اللہ سے دور کرنے والا علم

اللہ سے دور کرنے والا علم

سوال: اس حدیث شریف :’’ مَنِ ازْدَادَ عِلْمًا وَلَمْ يَزْدَدْ فِي الدُّنْيَا زُهْدًا لَمْ يَزْدَدْ مِنَ اللهِ عزَّ وَجَلَّ إِلَّا بُعْدًا ‘‘(1) (جس شخص کے علم میں اضافہ ہوا اور دنیا سے بے رغبتی میں اضافہ نہ ہوا تو وہ اللہ تعالیٰ سے دور ہی ہوتا رہے گا) سے کون کون سا سبق ملتا ہے؟

جواب: انسان کو اللہ تعالیٰ سے ملانے والے رستوں کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی انسانوں کی سانسوں کی تعداد ہے کیونکہ ہر انسان کی قابلیتیں اور صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے بعض حساس مزاجوں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ عشق اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا سب سے اہم رستہ ہے۔ اسی بنیاد پر عشق کی خاطر دنیا میں سفر کرنے والوں نے اس رستے کو اختیار کیا ہے اور اس کے بارے میں بات کی ہے۔ شیخ ’’فضولی بدسادی‘‘ انہی لوگوں میں سے ہیں۔ وہ دردو الم سے کہتے ہیں:

اے اللہ مجھے ہمیشہ عشق کا امتحان چکھا

اور اس سے کسی بھی دن ایک لحظے کے لئے بھی دور نہ کر

شیخ محمد لطفی آفندی بھی اہل دل میں سے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

اپنا دل معشوق کے حوالے کردے، وہ تجھے خوش و خرم کردے گا

جو تیری مراد ہے اس کا دامن تھام لے، وہ تجھے پہنچا دے گا

’’شیخ غالب ‘‘میدان عشق کے ایک اور شہسوار ہیں۔آپ دیکھتے ہیں کہ وہ عاشق کی اندرونی دنیا کی تصویر کشی ان الفاظ میں کرتے ہیں:

زاہدہ دل کو جنت کا اہتمام ہے

جبکہ زخمی عارف کے دل کو صرف اس کے معشوق کا اہتمام ہوتا ہے

جادۂ حق وحقیقت کے بعض سے سالناہ نے زہد کے رستے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ دیگر طرق کے مقابلے میں یہ رستہ زیادہ اہم اور زیادہ سلامتی والا ہے جبکہ زہد کا (ایک مطلب) دنیا و مافیا> کو چھوڑ دینا اور ان سے صرف بقدر ضرورت مستفید ہونا ہے کیونکہ انسان کو بے شک زندگی برقرار رکھنے کے لیے کھانے پینے اور سونے جیسی جسمانی ضروریات پوری کرنا پڑتی ہیں لیکن زہد کے دائرے میں رہنے والا انسان اس طرح کی دنیوی نعمتوں سے استفادہ میں مستغرق ہوتا ہے اور نہ ان سے سیر ہوتا ہے کیونکہ اس کو ڈر ہوتا ہے کہ یہ لذتیں اسے غفلت میں نہ ڈال دیں۔ اس لیے وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ ان الفاظ سے رہنمائی حاصل کرتا ہے:’’یہ لذتیں صرف نمونے ہیں جن کے بارے میں ہمیں صرف چکھنے کی اجازت ہے، سیر ہونے یا پیٹ بھرنے کی نہیں۔‘‘

دوسری جانب ارباب کمال اور تدبر، تفکر اور تذکر کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے بعض حساس لوگ ہمیشہ واقعات اور اشیا کا گہرائی سے تجزیہ کرتے ہیں، کتاب کائنات کا مطالعہ کرتے اور اس کے اور قرآن کریم کے درمیان مناسب کا انداز لگاتے ہیں اور ان دونوں کتابوں میں سے ہر ایک کو دوسری کی دوربین اور عد سے کے نیچے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تقلید کی وادیوں میں بھٹکنے والے لوگ

