چار بنیادوں والی دعا

چار بنیادوں والی دعا

سوال: نبی اکرم ﷺ اپنی دعا میں فرماتے تھے:’’اے اللہ مجھے مسکین زندہ رکھ سوال: نبی اکرمﷺ اکثر اوقات یہ دعا فرماتے تھے: ’’ اللّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى، وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى‘‘ (1) (اے اللہ میں تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت اور تونگری کا سوال کرتا ہوں)۔ آپ اس حدیث میں مذکور ان چار بنیادوں کی کوئی وضاحت فرمائیں گے؟

جواب: سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہوں گا کہ اس دعا میں وارد یہ ساری بنیادی ان عظیم صفات میں سے ہیں جو تمام انبیائے کرام علیہم السلام میں موجود تھیں بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان کا لازمہ تھیں جو ان سے کبھی الگ نہ ہوتی تھیں۔ چونکہ انبیائے کرام اپنے تمام تصرفات اور برتاؤ سے تمام مومنین کے لیے رہنمائی کا نمونہ ہوتے ہیں، اس لیے تبلیغ و ارشاد کے ان سرخیلوں کے لیے ضروری ہے کہ جنہوں نے اپنے آپ کو انسانیت ،حق اور حقیقت کی تبلیغ کے لیے وقف کردیا ہے، وہ اس انداز سے چلیں جوان عظیم صفات کے مناسب ہو اور اس دعا : ’’ اللّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى، وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى‘‘ کا ترجمہ اپنے افعال اور تصرفات سے کریں اور اس کے الفاظ کو قال کی بجائے حال کا قالب پہنائیں۔

1۔ ہدایت

ہدایت وہ پہلی صفت ہے جو سیدالانبیاءﷺ نے اس دعا میں مانگی ہے۔ اس کا مطلب ہے درست بات کو دیکھنا اور محسوس کرنا، اس تک پہنچنا اور اس پر قائم رہنا۔ اس لیے ’’ہدایت‘‘ کااس دعا میں پہلے سوال کے طورپر وارد ہونا نہایت مناسب بات ہے کیونکہ یہ بات بڑی مشکل ہے کہ انسان اللہ کی ہدایت کے بغیر درست بات کو دیکھ کر اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھال لے۔ اس لیے اگر ہدایت نہ ہو تو تقوی، عفت اور تونگری کی بات کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی کیونکہ مذکور ہ صفات ایک رخ سے’’ہدایت‘‘ پر مرتب ہورہی ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ ہدایت ہر شے کی بنیاد اور سر ہے اور اس کا منبع قرآن کریم اور وہ صحیح سنت ہے جس میں آنحضرت ﷺ کے اقوال، افعال، اوصاف اور تقریرات سب شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرۃ میں ارشاد فرماتے ہیں: ﴿ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ﴾ (البقرۃ:2) (یہ کتاب یعنی قرآن مجید اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ کا کلام ہے۔ پرہیزگاروں کے لئے راہنما ہے)۔ یہ آیت اس جانب توجہ مبذول کرا رہی ہے کہ قرآن کریم بذات خود متقین کے لیے ہدایت کامنبع ہے اور اسی سورت کی تیسری اور چوتھی آیت میں متقین کی صفات کو بیان کرنے کے بعد حق تعالیٰ شانہ نے پانچویں آیت میں ہدایت کے اوپر دوبارہ زور دیتے ہوئے فرمایا: ﴿أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ (البقرۃ:5) (یہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ تقویٰ(حقیقی انداز میں) معجز بیان قرآن کریم سےمستفید ہونے کی بنیادی شرط ہے اور ساتھ ہی ہدایت اور تقویٰ کے درمیان تعلق کو بھی بیان فرما دیا۔

