حقیقی کامیابی اور روحانی مرتبےکی حفاظت
سوال: جب ہم تعلیمی تحریک کے رضاکاروں کی تعلیمی اور تربیتی سرگرمیوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ انہوں نے علوم کے میدانوں میں بڑی اچھی کامیابیاں حاصل کرلی ہیں۔ لیکن کیا اسی مرتبے کے مطابق اچھے انسانی اوصاف اور قربانی کی روح کے حصول کے میدان میں بھی ایسی کامیابی سے ہمکنار ہوسکی ہے؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو اس کے کیا اسباب ہیں؟
جواب: جن کاموں کو پذیرائی ملی ہے ان کے پیچھے بہت سے معلوم اور بہت سے نامعلوم عوامل شامل ہیں،مثلاً متطم کام، اچھی کارکردگی،سنجیدہ عزیمت، محنت، ثابت قدمی اور اجتماعی شعور اور مشاورت پر قائم کام جیسے عوامل ۔۔۔ اس مسئلے کا ظاہری اور نظر آنے والا چہرہ ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں کچھ کام ایسے ہیں جن کا تعلق انسان کی نیت کے ساتھ ہے جس کے بارے میں دوسروں کے ذریعے کسی یقینی حکم تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ مثلاً ہم لوگوں کی کامیابیوں کے بارے میں ان کی نیت کو نہیں جان سکتے کہ وہ دکھاوا کررہے ہیں ،یا ان کے وہ کام ذاتی منتک کے لئے ہیں یانہیں ۔اسی طرح ہیں اللہ تعالی سے ان کے ذاتی تعلق کا درجہ بھی معلوم نہیں کرسکتے کیونکہ ہم ظاہری امور پر حکم لگانے کے مکلف ہیں اور ہم پر لازم ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں حسن ظن سے کام لیں۔ اس لئے ہم ان کامیابیوں کے مندوبین کے بارے میں سچائی کا گمان رکھتے ہیں اور جس چیز کی بھی حقیقت تک ہماری رسائی نہیں ہوسکتی ہو وہاں اس زجر کو یاد رکھتے ہیں: ’’ افلا شققت عن قلبہ‘‘ (مسلم،الایمان:158، ابوداود ،الجہاد:104) (تم نے اس کا دل کیوں نہ چیر لیا؟) اور دوسروں کی نیتوں کے بارے میں رائے دہی سے بچتے ہیں کیونکہ نیت کا معاملہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہے اور یہ ہمارے احکام کا موضوع نہیں۔ اگر اس بارے میں ہمارے دل میں کوئی شبہ پیدا ہوجائے تو ہم یہ دعا کریں گے: ’’ اے اللہ اے سال اور احوال کو بدلنے والے ،ہماری حالت کو سب سے اچھے حال میں تبدیل فرمادے۔‘‘
اگر ہم تعلیم و تربیت کے رضاکاروں کی کارکردگی اور اس کارکردگی کے تسلسل پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ کام اس قدر آسان نہیں،مثلاً اس کے لئے بڑے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اور بڑا صبر کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے یہ گمان کرنا بڑا مشکل ہے کہ یہ کام ریاکاری، فخر اور دکھاوے کے لئے کئے جارہے ہیں اور جو شخص خدمت سے وابستہ اور اپنے ملک سے دور لوگوں کو پیش آنے والی مشکلات کو دیکھے گا تو یقین کرلے گا کہ ان خدمات کے پیچھے ایک زبردست ایمان اور قدرتی جذبہ کارفرما ہے۔ اس لئے جب ہم اس مسئلے کو علم و معرفت کے رستے میں انجام دی جانے والی خدمات کی خاطر پیش آنے والی مشکلات کی روشنی میں پرکھتے ہیں اور ظاہر پر حکم لگانے اور دوسروں سے حسن ظن رکھنے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں تو پھر ہمیں یہ یقین کرلینا چاہیے کہ ان خدمات میں مصروف لوگ مخلص اور سچے ہیں۔
