برائیوں کو دور کرنے کے اصول

برائیوں کو دور کرنے کے اصول

سوال: معاملات اور تصرفات کا مقابلہ کس طرح کرنا چاہیے؟

جواب: ’’نفرت سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور بغض سے بغض جنم لیتا ہے‘‘۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو سب جانتے ہیں۔ اس لیے سختی کا مقابلہ سختی، شدت کا مقابلہ شدت اور غصے کا مقابلہ غصے سے کرنے سے ایسے غلط دائرے بنتے چلے جاتے ہیں جن پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس طرح معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور ان واقعات کے بھنور میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ اس لیے مسلمان کو بردبار اور کھلے سینے کا مالک ہونا چاہیے تاکہ وہ انتہائی منفی امور پر بھی قابو پاسکے بلکہ ان غلط باتوں کے مقابلے میں ایسے مجاہدانہ اسلوب سے پیش آئے جو ان کے مرتکب لوگوں کی بھی نجات کا سبب بن جائے۔

اچھی طرح دور کرنا!

قرآن کریم میں اس بارے میں ارشاد خداوندی ہے: ﴿أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ﴾ (القصص:54)(ان لوگوں کو دوگنا بدلہ دیا جائے گا کیونکہ بھلائی کے ساتھ برائی کو دور کرتے ہیں اور جو (مال) ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں) یہ آیت کریمہ مسلمانوں کو پیش آنے والے برے معاملات کے مقابلے میں کی سب سے اچھی کیفیت کی جانب رہنمائی کررہی ہے۔ اگرچہ روایات کے مطابق یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی مگر’’ اعتبار حکم کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ سبب کی خصوصیت کا۔‘‘ اس لیے یہ آیت کریمہ جس طرح سب کو مخاطب کررہی ہے، اسی طرح یہ آج بھی مسلمانوں کو مخاطب کررہی ہے۔

یہ آیت کریمہ بتا رہی ہے کہ: ’’بماصبروا‘‘ کے صریح معانی کے مطابق دوہرے اجر کا وعدہ ان لوگوں سے ہے جو مشکلات، تکالیف اور سختی پر صبر کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ان آزمائشوں اور مصائب پر صبر کرتے ہیں جو ان پر آتے ہیں ، وہ ان کو اپنے سینوں میں پگھلا کر ان کو آتش بازی کے سامان میں بدل دیتے ہیں اور ایسے مناظر پیش کرتے ہیں جو عقلوں اور ذہنوں کو حیران کردیتے ہیں ۔ یہ مناظر بالکل ایسے ہوتے ہیں جیسے شہری تقریبات ، شادیوں اور خوشی کی راتوں میں پیش کیے جاتے ہیں۔ جی ہاں، جیسے کہ ’’ وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ ‘‘ کے الفاظ سے اشارہ کیا گیا ہے، سب سے منفی اور برے واقعات کو بھی مثبت بنا دیتے ہیں اور برائی کا مقابلہ بھلائی سے کرتے ہیں اور برائی کو بہترین چیز سے دور کرتے ہیں۔

اس لیے وہ مسلمان جو اس آیت کریمہ کو اپنی زندگی میں نافذ کردے اور اس کو زندگی کا اصول بنا لے تو جب بھی کسی جماعت یا فرد کی طرف سے پیش آنے والے برے سلوک کی وجہ سے اس کے دل میں بغض ، حسد اور نفرت کے جذبات پیدا ہونے لگیں تو وہ بردباری اور نرمی کے ذریعے فوراً ان جذبات سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ جیسا کہ اس آیت ﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ﴾ (ہود:114)(شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں)میں آیا ہے کہ مومن جب بھی کسی ایسے منفی کام کا مرتکب ہوتا ہے جس سے اس کی اطاعت اور عبادت پر حرف آتا ہو تو وہ اپنے اس جرم کا کفارہ ادا کرنے اور اسے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور گناہ کو زائل کرنے کے لیے اس کے بعد کوئی نیک عمل کرلیتا ہے۔