ہدایت (جیسے کہ میں پہلے ذکر کیا) ان صفات میں سے ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو فطری طورپر پیدا فرمایا ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان عظیم لوگوں کو ایک اعلیٰ کام کے لیے بھیجا ہے اور ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ ان سے ایسے تصرفات کا ارتکاب ہو جن کو مستقبل میں بے ادب اور کج فطرت لوگ ان پر لعن طعن کا ذریعہ بنا سکیں ۔ اس لیے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ بنی اسرائیل کے ایک بہتان کے سوا کچھ نہیں۔ اسی طرح حضرت نوح اور حضرت ہود علیہمالسلام کے بارے میں بھی جو کچھ کہا گیا ہو وہ بھی ان کی قوم کے جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے ہی وہ برے الفاظ جو آنحضرتﷺ کو دائرہ ہدایت سے باہر نکالتے ہیں ، وہ بھی بے ابدی اور بے شرمی کے اظہارکے سوا کچھ نہیں۔ یہ باتیں اتنا بڑا بہتان ہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا عرش ہل جاتا ہے۔

اسی مناسبت سے میں اس غلطی کا بھی پردہ چاک کرنا چاہتا ہوں جس کا ارتکاب بعض علماء سوء نے ﴿وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى﴾ (الضحیٰ :7) (اور تمہیں رستے سے ناواقف دیکھا تو رستہ دکھا دیا) کی تفسیر کرتے ہوئے کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ : ’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو گمراہی پر پایا تو آپ کو ہدایت ے دی۔‘‘ جبکہ ’’ضلالت‘‘ کی تفسیر یہ کی کہ وہ ہدایت کی نقیض ہے۔ چنانچہ اس بنیاد پر بہتان تراشی کرتے ہوئے یہ دعویٰ کردیا کہ سید العالمین، سیدنا و مولانا محمد ﷺ (نعوذ باللہ) نور نبوت کے ذریعے روشن ہونے کے لمحے سے قبل ضلالت میں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شحض اس طرح کی ضلالت آنحضرت ﷺ کی جانب منسوب کرتا ہے، دراصل وہ خود گمراہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کو سیدھے رستے کی طرف ہدایت عطافرمائے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سورۃ النجم میں ا رشاد باری تعالی ہے: ﴿مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى﴾ (النجم:2) (تمہارے رفیق یعنی ہمارے نبی نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں)۔ پس حق تعالیٰ شانہ نے ضلالت کے انتفاء کو صیغہ ماضی سے بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’ماضل‘‘ (گمراہ نہیں ہوئے) تاکہ اس بات پر دلالت ہوجائے کہ آنحضرت ﷺ کی اعلیٰ زندگی پوری پوری اور ہمیشہ ہدایت کے اوپر تھی۔

اگرچہ مندرجہ بالا دونوں آیات بظاہر ایک دوسرے کے مخالف معلوم ہوتی ہیں مگر لفظ ’’ضلالت ‘‘کے مختلف معانی کو دیکھتے ہوئے ان میں تیق‘ دی جاسکتی ہے کیونکہ ’’ضلالت‘‘ کا ایک معنی ہے :’’صراط مستقیم سے انحراف اور ہٹ جانا‘‘۔ اسی طرح اس کا دوسرا معنی ہے: ’’بہت سے رستوں میں سے درست ترین اور سب سے پرامن رستے کا انتخاب کی قدرت نہ ہونا اور حیرت اور شک میں پڑجانا۔‘‘ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ’’ضلالت‘‘ کی نسبت آنحضرت ﷺ کی جانب کرتے ہوئے ہم دوسرا معنی مراد لیں کیونکہ نبوت سے قبل آنحضرت ﷺ کو مختلف رستوں کے درمیان شک اور تردد رہا اور آپ علیہ السلام نے صراط مستقیم تک پہنچنے کی کوشش فرمائی اور یوں آسمانی نور تک پہنچنے کے لمحے تک اپنے مستقبل کے لیے زمین ہموار فرمائی۔