امانت اور احساس ذمہ داری
یہ لوگ مثال کے طور پر دنیا کے گوشے گوشے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کو عطا کردہ اچھی عادتوں اور خصوصیات کی نمائندگی کرتے ہوئے ’’سلامتی اور برداشت‘‘ کے جزیرے قائم کرنا چاہتے ہیں،وہ دل کی زبان اور حال کے لہجے کو استعمال کرتے ہیں اور مختلف ثقافتوں اور نظریات کے درمیان گفتگو کے پل قائم کرنا چاہتے ہیں اور جس طرح کچھ لوگ ارضیاتی حادثات کے مقابلے اور ان کے پھیلاؤ کو روکنے اور انسانوں کو نقصان پہنچائے بغیر پلٹ جانے کے لئے بند تیار کرتے ہیں ، حق کی خاطر اپنی روحوں کو وقف کرنے والی یہ روحیں بھی انہیں کی طرح کام کرتی ہیں۔ چنانچہ وہ جہالت اور تعصب کی وجہ سے مختلف گروہوں اور ثقافتوں کے درمیان پیدا ہوسکنے والے ٹکراؤ اور کشمکش کو روکنے کے لئے تعلیم اور گفتگو کی سرگرمیوں میں مصروف رہ کر ایسی رکاوٹیں تیار کرتے ہیں جو ان منفی اثرات کو پھیلنے سے روکتی ہیں جن کو عام لوگوں کی نفسیاتی حالت مزید ایندھن فراہم کرتی ہے۔ اس لئے جن لوگوں نے اپنے آپ کو ایسی مہم کے لئے وقف کردیا ہے ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو روحانی طور پر اسی طرح تیار کریں جس طرح مادی طورپر کرتے ہیں تاکہ وہ اس بھاری امانت کا بوجھ اٹھا سکیں ۔ جی ہاں ، ان لوگوں کا اللہ پر ایمان اور توکل انتہائی قوی ہونا چاہیے تاکہ وہ حوادث سے دوبدو ہوتے وقت جان لیں کہ ساری توفیق اور کامیابی اللہ کی جانب سے ہوتی ہے اور منفی امور ان کی کوتاہیوں کے بڑھ جانے کی وجہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں ، لیکن دوسروں کے لئے ان کے بارے میں یہ کہتے ہوئے بدگمانی کرنے کی گنجائش نہیں کہ : ’’ یہ منفی امور صرف اور صرف ان غلطیوں کا نتیجہ ہے جن کے وہ مرتکب ہوئے ہیں‘‘ مگر انسان پر لازم ہے کہ وہ یہ جان لے کہ وہ اس مصیبت کا سبب بنتا ہے جو اس پر آتی ہے خواہ وہ روحانی ہو یا مادی،قرآن کریم کی کئی آیات اور صحیح احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں۔
نیت کی درستگی : کام کی بنیاد
جس طرح انسان کی غلطیوں اور اس کے ظاہری مادی عیوب سے بہت سی منفی باتیں پیدا ہوتی ہیں،اسی طرح بعض غلط اخلاق جیسے بدنیتی، ذمہ داری میں خیانت، خواہشات نفس کی طرف میلان اور ذاتی مصلحتوں کی پوجا،بھی قدرت الٰہی کی جانب سے اس کی سزا اور بڑی حد تک ناکامیوں کا سبب بنتی ہے ۔ جی ہاں، روحانی عوامل بھی اپنی تاثیر یعنی واقعات کے پیش آنے اور نہ آنے میں مادی عوامل کی مانند ہیں اور یہ نتائج تبدیل نہیں ہوسکتے کیونکہ ماوراء الطبیعیات کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ۔ اس لئے ہم جن واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں ، حقیقت واقعہ میں وہ ان واقعات کا عالم اسباب کارخ ہوتا ہے۔ مثلاً زمین میں بیج ڈالنا، عالم طبیعیات کا واقعہ ہے، لیکن کچھ ایسے اسباب بھی موجود ہیں جن کا زمین کے پھٹنے میں اثر ہے تاکہ بیج کی چھوٹی سی کونپل اس سے باہر نکل سکے۔ ہم صرف زمین،پانی اور سورج کی شعاعوں کو دیکھتے ہیں لیکن بیج کے اندر پوشیدہ اگنے کی قوت کو نہیں دیکھ سکتے بلکہ ہم اس ہوا کو بھی نہیں دیکھ سکتے جو اس کی پرورش پر اثر ڈالتی ہے حالانکہ ہوا عالم اسباب میں موجود ہے۔ یہاں بھی اسی طرح کہو کہ انسان اور معاشرے کو پیش آنے والے واقعات کے بھی کچھ پہلو روحانی اور کچھ پہلو مادی ہوتے ہیں ۔ اس لئے پختہ عزم،اصرار ،نیک اعمال کی پابندی، اخلاص،سچائی،وفاداری،مزاحمت اور کوشش، اعلی اور مثالی اہداف اور حق تعالیٰ کے ارادے اور مشیئت کو تسلیم کرنا،سب کے سب ایسے روحانی اسباب ہیں کہ خوش کن نتائج حاصل کرنے میں ان کی تاثیر تمام مادی اسباب سے بڑھ کر ہوسکتی ہے۔ مثلاً کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس ایسے مثالی خواب اور افکار ہیں جو زمانہ طفولیت سے ان کے ذہن میں ہیں اور وہ ان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالی کس طرح ان کی خواہش کو قبول فرمائے گا اور اس کےلئے رستہ ہموار کرے گا اور ان افکار کے مالک کو وہ وسائل فراہم کرے گا جن کے ذریعے وہ انہیں اچھے کاموں کی شکل میں پورا کر دے گا۔ کبھی کبھی معاملہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے ،مطلب ہے کہ برے خیالات،غلط ا رادے اور پوشیدہ مصلحتوں پر مشتمل سرگرمیاں، حسد اور غیبت وغیرہ ان میں سے ہر ایک مؤثر سبب ہے جس سے منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر نبی کریم ﷺ سے مروی ہے : ’’حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ ایندھن کو۔‘‘( سنن ابی داود ، الادب :53) آپ علیہ السلام اس جانب اشارہ فرما رہے ہیں کہ حسد ایک بہت بڑی مصیبت ہے جو تمہارے نیک اعمال کو کھا جاتی ہے۔ مثال کے طور پر حسد اور کینہ اور رد عمل کسی آدمی کو اس لئے ایک اسکول بنانے پر ابھار سکتا ہے کہ اس کے ذریعے ان لوگوں کا رستہ روکے جن کو وہ پسند نہیں کرتا۔چنانچہ اس لئے اس کے اس پوشیدہ منفی احساس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کا اسکول روحانی اور مادی طورپر جل جاتا ہے یعنی اللہ تعالی نے اس کی بدنیتی کی وجہ سے اس پر اس کو سزا دے دی لیکن جو لوگ حسد اور بغض کے بھنور میں جا پڑے ہیں، وہ ان روحانی اسباب کو نہیں سمجھ سکتے۔
اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ روحانی اسباب بھی توفیق الٰہی کے حصول کے لئے مادی اسباب جتنی اہمیت کے حامل ہیں۔ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی فرماتے ہیں:’’ جو لوگ ہر شےمادے میں تلاش کرتے ہیں ان کی عقلیں ان کی آنکھوں میں ہوتی ہیں جبکہ روحانیت کی آنکھ اندھی ہوتی ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ انسان یہ فراموش نہ کرے کہ واقعات کے ایک رخ کا تعلق بصیرت اور ایک کا آنکھ سے ہوتا ہے جبکہ بصیر ت کی بنیاد ایمان، ادراک،احساس،اللہ تعالی کی معرفت، الہام اور واردات پر ہوتی ہے۔ اس لئے ان امور سے تجاہل نہیں برتا جاسکتااگرچہ ان میں سے بعض کا ادراک نہ بھی کیا جاسکے کیونکہ کچھ ایسے ماہر لوگ موجود ہیں جو ان کو سمجھتے ہیں اور یہ معاملات ان کے ہاں کسی بھی ایسے مادی عنصر کی طرح ہیں جس کو انسان اپنے ہاتھ سے گاماتا ہے۔
