فائدہ مند اور بے فائدہ حسرت

فائدہ مند اور بے فائدہ حسرت

سوال : قرآن کریم نے کسی بھی غلطی کی وجہ سے آخرت میں افسوس کرنے ،رونے دھونے اور چیخنے چلانے کی حالت کو ان آیات میں بیان فرمایا ہے :{ وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا o یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلاَنًا خَلِیْلًا} ]الفرقان :27-28[(اور جس دن [ناعاقبت اندیش ] ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا[اور]کہے گا کہ اے کاش میں نےپیغمبر کے ساتھ رستہ اختیار کیا ہوتا۔ہائے شامت کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا) ۔پس وہ کون سے امور ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ آخرت میں ہم بے فائدہ حسرتوں کے دام میں گرفتار نہ ہوں؟

جواب : آیت کریمہ کا آغاز لفظ ’’ویوم ‘‘ سے ہورہا ہے جو ایک ہولناک دن کا پتہ دے رہی ہے اور اس کے بعد بیان کررہی ہے کہ اس دہشت ناک دن ظالم ، ندامت اور افسوس کے جذبات میں غرق ہوکر اپنی انگلیوں کو کاٹے گا۔جبکہ ’’انگلیاں کاٹنا ‘‘ انسان کی طرف سے ندامت ، خجالت ، حسرت اور افسوس کے اظہار سے کنایہ ہے۔ قرآن کریم اس آیت میں ظالم کو محسوس ہونے والی ندامت کا اظہار ان الفا ظ سے کر رہا ہے :{ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا } (کہے گا کہ اے کاش میں نےپیغمبر کے ساتھ رستہ اختیار کیا ہوتا) مگر اس کا یہ احساس صرف اس پر ختم نہیں ہوجاتا جبکہ آنے والے الفاظ اس حالت کو بیان کررہے ہیں جس پر حسرت وغم کے جذبات چھائے ہوئے ہیں: { یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلاَنًا خَلِیْلًا }(ہائے شامت کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا) کا مطلب ہے کہ "کاش" میں گمراہوں کے رستے پر نہ چلا ہوتا! لیکن آخرت میں ’’کاش‘‘ کے ساتھ اس کی یہ حسرتیں اسے قطعاً کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گی بلکہ اس کی ندامت میں اضافہ کریں گی ۔ بالفاظ دیگر وہاں لفظ "کاش "کا استعمال اس کی مصیبت میں اضافہ کرے گا کیونکہ وہ بغیر کسی فائدے کے استعمال ہوا ہے ۔ پھرجس طر ح یہ الفاظ آخرت میں کیے جائیں گے ،اس طرح یہ بھی احتمال ہے کہ اس وقت کہے جائیں جب روح حلق میں اٹکی ہو، جب عالم برزخ یعنی آخرت کی طرف پہلا قدم بڑھاتے ہوئے ہاتھ ہاتھ کو اور پاؤں پاؤں کو رخصت کر رہا ہوگا۔ بہرحال ان الفاظ کا وقت کوئی بھی ہو، یہ بات پکی ہے کہ یہ الفاظ افسوس، ندامت اورحسرت سے بھرے ہیں جو اس انسان کی زبان سے نکلیں گے جس نے جان بوجھ کر اپنے سامنے موجود تمام مواقع ضائع کیے ہوں گے۔

