ظلم کرنے والوں کی طرف مائل مت ہوئیے

ظلم کرنے والوں کی طرف مائل مت ہوئیے

سوال: قرآنی آیات: ﴿فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (112) وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ﴾ [ھود:113-112] (سو اے پیغمبر جیسا تم کو حکم ہوتا ہے اس پر تم اور جو لوگ تمہارے ساتھ تائب ہوئے ہیں قائم رہواور حد سے تجاوز نہ کرنا۔ وہ تمہارے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے اور مسلمانو جو لوگ ظالم ہیں ان کی طرف مائل نہ ہونا۔نہیں تو تمہیں بھی دوزخ کی آگ آلپیٹے گی اور اللہ کے سوا تمہارے کوئی دوست نہیں ہوں گے پھر تمہیں کوئی مدد بھی نہ ملے گی) میں اہل ایمان کو ظلم کرنے والوں کی طرف ذرا بھی جھکاؤ نہ رکھنے کا کہا گیا ہے۔ ان آیات مبارکہ میں ہمارے لیے کیا سبق ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ تمام اہل ایمان کو نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں مذکورہ بالا آیت مبارکہ کو درج ذیل انداز سے سمجھنا چاہیے: ’’سو اے اہل ایمان جیسا تم کو حکم ہوتا ہے اس پر قائم رہو۔‘‘

آیت مبارکہ میں واحد اور جمع کے صیغوں کی حکمت

یہ آیت مبارکہ نبی کریم ﷺ کی تعریف و توصیف پر بھی مشتمل ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے حق تعالیٰ اپنے پیغمبرﷺ کو تھپکی دیتے ہوئے کامل ترین راست بازی پرقائم رہنے کا حکم دے رہے ہوں۔ یہ صورت حال ایک ایسے استاذ کی اپنے اچھے شاگرد کی تحسین کرنے جیسی ہے،جو اس سے اسی اچھے رویے پر قائم رہنے کا خواہش مند ہوتا ہے،جس کا وہ ہمیشہ مظاہرہ کرتارہا ہے۔ یہ سمجھنا یقیناًغلط ہے کہ پیار ے رسولﷺ کے طرزِ عمل میں کوئی غلطی تھی، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں حق پر پوری طرح عمل کرنے کا کہا ہے۔ میری رائے میں اس آیت مبارکہ میں کسی بھی طرح اس دوسرے مفہوم کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا، کیونکہ نبی کریمﷺ کے تمام احساسات ، خیالات اور اعمال ہمیشہ درست رہے۔ لہٰذا زیر بحث آیت مبارکہ کا مفہوم یوں ہوگا: ’’آپ حق پر ایسے ہی قائم رہیے، جیسے آپ ہمیشہ اس پر قائم رہے ہیں۔‘‘

راہ حق پر قائم رہنے کا حکم فعل امر کے واحد کے صیغے کے ذریعے دیا گیا ہے، جبکہ اس کے بعد حد سے تجاوز نہ کرنے کا حکم جمع کے صیغے کے ذریعے دیا گیا ہے،جس سے ہماری مذکورہ بالا رائے کی مزید تائید ہوتی ہے۔ اس آیت مبارکہ اور اسی جیسی دیگر آیات مبارکہ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ نیکی اختیار کرنے کا حکم عام طورپر براہ راست نبی کریم ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فعل امر کے و احد کے صیغوں کے ذریعے دیا جاتا ہے، جبکہ حدود سے تجاوز کرنے سے روکنے کے لیے جمع کے صیغے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذکرسکتے ہیں کہ اصل حکم تو تمام اہل ایمان کے لیے ہے، لیکن چونکہ رسول اللہﷺ ان کے لیے اسوہ حسنہ ہیں، اس لیے خطاب آپ ﷺ سے کیا گیا ہے۔

مزید برآں اس آیت مبارکہ میں حق پر ا ستقامت کے حکم کے فوراً بعد ظلم کرنے والوں کی طرف جھکاؤ رکھنے کے خلاف تنبیہ میں ایک باریک نکتہ بھی ہے۔ یہ دراصل حدود سے تجاوز اور گمراہی کی طرف بتدریج جانے کے خلاف تنبیہ ہے۔

ہر قسم کے ظلم سے دوری

جیسا کہ سوال میں بھی مذکور ہے اگلی آیت مبارکہ درج ذیل حکم دیتی ہے: ’’اور مسلمانو جو لوگ ظالم ہیں ان کی طرف مائل نہ ہونا۔ نہیں تو تمیںp بھی دوزخ کی آگ آ لپیٹے گی اور اللہ کے سوا تمہارے کوئی دوست نہیں ہوں گے۔ پھر تمہیں کوئی مدد بھی نہ ملے گی۔‘‘

جو شخص ادنیٰ ترین درجے میں بھی ظلم کرنے والوں کی طرف میلان رکھتا ہے، اس کے بارے میں خطرہ ہوتا ہے کہ وہ بھی بتدریج اسی برائی میں مبتلا ہوجائے گا۔ ظلم کے موضوع پر قرآن کریم میں تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ جہاں اس لفظ کو کافروں اورمنافقین کی حکم عدولیوں کے اظہار کے لیے استعمال کیا گیا ہے و ہیں یہ لفظ مسلمانوں کی مخصوص غلطیوں کو بیان کرنے کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، جیسا کہ درج ذیل آیت مبارکہ میں ہے: ’’جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو شرک کے ظلم سے ملوث نہیں کیا ان کے لیے امن و بے خوفی ہے اوروہی ہدایت پانےو الے ہیں۔‘‘ (الانعام:82) جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام کو بڑی تشویش ہوئی۔ یہ صورت حال دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے انہیں درج ذیل آیت مبارکہ کے ذریعے تسلی دی: ’’شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے۔‘‘ (لقمان:13) اور بتایا کہ پہلی آیت مبارکہ میں ظلم سے مراد شرک ہے۔ اس سنگین ترین صورت کے علاوہ ایذا رسانی سے لے کر انتظامی اختیارات کے ناجائز استعمال وغیرہ تک ظلم کی اور بھی بہت سی قسمیں ہیں۔ سوال میں مذکور آیت مبارکہ پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ خدائی حکم ہر قسم کے ظلم سے خبردار کررہا ہے۔ مزید برآں اہل ایامن کو ظلم کرنے والوں کی طرف جھکاؤ رکھنے سے بھی روکا گیا ہے۔