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’ووجدک ضالاً فہدی‘‘ سے وہ دہشت،حیرت اور وہ حیرانگی بھی ہوسکتی ہے جو پہلی وحی کے وقت آپﷺ کو لاحق ہوئی کیونکہ آپ علیہ السلام اس آسمانی واقعے سے حیران رہ گئے اور آ پ کو شدید صدمہ پہنچا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کیا کرنا ہے، لیکن آپ علیہ السلام اپنی غیر معمولی ذہانت کے باوجود اپنی سنجیدہ ، پروقار اور مطہرہ بیوی ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی جانب متوجہ ہوئے اور اپنے سینے کا راز ان کے سامنے ظاہر کردیا تو انہوں نے اطمینان دلایا، آپ علیہ السلام کو آپ کی نیک خصلتیں یاد دلائیں۔ آپ کے اخلاق عالیہ گنے اور یہ کہتے ہوئے تسلی دی کہ : ’’ہر گز نہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، کیونکہ آپ رشتہ داروں سے تعلق جوڑتے ہیں، کمزورکی مدد کرتے ہیں، فقیر سے تعاون کرتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق تعالیٰ کی جانب سے آنے والی آزمائشوں میں تعاون کرتے ہیں۔‘‘(2) اس کے بعد آپ علیہ ا لسلام کو اپنے چچا زاد بھائی کی نوفل کے پاس لے گئیں جو ایک راہب تھے۔

اس بنا پر ہم سورۃ الضحیٰ کی مذکور آیت کو یوں سمجھ سکتے ہیں: ’’آپ ایک زمانے میں جنت اور دوزخ کو نہیں جانتے تھے اور لوگوں کے عمومی حالات کی وجہ سے درد وکرب سے تلملاتے تھے ، آپ علیہ السلام کو یہ معلوم نہ تھا کہ آپ ان کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔ اگرچہ دین ابراہیمی کے بچے کھچے نشانات کی رہنمائی آپ سے ایک چیز کو محسوس کررہے تھے لیکن آپ ایسی حالت میں نہ تھے کہ ہر شے کو اپنے مقام پر رکھنے کے لیے کوئی فیصلہ کرسکیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ا پنی وحی بھیجی ۔ آپ کی اس حیرت اور تردد کو دور کیا اور آپ کو صراط مستقیم دکھا دی۔‘‘

انبیائے کرام کی فطری صفت یعنی ہدایت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک اور امر کی جانب اشارہ بھی ضروری ہے اور وہ ہے سورۃ الشوریٰ میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ﴾ (الشوریٰ:52) (اور بیشک اے نبی تم سیدھا رستہ دکھاتے ہو) اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ خو د ہدایت پر تھے اور دوسروں کو ہدایت کا رستہ دکھاتے تھے۔ چونکہ تمام انبیائے کرام ایسے ہی ہوتے ہیں اس لیے وہ اللہ کے حکم سے لوگوں کو بلاتے ہیں، ان کی رہنمائی کرتے ہیں اور ان کی لئے رستے کھولتے ہیں اور ان کو ہدایت تک پہنچاتے ہیں۔ اگر ہم اس بات کو جہاد اور ارشاد کے پس منظر میں لیں تو (مطلب ہوگا) کہ ان انبیائے کرام نے لوگوں اور ان کے رب کے درمیان حائل رکاوٹیں ہٹا دیں اور دلوں کو اللہ تعالیٰ سے جوڑنے میں اپنا کردار ادا کیا البتہ اس پات میں کوئی شک نہیں کہ مخاطبین کے دلوں میں نور الٰہی کی چنگاری کو روشن کرنا صرف حق تعالیٰ شانہ کے ہاتھ میں ہے۔

2۔ تقویٰ

تقویٰ وہ دوسری خصلت ہے جو آپ علیہ السلام نے اپنی دعا میں مانگی ہے۔ اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اوامر کو بجا لاکر اور اس کی نواہی سے بچ کر اس غصے اور عذاب سے محفوظ ہوجانا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تقویٰ کے بھی ہدایت کی مانند مختلف درجات ہیں۔ اس کی دہلیز فرائض اور واجبات کو ادا کرنا اور کبائر اور محرمات سے بچناہے۔ اس کے بعد شبہات سے بچ کر اور محرمات کے دروازے سے دور رہ کر ہم تقویٰ کے دروازے سے اندر داخل ہوجائیں گے اور پھر غیر مباح سے بچنے کے لیے مباح کو چھوڑنے سے ہم آخر میں حقیقی تقویٰ تک پہنچیں گے۔ تقویٰ کا پورا مطلب ہے شریعت کے اوامر کو پوری طرح ادا کرنا لیکن ہمیں کبھی بھی یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے (کہ اس کے ساتھ ساتھ )ان امور کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے کائنات میں رکھے ہیں اورجن کو ہم فطری شریعت کے قوانین کہتے ہیں۔

