قربانی کی حد ۔۔۔ اخروی لذتوں اور مزوں کی قربا

قربانی کی حد ۔۔۔ اخروی لذتوں اور مزوں کی قربا

سوال : حضرت نورسی رحمۃاللہ علیہ کے اس قول کا کیا مطلب ہے کہ: ’’میں نے اپنی د نیا اور آخرت کو معاشرے کا ایمان بچانے کے لیے قربان کردیا ہے‘‘؟1

جواب: اس عظیم شخصیت سے قبل حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور منصور حلاج، امام ربانی مجدد الف ثانی احمدفاروقی سرہندی اور دیگر بہت سے اولیائے کرام گزرے ہیں اور انہوں نے بھی ایسی باتیں کی ہیں۔ ان حضرات نے جہنم کے دروازوں پر کھڑے دربان فرشتوں کی طرح قلق و اضطراب میں زندگی گزاری تاکہ کوئی بھی شخص جہنم میں نہ گرنے پائے اور اپنے بازؤوں کو پھیلا کر قینچی کی طرح آپس میں ملایا اور نجیب فاضل کی طرح کہا کہ:’’ یہ شارع بند ہے۔‘‘

پہلے اپنی دنیا کی قربانی دی

حضرت بدیع الزمان سعید نورسی نے اپنے مقولے میں پہلے یہ ذکر کیا ہے کہ انہوں نے دوسر وں کے ایمان کی حفاظت کے لیے اپنی دنیا کو چھوڑ دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وہی شخص اس فلک بوس چوٹی جیسی بلند و بالا شخصیت کی زندگی کو اول سے آخرتک دیکھے گا وہ اس مقولے کا اقرار کرے گا کیونکہ انہوں نے جس طرز زندگی کا اپنے لیے انتخاب کیا، اسے کوئی عام انسان کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ آپ کی زندگی جلاوطنی، قید وبند اور ظلم و جور سے بھری پڑی ہے۔ ان لوگوں نے انہیں صرف قید تنہائی میں ہی نہیں ڈالا بلکہ ایسی جگہ ڈالا جو ان کے نزدیک قضائے حاجت کی جگہ کی مانند تھی( میں ان الفاظ پر حضرت کی روح سے معافی چاہتا ہوں) پھر اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس قید خانے کی کھڑکیاں بھی چوپٹ کھول دیں تاکہ وہ موسم سرما کی کڑکڑاتی سردی بھی برداشت کریں۔ پھر اس پر بھی بس نہیں بلکہ انہیں انیس بار زہر بھی دی۔ جیل کے اندر اس ظلم اور جسمانی ایذا کی بات ہی کیا ہے، جیل کے باہر بھی ان کا پیچھا کرنے کے لیے کارندے مقرر کردئے۔

اس کے باوجود اگر حضرت نورسی چاہتے تو منصب اورجاہ کے مالک ہوسکتے تھے ۔ وہ اپنے جیسے دیگر لوگوں کی طرح چین و سکون اور نازونعم کی زندگی گزار سکتے تھے اور دنیا کے مزوں سے لطف اندوز ہوسکتے تھے کیونکہ آپ بڑی اچھی سوچ کے مالک تھے اور پہلے لمحے سے ہی بڑے بڑے منصوبے اورپروگرام ترتیب دئے۔ ان کی باتوں اور تحریروں نے لوگوں پر اثر ڈالا۔ ’’مشروطیت‘‘ کے زمانے میں انپی کتاب ’’السنوحات‘‘ تحریر فرمائی جس میں اس زمانے میں پیش آنے والے بحرانوں اور مشکلات کا تذکرہ کیا اور اس کتاب میں ایسے بہت سے قواعد بیان فرمائے جن کے ذریعے مشکلات کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اسی طرح آپ نے ’’المحاکمات‘‘ میں کمال کا اظہار کیا جس نے اس زمانے کے علماء کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ آپ نے اناطولیہ کا دورہ کیا اور بغاوت کے لیے موقع کا انتظار کرنے والے قبائل کو اپنی رائے تبدیل کرنے پر راضی کرلیا۔ اسی طرح میدانوں میں میں تقریریں کی اور بغاوت کرنے والے گروہوں کا جوش ٹھنڈا کیا۔ آپ ایسی بہادری اورجرأت کے مالک تھے کہ جب عسکری عدالت میں کیس چلا تو ببانگ دہل کہہ دیا کہ: ’’ظالموں کے لیے جہنم زندہ باد۔‘‘ اس طرح یہ اعلان کردیا کہ وہ اپنے افکار اور احساسات سے ہر گز پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

