دائرے کے مرکز اور محیط کے درمیان خطِ مستقیم
سوال: یہ حقیقت ہے کہ دائرے کے مرکز میں کسی بھی خلل کے وقوع سے اس کے محیط میں وسیع تر خلل پیدا ہوجاتا ہے۔ پس وہ کون سے بنیادی ضابطے ہیں جن پر عمل ان لوگوں کے لئے ضروری ہیں جو مرکزی مقام پر ہوتے ہیں؟
جواب: جو بھی شخص مثالی اور اعلیٰ افکار پیش کرنے میں پہل کرے گا اس کے تمام تصرفات کا حساب رکھا جائے گا کیونکہ اس کے متبعین اس کے نقش قدم پر چلیں گے۔ پس اگر وہ قائدین سیدھے رستے پر ہوں گے تو ان کے متبعین بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صراط مستقیم پر ہوں گے اور وہ غلطی پر ہوں گے (اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے) تو وہ غلطیاں بھی ان کے پیروکاروں میں زیادہ ہوجائیں گی اور جراثیم کی طرح جلدی پھیل جائیں گی۔
عمومی حقوق
افسوس کی بات ہے کہ احیاء اسلام کی قدیم اور جدید تحریکوں کے دوران جن لوگوں نے قیادت سنبھالی ان میں سے بعض اپنے مقام کا حق ادا کرنے سے قاصر رہے ، چنانچہ وہ زبان کی کچھ لغزشوں اور فکری انحراف اور بنا سوچے سمجھے اور جلد بازی میں دئے جانے والے بیانات کی وجہ سے لغزش کا شکار ہوگئے اور اپنے مقصد سے ہٹ گئے، چنانچہ جب ان امور کا عکس ان کے پیروکاروں پر پڑا تو اس سے زبردست تباہی نے جنم لیا کیونکہ ایسا بھی ہو چکا ہے کہ ایک درشت لفظ، ایک غیر مہذب عمل بلکہ نامناسب انداز سے آواز کو اونچا کرنااور ماتھے پر شکن ڈالنا دوسروں کے دل میں ایسا بغض اور عناد پیدا کرنے کا باعث بن گیا کہ اس کی تلافی ناممکن ہوگئی اور اس موقف نے زبردست تباہی کا سامان کردیا ۔ اگرچہ ان لوگوں کے پیروکاروں نے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ صرف ان قائدین کی تقلید کی ہے۔ اس قسم کی غلطیاں کبھی بھی واپس اپنی جگہ نہیں جاسکتیں بلکہ پیروکار اپنے اپنے مزاج اوراحساس کے مطابق ان کی تاویلیں پیش کرنے لگتے ہیں اور وہ غلطیاں کئی گنا بڑھ کر معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر تی ہیں۔ اس لئے جو بھی شخص سربراہی کے مقام پر ہو (خواہ اس کا درجہ کچھ بھی ہو) اس پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے تصرفات اور برتاؤ کے بارے میں نہایت چوکنا اور حساس رہے۔
میں جب ماضی پر نظر ڈالتا ہوں اور اپنی زندگی کے سفر کو یاد کرتا ہوں تو مجھے بہت سے ایسے عُقدے نظر آتے ہیں جن کو ماضی کی روشنی میں حل کرنا ضروری ہے ۔ یہاں تک کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے لئے ضروری ہے کہ میں ان میں سے ہر ایک بارے میں کہوں کہ : ’’ کاش ایسا نہ ہوا ہوتا بلکہ یوں یوں ہو جاتا!‘‘ لیکن مجھے یقین ہے کہ ماضی میں گزر جانے والے واقعات کے بارے میں اس قسم کی تمناؤں سے معاملے کو درست کرنے میں قطعاً کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
