2-استغفار

استغفار

ایمان والے دلوں کو استغفار سے کیا امید ہونے چاہیے سوال: اس استغفار کے کیا آداب اور اصول ہیں جو ایمان والے دلوں کے لئے تطہیر اور تزکیہ کے حوض کی مانند ہے؟

جواب: بندے کےلئے ضروری ہے کہ استغفار شروع کرنے سے قبل اللہ تعالیٰ کے جلال اور عظمت کو یاد کرے اور اس کی تعظیم و تکریم اور تسبیح کرتا رہے ۔رسول اکرم ﷺ سے اس بارے میں بہت سی روایات مروی ہیں جو مجموعی طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ استغفار کو ان الفاظ سے شروع کرنا مستحب ہے ﴿" اَللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ للهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا، لَا إِلٰـهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ، نَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، لَا شَرِيكَ لَهُ".﴾ (اللہ بہت بڑا ہے ،اس کی تعریف بہت ہے ،صبح شام اس کی پاکی بیان کی جاتی ہے ،اکیلے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ،اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اکیلے تمام گروہوں کو شکست سے دوچار کیا اس کا کوئی شریک نہیں )

اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور بڑائی بیان کرنے کے بعد استغفار کی قبولیت کےلئے مستحب ہے کہ سید السادات حضرت محمد مصطفیٰﷺپر درود وسلام بھیجا جائے ،کیونکہ آنحضرت ﷺپر درود وسلام مستجاب دعا ہے اور ساتھ ہی درود وسلام مومن کےلئے آنحضرت ﷺ سے تعلق پیدا کرنے کےلئے زبردست موقع بھی ہے۔ اس وجہ سے سید الاوابین ﷺ پر درود کو شفیع بناتے ہوئے ،استغفار سے قبل اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع کرنا ،اللہ تعالیٰ کی قربت کا ایک اور ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔

اسی طرح خود اپنے لئے مغفرت طلب کرنے سے قبل امت محمدیہ کےلئے استغفار کرنا مستحب ہے جیسے کہ ہم صلاۃ حاجت میں کرتے ہیں ، مثلاً ہم کہتے ہیں : ﴿ "اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّةِ مُحَمَّدٍ، اَللّٰهُمَّ ارْحَمْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ"﴾(اے اللہ امت محمدیہ کو معاف فرمادے ،اے اللہ امت محمدیہ پر رحم فرما )یہ’’ابدال‘‘کی صبح وشام کی دعا ہے ۔اس طرح امت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کے لئے خیر مانگنا بھی استغفار کی قبولیت کا ایک ذریعہ ہے ۔بلکہ اگر آپ چاہیں تو اپنے آپ کو امت محمدیہ کا سب سے سرکش گنہگار فرض کرکے دعا کو ان الفاظ سے شروع کریں : ﴿ "اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاغْفِرْ لِأُمَّةِ مُحَمَّدٍ، اَللّٰهُمَّ ارْحَمْنِي وَارْحَمْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ ( ﷺ) "﴾۔ ( اے اللہ مجھے معاف کر دے اور محمدﷺکی امت کو،اے اللہ مجھ پر رحم فرما اور محمدﷺکی امت پر ۔

سب سے اچھے الفاظ سے مغفرت کی دعا

اس تمہید کے بعد آدمی کو چاہیے کہ وہ حق سبحانہ وتعالیٰ کی جانب درج ذیل آیات کی مانند آیات کے ذریعے اپنے گناہوں اور خطاؤں کی معافی کی امید کے ساتھ رجوع کرے﴿لَا إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ﴾ ) الانبیاء: 87( (تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے (اور)بیشک میں قصور وار ہوں) ﴿انِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ﴾ (الانبیاء :83) ( مجھے ایذا ہو رہی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔) ﴿رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ﴾ (المؤمنون :118) ( میرے پروردگار مجھے بخش دے اور (مجھ پر)رحم کر اور تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔) ﴿رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي﴾ (القصص:16) (اے پروردگار میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے۔) ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ﴾ (ابراہیم: 41)(اے پروردگار حساب (کتاب) کے دن میری اور میرے ماں پاب کی اور مومنوں کی مغفرت کیجیو) ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴾ (آل عمران:147) (اے پروردگار ہمارے گناہ اور زیادتیاں جو ہم اپنے کاموں میں کرتے رہے ہیں معاف فرما اور ہم کو ثابت قدم رکھ اور کافروں پر فتح عنایت کر)۔