سب سے بڑ ی حسرت

کچھ ایسے گناہ اور خطائیں ہیں جو انسان کو آخرت میں ندامت اور غم کے مارے تلملانے پر مجبور کریں گی بلکہ وہ اسے اندر سے جلاتی رہتی ہیں ۔ ان گناہوں میں کفر سرفہرست ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساری کائنات ایک ایسی کتاب ہے جو اپنے ہر جملے، ہر لفظ اور ہر حرف کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تعارف کراتی ہے ۔جی ہاں، انسان انصاف کے ساتھ کتاب کائنات کی جانب کان لگائے اور اس سے پہلے فیصلے صادر نہ کرے تو وہ ہر لفظ بلکہ ہر حرف "لاالہ الاللہ"کی صدائیں سنے گا۔ اسی انتہائی واضح حقیقت کی بنیادپر امام ماتریدی یہ سمجھتے ہیں کہ جن لوگوں کی جانب کوئی رسول معبوث نہیں ہوا، وہ بھی اللہ پر ایمان لانے کے مکّلف ہیں، کیونکہ وہ کتاب کائنات پر نظر ڈالیں گے تووہ ایک خالق کے وجود کا فیصلہ کرلیں گے ۔اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ کو اس اعلیٰ صفات اور اسماء حسنیٰ ساتھ نہ پہچانیں اور ثبوت اور وحی کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے معرفت نہ بھی حاصل کریں ۔چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چچا زید بن عمروبن نفیل اس بات کو زمانۂ جاہلیت میں یوں بیان کیا کرتے تھے :’’اے اللہ اگر مجھے تیرے نزدیک سب سے اچھے چہرے کا علم ہوتا تو میں تیری پوجا کرتا مگر مجھے وہ معلوم نہیں ‘‘۔ اس کے بعد وہ اپنی سواری پر سدتہ کرتے (البدایۃ والنہایۃ ،ابن کثیر 237/2)حاصل کلام یہ ہے کہ سب سے بڑی ندامت اورحسرت یہ ہے کہ آدمی اس حال میں اپنی جان سے جائے کہ وہ اللہ پر ایمان سے محروم ہو۔

ہدایت پالینے ، کے بعدگمراہی میں پڑنا، آخرت میں حسرت کا ایک اورسبب ہے کیونکہ ایمان اور کفر اور ہدایت اور گمراہی کے درمیان ایک باریک سا پردہ ہے ۔ چنانچہ ہوسکتاہے کہ انسان معمولی سی حرکت کی وجہ سے اس پردے کی دوسری جانب چلا جائے ۔ اسی لیے ہم ایمان والے ہر روز سنتوں سمیت پانچ وقت کی نماز میں چالیس بار اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم کی جانب رہنمائی کی دعا کرتے ہیں ۔ اور{صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ} [الفاتحہ:7](ان لوگوں کے رستے جن پر تواپنافضل و کرم کرتا رہا)کے الفاظ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کے رستے پر چلیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں عطافرمائی ہیں اور یہ انبیاء ،صدیقین ، شہداء اورصالحین ہیں [النساء :69] اس طرح ہم اپنی دعائوں میں ان چار گروہوں کے رستے پر چلنے کی ہدایت مانگتے ہیں ۔ اس کے بعد{غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ}[الفاتحہ:7] (نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اورنہ گمراہوں کے) کہتے ہوئے اس کے دامن اور رحمت میں پناہ لیتے ہیں کہ :اے اللہ ہمیں ہدایت دینے کے بعد ان لوگوں میں شامل نہ کرنا جن پر تیرا غضب ہواتووہ گمراہ ہوگئے !