اصل بات ہے کہ انسان اپنے تصرفات ،برتاؤ، الفاظ اور حرکات کو اس طرح منضبط کرلے کہ اسے ان کی تصحیح کی ضرورت پیش آئے اور نہ ایسی تمناؤں میں پڑے جو وقت گزرنے اور موقع ہاتھ سے نکل جانے کے بعد کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں۔ اسے اس اصول کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے۔ دوسری جانب یہ بات ناممکن ہے کہ ایک انسان کی عقل اس کام کے لئے کافی ہو جائے ۔ اس لئے انسان کو چاہئے (اور خصوصاً اس کو جو قائدانہ مقام پر ہو) کہ وہ ہر بات اور ہر معاملے میں دوسروں سے مشورہ لے۔ جی ہاں، ان پر لازم ہے کہ ہر کام کے لئے مشاورتی کمیٹیاں بنائیں اور کوئی بھی فیصلہ ان کمیٹیوں کی مشاورت کے بغیر نہ کریں، جی ہاں ہمارے پاس ہمیشہ رہنے والے بنیادی مآخد اور موروثی اقدار موجود ہیں،لیکن ان کی شرح ، تحلیل اور اپنے زمانے کی ضروریات کے مطابق تطبیق کے لئے اجتماعی عقل کی جانب رجوع ضروری ہے۔
یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جس تحریک کا اعلیٰ ترین ہدف لوگوں کو حق اور حقیقت سے روشناس کرانا ہے اس سے عمومی حق بھی متعلق ہے ۔ اس لئے اس بارے میں کوئی بھی کوتاہی عمومی حق پر ظلم ہوگی جبکہ اسلامی فقہ میں عمومی حق، حقوق اللہ میں شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی بھی غلطی حقوق اللہ میں غلطی ہوگی بلکہ یہ رسول اللہ ﷺ اور ان لوگوں کی بھی حق تلفی ہے جو ہم سے پہلے یہ خدمت کر چکے ہیں اور ان اہلِ خدمت کی بھی حق تلفی ہے جو اسی رستے پر ہمارے ساتھ شریکِ سفر ہیں۔
انسان کی اپنی خواہشات کی مخالفت
مشورہ لینے کا مطلب (ایک طرح سے )انسان کا اپنی خواہش کے مخالف چلنا ہے لیکن خواہش کی مخالفت کسی بھی طرح نقصان اور خسارہ نہیں بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے،کیونکہ بعض اوقات انسان خواہش کی مخالفت اور اس کی پیروی ترک کرکے فائدہ اٹھاتا ہے اور کبھی اپنی عقل و دانش پر اعتماد کرکے نقصان سے دوچار ہوجاتا ہے۔
نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’ سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تعالی اس دن اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا ‘‘ (النجاری، الاذان:36 ،مسلم، الزکاۃ:91) اس کے بعد ان سات آدمیوں کی فہرست میں اس حکمران کو سرفہرست ذکر فرمایا جو عدل اور حق کے ساتھ حکمرانی کرے اور فرمایا’’ امام عادل‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ حاکم کی جانب سے عدل بڑا مشکل کام ہے کیونکہ جو شخص کسی معاشرے کا سربراہ اور قوت کا نمائندہ ہواور قوم کی توانائیوں پر تصرف کرتا ہو، اس کی جانب سے عدل و استقامت اور حق اور مروت اور انسانیت کی پابندی، نفس کی مخالفت کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے ۔
فخر انسانیت ﷺ ایک اور حدیث شریف میں فرماتے ہیں: ’’ تین آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے بات کرے گا نہ قیامت کے دن ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا: زنا کرنے والا بوڑھا، جھوٹا بادشاہ اور تکبر کرنے والا فقیر‘‘۔ (مسلم، الایمان:172)
اس حدیث شریف میں بعض سلبی ما>لوں پر زور دیا گیا ہے مثلاً زنا سب کے لئے حرام ہے لیکن اگر اس کا ارتکاب ایسا شخص کرے گا جو عمر رسیدہ ہے اور جس کے بارے میں فرض کیا جاتا ہے کہ وہ دنیا سے منہ موڑ لے، تو یہ گناہ کے اوپر دوسرا گناہ ہے ۔ ایسا شخص یہ کہے جلانے کے لائق ہے کہ ’’ شرم آنی چاہیے! اے بے شرم آدمی عمر گزار چکے!اگر لوگوں سے نہیں حیا کرتے تو لوگوں کے رب سے تو حیا کرو!‘‘