جن لوگوں نے اپنی زندگی کو راہ خدا میں وقف کردیا ہے ان کو چاہئے کہ وہ ان روحانی اور مادی اسباب کو اچھی طرح جان لیں جو توفیق الٰہی تک پہنچاتے ہیں اور اول سے آخر تک ان کی حدود کو پہچانیں تاکہ ہمیشہ حقیقی کامیابی حاصل کرسکیں۔ مطلب یہ ہے کہ راہ خدا میں اپنے آپ کو وقف کرنے والوں پر لازم ہے کہ ان کا روحانی مرتبہ بھی اس طرح پوری طرح تیارہو جس طرح ان کی مادی تیاری نے ان کو دنیا کے گوشے گوشے میں منصوبے شمار کر نے اور سکول اور جامعات کھولنے جیسے منصوبوں پر غور و فکر کرنے کے قابل بنایا ہے۔ یہ سب باتیں صلاحیت والے دلوں میں داخل ہوجاتی ہیں جہاں ان پر ان الہامات کا رنگ چڑھتا ہے جو ان کی روحوں نے الہام سے حاصل کئے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں منفی واقعات کے مقابلے میں ثابت قدمی اور اللہ تعالی کی مدد اور مشیئت سے اکتاہٹ کے بغیر آندھیوں کا مقابلہ کرنا، یہ سب کچھ روحانی اسباب کی قیمت جاننے سے مربوط ہے۔
مرتبے کو برقرار رکھنا
وہ روحانی لوگ جو اس راہ میں ہر دن کئی بار جہاد کرتے ہیں اور اپنے نفس کے غلط خیالات پر بھی محاسبہ کرتے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے اور اپنے بھائیوں کو وقتاً فوقتاً دوبارہ تیار کرتے رہیں، ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا روحانی مرتبہ برقرار ر کھیں کیونکہ اس کو برقرار رکھنے کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی اس تک پہنچنے کی ہے کیونکہ بعض اوقات انسان ایسے روحانی مقامات تک تو پہنچ جاتا ہے جہاں اسے وجود کا ایک مختلف شعور حاصل ہوتا ہے، وہ اسے مختلف دیکھتا اور مختلف انداز سے محسوس کرتا اور بالکل مختلف طریقے سے پرکھتا ہے اور احسان کے شعور کے ساتھ کام کرتا ہے اور ہمیشہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ تعالی اسے دیکھ رہا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ احساس اور شعور باقی رہے کیونکہ اس میں انقطاع سے بعض اوقات بڑی اہم کامیابیاں ضائع ہوجاتی ہیں ۔ جی ہاں، بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو حاصل ہوجاتی ہیں مگر جوں ہی ان کو مہمل چھوڑا جاتا ہے وہ ختم ہوجاتی ہیں۔ اس لئے روحانی مرتبے کو اسی طرح برقرار رکھنا چاہئے جس طرح اس تک پہنچنے کے لئے کوشش کی جاتی ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اگر مادی اسباب کے لحاظ سے آپ کے پاس بہت سے وسائل ہوں بلکہ اگر تمہارے پاس فضا کی نگرانی کے لئے سٹیلائٹ بھی آجائیں تو یہ سب کچھ اللہ تعالی کی خوشنودی تک پہنچنے کا ایک رخ ہے اور یہ جان لو کہ تمہارا اصل اور قوی رخ اللہ تعالیٰ کی طاقت اور قوت پر اعتماد اور بھروسہ اور اس سے اپنے قوی تعلق پر استقامت اور اسے مزید مضبوط کرنا ہے ۔ اس لئے راہ خدا میں اپنے آپ کو وقف کرنے والے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ہمیشہ یہ حقیقت ایک دوسرے کو یاد دلائیں اور اس بنیاد پر اپنی زندگی کو ترتیب دیں۔
- Created on .