صبر کی اقسام کے درمیان تعلق

اولاد کی محبت

سوال: حضرت بدیع الزمان سعید نورسی نے صبرکی تین اقسام بیان کی ہیں یعنی اطاعت پر صبر،گناہوں سے صبر اور مصیبت پر صبر۔ کیا کوئی ایسا تعلق ہے جو ان تینوں انواع کو یکجا کرتا ہے؟

جواب: حضرت بدیع الزمان سعید نورسی (آپ ان شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے قلب و روح کے مقامات کی جانب لوگوں کی رہنمائی فرمائی) کی کتابوں میں یہ بات آتی ہے کہ صبر کی تین قسمیں ہیں جن میں ایک مضبوط تعلق ہے۔ چلئے اب ان کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں:

اطاعت پر ثابت قدمی انسان کو گناہوں میں پڑنے سے بچاتی ہے ۔

انسان کا عبادات کو اچھی طرح ادا کرنا اورمکمل طورپر ان کی پابندی کرنے کے لیے واقعی صبر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ بات مشکل ہوتی ہے کہ انسان کوئی کام اول سے آخر تک بغیر کسی سستی کے انجام دے سکے۔ اس صبر کی برکت سے انسان کو اپنے رب کی محبت نصیب ہوتی ہے۔ اس بارے میں نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ترین عمل وہ ہے جو مسلسل ہو۔ اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔(1)

اس وجہ سے نوافل کے علاوہ ان فرا ئض کی پابندی کی بڑی اہمیت ہے جن کا ہمیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کیونکہ یہ مکمل عبودیت کا اظہارہیں۔ اس لیے بندہ اطاعت پر صبر کی وجہ سے اپنے رب کے ہاں ایک خاص مرتبے پر پہنچ جاتا ہے جبکہ حضرت نورسی اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’یہ بات انسان کو محبوبیت کے درجے تک پہنچا دیتی ہے۔‘‘

اس لئے اگر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرض کردہ عبادات مثلاً نماز ، روز ہ، زکاۃ اور دیگر عبادات کو بلوغت سے لے کر وفات تک زندگی کے ہرمرحلے میں (جس میں عبادات کی مشق کا زمانہ بھی شامل ہے) ادا کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے وہ حق عبادت ادا کردیا ہے جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا اہل ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر جب انسان عبادات کو اس مرتبے پر ادا کرنے کی کوشش کرے تو اس کی نماز اور زکاۃ وغیرہ اس کے لیے ایسا ڈھال بن جاتی ہیں جس کے ذریعے وہ گناہوں سے بچتا ہے ۔ اسی طرح یہ عبادات اس کو گناہوں کے جال میں پھنسنے سے بھی بچاتی ہیں۔

مثال کے طورپر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ گندے مشروبات اتنے زیادہ پیتے ہیں کہ ان کی عقل بھی جاتی رہتی ہے مگر وہ اس کا عذر پیش کرتے ہیں کہ ایسا بعض مواقع پر ہی ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں نے اپنی دنیوی اور اخروی زندگی میں اندھیر اکردیا ہے اور اپنی خواہشات اور غلط جذبات کے عادی ہوگئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں جو انسان عبادت کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا، مسجد جاتا ہے اور اپنے رب کے احکامات بجا لاتا ہے ، تو اس بات کا تصور ناممکن ہے کہ یہ شخص مسجد سے نکل کر اس بڑے گناہ کا مرتکب ہوگا جو دین نے حرام قرار دیا ہے اگرچہ اسے ترغیب اور دباؤ کا سامنا کیوں نہ ہو کیونکہ اللہ کے فضل و کرم سے اس کی نماز اوراس کے اوراد و اذکار اس کے لیے ڈھال اور سد سکندری بن جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ ثابت قدمی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور اسے اس سفر میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح مسلسل بہتے ہوا پانی پتھر کو گھسا دیتا ہے اور اس کو پرانا کردیتا ہے ، اسی طرح اطاعت پر ثابت قدمی نفس کے اندر مصیتل کے جذبے کو ختم کردیتی ہے۔