حدیث شریف میں جس دوسرے گروہ کو وعید سنائی گئی ہے وہ: وہ سلاطین ہیں جنہوں نے جھوٹ کو اپنا وتیرہ اور مزاج بنا لیا ہے ۔ اگر چہ جھوٹ سب لوگوں کے لئے حرام ہے لیکن جب اس کا صدور لوگوں پر حکمرانی کرنے والے حکمران کی جانب سے ہوتو اس کا گناہ دوگنا ہے۔
ان میں سے تیسرا آدمی جس سے اللہ تعالیٰ روگردانی فرمائے گا ، تکبر کرنے والا فقیر ہے ۔ ایک ترکی ضرب المثل ہے ’’ گھر میں کھانے پینے کو کچھ نہیں،مگر پھر بھی اکٹر نہیں جاتی۔‘‘ ایسا شخص بھی اس قابل ہے کہ اس سے کہا جائے: ’’ارے کس بات پر اتراتے ہو؟ !‘‘ اس برتاؤ میں ایسا خطرناک انحراف ہے جس سے گناہ دوگنا ہوجاتا ہے جبکہ حدیث شریف میں مفہوم مخالف کے اعتبار سے ایسی توانگری کی فضیلت بھی بیان کی ہے جس میں تواضع ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کا عکس یہ ہے کہ آدمی اپنی خواہش کے خلاف چلے۔
پس پہلی حدیث شریف میں نفس کو دبانے کی فضیلت آئی ہے جبکہ دوسری میں اس شخص کی مذمت آئی ہے جو اپنی خواہشات کا اسیر رہتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہنم کو جسمانی اور نفسیاتی خواہشات کے پردوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے ۔ اس لئے اگر انسان خواہشات کو کھلی چھوٹ دے گا تو اس میں گر جائے گا جبکہ دوسری جانب جنت کو ناپسندیدہ چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے ۔ اس لئے وہاں تک پہنچنے کا رستہ انسان کی جانب سے اپنے بشری مزاج کی مخالفت اور نفس پر غلبہ سے ہو کر گزرتا ہے۔
’’مشورہ لینے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا‘‘
آنحضرت ﷺ نے فرمایا:’’ مشورہ لینے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا۔‘‘(الطبرانی، العجما الکبیر:ج ۶ ص ۲۳۶)۔ اس لئے جس شخص کو نقصان اور ناکامی کا ڈر ہو اسے دوسروں سے ان معاملات پر بھی مشاورت کرنی چاہیے جن کو وہ خود حل کرسکتا ہے۔
میں نے ذاتی طور پر اپنی ساری زندگی لوگوں سے مشورہ لینے کی کوشش کی ہے خواہ وہ معمولی کاموں کے بارے میں ہی کیوں نہ ہوں، جب مجھے رات کو کوئی کام پیش آ جاتا ہے تو اگر مجھے یہاں کوئی آدمی مشورے کے لئے دستیاب نہ ہو پھر بھی میں بعض بھائیوں سے رابطہ کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ :’’ یہ یہ مسئلہ ہے ، براہ کرم اس کے کچھ متبادل حل پیش کریں!‘‘ جبکہ اس بات سے مجھے آج تک کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا کیونکہ اگر ہم غلطی کریں گے تو سب مل کر کریں گے ،یعنی سب مل کر غلطی قبول کریں گے اور جب اللہ تعالی کے حضور پیش ہوں گے تو کہیں گے:’’ اے ہمارے رب !ہم نے آپس میں گفتگو اور مشورہ کیا مگر اس میں درست بات تک نہ پہنچ سکے ۔ہمارے بس میں یہی ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ ہم سب کی عقلیں مل کر بھی اس کی قدرت نہیں رکھتیں۔
