اعمال میں کمال

اعمال میں کمال

وال: حق تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ﴿اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا﴾ (المائدہ:3) (آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمتیں پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کو کمال اور تمامیت کے ساتھ جوڑا ہے۔ اس مطلوبہ اکملیت (کامل ہونا ) اور تمامیت (تام ہونا) کا تعلق کن امور سے ہے؟

جواب: اسلام کچھ ایسی کامل اور مکمل اقدار کے مجموعے کا نام ہے جن میں کمی کوتاہی کا کوئی شائبہ نہیں۔ اس لیے یہ تمام معاشروں کی ضرورتوں کو پورا کرسکتے ہیں خواہ ان میں کتنا ہی تنوع کیوں نہ ہو اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اس لحاظ سے اس آخری دین کے پیروکاروں پر لازم ہے جو کمال اور مکمل ہونے کے اس مرتبے پر فائز ہے، کہ وہ بھی ہر شے میں کمال اور تمامیت کو تلاش کریں یعنی ا پنی ذمہ داری اور فرائض کو ادا کرنے میں باریک بینی اورکمال کا خوب خیال رکھیں تاکہ (پورے اور کامل مفہوم کے مطابق) ان جمالیات کے بہترین اور اعلیٰ نتائج حاصل کرسکیں جن کا ان کے دین نے وعدہ کیا ہے۔ یہ ہے رضائے الہٰی کا مرتبہ اور یہ آیت کریمہ اس بارے میں بالکل واضح ہے۔

ہرغلطی اور ناکامی میری وجہ سے ہے

رضاکے اس مرتبے تک رسائی کئی شرائط پر موقوف ہے۔ ان میں پہلی شرط یہ ہے کہ انسان کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ صلاحیتوں اور وسائل کو پوری طرح مثالی اور مکمل طورپر کام میں لانے کے لیے صاف نیت اور پختہ عزم ہونا چاہیے۔ مثلاً بعض  لوگوں کے پاس اچھی آواز ہوتی ہے، بعض کو رہنمائی اور ادارتی امور میں مہارت ہوتی ہے، کچھ لکھنے  پڑھنے  میں ماہر ہوتے ہیں اور کچھ خوبصورت بات کرنے میں۔۔۔ اس لیے ہر شخص کو خواہ اس کی صلاحتیں کچھ بھی ہوں، ان صلاحیتوں کوانتہائی حد تک استعمال میں لاناچاہیے تاکہ وہ ان کے ذریعے حق اور حقیقت کی تبلیغ کرسکے اور اگر کچھ غلطیاں اور عیب نظر آجائیں تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے عیوب کو دیکھے دوسروں کے عیوب کو نہیں اور اس غلطی اور عیب کو اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے ان کی تلافی کا کوئی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرے۔

اس شخص پر لازم ہے کہ جس نے اپنے آپ کو ایمان اور قرآن کی خدمت کے لیے وقف کردیا ہے (خواہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں سے کسی بھی شعبے میں ذمہ داریاں ادا کررہا  ہو)  کہ وہ اپنے آپ کو اس کام کے درجہ کمال تک نہ پہنچنے کا ذمہ دارسمجھے اور جو بھی مشکل پیش آئے اسے اپنی طرف منسوب کرے۔

سچی بات یہ ہے کہ اگر انسان اپنے دل میں یوں کہے کہ:’’میں اپنی ذمہ داری کو پوری طرح ادا نہیں کرسکا اورمیں نے اس کو ادا کرنے  میں کوتاہی کی جس کی وجہ سے وہ مثالی انداز میں تسلسل کے ساتھ اپنے مطلوبہ نتائج نہ دے سکی اور اس کا سبب وہ غلطیاں ہیں جن کا میں مرتکب ہوا ہوں‘‘،  اس کے ان الفاظ کے ضمن میں توبہ ،انابت اور اس کے دل اور احساسات کی گہرائی کے برابر اللہ کی جانب رجوع بھی ہے اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے دکھی دل کی دعا ضرور قبول فرماتا ہے اور (اگرچاہے گا) تو اس پر مزید فضل و کرم بھی فرمائے گا تاکہ وہ ان غلطیوں کا ازالہ کرسکے۔