اس لیے یہ سوچنا کہ : ’’اب ہم نے اپنا رستہ پالیا ہے اور آئندہ ہم بغیر گمراہ ہوئے ، بغیر کسی ٹھوکر ، بغیرگرے ، بغیر واپس لوٹے ، بغیر بھٹکے اور شیطان کے حیلوں میں پھنسے ، اپنے ہدف تک پہنچے جائیں گے اور ہمیشہ اسی رستے پر رہیں گے ‘‘، اس طرح کی سوچ محض وہم و خیال ہے ،کیونکہ کوئی بھی انسان ایسا نہیں جس کے بارے میں جان نکلنے تک اس رستے پر گامزن رہنے کی ضمانت دی جاسکے ۔ بلکہ جو آدمی اپنے آپ کو مامون سمجھتا ہے ، وہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈالتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص اپنی عاقبت سے نہیں ڈرتا، اس کی عاقبت سے ڈرنا چاہیے کیونکہ انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر لخطہ اس بات سے ڈرتا اور کانپتا رہے کہ ہدایت پالینے کے بعد دوبارہ گمراہی کا شکار نہ ہو جائے۔ اسے اس بارے میں ہمیشہ ایک روحانی کشمکش میں رہنا چاہیے ۔جی ہاں، آدمی پر لازم ہے ، وہ ہمیشہ اللہ تعالی کے حضور گڑگڑانا رہے کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی اسے اپنے نفس کے حوالے نہ کرے اور اسے شیطان کے حیلوں اور دھوکوں کے محفوظ رکھے کیونکہ اس ایمان کی حقیقت جس کے ذریعے آدمی جنت کو حاصل کرتا، اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا مستحق ہوتا اور جس کو حاصل کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے جمال کی رویت کا حق دار ہوتاہے ،وہ ایک انمول جو ہر ہے جبکہ دوسری جانب جنوّں اور انسانوں میں سے ایسے شیطان موجودہیں جو اپنا جال بچھائے بیٹھے ہیں اور اس قیمتی جو ہر کو چرانا چاہتے ہیں ۔ اس انسان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس قیمتی جوہر کو مضبوطی سے تھامے اور اسے جنوّں اور انسان کے شیطانوں سے محفوظ رکھے اور اس کی چوکیداری کرے اور اس بارے میں ہمیشہ خبردار اور بیدار رہے ۔

انسانوں کو زمین دھنسانے والی کمزوری کی وجوہات

جن باتوں کی وجہ سے انسانوں کو افسوس کرنا پڑتاہے ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان ان جراثیم کاشکار ہو جائے جن کا تذکرہ حضرت بدیع الزمان نے ’’الہجمات الست‘‘ [1] (چھ حملے) میں کیاہے، کیونکہ یہ بات صراط مستقیم سے انحراف ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان چھ جراثیم میں سے ہر ایک انسان کو چاروں شانوں چت کر سکتاہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح جاہ و منصب اور شہرت کی خواہش انسان کو ہلاکت میں ڈالتی ہے ، اسی طرح صرف خوف بھی اسے ہلاک اور تباہ کر سکتاہے ۔ایسے ہی لالچ ، تعصب ،انانیت ، سستی اور تعبش بھی انسان کو بستر مرگ پر ڈال سکتاہے ۔ چونکہ ان باتوں میں سے ہر ایک اکیلے انسان پر غالب آسکتی ہے، تو پھر جب کمزوری کی یہ ساری ملعون وجوہات ایک انسان میں ایک ہی وقت اکٹھی ہو جائیں تو اسے صرف زمین پر ہی نہیں گرائیں بلکہ اسے اسفل سافلین تک پہنچا دیں گی ۔ مثلاًاگر کسی انسان پر شہرت کے جذبات چھا جائیں تووہ ان اعمال کے چہرے کو مسخ کر دے گاجو اس نے دین کی خدمت کے لیے کیے ہوں گے اگرچہ وہ اچھے لوگوں کے زمرے میں ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح کوئی او رشخص ایسا ہے جو یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے اور اس کے زبردست کاموں کے بارے میں بولیں اور اس کو یا د کریں ،تویہ شخص بھی اپنی اس خواہش کے نتیجے میں درگور ہو سکتاہے ۔ اسی طرح ایسے ایک منفی جذبے سے جس کا انسان شکار ہوتا ہے، ایسے ہی کئی اور منفی جذبات کے پیدا ہونے کا سبب بن سکتا ہے ۔آپ ان برائیوں کا اندازہ نہیں کرسکتے جن کا انسان اس وقت مرتکب ہوسکتاہے جب اس پر شہرت کے جذبات غالب آجاتے ہیں ۔