ایک اہم نکتہ جسے فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے یہ ہے کہ ظلم کو صرف کھلم کھلا ناانصافی اور انحراف سے متعلق ہی نہیں سمجھنا چاہیے۔ کسی بھی سطح کے انتظامی افسر کا مخصوص لوگوں کو دیگر لوگوں پر ترجیح دینا حتی کہ عوام کی کسی چیز کی ایک پائی کی غلط تقسیم بھی گناہ ہے۔ نیز آیت مبارکہ اس طرف بھی مشیر ہے کہ کسی بھی درجے میں ظلم کے مرتکب شخص کی طرف جھکاؤ رکھاح جہنم کی آگ میں جھونکے جانے کا سبب ہے۔ دوسرے لفظوں میں ظلم کے مرتکب لوگوں کے ساتھ عام حالات کی طرح وقت گزارنا، ان کا شیدائی ہونا یا انہیں پسند کرنا سب ان کی طرف جھکاؤ رکھنے کے مفہوم میں شامل ہے۔ ایک اور آیت مبارکہ میں درج ذیل حکم ہے: ’’اور جب تم ایسے لوگوں کودیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بے ہودہ بکواس کررہے ہوں تو ان سے الگ ہوجاؤ یہاں تک کہ وہ اور باتوں میں مصروف ہو جائیں۔‘‘

یہ حقیقت ہے کہ جو شخص اپنی نیت، طرزِ زندگی، الفاظ، رویوں اور برتاؤ میں ہمیشہ راست بازی کا مظاہرہ کرتا ہے وہ فطری طورپر ہر قسم کی برائی اور ظلم کے خلاف کھڑا ہوجاتا ہے۔ ایک اور آیت مبارکہ ایسے لوگوں کو درج ذیل خوشخبری سناتی ہے: ’’جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر وہ اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ نہ خوف کرو اور نہ غم ناک ہو اور بہشت کی،جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے،خوشی مناؤ۔‘‘ (فصلت: ۳۰(

لوگ ظلم کرنے والوں کی طرف کیوں مائل ہوتے ہیں؟

اس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔بعض اوقات انسان خوف کی وجہ سے ظلم کرنے والوں کا ساتھ دینے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں بہت سے بدنصیب لوگوں نے اپنے عہدے اور منصب کے چلے جانے کے خوف سے ظالموں کا ساتھ دیا ہے۔ آج بھی کئی لوگ اپنے منصب کو برقرار رکھنے اور اس کے فوائد سےمحظوظ ہونے کے لیے ظالموں کی چاپلوسی کرتے ہیں۔ حبِ جاہ اس وائرس کے پائے جانے کی ایک وجہ ہے۔ مزید برآں ستائش پرستی، لذت پرستی، آرام پسندی اور انسان کا خاندان اسی قسم کی انسانی کمزوریاں ہیں۔ اپنے بچوں کو مال دار دیکھنے کا خواہش مند شخص یقیناًظالموں کے سامنے سرخم کرےگا۔ اگرچہ ایسے لوگ اپنے آپ کو درست راستے پرچلنے ولا تصور کرتے ہیں،لیکن حقیقت میں وہ پھسلن والی ڈھلوان پر چل رہے ہیں اور کسی بھی وقت گر سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں اور بھی بہت سی وجوہات اور بیماریوں کا ذکر کیا جاسکتا ہے، جن میں سے ہر ایک دور لے جانے اور گمراہی کی طرف کھلنے والا دروازہ ہے۔ سد الذریعہ (گناہ کا ذریعہ بننے والی چیز کو بھی ممنوع قرار دینا) اسلامی قانون کا ایک اہم اصول ہے۔ لہٰذا انسان کو حبِ جاہ، ستائش پسندی اور خوف وغیرہ جیسے تمام دروازوں کو بند کردیناچاہیے۔

جس طرح ہم جسمانی لحاظ سے نقصان دہ ماحول سے دور رہتے ہیں،اسی طرح ہمیں روحانی طورپر مضر امور سے بھی بچنا چاہیے، بصورت دیگر انسان سے غیر ارادی طورپر بھی گناہ سرزد ہونے لگیں گے۔ آیت مبارکہ کے آخر میں بتایاگیا ہے کہ ایے لوگوں کی کسی قسم کی مدد نہیں کی جائے گی، کیونکہ ان کی بد اعمالیوں نے خدا کے ساتھ ان کا رشتہ توڑ دیا ہے۔

آخر میں میں اوپر ذکر کردہ قرآنی آیات کے بعد آنے والی آیت مبارکہ کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا: ’’اور دن کے دونوں سروں یعنی صبح و شام کے اوقات میں اور رات کی چند ساعتوں میں نماز پڑھا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں۔‘‘ربطِ آیات کے لحاظ سے نماز قائم کرنے کا حکم اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی دین کی شکلیات سے آگے بڑھ کر نماز کو ظاہری اورباطنی دونوں لحاظ سے قائم کرے گا تو وہ اپنے آپ کو ظلم کو قبول کرنے سے محفوظ کر لے گا۔