اگر انسان اپنے تمام اعمال کو چشم کمال سے دیکھے اور یہ سمجھے کہ اس کے تمام افعال کمی کوتاہی سے محفوظ ہیں اور اس کے منصوبے اور پروگرام باریک بینی کے ایسے درجہ کمال تک پہنچے ہوئے ہیں کہ وہ ان کے ذریعے آسمانوں کو بھی دریافت کرسکتا ہے، اس کے بعد وہ ساری غلطیوں کی ذمہ داری اپنے ارد گرد ان لوگوں پر ڈال دے جو اس کی بات پر کان دھرتے ہیں، اس کو سمجھتے ہیں اور نہ اس کی مانتے ہیں، تو یہ بات بعینہ فرعون کے ہذیان کی طرح ہے: ﴿أَنَا رَبُّكُمُ الأَعْلَى﴾ (النازعازت: 24) (سو لہنے لگا کہ تمہارا سب سے بڑا مالک میں ہوں) مگر اس نے الفاظ ذرا مختلف استعمال کئے ہیں۔

جی ہاں ، انسان کے اعمال اور اس سے سرزد ہونے والی غلطیوں اور کوتاہیوں پر محاسبہ میں تناسب راست ہونا  چاہئے اور جوں جوں کسی منصب کی ذمہ اریوں میں اضافہ ہو، اسی کی نسبت سے محاسبے میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے جیسے ایک دوسرے سے ملے ان دائروں میں اضافہ ہو جن کے اندر انسان کام کرتا ہے، ویسے ہی اس کو چاہیے کہ ان دائروں میں سے کسی میں بھی واقع ہونے والی غلطی اور ناکامی کو بھی اپنی طرف منسوب کرے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کے اندر اسباب  تلاش کرے ا ور اس سب کی ذمہ داری اس کے اوپر ڈالے کیونکہ اس کا نفس حق تعالیٰ شانہ سے اپنے تعلق کو مضبوط نہیں کرسکا اور اس لیے کہ اس نے اسلام کو اپنے تمام گوشوں میں محسوس نہیں کیا اور ان ضوابط کو نہیں سمجھا جو سید ا لانام ﷺ نے بتائے ہیں، اس نے ان حالات کا اندازہ نہیں لگایا جن میں وہ رہتا ہے اور دشمنوں کو بھی اچھی طرح نہیں پہچان سکا۔

ہر جمال اس کی اور ہر کمی کوتاہی ہماری طرف سے ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے اس بارے میں ایک واضح ضابطہ بیان فرمایا ہے۔ درج ذیل آیت ہمیں بہت سی باتوں سے مستغنی کردیتی ہے۔ حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں: ﴿وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ﴾ (الشوریٰ:30) (اور جو مصیبت  تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے کرتوتوں سے اور وہ بہت سے گناہ تو معاف کر دیتا ہے)۔  یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہوتی ہیں، ان کا منبع وہ چیزیں ہیں جن پر تمہاری نظریں لگی ہیں، جن کو تمہارے کانوں نے سنا، تمہاری عقلوں نے  پرکھا، تمہاری زبانیں ان کے بارے میں بولیں ،  تمہارے ہاتھوں نے پکڑا، تمہارے پاؤں ان کی طرف چلے اور تمہارے جذبات نے ان کا اظہار کیا۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ بھی وہ بہت سے دیگرا مور جو تخلیق کے مقصد کے خلاف ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ بہت سی باتوں کو معاف فرما دیتا ہے۔

نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ: ’’كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ“ (1) (ہر  انسان خطا کار ہے اور سب سے اچھےخطا کار تو بہ کرنے والےہیں)۔  اس حدیث میں آپ علیہ السلام نے اس جانب اشارہ فرمایا ہے کہ انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے غلطی اور خطا کا پتلا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی کو سمجھے اور اس کے تدراک کا انتظام کرے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ خلفائے راشدین بھی اپنے آپ کو ایسے الفاظ سے ملامت کرتے ہیں: ’’کاش میں نے ایسا کیا ہوتا، میری خواہش ہے کہ میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔۔۔۔‘‘ جی ہاں، یہ عظیم خلفاء اپنے نفس کا محاسبہ کیا کرتے تھے اور اپنے اعمال میں ہونے والی بعض غلطیوں کو ظاہر کرنے کوبھی برا نہیں جانتے تھے(حالانکہ مقرب ہونے کی وجہ سے ان کی غلطیاں دوسروں کے لیے نیکی کے حکم میں ہیں)۔

