ا وقت ہیں کیونکہ ان میں انسان اللہ تعالی کے زیادہ قریب ہوسکتا ہے اور اس بات کا اہل ہو جاتاہے کہ اللہ تعالی اسے اپنی وسیع رحمت میں چھپائے اور وہ اپنے گناہوں سے نکل کر روح اور دل کے آفاق کی سیر کرنے لگے ۔

سچی بات یہ ہے کہ انسان کو ہر سال ہمیشہ قدرتی طور پر ایسی مدت کی ضرورت ہوتی ہے جس میں اپنے نفس کو پاک، روح کی تربیت اور دل کی صفائی کرے جبکہ یہ تین ماہ اس غرض کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان مبارک اوقات میں جسمانی اورنفسیاتی بوجھ سے آزادی حاصل کرکے ایک خاص بلندی اورایک خاص مقام تک پہنچنے کے لیے ابتدا میں غور و فکر اور یاددہانی کے ایک زبردست عمل جراحی سے گزرنا پڑتا ہے ، لیکن یہ بات ضروری ہے کہ اس جراحی کے وقت آدمی اپنے دل اور روح کو ، روحانی معاملات کے لیے مسلسل کھلارکھے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ مذاکرہ اور درس کے واسطے سے اپنی ذہنی اورعقلی صلاحیتوں کے ذریعے قرآنی اورایمانی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرے اور اس پر لازم ہے کہ اپنے اوپر برسنے والے انوار اور روحانی امور کے سیلاب سے کچھ نہ کچھ مستفید ہوتا رہے۔

توجہ کا جواب توجہ

بہت سے لوگ ان تین مبارک مہینوں کے دنوں اور راتوں کے بارے میں اپنی اپنی سطح کے مطابق بہت اچھی اور خوبصورت باتیں کرتےاوران جمالیات کی طرف توجہ مبذول کراتے رہتے ہیں جومومن کی زندگی کوتوانائی بخشتی ہیں ۔

اس لیے اس قسم کی کتابوں کا مطالعہ جن کے ایک ایک لفظ کی قیمت خزانوں کےبرابر ہے اور ان کی تحلیل ،ان کو سمجھنا اور آپس میں مل کر پڑھنے اور ان پر بحث مباحثہ کرنے کی ، ان فتوحات اور دلالات کو سمجھنے اور محسوس کرنے میں بڑی اہمیت ہے جو ان مبارک مہینوں کی برکت سے انسان پر اترتے ہیں ۔

جی ہاں ان تین مہینوں سے متعلق کتابوں کوسطحی نظر سے بغیر گہرائی میں جائے ، نہیں پڑھنا چاہیے تاکہ ان سے بدرجہ اتم استفادہ کیا جاسکے ، ورنہ آدمی کے لیے جو کچھ پڑھا یا سنا ، اس سے استفادہ مشکل ہو جائے گا۔

کوئی بھی آدمی ان مبارک اوقات کی لذت اور ان کی جمالیات سے، جن کی باز گشت اسے اپنے دل میں محسوس ہوتی ہے، اس وقت تک مستفیدنہیں ہوسکتا جب تک وہ یہ نہ جانے اورنہ سمجھے کہ یہ اوقات غنیمت جمع کرنے کے اوقات ہیں اور اس کے بعد ان کی راتوں اور دنوں سے فائدہ اٹھائے اور کوئی لمحہ ضائع نہ جانے دے ۔

مثلا ً اگر آدمی قیام اللیل کا عزم کرے اور نہ راتوں کے فیوض سے مستفید ہو، تو اس کے لیے ان مبارک مہینوں کی جمالیات کی گہرائی کا احساس کرنا یا ان سے لذت حاصل کرنا اور لطف اندوز ہونا مشکل ہوجائے گا۔

جی ہاں، اگر انسان ان مہینوں کا آغاز روحانی طور پر کمر کس کر نہ کرے اور بندگی کا حق محسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کرے اور نہ اپنے آپ کو اس کام کے لیے فارغ کرے، تو اس کے لیے ان مبارک اوقات میں پوشیدہ فیوضات کا احساس کبھی نہ ہوسکے گا اگرچہ وہ اس پر بارش کی طرح کیوں نہ برسیں ، بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ادراک اوراستعداد کے بقدران کے بارے میں اوروں کے اقوال کا تجزیہ کرکے ان کو خیال اورتکلف آمیز سمجھے گا۔