اگر آپ دنیا کے بارے میں ذرا بھی سوچتے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں سے مدارات کا معاملہ کرتے تو عیش و عشرت کی زندگی گزارتے اورجنگ آزادی کے بعد اگر پارلیمنٹ کی کوئی نشست حاصل کرلیتے اور اس کے بعد خاموشی اور سکون سے بیٹھ جاتے اور کسی شے کی طلب نہ کرتے تو مزید شکریہ اور احترم کے مستحق ٹھہرتے ۔ ان کے لیے خفیہ بجٹ سے حصہ ہوتا اور دیگر لوگوں کی طرح ان کو بھی باغات، باغیچے، محلات اور کوٹھیاں پیش کی جاتیں اور وہ بھی عیش و عشرت کی زندگی گزار سکتے تھے اوردنیا کی زندگی بڑی آسائش اور فارغ البالی میں گزرتی لیکن آپ نے ان سب چیزوں کو اپنے دعوے کی خاطر الٹے ہاتھ سے ٹھکرا دیا اور دوسروں کے ایمان کی حفاظت کے لیے ایسی زندگی چاہی جو ناقابل برداشت تھی۔

آخرت کو قربانی کرنے کا کیا مطلب ہے؟

دوسری جانب حضرت نو رسی فرماتے ہیں کہ انہوں نے معاشرے کے ایمان کو بچانے کے لیے اپنی آخرت بھی قربانی کردی ہے یہاں تک کہ خود اپنے بارے میں بھی نہیں سوچا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ حق سبحانہ و تعالیٰ سے اپنےتعلق کو مضبوط کرنے کے لیے مجاہدہ ، خلوت اور ریاضت کی زندگی اور اس کی روحانی ترقی اور روحانی ذوق کے بلند درجات کی جانب جانے کی کوشش نہیں کی کہ ان کے ہاتھ پر کرامات کا ظہور ہو، لوگ ان کا احترام اور قدر کریں۔ پس جس طرح انہوں نے دنیا کے کسی صلے کی تمنا اور خواہش نہیں کی،اسی طرح کوئی اخروی جزاء بھی طلب نہیں کی کیونکہ انہوں نے امت کےایمان کی سلامتی کو اپنی زندگی کا سب سے اعلیٰ مقصد بنا لیا تھا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کو اللہ تعالیٰ سے کوئی اخروی طمع نہ تھی؟ یقیناًتھی لیکن وہ محض اللہ کے فضل و کرم اور رحمت سے اس کی خواہش رکھتے تھے۔

یہاں میں اس بات کی جانب بھی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ حضرت نورسی رحمۃ اللہ علیہ اور آپ جیسے دیگر عظیم لوگ اسی فکری رستے پر چلتے تھے۔ وہ امت کے ساتھ اس طرح پیوستہ ہوگئے تھے کہ اس کے بنیادی عمومی ڈھانچے کا حصہ بن گئے تھے اوراس عمارت کے عصبی خلیوں میں سے ایک خلیہ کی طرح ہوگئے تھے۔ اس لیے وہ اس عمارت کو پہنچنے والی ہر برائی اور بھلائی کو (گہرائی) سے محسوس کرتے تھے اور اس اندازسے متاثر ہوتے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ سے منسوب ایک قول ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’اے اللہ میرے جسم کو اتنا بڑا کر دے کہ میں دوزخ کو اکیلے بھر دوں‘‘۔ حضرت نورسی بھی اسی طرح کہتے تھے کہ: ’’اگر میں دیکھ لوں کہ ہماری امت کا ایمان خیر اور سلامتی سے ہے تو میں اس پر راضی ہوں گا کہ اس کی خاطر میں جہنم کے شعلوں میں جلا دیا جاؤں۔‘‘