قرآن کریم کی دعاؤں کے ساتھ صحیح احادیث میں بھی استغفار کے بارے میں بڑی خوبصورت دعائیں آئی ہیں ۔مثلاً:حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کی کہ مجھے کوئی ایسی دعا بتا دیجئے جو میں نماز میں مانگا کروں ،تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ﴿اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ" ﴾ (البخاری،الدعوات:16)(کہو:اے اللہ میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔ اس لئے تو مجھے اپنی طرف سے معافی دے دے اور مجھ پر رحم فرما کیونکہ تو بخشنے والا مہربان ہے )۔یہ دعا سجدے میں ،تشہد کے بعد اور استغفار کے مقام پر مانگی جاسکتی ہے۔

ایسے ہی آنحضرت ﷺ سے ایک اور دعا منقول ہے جس کو آپ علیہ السلام نے سید الاستغفارکانام دیا ۔وہ دعا یہ ہے: ﴿"اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ"﴾(اے اللہ تو میرا رب ہے ،تیرے سوا کوئی معبود نہیں ،تونے مجھے پیدا کیا ،میں تیرا بندہ ہوں اور اپنی بساط کے مطابق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں۔میں نے جو کچھ کیا ،اس کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔میں اپنے اوپر تیری نعمتوں کے ساتھ تیری جانب رجوع کرتا ہوں اور اپنے گناہ بھی تیرے حضور لاتا ہوں ۔اس لئے تو مجھے معاف فرما دے کیونکہ تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو نہیں بخش سکتا )۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ﴿"مَنْ قَالَهَا مِنَ النَّهَارِ مُوقِنًا بِهَا، فَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ قَبْلَ أَنْ يُمْسِيَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ؛ وَمَنْ قَالَهَا مِنَ اللَّيْلِ وَهُوَ مُوقِنٌ بِهَا، فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ".﴾:(’’جس نے یقین کے ساتھ ان الفاظ کو دن میں کہا اور شام سے پہلے مرگیا تو وہ جنت والوں میں سے ہے اور جو شخص یقین کے ساتھ رات کو یہ الفاظ کہے اور صبح سے پہلے مرجائے تو وہ بھی اہل جنت میں سے ہوگا )۔(البخاری، الدعوات:2)

اتنا گڑگڑاؤ کہ پاکیزگی کا احساس ہو جائے

انسان کو چاہیے کہ وہ سجدے میں درج ذیل دعا کو اس کثرت کے ساتھ پڑھے کہ تھکاوٹ سے چور چور ہو جائے اور اسے دل میں پاکیزگی اور اطمینان کا احساس ہونے لگے ۔﴿ "يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ أَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ وَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْن" ﴾ (اے زندہ اور قائم رہنے والے میں تیری رحمت کے ذریعے مدد کا طلب گار ہوں ،میرے سارے کاموں کو درست کر دے اور مجھے پلک جھپکنے کے برابربھی اپنے نفس کے حوالے نہ فرما )۔بعض نے ان الفاظ کا اضافہ فرمایا ہے "ولا أقلّ من ذلك (اور نہ اس سے کم)۔

بندے کےلئے مستحب ہے کہ وہ اس دعا کو بھی دل سے نکلنے والی ایک آرزو کے طور پر پڑھتا رہے جبکہ آنحضرت ﷺ جب بھی رات کو جاگتے تو یہ الفاظ دہراتے تھے﴿"سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ أَسْتَغْفِرُكَ لِذَنْبِي وَأَسْأَلُكَ رَحْمَتَكَ، اَللّٰهُمَّ زِدْنِي عِلْمًا وَلَا تُزِغْ قَلْبِي بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنِي وَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ" ﴾ ‘‘(سنن ابوداؤد،الادب108)(اے اللہ تو پاک ہے میں تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں اور تجھ سے تیری رحمت کا طلبگار ہوں ۔اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرمااور سیدھا راستہ دکھانے کے بعد میرے دل کو گمراہی میں نہ ڈال اور مجھے اپنی طرف سے رحمت عطا فرما ،کیونکہ تو ہی عطا فرمانے والا ہے)۔

ایسے ہی ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے عیوب ،گناہوں اور خطاؤں پر نظر رکھے اور اپنے خاص مرتبے کے مطابق ان پر تنقید کرے اور اللہ کی تسبیح کرے اور روزانہ اللہ سے ہزاروں بار معافی طلب کرے ۔مثال کے طور پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ روزانہ بارہ ہزار بار سبحان اللہ کہا کرتے تھے اور اس بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا ’’کہ میں اپنے گناہوں کے بقدر تسبیح کرتا ہوں ‘‘(ابن حجر الاصابہ :360/5)