اس کے باوجود ایک مسلمان کا کتاب و سنت ( جو ہدایت تک پہنچانے والے ہیں) سے مکمل استفادہ اس ’’تقویٰ ‘‘ کے مرہون منت ہے جو اس درجے تک پہنچا ہو۔ معاملے کو اس رخ سے دیکھنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہدایت اور تقویٰ ایک درخت کو دو شاخیں ہیں۔ پس جس طرح تقویٰ تک رسائی ہدایت کی مرہون منت ہے اسی طرح اللہ تعالی اور اس کے نبی کریم ﷺ کے وضع کردہ منہج کی درست فہم، اس کی روح اس کی بلندی اور عظمت کی سجھ بھی تقویٰ میں گہرائی حاصل کیے بغیر ممکن نہیں۔

3۔ عفت

اس دعا میں تیسرے نمبر پر مذکور عفت کا مطلب ہے کہ انسان اپنی عزت اور شرافت کو محفوظ رکھنے، نظر کو جھکانے اور کانوں پر قابو پانے کے لیے احتیاط اور باریک بینی سے کام لے اور کلام پر اس طرح حاوی ہو کہ ضرورت کے سوا بولے اورنہ کسی سے سوال کرے۔

خلاصہ ٔ کلام یہ ہے کہ اپنے تمام حالات اور عادات میں ادب اور حیاء کے دائرے سے باہر نہ نکلے ۔ پس اگر افراد میں عفت ہوگی تو معاشرے میں عفت آجائے گی ورنہ گناہگاروں اور خطاکاروں پر مشتمل معاشرے میں عفت کا پیدا ہونا ناممکن ہے اور جب معاشرے سے عفت رخصت ہوجاتی ہے تو اس میں چوری، اغواء کاری ، رشوت، جھوٹ اورلوٹ مار جیسے جرائم اور برائیاں جنم لیتی ہیں اور چھوٹے مناصب والے لوگ اپنے مرتبے کے مطابق اور بڑے عہدوں والے اپنے مرتبے کے مطابق چوری اور لوٹ مار شروع کردیتے ہیں، چوری کرتے ہیں اور مال و دولت لوٹتے ہیں۔

قرآن کریم نے عفت کے میدان کے ابطال کا تذکرہ یوں فرمایا ہے: ﴿يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا﴾ (البقرۃ:273) (ناواقف شخص ان کو تونگر خیال کرتا اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لو کہ حاجتمند ہیں اور شرم کے سبب لوگوں سے منہ پھوڑ کر اور لپٹ کر نہیں مانگ سکتے) یعنی ان کے بارے میں بیان فرمایا ہے کہ اگرچہ وہ بھوکے پیاسے ہوں یا اور بے گھر ہو جائیں مگر یہ بات ان کو مانگنے اور ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس قابل ہیں کہ ان کے ہاتھ چوم لئے جائیں اور ان کا احترام اور توقیر کی جائے ۔ اس کے باوجود اسلام نے تنگی اور ضرورت کے ایسے حالات میں اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ دوسروں سے اتنا مانگ لیں جس سے کمر سیدھی ہوجائے۔