لیکن اس شخص کے لیے ان الفاظ کے حقیقی معانی کو سمجھنا مشکل ہے جس کا دل حضرت نورسی جتنا وسیع نہیں ہے۔ جی ہاں، قربانی کے اس بلند و بالا مرتبے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس عذاب کو محسوس کرے جو دیگر لوگوں پر اس وقت ہورہا ہے اور جو مقدر میں ہے یا جس کا بعد میں احتمال ہے اور یوں محسوس کرے کہ گویا اس کے اندرکوئی آگ جل رہی ہے اور اس بات کا تعلق اس سے ہے کہ آدمی کا سینہ اتنا وسیع ہو جس میں ساری انسانیت سما جائے۔ اگر چاہیں تو آپ اس کو ’’عالمی ضمیر‘‘ کا نام دے سکتے ہیں کیونکہ جن لوگوں کے پاس یہ ضمیر ہوتا ہے وہ دوسروں کی خوشی پر خوش اور دکھ پر غمگین ہوتے ہیں۔ دنیا میں کسی بھی جگہ آ گ برسے وہ ان کو جلاتی ہے کیونکہ ان کے دل اس آگ کے شعلوں سے جلتے ہیں۔

اس لیے ان آراء اور وسیع ملاحظات کو پوری طرح سمجھنا ہم جیسے عام لوگوں کے بس کی بات نہیں (اگرچہ یہ بات ہم سب کے بارے میں نہیں کہہ سکتے) کیونکہ ہم لوگ اپنی بیوی بچوں اوردوستوں کی تکالیف کا کچھ حصہ محسوس کرسکتے ہیں ( اگر ان کو کوئی تکلیف ہو تو ) لیکن ہمارے پاس ایسا سینہ نہیں ہے جو ساری انسانیت کو گلے لگائے۔ چونکہ ہم لوگ علم کے اس درجے کی معرفت اور وجدان کی وسعت تک نہیں پہنچے اس لیے ہمیں ان عظیم شخصیات کے ان دکھوں اور غموں کو سمجھنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے جنہوں نے ان کو گھلا کر رکھ دیا ہے۔

ایک مرتبہ ایک شخص کو(جس کو میں پہلے سے جانتا تھا)حضرت ’’یشارطوناکور‘‘ کے درس میں لایا گیا تو مرحوم نے اس بار بھی اپنے وعظ میں (حسب عادت) گہرے شوق اورآنسوؤں کی لڑی میں بات کی۔ میرا خیال تھا کہ اس مہمان پر اس کا اثر ہوا ہوگا مگر میں نے اسے یہ کہتے سنا: ’’ یہ شخص اس برے انداز سے کیوں بین کررہا ہے؟‘‘ اس پر مجھے حیرت ہوئی اور بڑا شدید دکھ بھی کیونکہ میں اپنے سامنے ایک طرف ایک ایسی سخت سوچ کو دیکھ رہا تھا جو فہم اور احساس کے ملکہ ا ورقدرت سے محروم ہے تو دوسری جانب ایک ایسا وسیع ضمیر اور وجدان تھا جو ایسی نرمی کا نمونہ تھا جو اس سے ٹپکی پڑتی تھی۔ اس لیے ایسے وسیع وجدان کے احساسات اور جذبات کو اسی طرح سمجھنے کے لیے اس رتبے میں اس کا شریک ہونے کا مرہون منت ہے جس پر وہ ہے۔