یہ سارے معاملات وہ خطرات ہیں جو ہر ایمان والے دل کو پیش آسکتے ہیں اگرچہ وہ ایمان والے ماحول میں ہی کیوں نہ رہتا ہواورہوسکتاہے کہ انسان کو قیامت میں ’’وائے حسرت‘‘ کہنے ہرمجبور کردیں (اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے) ۔ جی ہاں ، جو انسان اپنی کامیابی کو اپنی جانب منسوب کرتاہے اور اس کی وجہ سے شہرت کماتا ہے اور احترام اور توقیر کے پیچھے بھاگتا ہے (جبکہ یہ سب اس لیے ہوا کہ وہ اخلاص کے ضوابط سے رہنمائی لینے میں ناکام رہا ( تو وہ قیامت کے روز پچھتائے گا، حسرت اور ندامت سے تلملائے گا اور اندر سے جلے گا او رکہے گا :’’کاش میں نے یہ سارے اعمال خود اپنے ہاتھوں سے تعریف اور تالیوں کی خاطر ضائع نہ کیے ہوتے ،کاش میں بے فائدہ عدم کی طرف نہ آیا ہوتا!کاش میں ان لہروں میں نہ پڑا ہوتاجن کی آخری موج موت ہے !‘‘ اس کی یہ آہیں اور حسرتیں کس قدر درد ناک ہیں ، مگر وہ اسے کچھ فائدہ نہیں دیں گی ، بلکہ اس کی تکلیف اور مصیبت کو دوچند کر دیں گی ۔

نقصان دہ ’’حسرت ‘‘سے ڈھال

اس وجہ سے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ یہاں عقل مندی سے کام لیں او رکفر اور گمراہی سے نجات کو اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کاسب سے بڑا احسان سمجھیں اور ان رستوں سے بچتے رہیں جو کفر اور گمراہی تک لے جاتے ہیں ، کیونکہ بقول حضرت بدیع الزمان رحمہ اللہ ، ہر گناہ کفر تک پنےچ کا ایک رستہ ہے ۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :’’جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ لگ جاتا ہے ۔پھر جب وہ گناہ چھوڑ دیتا ہے اور توبہ کرلیتا ہے تو دل صاف ہو جاتاہے اور اگر دوبارہ گناہ کرتاہے تو اس سیاسی میں اضافہ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ دل پر چھا جاتی ہے ۔ یہ وہی زنگ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:}کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ{[المطففین :14] (دیکھو یہ جو [اعمال بد] کرتے ہیں ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے) (الترمذی،تفسیر سورہ المطففین)۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دل پر لگنے والا ایک داغ دوسرے داغ کا سبب بن جاتاہے او ردل گناہوں اور معاصی کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گدلے ہو جاتے ہیں ۔ پھر اگر توبہ اور استغفار کے ذریعے ان کی صفائی نہ کی جائے تو اللہ تعالیٰ ان پر مہر لگا دیتا ہے ۔جیسے کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: {خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ}[البقرہ:7] (اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے) { وَ طُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَا یَفْقَھُوْنَ}[التوبہ:87](اوران کے دلوں پر مہر لگادی گئی ہے تو یہ سمجھتے ہی نہیں)اورپھر دل آسمان سے اترنے والے پاکیزہ پیغام کو نہیں سمجھ سکتے اور آخرکار آخرت میں:’’اے کاش‘اے کاش‘‘ کہتے رہیں گے ۔

اب رہی بات نقصاندہ ’’حسرت‘‘ کے چنگل سے بچنے کی ، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ساری عمر بغیر کسی کمی بیشی اور اور تسلسل کے ساتھ ، امید بیم میں توازن رکھ کر بندگی کے فرائض کو انجام دیتا رہے اور یہ بات خشیت والے دل کی مرہون منت ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ :’’اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی خشوع ہوتا‘‘ (الحکیم الترمذی ، نواودرالوصول :172/2) اس لیے دل کی خشیت انسان کے افعال کے بعد برتائو میں ظاہرہوتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کےاعضاء جوارح اللہ تعالی کی خشیت سے کانپننے لگتے ہیں یہاں تک کہ خوف کی لہریں اس کی آنکھ کی پتلی میں بھی دکھائی دیتی ہیں ۔ اس کے باوجود اگر انسان ندامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جلال اور عظمت کے سامنے اپنا سرخم کرکے اس کی رحمت کی وسعت کاسہارا تلاش کرے اور اس توازن اور احساس کے ساتھ زندگی گزارے ، تو اپنے آپ کو روز قیامت اس ندامت سے بچالے گا جو افسوس اور ارمان کے ساتھ ملی ہے ۔