حقیقی مومن جب کسی برائی کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ اس کے سینے میں لوہے کی ہک یا نیزے کی طرح ترازو ہو جاتی ہے اور اس کا دل درد سے تلملانے لگتا ہے ۔ اس لیے وہ اس غلطی کو مٹانے کی کوشش اور سعی کرتا ہے اور فوراً کوئی نیکی اوربھلائی کرتا ہے۔ اس لیے برائی کوئی بھی ہو خواہ چھوٹا ہی فعل ہو ، برتاؤ ہو، نظر ہو یا کوئی غلط یا گندہ اشارہ ہو تو بھی اس کو اس کے بعد کوئی مثبت کام کرنا چاہیے تاکہ اس کے ذریعے اس غلطی اور اس کے نتیجے میں ذہن اور عقل پر مرتب ہونے والے برے اور منفی اثرات کو مٹایا جاسکے۔

یہ بات د راصل اللہ تعالیٰ کی بندگی کا تقاضہ ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ سے کوئی نصیحت کرنے کی درخواست کی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: (يَا مُعَاذُ اتَّقِ اللهَ حَيْثُما كُنْتَ، وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ)’’اے معاذ جہاں کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہ اور برائی کے بعد نیکی کر جو اس کو مٹا دے گی اور لوگوں سے حسن اخلاق سے پیش آیا کر۔‘‘ (1)جبکہ یہ آیت کریمہ: ﴿إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ﴾ (فاطر:10) (اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتے ہیں) بیان کررہی ہے کہ ہر نیک عمل اور اچھائی کلمات طیبہ کو اللہ کی جانب بلند کرنے کے لیے ایک سپرنگ اور سیڑھی کا کام دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھلائی ایسا اثر چھوڑتی ہے جو منکرات اور شرور کو ختم کردیتا ہے۔ ﴿ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ﴾ کے الفاظ سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے ایسی قرآنی نصیحت ہے جو بھلائیوں کے ذریعے گناہوں کو ختم کرنے کے باب میں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔

حقیقت واقعہ یہ ہے کہ مثبت رویہ لوگوں کے اذہان سے تمام برائیوں اور منفی باتوں کو محو کرتا ہے (خواہ وہ برائیاں انفرادی ہوں یا اجتماعی) اور ان کو بھلا دیتا ہے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی مغفرت تک بھی لے جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ جب وہ انسان ان گناہوں سے تائب ہو جائے تو پھر وہ دار آخرت میں اس کے لیے تکلیف اور عذاب کا سبب نہ بنیں اور ان کی وجہ سے اسے کوئی اندرونی تکلیف بھی نہ ہو۔ جی ہاں، اس لیے جب انسان (جنت کی) اس عظیم نعمت، وسیع احسان اور لامتناہی لطف و کرم میں زندگی بسر کرتا ہے، تو اسے ہمیشہ ان باتوں کو یاد نہیں کرنا چاہیے کہ ’’کاش میں نے اپنے رب، اپنے نبی اور دین کے حق میں اس شرمندگی کا ارتکاب نہ کیا ہوتا‘‘ جس کی وجہ سے اسے اذیت ہوتی ہے جبکہ یہ بات جنت کے مزاج کے خلاف ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی رحمت اور نعمت کے ایک اور رخ کے طورپر انسان کو وہ باتیں بھلا دے گا تاکہ اسے اس مشکل سے بھی نجات مل جائے۔