حقوق اللہ کو ہر شے پر مقدم رکھنے کی ضرورت

شیخ عبدالقادر جیلانی، امام غزالی، مجدد الف ثانی اور بدیع الزمان سعید نورسی رحمہم اللہ جیسے عظیم لوگوں نے صرف اپنی ذات کے بارے میں نہیں سوچا کیونکہ انہوں نے اس سے وسیع تر دائرے کا خیال رکھا اور انتہائی وسیع میدان پر توجہ دی۔ اس لیے جن لوگوں کو ایسی عظیم شخصیت سے متعارف ہونے کی سعادت حاصل ہے ، ان کو چاہیے کہ وہ بھی قربانی کے اس رتبے تک پہنچنے کے لیے تگ و دو کریں ۔ جی ہاں، جن لوگوں نے اپنے آپ کو حق کے لیے وقف کردیا ہے ان کو ایسے دنیوی افکار کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے، مثلا گرمیوں میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر جانا اورلذت حاصل کرنے اور لطف اندوز ہونے کے لیے سردیوں میں پہاڑوں کے دامن اور ساحلی علاقوں کا رخ کرنا۔ ان پر لازم ہے کہ وہ ایسے افکار کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھیں جو ان کے دل میں آ سکتے ہیں( بلکہ اس کے ساتھ ساتھ )ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ روحانی فیوض کو بھی قربان کردیں جن میں کرامات ، کشف، لوگوں کے باطنی احوال جاننا اورماوراء الطبیعیاتی آراء کی سیر اور روحانی مخلوق کے ساتھ اڑنا بھی شامل ہے۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو صرف امت کا ایمان بچانے کے لیے وقف کریں اور اس طرح کے فیوضایت الہٰیہ ان کی طلب کے بغیر آجائیں تو بھی ان کو بے چین اورمضطرب ہونا چاہیے اوران کی لسان حال یہ کہے: ’’کیا اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مجھے آزما رہا ہے؟‘‘اوران کا موقف یہ ہونا چاہیے کہ: ’’اے اللہ اگر ان امور میں سے کوئی بھی استدراج نہیں بلکہ تیرا لطف ہے تو اس پرتیرا شکر ہے لیکن میں اس کا طلب گار نہیں‘‘ کیونکہ اس طرح کی قوی اور چوکنی سوچ کا مطلب ہے ہمیشہ حقوق اللہ کو سب چیزوں پر مقدم رکھنا۔

یہاں ایک نقطے کی جانب توجہ مبذول کرانا خالی از فائدہ نہ ہوگا جسے غلط انداز میں سمجھاجاسکتا ہے۔وہ یہ کہ انسان کا اپنی آخرت یا روحانی فیوضات کو قربان کرنے کا مطلب عبادت، اطاعت اور اذکار سے غفلت برتنا یا ان کوچھوڑنا نہیں بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ اصل ہدف اور مقصد کشف و کرامات نہیں (جبکہ ان کو اکمل اور اتم طریقے سے پورا بھی کرنا ہوتا ہے) اور نہ مزے اور روحانی لطف اور لذتیں ہیں بلکہ انسان کا اصل مقصد عبودیت کی ذمہ داری کو پورا کرنا اور دوسروں کو اس لذت کا مزہ بتانا ہے جس کو اس نے چکھا اور محسوس کیا ہے۔ اسی طرح جو شخص عبادت، اطاعت اور اوراد واذکار کے ذریعے اپنے ایمان کی حفاظت اور تجدید نہیں کرتااس کے لیے دوسروں کا ایمان بچانا ناممکن ہے۔

اس بارے میں جو دوسری بات کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ: انسان کا اپنے آپ کو بھول جانا، اس کے بارے میں نہ سوچنا اور ہمیشہ ایسے احساسات اور جذبات کا اہتمام کرنا، جو دلوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا اورانسانیت کے بارے میں سوچتے سوچتے رات گزارنا، یہ سب باتیں انبیائے کرام علیہم السلام کے اوصاف میں سے ہیں۔ پھر جب قیامت کے دن لوگوں کو مختلف خاص گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا تو جو لوگ اللہ کی راہ میں دین ، ایمان ، قرآن اور انسانیت کی خاطر تکالیف اور مشقتیں برداشت کرتے ہیں، اللہ کے حکم سے ان کا حشر انبیائے کرام علیہم السلام کے ہمراہ ہوگا۔ اس لیے ہمتوں کو بلند کرنا اور انانیت کی زندگی کو ترک کرنا اور ہمیشہ دلوں کو زندہ کرنے اور زندہ رکھنے کے لیے کوشش کرنا ضروری ہے۔

[1] بدیع الزمان سعید نورسی، سیرۃ ذاتیہ ، ص:491