جی ہاں، ان مبارک مہینوں میں ان فیوضات کا احساس جو ہمیں سر کی چوٹی سے پاؤں تک ڈھانپ لیتے ہیں، ابتداء میں ان کو ماننے اور ان کی جانب توجہ کرنے کا مرہون منت ہے کیونکہ توجہ کرنےسے توجہ ملتی ہے ۔ اس لیے اگر آپ ان مہینوں کی روح کے ساتھ ان کی جانب توجہ نہیں کریں گے تو وہ بھی اپنے دروازے آپ کے لیے نہیں کھولیں گے بلکہ ان کے بارے میں کہے گئے چمکدار اور طنطنے والے الفاظ تمہارے سامنے اس طرح مرجھا جائیں گے کہ گویا وہ روح اور زندگی سے خالی جسم ہیں ، بلکہ ابن رجب حنبلی کے وہ الفاظ جو حساس تار کو چھیڑتے ہیں اور امام غزالی کے وہ اقوال جو دلوں میں شوق اور عشق پیدا کرتے ہیں ، ان کی گونج تمہارے دلوں میں سنائی نہ دے گی کیونکہ کسی بھی لفظ میں اس وقت تک کوئی تاثیر نہیں ہوتی جب تک مخاطبین کی عقلیں ، ان کا احساس او ران کے سینے اپنی صلاحیت کے مطابق نہ کھل جائیں۔

اس وجہ سے آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو اپنا لے اور رجبی ، شعبانی اور رمضانی بن جائے)رجب ، شعبان اور رمضان کی طرف نسبت کرے(جی ہاں،انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ ان نیک ساعتوں کے ساتھ بالکل یکجا ہوجائے تاکہ اسے ان چیزوں کا احساس ہوسکے جو یہ اس کی روح میں اتارتی ہیں اور اگر تم اس طرح رہو جس طرح اب ہو اور اپنے آپ کو سطحیت سے دور کرو اور نہ ان مہینوں کی ماہیت کے بارے میں تحقیق کرو، تو ان کے بارے میں وارد یہ خوبصور ت الفاظ ایک کان سے داخل ہوکر دوسرے کان سے نکل جائیں گے ۔

اس لیے وہ شخص جو فضول چیزوں کی جانب متوجہ رہتا ہے اور غنیمتوں کے اس موسم میں اپنے نفس کی تجدید کی کوشش کرتا ہے اور نہ اس کے افعال اور برتاؤمیں سنجیدگی ہوتی ہے اور توازن، تو اس کے لیے ایسے مبارک اوقات سے مستفید ہونا بہت مشکل ہے۔

مبارک اوقات کے مناسب پروگرام

اس مسئلے کا ایک اور رخ بھی ہے جس کا تعلق اجتماعی روح اور معاشرے میں قبول عام سے ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان مہینوں کی وسعت اور حقیقی گہرائی کے برابر احساس ، ان لوگوں کا حصہ ہے جو روح و قلب کے افق پر اڑتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ ہمارا معاشرہ عمومی طور پر ایک معین مقدار میں ان مہینوں کی قدر وقیمت اور برکت سے آگاہ ہے، چنانچہ وہ مساجد میں جاتا ہے اور اللہ تعالی کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس حالت سے اس طور پر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ اس مبارک وقت میں مختلف قسم کے خصوصی پروگرام تشکیل دے کر لوگوں کی روح تک خاص پیغام پہنچایا جائے ۔اسی طرح رغائب ، معراج ، برات اور قدر کی راتوں میں ایسے خصوصی پروگرام ترتیب دئے جاسکتے ہیں جو ہمارے زمانے کے لوگوں کو مخاطب کریں ، بشرطیکہ دین کی روح کو برقرار رکھا جائے ۔ اس طرح ہم ان راتوں کو ، لوگوں کو اللہ تعالی کے قریب لانے اور دلوں کو دین کی حقیقت سے آگا ہ کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں ۔ پھر جس طرح مساجد میں آنے والے لوگوں کے دلوں میں احساس پیدا کیا جاسکتا ہے ، اسی طرح پڑھنے پڑھانے ، مذاکرے اور علم کی مجالس کو بھی اس بارے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس طریقے سے ان تین مہینوں کی قدر وقیمت جاننے والے لوگوں کی امیدوں اور اہمیت کی چیزوں سے اچھی طرح فائدہ اٹھایا جاسکتاہے۔