اس طرح ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بات کرنے سے بھی انسان ایسے منفی امور سے بچ سکتا ہے جو اسے انجام بد تک پہنچاتے ہیں جس کی وجہ سے اسے قیامت میں ’’ہائے افسوس‘‘ کہناپڑے گا۔اس بارے میں ترکی شاعر سلیمان شبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ کوہمیشہ ہر سانس میں یاد رکھو
کیونکہ اس کے ذکر سے ہر شے اسی طرح ہو جائے گی جس طرح مطلوب ہے‘‘

اسی حقیقت کو اللہ کے ایک اور نیک دلی کے یوں بیان کیا ہے:

’’کاش کہ ساری مخلوق، میرے محبوب سے محبت کرے ۔
کاش اس کی حکایت ، ہماری باتوں کا قطب بن جائے جبکہ وہ کیا ہی خوب ہے‘‘

جی ہاں، ہم جہاں بھی جائیں ، اس جگہ اللہ کو یاد کریں اور اپنی مجالس کو اس کے ذکر سے منور کریں اور اپنے اوقات کو وہ گہرائی بخشیں جو سمتوں میں نہیں سما سکتی ، تو اس طرح ہم بہت سی ان منفی باتوں سے بچ سکتے ہیں جو آخرت میں ہمیں’’ہائے افسوس‘‘ کہنے پر مجبور کرسکتی ہیں ۔

’’کاش‘‘بصورت استغفار

سوال : کیا ’’غیرمفید حسرت ‘‘کے ساتھ ’’مفید حسرت‘‘ کا بھی کوئی وجود ہے؟اس بارے میں معیار کیاہے؟

جواب : جس طرح اس ’’حسرت‘‘کا وجود ہے جو آخرت میں آدمی کو کبھی نفع نہ دے گی بلکہ اس کے عذاب کو دو چند اور اس کی مصیبت میں اضافہ کرے گی، اسی طرح ایسی مفید ’’حسرت‘‘بھی ہے جس کو ہمارا دین اسلام اچھا سمجھتا اور اس کی قدر کرتا ہے جبکہ ان دونوں میں فرق صرف نیت کا ہے ۔ اس کی ایک مثال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ہم آپ کو یہ فرماتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ :’’مجھے کسی چیز کا افسوس نہیں سوائے ان تین چیزوں کے جو میں نے کیں جبکہ بہت خواہش کی کہ کاش میں وہ نہ کرتا اور تین ایسی چیزوں پر جو میں نے نہیں کیں اور میرا دل چاہتا ہے کہ کاش وہ میں نے کی ہوتیں اور تین وہ باتیں جن کے بارے میں بہت چاہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے پوچھ لی ہوتیں .....‘‘