ان سب لوگوں کے مقابلے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو تقلید نے جکڑ رکھا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ظاہری شکل و صورت سے نجات حاصل نہیں کرسکے۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑی حد تک آگے بڑھنا مشکل ہے کیونکہ ان کی جانب سے اپنے آباؤ اجداد کی تقلید کے بارے میں موقف ، کافروں کے موقف کی مانند ہے جنہوں نے کہا: ﴿قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا﴾ (المائدہ:104) (جس طریق پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے وہی ہمیں کافی ہے) جو انسان اس حالت میں زندگی گزارتا ہے ، اس کو اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ’’ اگر میں کسی کلیسا میں پرورش پاتا تو میں عقل و منطق کو استعمال کرتے ہوئے اس تقلیدی اسلام تک پہنچ سکتا تھا جس پر میں اس وقت ہوں! ‘‘ جبکہ سچی بات یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت نے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت کی بنیاد پر تقلیدی ایمان کو بھی قابل قبول قرار دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ محض اپنے آباؤ اجداد کی تقلید کرتے ہوئے کلمہ پڑھتے ہیں: ’’لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ‘‘ اور مسجد جاتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں (وہ مسلمان ہیں)۔

مہدی منتظر ہونے کے بہت سے دعویدار

حقیقت یہ ہے کہ تقلید کے بارے میں مذکوریہ امور ہماری نسل کی تصویر پیش کرتے ہیں کیونکہ ہم میں علی الاطلاق کوئی آدمی ایسا نہیں جو اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو تھکا کر ان حقائق تک پہنچا ہو جن پر اس کے ایمان ہے۔ ہم میں ایسا کوئی بھی شخص ایسا نہیں جس نے رات کو اپنے بستر اور آرام کو ترک کرکے مجنون کی طرح گلیوں کی خاک چھانی ہو یا اس طرح کوشش ہو جس طرح ’’زید بن عمرو‘‘(2)(حضرت عمرو کے چچا اور سعید بن زید کے والد رضی اللہ عنہم) جنہوں نے درست دین کی تلاش اور اس تک رسائی کے لیے جزیزہ عرب سے شام تک کا سفر کیا۔(3) ہم نے اس دین کو حاصل کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی بلکہ صرف تقلید پر بس کرلی، خاص طورپر بعض لوگوں نے ہمارے اسلام کی تعریف و توصیف کی کوشش کی تو ہم نے اپنے آپ کو کچھ سمجھ لیا اور زبردست دھوکہ کھا گئے یہاں تک کہ بعض بیچارے اس تعریف و توصیف کے سبب شہرت کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ہر جگہ کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے جنہوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے زمانے مہدی ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ اگر ہم کہیں کہ ’’مہدی منتظر ہونے کے دعویداروں میں افراط ہوگیا ہے‘‘ تو مبالغہ نہ ہوگا۔ جی ہاں، جس وقت بعض مسلمان اس بات پر اپنا محاسبہ کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں یا نہیں ، کچھ لوگ اپنے آپ کو ایسا بطل جلیل سمجھتے ہیں جو ایک ہی حملے میں دنیا کو نجات دلا دیں گے اور دنیا کے قیصروں اور کسراؤں کو زمین پر پٹخ دیں گے جبکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر شخص تقلید کے غلاموں میں سے ایک ایسا غلام ہے جن کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی حقیقی معرفت بھی حاصل نہیں ۔ ان کو خلفائے راشدین کی حقیقت کا کچھ ادراک ہے اور نہ صحابہ کرام کا، اس لیے ان لوگوں کا آگے بڑھنا بڑا مشکل ہے کیونکہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کہاں ہیں جبکہ وہ پختہ اور سیدھے رستوں پر بھی گرتے ہیں۔

مومن دل پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت اور محبت کے سمندر میں غوطہ خوری کرتے وقت ہمیشہ تدبر، تفکر اور تذکر کرتا رہے اور کسی بھی سستی، تردد اور قناعت کے بغیر اپنا سفر جاری رکھے اور جب اس کے سامنے معرفت کے جام پیش کئے جائیں تو فریفتہ عاشق کی زبان میں یوں کہے:

اس فقیر بندے کی حالت کو دیکھو

اس کو تیری زلفوں کی لٹوں نے اپنا اسیر بنا رکھا ہے

میں جب بھی اپنی انگلی تیرے عشق کے شہدمیں ڈبوتا ہوں

اور جب بھی وہ شہد زیادہ پیتا ہوں،

اس سے میری پیاس میں اضافہ ہوجاتا ہے،

اس لیے آپ وصال سے میری مدد کر

اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس پیاسے کی طرح زیادہ سے زیادہ پیتا رہے جیسے کوئی پیاس بجھانے کے لیے سمندر کا پانی پیتا رہتا ہے مگر جوں جوں وہ پیتا جاتا ہے اس کی پیاس بڑھتی جاتی ہے۔ اس بحر معرفت میں غوطہ خوری کرتے وقت ایک طرف تو اس کی گرئائی میں اترنا چاہیے، دوسری جانب یہ اہم نکات بھی اس کی عقل سے الگ نہیں ہونے چاہیںم کہ: کاش میں ان باتوں کو محسوس کرسکتا اور سن سکتاجن کو سننا اور محسوس کرنا ضروری ہے اور﴿أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾ (الرعد:28)(سن رکھو کہ اللہ کی یاد سے ہی دل آرام پاتے ہیں) کی حقیقت کو پالیتا، کاش میں اس آیت﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ طُوبَى لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ﴾ (الرعد:29) (جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کے لئے خوشحالی اور عمدہ ٹھکانہ ہے) میں وارد بشارت کو پالیتا، کاش میں ایسا کرسکتا تو اللہ تعالیٰ سے میرا تعلق زیادہ مضبوط ہوجاتا، میں ہمیشہ عشق و شوق کے نغمات گنگناتا، مسلمانوں کے ساتھ نرمی اور تواضع سے پیش آتا، تمام مخلوقات سے فضا کی طرح وسیع رحمت و شقفت سے پیش آتا جبکہ ان سب کاموں کا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ میں تاحال زمین سے لگا ہوں اور میرا رتبہ ابھی بھی پست ہے۔

بے مثال سعی اور اعلیٰ قسم کے تواضع کو یکجا کرنا!

سچی بندگی یہ ہے کہ بے مثال سعی اور نہایت تواضع کو یکجا کیا جائے۔ اس لیے انسان پر لازم ہے کہ وہ بلندی کی طرف اس طرح جائے کہ فرشتے اس کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جائیں اور حیرت سے یہ کہہ اٹھیں: ’’تعجب ہے! کھنکھناتی مٹی سے تخلیق شدہ مخلوق ہمارے رتبے تک کیسے پہنچ گئی ہے اور ہمارے سامنے کس طرح اڑ رہی ہے؟‘‘ لیکن ا سے چاہیے کہ اس وقت بھی اپنے آپ کو صفر سمجھے اور جب اس کی ذات کے بارے میں بات کی جائے تو بڑے سکون سے بلاتردد کہہ دے: ’’میں بالکل ہیچ ہوں۔‘‘

حقیقی کمال کے اعتبار سے فخر انسانیتﷺ سے بڑا کوئی انسان نہیں لیکن اس کے باو جود آپ علیہ السلام نے دعا فرمائی اور گڑگڑا کر عرض کی : ’’اے اللہ مجھے اپنی نظر میں چھوٹا اور لوگوں کی نظر میں بڑا بنا۔‘‘(4)ایک بزرگ نے اس دعا میں اپنے خیال کے مطابق ترمیم کرتے ہوئے یوں کہا: ’’اے اللہ مجھے اپنی نظر میں چھوٹا اور دین میں بڑا بنا دے!‘‘

انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ہیچ اور مچھر کے پر کے برابر سمجھے لیکن اس کے باوجود دینی گہرائی کی جانب سے اسے یہ کہنا چاہیے کہ: ’’اے اللہ مجھے دین میں کمال تک پہنچا دے اور اس کی سمجھ عطا فرما یہاں تک کہ صرف میرا ارادہ ساری انسانیت کے جنت میں داخلے کے لیے کافی ہوجائے۔‘‘ آپﷺ کا حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے گناہ کے اقرار کے بعد یہ فرمانا کہ: ’’اس نے ایسی توبہ کی کہ اگر ایک امت پر تقسیم کردی جائے تو ان کے لیے کافی ہوجاتی۔‘‘(5) اسی قبیل سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک پوشیدہ مقام پر گناہ کا ارتکاب کیا جہاں ان کو کسی انسان نے نہیں دیکھا اورنہ کسی کواس کا علم تھا مگر وہ اس پر نادم ہوئے اور نبی کریم ﷺ کے پاس جا کر بتایا کہ وہ اپنے گناہ سے پاک ہونا چاہتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے تین بار ان کو واپس کیا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے نفس کو پا ک کرنے کے لیے واپس آجاتے ۔ پھر جب ان پر حد جاری کردی گئی تو آپ علیہ السلام نے ایک اہم حقیقت کو بیان اوران کے بارے میں بدظنی کو ختم کرنے کے لےن وہ مشہور مقولہ ارشاد فرمایا جس کا ابھی ابھی تذکرہ ہوا۔(6)

جی ہاں، انسان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ روحانی ذوق، محبت ،معرفت اور ایمان میں گہرائی اختیار کرے اور عشق و شوق پر ثابت قدم رہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو ’’ہیچ‘‘ سمجھے ۔ سو اگر وہ حقیقت میں دل کی گہرائی تک پہنچ گیا ہے تو وہ اپنے آپ کو سب سے حقیر سمجھے گا۔ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر انساان اپنے آپ کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھے تو وہ سب سے حقیر اور کم تر ہے۔ ایسے شخص کے مومن، منافق یا کافر ہونے سے نتیجے پر کوئی اثر نہ ہوگا۔

علم یہ ہے کہ تو اپنے آپ کو پہچان لے

جو انسان اپنے آپ کو اعلیٰ مرتبے پر سمجھتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ باقی لوگوں کے مقابلے میں ایک خاص حالت کا مالک ہے اور اس کے پاس کسی خاص کام کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے خاص صلاحتیں اور وسائل عطا کیے گئے ہیں تاکہ وہ انسانیت کی دستگیری کرکے اسے اوج کمال تک پہنچائے، تو ایسے شخص کی حقیقت میں کوئی خاص قیمت نہیں۔ یہ مچھر کے پر کے برابر ہے کیونکہ عظمت کی علامت تو اضع اور فنا ہے اور پستی اور حساسیت کی علامت تکبر اور غرورہے۔

حقیقی معرفت یہ ہے کہ انسان اپنے پاس موجود علم کے بارے میں اس طرح کی باتوں سے پوری طرح آگاہ ہو اور یہ ان لوگوں کی شان ہے جو کمال تک پہنچے ہوئے ہیں،جن میں پختگی آچکی ہے اور اپنے نظری علم کو حقیقت میں تبدیل کرچکے ہوتے ہیں۔ اگرچہ شیخ محمد لطفی آفندی روزانہ چھ گھنٹے اپنی مسندپر علم اور ذکر و فکر کے لیے بیٹھا کر تے تھے لیکن اس کے باوجود جب ان کے سامنے حق تعالیٰ شانہ کا ذکر ہوتا تو ان کا رنگ فق ہو جاتا تھا اور کہتے:

میرے پاس کوئی نافع علم ہے اورنہ عمل۔۔۔

میرے پاس اطاعت اورنیکی کی طاقت ہے اور نہ اس کا کوئی سبب

گناہوں میں ڈوبا ہوا ہوں۔۔۔ بڑا گناہگار اور شرور سے بھرا ہوں۔۔۔

مجھے نہیں معلوم کہ حشر اور نشور کے دن میرا حال کیا ہوگا؟!