یہاں اس قسم کے پروگراموں سے متعلق کچھ ایسے امور کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوںجو ضروری معلوم ہوتے ہیں ۔ ان مختلف تقریبات اور تمام پروگراموں کو ترتیب دینے کا مقصد لوگوں کوان کی فکری اور حسی دنیا کے ہمراہ ایک ایک قدم کرکے اللہ تعالی کے قریب لانا ہے ۔ اس لیے اگر یہ پروگرام اپنی ذات اور نفس کے انکشاف تک نہ پہنچائیں، تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم فضول کاموں میں لگے ہوئے ہیں ۔ جی ہاں، اگر ہم حقائق الہٰیہ کو بیان نہیں کرسکتے اور لوگوں کوسردار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قریب نہیں کرسکتے ، یا ہم ایسے پروگرام ترتیب دیتے ہیں جن کا تعلق لوگوں کی خواہشات سے ہے او روہ صرف یہ کہتے ہوئے وہاں سے جاتے ہیں کہ : "اچھا وقت گزرا" ، تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم نے فضول وقت ضائع کیا یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے ایک گناہ کا ارتکاب کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ رستہ جو اللہ تعالی اور اس کے رسول )صلی اللہ علیہ وسلم ( تک نہیں پہنچاتا ، وہ ایک وھوکہ ہے ۔ اسی طرح لوگوں کو بہلانا، میلے ٹھیلے لگانا ان ایمان والے دلوں کا کام نہیں جوحق اور حقیقت کا ترجمان بننانہیں چاہتے ہیں۔

ہمارے اس زمانے میں لوگوں کا طرز زندگی کھیل تماشوں کے لیے کھلا ہے ۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ اس بارے میں ان کا اہتمام آپ لوگوں کو اتنا دھوکہ دے کہ جب تم ان کی خوشی کو دیکھو تو یہ سمجھنے لگو کہ ہم نے کوئی فائدہ مند کام کیا ہے، جبکہ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہےکہ قرآن و سنت کے مطابق اس عمل کی صحت کا اہتمام کیا جائے ۔ اس بناپر تمہارا فرض ہے کہ ہمیشہ حق کو تلاش کرو اگرچہ اس پروگرام کا کسی کو بھی اہتمام نہ ہو اور اس میں شرکاء کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو ۔ بالفاظ دیگر لوگوں کی طرف سے واہ واہ اور تالیاں اہم نہیں بلکہ اہمیت کی بات یہ ہے کہ تم جو پروگرام تشکیل دیتے ہو ان سے ہماری روحانی اور قلبی زندگی کو کچھ فائدہ ہو۔

اسی طرح ہم پر لازم ہے کہ ان برکت والی راتوں کے دوران جب آسمان انوار کے سمندر میں غرق اور زمین آسمانی دستر خوانوں سے سج جاتی ہے ، لوگوں کو ہمیشہ اپنے قلبی اور روحانی زندگی پر گہرائی کے ساتھ توجہ دینے کی دعوت دیں اور جو بھی کام کریں اسے اعلیٰ اور ارفع مقاصد اور اہداف کے ساتھ جوڑیں۔ یہاں تک ہر بار لوگوں کے دلوں میں ایک نئی روح او رزندگی پھونکیں اور ان کو شدید خواہش کے ساتھ روحانی امور میں غوطہ زن کردیں ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان تمام پروگراموں کے ذریعے لوگوں کو آخرت کی طرف راغب کریں اور دلوں میں سعادت ابدیہ حاصل کرنے اور نقصان سے بچنے کا خوف پیدا کریں اورآخرکار ہماری کوشش ہو کہ لوگ دین کی روح کو سمجھیں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ مساجد، جماعت کی نمازوں ، جمعے اور تین مبارک مہینوں یعنی رجب ، شعبان اور رمضان اور ان کی خصوصی راتوں جیسے لیلۃ الرغائب، شب معرا ج ، شب برات اور شب قدر کو لوگوں کو اللہ تعالی کی جانب متوجہ کرنے کا ذریعہ بنائیں کیونکہ ان مبارک اوقات کی ہر گھڑی دائمی زندگی حاصل کرنے کے لیے مناسب ہے ۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس بارے میں منعقد کی جانے والی تمام تقریبات کا ہدف اعلیٰ مقاصد کا حصول ہو۔