ان باتوں میں یہ بات بھی شامل تھی کہ :"میری خواہش ہے کہ میں سقیفہ بنو ساعدہ کے دن یہ معاملہ دو اشخاص: ابوعبیدہ یا عمر کے گلے میں ڈال دیا ہوتا کہ وہ امیر المومنین اور میں دزیر ہوتا؛میری یہ تمنا ہے کہ میں اس جگہ ہوتا جب میں نے خالد بن الولید کوشام اور عمر کو عراق کی جانب بھیجا کہ میں نے اپنے دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں کو اللہ عزوجل کے رستے میں پھیلا دیا ہوتا اورمیری تمناہے کہ کاش میں نے رسول اللہ ﷺسے پوچھ لیا ہوتا کہ یہ معاملہ (خلافت)کن لوگوں میں ہوگی ، تو اس کے اہل لوگ آپس ،میں کوئی نزاع نہ کرتے ۔‘‘ (الطرانی ، المعم الکبیر:62/1) میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی ندامت جس کا اظہا ر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کررہے ہیں، بے شک وہ اپنے احتساب ،گہرے دکھ اور دین کی صحیح فہم کے شوق اور دین کو اچھے طریقے سے زندگی کی روح بنانے کی عکاس ہے ، اس لیے اس کی وجہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس سے زبردست ثواب اور ایسا بلند مرتبہ حاصل ہوا کہ ہم اس کا ادراک نہیں کر سکتے۔ اس بات کو فخر انسانیت ﷺ نے یوں بیان فرمایا کہ :’’اگر ابوبکرکے ایمان کو تمام اہل زمین کے ایمان کے ساتھ تو لا جائے تو اس کا پلڑا جھک جائے گا۔‘‘ (البیہی ،شعبہ الایمان:69/1)کیونکہ وہ صدیق اعظم ہیں اور آپ نے (اللہ کے فضل سے )خلافت کے دو سال چندماہ اور کچھ اوپر دس دنوں میں وہ کارنامہ کردکھایا جو سلطنت عثمانیہ ڈیڑھ صدی میں بھی نہ کرسکی ۔آپ نے کمزور ممالک پر ظلم نہیں کیا جس طرح استبداوی حکمران کرتے ہیں، بلکہ جن علاقوں کو فتح کیا وہاں اپنی روح کے الہامات کو پھیلا دیا ۔جی ہاں، آپ نے ہر اس جگہ تک روح محمدی کو پہنچا دیا جہاں سے گزرے ، جہاں کا رخ کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ ہی نے ان عظیم فتوحات اور انکشافات کے لیے زمین ہموار فرمائی جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حاصل ہوئیں۔پس اس طرح کی ’’حسرت‘‘ نے اس عظیم شخصیت کی قدر و قیمت میں مزیداضافہ کردیا جو سب لوگوں سے افضل ہے۔ ایسے ہی ہر مومن کے پاس ایک مثبت ’’حسرت‘‘ ہے جو اس کا مرتبہ بلندکرتی ہے ۔ مثلاً:’’کاش میں نے اپنی جوانی کو اچھی طرح کام میں لایا ہوتا، کاش میں نے ہر رات دوگھنٹے مختص کرکے سو رکعت نماز پڑھی ہوتی، کا ش میں نے اپنے نفس کو خواہشات نفس سے روکا ہوتا، کاش میں نے عنفوان شباب میں بھی اپنے ہاتھ، پاؤں ، آنکھ اور کان کو کلی طور پر حرام سے بچایا ہوتا جب بشری خاصیات اور شو ت کے جذبات میں ہمیشہ ایک ہیجان ہوتاہے ۔کاش میں نے غیروں کو نہ دیکھا ہوتا اور نہ میری آنکھوں میں کوئی اجنبی ہیولا داخل ہوا ہوتا۔‘‘

بے شک ’’کاش‘‘ کے لفظ کا ندامت کے ساتھ استعمال اور اس کے ساتھ اسے عمل میں بدلنے کی نیت ، انسان کی شان او رمرتبے میں اضافہ کا باعث بنتی ہے ۔ لیکن وہ ’’حسرت‘‘ جوآخرت میں زبانوں پر جاری ہوگی، افسوس اور ندامت کے سوا کچھ نہ ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ندامت ایک طرح کا استغفار ہے کیونکہ جب بھی آدمی اس کو یاد کرے گا ، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے گا۔ بلکہ اسے ایک بار استغفراللہ کا لفظ کہتے ہوئے شرم آئے گی اور وہ "لاکھ بار استغفر اللہ "کہے گا او رتوبہ اور انابت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع کرے گا۔پس جب انسان اس روح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا تو اسے امید لگ جائے گی کہ اللہ تعالیٰ اس کی آہوں اور سسکیوں کو رد نہیں کرے گا اور اس کے ساتھ اپنی وسیع رحمت اور فیض کا معاملہ فرمائے گا۔

1) یہ کتاب "المکتوبات" کے انتیسویں مکتوب کی چھٹی قلم ہے۔۔ حضرت بدیع الزمان نے "چھ حملوں" سے یہ چیزیں مراد لی ہیں: چاہ و شہرت کی محبت، خوف، لالچ، تعصب، انانیت اور غرور اور آرام و آسائش کی محبت۔