4۔ تونگری

آنحضرت ﷺ کی دعا میں وارد چوتھی چیز تونگری ہے۔ اس کے بھی دومعنی ہیں۔ اول: دل کا غنی ہونا اور اللہ کے سوا ہر شے سے استغناء ۔ دوم :مال و دولت اور کسب حلال سے مادی تونگری جبکہ دوسری قسم کی تونگری کو طلب کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ دنیا کی کوئی بھی نعمت اگر اچھی طرح استعمال میں لائی جائے تو وہ ایمان کو قومی کرنے اور عبادت و اطاعت کے لیے ایک اہم عنصر ہے لیکن مالی تونگری کے بارے میں ہمیں شدید احتیاط کی ضرورت ہے کہ وہ صرف اور صرف حلال ذریعے سے ہو۔ مال کا حق ادا کرتے وقت بخل کا مظاہرہ نہ کریں اور دل کو مال و دولت کے ساتھ لگنے یا مال و دولت کے ذریعے دوسروں پر غالب آنے کی کوشش نہ کریں اور ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مال و دولت اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے اور ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے پاس موجود وسائل سے دھوکہ نہ کھائیں تاکہ اس گڑھے میں نہ گریں جس میں قارون یہ کہہ کر گرا تھا: ﴿إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِي﴾ (القصص:78) (یہ مال مجھے میرے ہنر کے سبب ملا ہے)۔ اس لیے اگر ان امور کا خیال رکھا جائے تو حق تعالی سے مال و دولت مانگنے میں کوئی حرج نہیں۔علاوہ ازیں سید الانبیاء ﷺ نے بعض دعاؤں میں اللہ تعالیٰ سے دیگر کئی امور کے علاوہ فقر اور بھوک سے بھی پناہ مانگی ہے۔ مثلاً ایک دعا یہ ہے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ، وَالْقِلَّةِ، وَالذِّلَّةِ“ (3) (اے اللہ میں فقر، قلت مال اور ذلت سے تیری پناہ چاہتا ہوں) کیونکہ جو شخص ایسے حالات کا شکار ہوتا ہے وہ اپنی حالت کی شکایت کرسکتا ہے اور ان سے تنگ ہوسکتا ہے یا مانگنے اورہاتھ پھیلانے کے دلدل میں گر سکتا ہے۔

اس وجہ سے اسلام نے مادی ثروت کو طلب کرنے کے بارے میں تحریم یا انکار کا موقف اختیار نہیں کیا لیکن اس نے دولت کو سینت سینت کررکھنے اور دولت اکی> کرنے اور ذاتی مستقبل کے لیے مال اور پیسے کو اکٹھا کرنے سے منع کیاہے کیونکہ قرآن کریم نے ان لوگوں کے انجام کا تذکرہ فرمایا ہے جو مال و دولت اکی> کرتے ہیں اور سینت سینت کر رکھتے ہیں اور اللہ کی ر اہ میں خرچ نہیں کرتے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾ (التوبہ:34) (جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور ان کو اللہ کے رستے میں خرچ نہیں کرتے، ان کو عذاب الیم کی خبر سنا دو)۔

جی ہاں جو لوگ مادل و دولت اکٹھی کرکے خزانے بناتے ہیں، مال بڑھاتے ہیں بلکہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور اپنی خواہشات کے مطابق معیشت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں، اللہ سے نہیں ڈرتے اور آخرت کی فکر بھی ہیں کرتے، ان کے لیے دردناک عذاب کی خوشخبری دی گئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے پاس موجود مال کو اس کے درست رستے میں خرچ کرے تو وہ حقیقی بشارت حاصل کرسکتا ہے لیکن جو شخص اس کو درست مقام پر اوراچھی طرح کام میں نہ لائے تو وہ مال اس کے لیے خوشخبری کی بجائے عذاب الیم بن جاتا ہے۔

مذکورہ بالا آیت کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ﴾ (التوبہ:35) (جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں خوب گرم کیا جائے گا، پھر ان بخیلوں کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور کہا کائے گا کہ یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا۔ سو جو تم جمع کرتے تھے اس کا مزہ چکھو۔) اس آیت میں اس عذاب کی شکل و صورت بیان کی گئی ہے جو جہنم میں ان کا منتظر ہے۔

اس کے مقابلے میں جو مال و دولت اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے بچا کررکھی جاتی ہے اس کی اپنی شان ہے۔ جی ہاں، جو مال اچھی نیت سے کمایا جاتا ہے جیسے اعلاء کۃلے اللہ کے لیے استعمال کرنے کے لیے دنیا کے مختلف گوشوں میں اسکول اور جامعات بنانے کے لیے، انسانیت کو اپنے اعلیٰ اقدار سے آگاہ کرنے کے لیے ، تو ایسے مال کی قیمت کا اندازہ ایک مختلف طریقے سے لگایا جاسکتا ہے جبکہ لوگوں کو اس طر ح کی مالداری کی ترغیب دینی چاہیے تاکہ ان اعلیٰ اہداف کو پورا کیا جاسکے۔