عبادت سے فکر کو درست کرنے میں مدد ملتی ہے

اگر انسان عبادات کی ادائیگی میں باریک بینی سے کام لے تو مصیبتوں اور پریشانیوں کے مقابلے میں مناسب موقف اختیار کرنے میں مدد ملتی ہے کیونکہ عبادات انسان کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا اوراس کی قضاء و قدر کی یاد دلاتی ہیں۔ اس کے بعد یہ مومن اپنے اوپر آنے والی پریشانیوں کے بارے میں ثابت قدمی سے سوچتا ہے اوراللہ کے فضل سے مصیتی میں پڑتا ہے اور نہ تقدیر پر تنقید کرتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ سے اپنے مضبوط تعلق کی بنا پر تقدیر پر رضا مندی کا یوں اظہار کرتا ہے: ’’یہ سب کچھ مجھ پر حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے آیا ہے جس کی عبادت اوراطاعت میں میں دست بستہ کھڑا رہتا ہوں۔‘‘ بلکہ جس وقت دوسرے لوگ لرز جاتے ہیں اور گرنے کے قریب ہوتے ہیں ، ہم ایسے شخص کو دیکھتے ہیں کہ وہ رضا کے مرتبے پر اڑتے ہوئے یوں گویا ہوتا ہے:

اے اللہ تیری طرف سے جو بھی چیز آئی ہم نے اسے قبول کرلیا

خواہ وہ خلعت ہو یا کفن خواہ وہ کوئی تازہ گلاب ہو یا کانٹا

خوشی اور غمی میں ایمان و عرفان کے ساتھ شکر ادا کرتے ہیں۔

جی ہاں، عبادت اور عبودیت اور معبود برحق اور مقصود بالا ستحقاق یینو اللہ تعالیٰ کی جانب عبودیت کے ساتھ رجوع اور اس کے سامنے پوری بندگی کا اظہار، انسان کی اسی طرح حفاظت کرتا ہے جس طرح باڑ نباتات کی حفاظت کرتی ہے اور اپنے اوپر آنے والی مشکلات اور مصائب میں درست انداز سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس لیے اگر ہم ان سب باتوں کو سامنے رکھیں تو اطمینان سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ صبر کی اقسام کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے۔

دوسری جانب یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آسانی اور مشکل کے لحاظ سے ان تینوں اقسام کے درمیان ایک ترتیب ہے کیونکہ یہ کام بڑا مشکل ہے کہ انسان اپنے اوپر لازم تمام امور کو بغیر کسی کوتاہی اور بغیر کسی مانع کے ادا کرسکے لیکن اگر وہ ان مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے تو صبر کی دیگر اقسام پر قابو پانا اس کے لیے زیادہ آسان ہوگا کیونکہ جو شخص اللہ کے فضل و کرم سے خون اور پیپ کے سمندر سے گزر سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پانی کے دریا کو عبور کرنا اس کے لیے بہت آسان ہوگا۔ اس لیے صبر کی جن انواع کوہم نے یہاں بیان کیا ہے ان کی وجہ سے ان اقسام میں آسانی پیدا ہوتی ہے جن کا تذکر ہ آگے آئے گا۔

سوال: کیا صبر کی کچھ اور اقسام بھی ہیں جن کو ہم ان تین قسام کے ساتھ ملا سکیں؟

جواب: حضرت بدیع الزمان سعید نورسی رحمہ اللہ کی بیان کردہ ان تین اقسام کے علاوہ بھی ہم صبر کی کچھ دیگراقسام کا ذکر کرسکتے ہیں۔ مثلاً زمانے کی سستی پر صبر جو بعض اوقات خاص وقت سے جڑے کاموں کے بارے میں انسان کو جنون کی حد تک لے جاسکتی ہے اور اس کی بڑی اہمیت ہے جیسے کہ انسان یہ تمنا کرتا ہے کہ سب کے سب لوگ ایمان لے آئیں ، یا انسانیت کے اوپر محبت کے پر پھڑپھڑانے لگیں ، ہر طرف امن و سکون ہوجائے، لوگ آپس میں محبت کرنے لگ جائیں اور نسلی تمیز کی ساری شکلیں ختم ہوجائیں لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان جمالیات کے وقوع پذیر ہونے کے لیے ہمیں ایک نئی نسل کی تیاری اور اس معاملے کو بنیاد سے لینا ہوگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کام کے لیے کم از کم ربع قرن یا آدھی صدی کی ضرورت ہے جبکہ جلد باز لوگ اس کا انتظار نہیں کرسکتے جیسے کہ شاعر کہتا ہے:

جلد باز چلتے ہوئے گر پڑتا ہے

اور محتاط اپنے مقصد تک پہنچ جاتا ہے

کچھ لوگ ایسے تھے جو حکومت چاہتے تھے جو ان کو اپنی پوری طاقت اور اثر و رسوخ کے ساتھ مل گئی۔ اکثر اوقات ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ یکبارگی معاشرے کی شکل اور لہجے کو بدل سکتے ہیں لیکن اگر آپ معاملے کی بنیاد کا خیال نہ ر کھیں ، لوگوں کے ارادے کی آزادی کا احترام نہ کریں اور ایک اچھے ماحول کی تیاری کے لیے صبر جمیل سے کام نہ لیں تو بد یہی بات ہے کہ معاملات تمہاری سمجھ کے بغیر ہی الٹے ہوجائیں گے اور واقعات اور واقعات کا رخ تمہاری مصلحت کے مطابق نہ ہوگا ۔ اس لیے جس عمارت کو تم بغیر بنیاد کے کھڑا کرو گے (خواہ وہ ان امور کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو جن میں تمہیں کامیابی کا یقین ہے) تو وہ جلدہی تماارے سروں کے اوپر گر جائے گی کیونکہ جلدی بازی اور بنیاد کا خیال نہ رکھنا انسانی اور معاشرتی ترقی کے خلاف ہے۔ اس لیے جو شخص اس بات کی خواہش رکھتا اورسعی کرتا ہے کہ اس کا معاشرہ بلکہ ساری انسانیت محبت اور سلامتی کے ماحول میں سانس لے، تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس بارے میں تیاری کرے۔ہوسکتا ہے کہ تم اپنی پوری کوشش کرنے کے باوجود بھی ان جمالیات کا مشاہدہ نہ کرسکو جن کی تمہیں خواہش ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ان کا مشاہدہ اگلی نسلوں کے نصیب میں لکھ دے گا۔ اس وجہ سے ساری زندگی ہمارا یہ اصول ہونا چاہیے کہ : ’’اپنی ذمہ داری ادا کریں اور اس کے بعد خدائی کاموں میں مداخلت نہ کریں۔‘‘

اس سے بھی آگے صبر کی ایک اور قسم بھی ہے اور وہ یہ ہے مقربین کا صبر ۔ اس کا مطلب ہے اللہ تعالی کے جمال کے مشاہدے اور سید ا لانام ﷺ کی روح سے ملاقات کے لیے جلنا اور کڑھنا اور روح کی منزل تک پہنچنے سے قبل دنیا کی زندگی کو برداشت کرنا۔ اس قسم کے صبر کے بڑے نمائندوں میں مولانا جلال الدین رومی بھی ہیں جو فرماتے ہیں:

’’مجھے ایک ایسے سینے کی ضرورت ہے جو غم کی وجہ سے کٹ کٹ جائے

تاکہ میں اس میں اس فراق کے درد کو بکھیر سکوں‘‘

مولانا جلال الدین رومی (شوق اور عشق سے جلتے ہوئے) کہا کرتے تھے کہ وہ ایک گمشدہ جنت کے بیٹے ہیں اور اللہ کی جانب سے لائے گئے ایک ایسے مسکین شخص ہیں جن کو دنیا میں لا کر ڈال دیا گیا ہےاور ہمہش< اس رات کے بارے میں گنگناتے رہتے تھے جس میں اللہ تعالیٰ ان کی روح قبض فرمائے گا ۔ گویا وہ ان کی شب زفاف ہے۔ اگرچہ ان کا دل جلتا تھا اور وہ یہ کہتے ہوئے درد سے تلملا اٹھتے تھے کہ’’وصال کب ہوگا‘‘مگراس کے باوجود انہوں نے یوں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا کہ: ’’اے اللہ اب میری روح قبض کر لے تاکہ میرا تجھ سے وصال ہوسکے ‘‘ کیونکہ وہ اپنے ارادے کا حق ادا کرتے تھے اور شوق وصال پر صبرکرتے تھے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جس ذات نے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہے جبکہ امر ادب بلکہ عشق پر بھی مقدم ہے۔ اس لیے اگر عشق انسان کو جنون تک بھی پہنچا دے تو اللہ تعالیٰ کے بلاوے کے بغیر انسان کا آگے بڑھنے کی دعا کرنا اللہ تعالیٰ کی بے ادبی ہے کیونکہ جس ذات نے ہمیں بھرتی کیا ہے وہ اللہ ہے اور جو ہمیں اس خدمت کے بعد سبکدوش ہونے کی سدآعطا کرے گاوہ بھی اللہ ہی ہے۔ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم اس وقت کا انتظار کریں جب ہمارا ٹکٹ بھرا جائے گا۔ یہ بھی عشق اور شوق پر صبر ہے لیکن ایسا صبر ہماری طاقت اور سکت سے باہر ہے کیونکہ یہ ان صالحین کا شیوہ ہے جو حقیقی معنوں میں ایمان لائے، معرفت کی گہرائی میں اترے، پھر محبت تک پہنچے اوراس کے بعد عشق اور شوق کی جانب پرواز کی۔

1۔ صحبح البخاری، الرقاق:18، صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین:218-216