میرا خیال نہیں کہ قبیلہ دوس کے اس شیر نے کوئی گناہ کیا ہو جو اصحاب صفہ میں شامل ہو گیا اور ایک طویل مدت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں گزاری ،جبکہ آپ کی روایات سب سے زیادہ ہیں ،اس وجہ سےآپ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد وہ میٹھا چشمہ بن گئےجہاں سب لوگ اپنی پیاس بجھانے آتے تھے ،لیکن اس کے باوجود وہ اپنے مرتبے کے مطابق استغفار ضروری خیال کرتے تھے ۔پس اگر ہم اپنی موجودہ زندگی پر غور کریں جس میں گناہ نقب لگا چکے ہیں تو ہم دن میں تیس ہزار بار استغفار کریں تو بھی کم ہے ۔علاوہ ازیں ’’مضطرب دلوں کی فریاد‘‘میں مذکوراکابر کے وظائف کو وردبنایا جا سکتا ہے ۔مثلاً امام حسن بصری ؒ اتنے گہرے انسان تھے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ بڑی سنجیدگی سے اپنے نفس کا محاسبہ کیا کرتے تھے ۔آپ بھی ان کے استغفار کے اوراد کو پڑ ھ سکتے ہیں جووہ ہفتے کے دنوں پر تقسیم کرکے پڑھا کرتے تھے ۔حضرت حسن بصری استغفا ر کو آپ ﷺ پر درود سے شروع کرتے ہیں ،پھر اپنے گناہوں کو شمار کرتے ہیں۔ اور درود وسلام پر ہی دعا کا اختتام کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس زمانے میں انہوں نے زندگی گزاری وہ اور ان کی طبیعت بھی اس طرح کے گناہوں کے ارتکاب کےلئے مناسب نہ تھی۔جی ہاں !جو انسان صبح و شام اللہ کی عبادت کرتا ہو اور اس نے اپنی زندگی راہ حق میں جہاد کےلئے وقف کر رکھی ہو وہ اس طرح کے گناہوں میں نہیں پڑسکتا ۔اس لئے( ہم نہیں جانتے )کہ شاید وہ ان باتوں پر استغار کرتےاور گڑگڑاتے تھے جو ان کے دل یا خیال میں آتے تھے۔جس طرح ہم دین کے معاملات میں حسن بصری سے آگے نہیں بڑھ سکتے ،اسی طرح ہم گناہوں میں بھی ان سے کم نہیں ،سو اگر ان کی ہر رات کی دعاؤں کو ایک ایک رات میں دو دوبار بھی پڑھیں تو یہ کم ہے ۔

اسی طرح انسان پر لازم ہے کہ اس دعا اور تضرع اور عاجزی کے اختتام پر آنحضرت ﷺپر درود وسلام پڑھے ،جو مقام استغفار پر اس کے دل سے زبان پر آتی ہے اور آغاز بھی درود وسلام سے کرے کیونکہ اس دعا سے زیادہ قبولیت کے قریب کوئی دعا نہیں ہو سکتی جو دو مقبول دعاؤں (درود شریف) کے درمیان ہو ۔پس آدمی پر لازم ہے کہ دعا کے اختتام پر بھی بنی کریم ﷺ پر ایک بار پھر درودو سلام پڑھے تاکہ اس کی استغفار دو مقبول دعاؤں کے درمیان اڑتی ہوئی معراج قبولیت تک جا پہنچے ۔

آخر میں میں، عرض کرتا ہوں کہ استغفار کے مقام پر کیا جانے والا ہر لفظ سمجھ اور شعور کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ جو الفاظ بے سمجھے غفلت میں کہے جاتے ہیں، وہ حق تعالیٰ کی بے ادبی ہیں اور جھوٹ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ ایسا ہر لفظ دل کی گہرائیوں سے نکلے اور ہر لفظ جہاں سے بھی گزرے اپنا نشان چھوڑ جائے ،یہاں تک کہ انسان کے لئے ضروری ہے کہ جب وہ اس سمجھ کے ساتھ اپنی اندرونی کیفیت کو حق تعالیٰ کے حضور پیش کرکے اس سے مغفرت کا طالب ہو تو وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے تلملا اٹھے، ندامت اور حسرت کی وجہ سے اس کے رونگھٹے کھڑے ہوں اور ایسا ہو جائے کہ گویا اس کے دل کی حرکت بند ہونے کو ہے ۔