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے استفادہ ، عفت اور لوگوں کے ہاتھوں موجود چیزوں سے استغناء کو آپس میں جمع کیا جاسکتا ہے اور یہ بات قرآن کریم کے بنیادی احکام میں ہے۔ مثلاً یہ آیت شریفہ: ﴿وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا﴾ (القصص:77) (اور جو مال اللہ نے تم کو عطا فرمایا ہے، اس سے آخرت کی بھلائی طلب کیجئے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائیے) آخرت کے اہتمام کے ساتھ ساتھ ضرورت کے بقدر دنیاکا اہتمام کرنے اور اس کو طلب کرنے کی جانب بھی اشارہ کررہی ہے۔

البتہ (ان تمام امور کے ساتھ ساتھ) زیادہ اہم بات روح اور نفس کا استغناء ہے کیونکہ انبیاء کرام نے اپنی زندگیاں اسی شعور کے ساتھ بسر فرمائی ہیں اور اس استغناء کا مجسم نمونہ پیش کرتے تھے کیونکہ انہوں نے کبھی بھی وظیفہ ٔ تبلیغ کی ادائیگی پر کسی اجر کی امید رکھی نہ کبھی لوگوں سے کوئی چیز طلب فرمائی بلکہ اپنا پیغام اپنی قوم تک پہنچاتے ہوئے سخت مشقتوں اور تکالیف کا سامنا کیا لیکن کیھ بھی شخص سے کسی قسم کی اجرت اور مکافات کی خواہش نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان حضرات نے اپنے معاملات کو مکمل طورپر اللہ تعالیٰ کے حوالے کردیا تھا اور ان کی امید اسی سے وابستہ تھی۔ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں: ﴿وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ (الشعراء:109) (اور میں اس کام کا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا، میرا صلہ تو رب العالمین کے ذمے ہے۔) حضرت ہود علیہ السلام اپنی قوم سے کہتے ہیں: ﴿وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ (الشعراء:127) ( اور میں اس کام کا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا، میرا صلہ تو رب العالمین کے ذمے ہے۔) ﴿وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ (الشعراء: 145) (اور میں اس کام کا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا، میرا صلہ تو رب العالمین کے ذمے ہے۔)

انبیاء کرام علیہم السلام نے جس چیز کو بڑی قوت اور تاثیر ے ساتھ استعمال کیا وہ ’’استغناء‘‘ ہے کیونکہ یہ موقف مخاطبین کو پوری طرح قائل کردیتا ہے۔ یوں آدمی کا اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے مقابلے میں کسی بھی قسم کے دنیوی اجر کی امید نہ رکھنا، دنیا کا کوئی منصب اور مقام نہ مانگنا اوراس کا اجر وثواب اور مکافات آخرت میں صرف اللہ تعالیٰ سے لینے کی امید رکھنا، ان کے دل کے غنی ہونے کا ایک اور اہم رخ ہے۔

اس سب کے باوجود سب کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے لیے مقرر کردہ حصے پر راضی رہنا چاہیے اور مادی امور اور دنیوی مسائل کے بارے میں لالچ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر کردہ فقر بعض لوگوں کے حال کے لیے زیادہ مناسب اور اچھا ہوسکتا ہے ۔ کون جانتا ہے کہ اگر ان کے پاس بہت سارا مال ہوتا تو اس کا غلط استعمال ان کو سر کے بل جہنم میں ڈال دیتا اور وہ اس میں اس طرح گرتے جس طرح قارون گرا تھا کیونکہ ان کے دل میں مال ودولت کے سامنے کمزوری آسکتی ہے۔ اس لیے ہمارے لیے مناسب یہ ہے کہ اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہوجائیں۔

(1) صحيح مسلم، الذكر، 72؛ سنن الترمذي، الدعوات، 71، سنن ابن ماجه، الدعاء، 2.
(2) صحيح البخاري، بدء الوحي، 3.
(3) سنن أبي داود، الوتر، 32؛ سنن النسائي، الاستعاذة، 19، 20؛ سنن ابن ماجة، الدعاء، 3.