واقعات کو صحیح انداز سے دیکھنا

انسان کو چاہیے کہ وہ یہ سمجھے کہ اس پر آنے والی مشکلات اور مصائب خود اس کی اپنی جانب سے ہیں، اگرچہ بظاہر وہ اس کے ارادے سے جڑی ہوئی معلوم نہیں ہوتیں اور اگرچہ اس نے ان کا اارادہ بالکل بھی نہ کیا ہو۔ مثلاً اس کے پاؤں میں جو کانٹا چبھتا ہے ، اسے بھی(اگر یہ کہنا درست ہو) اچانک ہونے والا واقعہ یا محض اتفاق نہ سمجھے بلکہ یہ سمجھے کہ یہ اس کے ذاتی عیوب، غلطیوں اور خطاؤں کا نتیجہ ہے۔ وضاحت اور مثال دینے کے لیے یہ واقعہ پیش خدمت ہے:’’آپ کا کوئی ایسا دوست ہے جو روزانہ دویا تین بار انسولین کا ٹیکہ لگاتا ہے۔ پس اگر اس کے ہاتھ سے ٹیکے کی تھیلی گرجائے تو وہ اس کی علت بیان کرتے ہوئے اسے اس بات سے جوڑتا ہے کہ: ’’اس نے بسم اللہ نہیں پڑھی تھی‘‘ اور یوں کہتا ہے: ’’یا اللہ اگر میں نے تیرے نام سے آغاز کیا ہوتا تو یہ میرے ہاتھ سے نہ گرتی۔‘‘ اس طرح اگر ٹیکہ لگاتے وقت سوئی کسی پٹھے یا رگ میں لگ جائے تو اس سے خون نکل آئے تو بھی اس کو اپنی غلطی اور رویوں اور سو چ میں بے ثباتی اور اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے میں عاجزی سے جوڑتا ہے۔ یہ ہے وہ رویہ اور برتاؤ جو ہمیں آزمائشوں اور مصائب میں اختیار کرنا چاہیے کیونکہ اگرانسان کا اس بات پر یقین نہ ہو  کہ اس سے جو بھی کوتاہی، غلطی یا عیب ظاہر ہوتا ہے ، وہ خود اس کے نفس سے پیدا ہوتا ہے اور اس بارے میں نفس کا محاسبہ نہ کرے، تو (ساری عمر) بدظنی اور دوسروں پرالزام تراشی سے نہیں بچ سکتا بلکہ وہ ہمیشہ یہ سوچے گا کہ اس کے ارد گرد موجود لوگ اس کے مثبت رویوں کو منفی رویوں میں بدلنے کے ذمہ دار ہیں اور یوں اپنے اعمال کو خطرے میں ڈال دے گا۔ چونکہ وہ اپنے عیوب کو دیکھنے اور سمجھنے سے عاجز ہوتا ہے، اس لیے وہ ان کے تدارک اور تلافی سے زیادہ عاجز ہوگا۔

اس کے مقابلے میں جو اانسان اپنی غلطیوں کو سمجھتا ہے، جب بھی اسے کوئی منفی واقعہ پیش آتا ہے وہ اس پر اچھی طرح غور و فکر کرتا ہے اور دوبارہ اس غلطی میں پڑنے سے بچنے کے لیے مختلف رستے تلاش کرتا ہے۔ جی ہاں، جو انسان یہ سمجھتا ہے کہ ناکامی اور غلطی کا منبع اس کی اپنی ذات ہے، وہ بعد میں عقل و منطق کے دائرے میں کام کرتا ہے تاکہ دوبارہ اسی مشکل میں گرفتارنہ ہو اور اس سلسلے میں تمام ضروری تدابیر ا ختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثلاً ایک ادارتی کام کرنے والا شخص جو لوگوں کے ا یک گروہ کو چلانے اور رہنمائی کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے،  جب بھی اس کے گروہ کے افراد میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ اس سے سبق اور عبرت حاصل کرتا ہے اور ان تمام احتمالات پر غور کرتا ہے جن کے ذریعے اختلاف کے دوبارہ تکرار کو روکا جا سکتا ہو اور کسی بھی اچانک واقع ہوسکنے والے احتمال کے لیے کئی حل تلاش کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ جو منصوبے اور پروگرام بنائے گا اور ان کا فیصلہ کرے گا، ان میں شروع سے ہی امکانی مشکلات سے مقابلے کے لیے کئی مختلف اور متبادل حل موجود ہوں گے۔

عقل مشترک کی جانب رجوع

ایک ایسا نظریہ موجود ہے جو تمام کاموں کو مکمل اور اسی طرح پورا کرنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے جس طرح ان کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اورانسان کو غلطی اور لغزش سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ نظریہ ہے ’’عقل مشترک کی جانب رجوع‘‘ جبکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ: ’’مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ، وَلَا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ‘‘) 2   ((جو مشورہ کرے گا وہ کبھی ناکام نہ ہوگا اور جو استخارہ کرے گا وہ کبھی پشیمان نہیں ہوگا)۔ دیکھیے نبی کریم ﷺ کو اگرچہ وحی کی تائید حاصل ہے اور آپ علیہ السلام آسمانوں سے بھی اگلے عالم سے جڑے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود آپ علیہ السلام ہر معاملے کو مشورہ اور رائے کا پابند بناتے ہیں کیونکہ آپ علیہ السلام اپنے ان صحابہ کرام سے مشورہ فرماتے تھے جن کو آ پ نے خود، دین کی ماہیت، حق اور حقیقت اور مشورہ کی تعلیم دی تھی۔ جی ہاں، آپ علیہ السلام اپنے مرتبے اورامتیازی حیثیت کو بالکل ایک طرف رکھ دیتے تھے اور اپنے صحابہ سے انہیں میں سے ایک فرد کی طرح مختلف مشکلات اور واقعات کے بارے میں مشورہ لیتے تھے۔ سیدالسادات ﷺ خطاؤں سے معصوم ہونے کے باوجود ایسا کرتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے جیسے لوگوں کے لئے (جو غلطی اور لغزش کا شکار ہیں) غلطی میں پڑنے کےاحتمال  کو کم سے کم کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ مسائل، مشکلات اورواقعات کو عقل مشترک کی نظر سے دیکھا جائے۔