بعض لوگوں کا موقف یہ بتاتا ہے کہ ان کے پاس کوئی موروثی تجربہ ہے جس کی وجہ سے وہ یہاں تک کہتے ہیں: ’’ میں اس مسئلے کے بارے میں تجربہ رکھتا ہوں ‘‘ لیکن اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی ایسا آدمی آسکتا ہے جو معاملات کو مخروطی اور شمولی انداز میں دیکھے اور عامیانہ نظر ڈالنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ دوسروں سے اپنے تعلق کو بھی نظر میں رکھے ۔ علاوہ ازیں بعض کامیابیاں ایسی بھی ہوسکتی ہیں بعض لوگ ذاتی طور پر ان کو کہ اچھا سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ اچھی نہ ہوں کیونکہ کون جانتا ہے کہ وہ مصلحت موہوم ہو۔
جی ہاں، جو شخص یہ کہتے ہوئے اپنے فیصلے اور کلام کے عقل کے مطابق ہونے کا گمان کرتا ہے کہ ’’ میری رائے کے مطابق‘‘ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حقیقت میں بھی عقل کے مطابق ہے کیونکہ عقل کے مطابق کام کرنے والا آدمی ’’ ذاتی رائے‘‘ کا غلام نہیں ہوتا جبکہ وہ ایسی حقیقت ہوتی ہے جس کو عقل مشترک قبول کرتی ہے اور عقل کے مطابق ہونا وہ حقیقت ہے جس کو قرآنی عقل اور منطق (جیسے کہ ’’محاسبی‘‘ کا قول ہے ) قبول کرتی ہے۔ اس لئے اگر انسان اپنے افکار کی معقولیت معلوم کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اس بات کو قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھے کیونکہ اگر اس طریقہ کار سے غفلت برتی گئی تو اس بات کا احتمال ہے کہ اس کے وہ افکار جن کو وہ معقول سمجھتا ہے، درحقیقت ایسے الفاظ ہوں جو خواہش نفس کی پیداوار ہوں۔ قرآن کریم اس آیت شریفہ کے ذریعے جو ہم کئی بار روزانہ پڑھتے ہیں ((إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ)) (الفاتحہ:5) (اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں) یہ رہنمائی کرتا ہے کہ ہم ’’ نحن‘‘ (ہم ) کا لفظ کہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ انسان انفرادی عبادت سے نجات نہ پا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی نجات کا کسی ایک رخ سے کسی خاص رستے پر چلنے والے اس کے بھائیوں سے حقیقی اخوت کو ثابت کرنے اور اس کی نیکیوں کے ترازو کو ان کی نیکیوں کے ذریعے جھکانے سے ہی ہوسکتا ہے۔ اسی بنیاد پر ادارتی امور چلانے والوں کی جانب سے غلطی سے دور اور درستگی کے قریب تر نتیجہ حاصل کرنے کا تعلق ’’ہم‘‘ اور مشترک عقل اور سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے سے ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ خدمت میں اضافے اور ترقی کے لئے ضروری ہے کہ قائدین اپنی خواہشات کو دبائیں اور یہ کہنے سے بچیں کہ ’’میرے لئے میری عقل اور رائے کافی ہے۔۔۔‘‘ اس کے بعد اپنے تمام اقوال اور فیصلو ں کو ایک منہجی فکر کی جانب لوٹائیں ۔ جی ہاں (جیسے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حاکم ’’عادل‘‘ ہو ، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے احباب کی آراء کی قدر کرے، ان سے مشورہ لے اور جب ضرورت ہو اپنی رائے کو ترک کردے۔ اسی طرح اس پر لازم ہے کہ وہ اس طریقے سے اس بات کو تلاش کرے جو معقول اور منطقی ہے کیونکہ جب معاملات کوبحث و تمحیص کے لئے کسی کمیٹی کے حوالے کیا جائے گا تو بحث مباحثے اور تبادلہ خیال سے حقیقت ظاہر ہوجائے گی اور اس طرح غلطیوں پر قابو پایا جا سکے گا ورنہ اگر معاملات کو کسی بھی میدان میں ذاتی رائے پرچھوڑکر اس پر کام کی بنیاد رکھ دی جائے تو غلطیوں سے بچنا ناممکن ہے۔
- Created on .