یونس امرہ کہتے ہیں:

علم یہ ہے کہ تو جانے

تو اپنے نفس کو جانے

اگر تو اسے نہیں جانتا

تو پھر جو تو نے پڑھا اس پر خاک

جو لوگ معاملے کو کسی کی جانب سے تعریف و توصیف سے جوڑ دیتے ہیں وہ اپنی جگہ سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ایسے لوگوں کو دوسروں کی تعریف کوئی نفع دے گی اور نہ ان کی تقدیس۔ اس لیے اگر ہم اس بات کو سوال میں مذکور حدیث شریف کی روشنی میں دیکھیں تو اس کا مطلب ہے کہ اگر مومن علم کی کثرت کے باوجود دنیا سے منہ نہ موڑے اور دنیا اور دنیا کے معاملات کا مزید اہاکھم کرے اور اس کے پیچھے دوڑے تاکہ ایک مرتبے تک پہنچا ہے تو اس سے اعلیٰ کی لالچ ہے اور اس کا کلیجہ اس بات پر کٹ کٹ جاتا ہے کہ اس کے پاس جو سامان دنیا ہے وہ ختم نہ ہوجائے، تو اس کا مطلب اللہ تعالیٰ سے دوری کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے۔

(1) الديلمي: مسند الفردوس، 602/3.
(2) زید بن عمر بعثت سے قبل فوت ہوگئے تھے مگر عرب کے موحدین میں سے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ:’’اے اللہ اگر مجھے آپ کے ہاں سب سے محبوب طریقہ معلوم ہوتا تو میں اس طرح آپ کی عبادت کرتا لیکن میں نہیں جانتا،‘‘ اس کے بعد اپنی سواری پر سجدہ کرتے۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عمر کی روایت ہے کہ زید بن عمرو بن نفیل دین کے بارے میں پوچھنے اور اس کی پیروی کرنے کے لیے شام گئے تو ان کے ملاقات ایک یہودی عالم سے ہوگئی ۔ اس سے ان کے دین کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ مجھے اپنے دین کے بارے میں بتائیے شاید میں آپ کا دین قبول کرلوں، تو وہ کہنے لگا کہ تم ہمارے دین پر اس وقت تک نہیں آسکتے جب تک اللہ کے غضب سے اپنا حصہ نہ لے لو، تو زید نے کہا کہ میں تو اللہ کے غضب ہی سے بھاگ رہا ہوں، میں کبھی بھی اللہ کے غضب سے کچھ بھی نہ لوں گا اور میں اسے برداشت کہاں کرسکتا ہوں! پھر کہا کہ اس کے علاوہ کچھ بتا سکتے ہو؟ وہ بولا میرا خیال ہے کہ پھر وہ دین حنیف ہی ہوسکتا ہے تو زید نے پوچھا کہ حنیف کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ حضرت ابراہیم کا دین کہ وہ یہودی تھے نہ نصرانی اور اللہ کے سواکسی کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ زید وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور ایک نصرانی عالم سے ملاقات کی اور وہی بات اس سے بھی ذکر کی تو وہ بولا کہ تم ہمارے دین میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک اللہ کی لعنت سے اپنا حصہ نہ لے لو ، تو زید نے جواب دیا کہ میں اللہ کی لعنت سے ہی تو بھاگ رہا ہوں، میں اللہ کی لعنت اور غضب سے کچھ بھی نہیں لے سکتا اور مجھ میں اس کی سکت کہاں ہے! کیاآپ اس کے علاوہ کچھ بتا سکتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ: وہ حنیف ہی ہوسکتا ہے۔ زید نے پوچھا کہ حنیف کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ حضرت ابراہیم کا دین کہ وہ یہودی تھے اور نہ نصرانی اور اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ پس جب زید نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ان کی بات سنی تو وہاں سے نکل آئے اور جب باہر آئے تو ہاتھ بلند کرکے کہا: ’’اے للہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں۔ ‘‘(صحیح البخاری ، المناقب:83) اور وہ اللہ سے دعا کرتے تھے کہ اگر نبی منتظر کا زمانہ ان کو نہ ملے تو ان کے بیٹے سعید کو مل جائے، چنانچہ حضرت سعید کو وہ زمانہ ملا اور وہ عشرہ مبشرہ میں سے ہوگئے۔
(3) صحيح البخاري، المناقب، 83.
(4) مسند البزار، 315/10؛ الديلمي: مسند الفردوس، 473/1.
(5) صحيح مسلم، الحدود، 5.
(6) صحيح مسلم، الحدود، 5.