آج معاشرہ اور فرد دونوں ، مشکلات کے ایک سلسلے کا سامنا کررہے ہیں۔ اس لیے اگر آپ مشاورت کے اس ذریعے کو اچھی طرح استعمال میں نہیں لائیں گے جو سخت ترین مشکلات کو بھی حل کرسکتا ہے ، تو پھر غلطیوں کے ایک سلسلے میں پڑ جائیں گے، اس کے بعد تمہارے دل میں گناہ کا خیال پیدا ہوگا اور پھر تم ا پنے ماحول میں اس گناہ کا ارتکاب کرنے والوں کو تلاش کرنے لگو گے اور آخر کار تمہارے ارد گرد کوئی بھی دل ایسا نہ رہے گاجس کو تم نے توڑ نہ ڈالا ہو، اور کوئی بھی انسان ایسا نہ ہوگا جس کو تم ناراض نہ کر لیا ہو،  اگرچہ گناہ اور خرابی تمہاری اپنی وجہ سے تھی مگر تم اپنے ارد گرد کے لوگوں پر الزام تراشی کرتے ہو اور ان پر اپنے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہو، ان کو اپنے سے دور کرتے ہو اور اپنے آپ سے متنفر کرتے ہو۔ جیسے کہ شاعر کہتا ہے:

کسی کا ملک اور بادشاہت دائم نہیں رہتی

نہ سیم و زر اور نہ عیاشی کی زندگی

فن و مہارت یہ ہے  کہ ویران دل کی اصلاح کی جائے

ہمیں حق تعالیٰ احد و صمد نے یہی تعلیم دی ہے

اگر سیم و زر باقی رہتا اورنفع دے سکتا تو قارون کو فائدہ دیتا لیکن اسے تو اپنے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ صرف یہی کافی نہیں بلکہ جب بھی  انسان اللہ تعالیٰ کا درج ذیل قول پڑھتے رہیں گے، اسے زمین میں دھنساتے رہیں گے: ﴿فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ مِنْ دُونِ اللهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِينَ * وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ اللهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَوْلَا أَنْ مَنَّ اللهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا وَيْكَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ﴾  (القصص: 82-81)( پس ہم نے قارون کو اور اس کی حویلی کو زمین میں دھنسا دیا تو اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہو سکی۔ اور نہ وہ بدلہ لے سکا۔  اور وہ لوگ جو کل اس کے رتبے کی تمنا کرتے تھے ، صبح کو کہنے لگے ہائے شامت! اللہ ہی تو اپنے بندوں میں سے  جس کے لئے چاہتا ہے، رزق فراخ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ اگر اللہ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہم کو بھی دھنسا دیتا۔ ہائے خرابی! کافر کامیاب نہیں ہوتے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل فن ،مہارت اور کمال دلوں کو درست کرنے میں ہے توڑنے میں نہیں جیسے کہ ’’یونس امرہ‘‘ کہتے ہیں:

ہم دلوں کو تعمیر کرنے اور بنانے آئے ہیں

 ان کو توڑنے اور فنا کرنے کے لیے نہیں

جی ہاں، ہمارا کام دلوں کی اصلاح اور ان کا علاج ہے۔ ان کو توڑنا اور ڈھانا نہیں۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی غلطیوں کو دوسروں کی جانب منسوب نہ کرے، جو لغزش خود کرے اور اس کا الزام کسی اور کونہ دے کیونکہ اس طرح وہ ایسے دلوں کو توڑنے اور ڈھانے کا سبب ہوگا جن کو اسے تعمیر کرنا اور بنانا چاہیے تھا۔

(1) سنن ا لترمذی، القیامتہ:49، سنن ابن ماجہ، الزہد:30
(2) الطبرانی، المعجم الاوسط: 365/6، المعجم الصغیر:175/2، القضاعی، مسند الشہاب:7/2