یہاں ایک اور بات بھی ہے وہ یہ کہ (جب تک انسان دنیا میں ہے) اسے اپنے گناہوں، خطاؤں اورغلطیوں کو ذہن سے محو نہیں کرنا چاہیے کیونکہ گناہ کے ارتکاب کے پچاس سال بعد بھی اسے یاد کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگاں ہو تو یہ موقف اسے دوبارہ اس گناہ اور غلطی کے ارتکاب سے روک دے گا اور ساتھ ہی اسے اس استغفار پر ہمیشہ اجر ملتا رہے گا۔جی ہاں، اس طرح کا ہر استغفار ’’عدم‘‘ کے چشموں کو خشک کرتا ہے، اور برائیوں اور شرور کو مٹاتا ہے۔ پھر جب مٹانے کے لیے کوئی گناہ باقی نہیں رہ جاتا تو انسان کو ایسے پھل دیتا ہے کہ جب قیامت میں وہ اس کے سامنے پیش کئے جائیں گے تو وہ خوشی اور تعجب کی وجہ سے انگشت بدنداں رہ جائے گا۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ جب تک وہ اس دنیا میں رہے کسی گناہ کو بھی نہ بھولے بلکہ ہمیشہ اپنی چھوٹی سے چھوٹی غلطی کو بھی اس لیے یاد کرتا رہے کہ قیامت میں اس کا دکھ اور غم اسے نہ سہنا پڑے۔ اسے چاہیے کہ اپنی روح میں تنگی اور اضطراب کا احساس کرے تو استغفار کرے اور اپنے غفار رب سے معافی مانگنے پر مصر رہے۔

دوسری طرف مومن کو چاہیے کہ وہ ا پنی نیکیوں کو فراموش کرے ،اگرچہ وہ ایک زمانے کے ختم اور دوسرے کے آغاز ہونے کا اعلان ہی کیوں نہ ہوں جن سے ایک نئی ثقافت کو وجود ملا ہو جیسے کہ استنبول کی فتح سے تاریخ میں ہوا، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جب اسے کوئی عظیم خدمت یاد دلائی جائے تو وہ اپنے آپ کو اس میں شریک نہ سمجھے۔ وہ اپنی ذات کا انکار کرتے ہوئے اس پر حیران ہو اور اپنے آپ کو یوں مخاطب کرے: ’’یا الہٰی ! کیامیں نے ایسا کوئی کام کیا ہے؟ مجھے تو یاد نہیں ۔ ‘‘اس کے بعد بھی اگر لوگ اپنی بات پر اصرار کریں کہ ’’تم نے یہ کیا ہے‘‘ تو تحدیث با لنعمہ کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ دے کہ: ’’اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ جیسے گناہگار اور حقیر بندے کو اس کام میں استعمال فرمایا۔ یہ بات بھی اللہ کی وسیع اور منفرد رحمت کی تجلیوں میں سے ایک تجلی ہے۔‘‘

برائی کو اچھائی سے دور کرنا حقیقی مروت ہے۔

اس موضوع سے متعلق ایک اور آیت میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴾ (حم السجدۃ:34)(اور بھلائی اور برائی برابر نہیں سکتی تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بتل اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی وہ تمھارا گرم جوش دوست ہے) یہ آیت بھی اس امر کی جانب اشارہ کررہی ہے جس کی جانب گزشتہ آیت میں بیان فرمایا گیا۔

اس کے مطابق اگر دوسروں سے دشمنی رکھنے والا شخص غیرت اور حسد کی وجہ سے غیظ و غضب میں کف اڑاتا ہو، اپنے مخالف کو طیش دلاتا ہو،اسے غصہ دلاتا ہو اور اس کو بھڑکانے کی کوشش کرتا ہو، تو بھی اس کے مخاطب کو چاہیے کہ وہ﴿وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ﴾ (آل عمرن:134) (اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں) پرعمل کرتے ہوئے اپنے غصے پر قابو رکھے۔ ’’والکاظمین الغیظ‘‘ یعنی وہ لوگ جو اپنے غصے کو چھپاتے اور پیتے ہیں اگرچہ مشکل سے ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے غم و غصے کا اظہار نہیں کرتے، ثابت قدم رہتے ہیں اور اس بارے میں جلد بازی سے کام نہیں لیتے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کی تعریف فرمائی ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى خَيْرِ أَخْلَاقِ أَهْلِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ: أَنْ تَصِلَ مَنْ قَطَعَكَ، وَتُعْطِيَ مَنْ حَرَمَكَ، وَتَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَكَ‘‘ ( کیا میں اہل دنیا و آخرت کے سب سے اچھے اخلاق نہ بتاؤں: یہ کہ جو تجھ سے تعلق کاٹے تو اس سے جوڑ، جو تجھے محروم رکھے تو اس کو دے اور جو تجھ پر ظلم کرے تو اس کو معاف کردے)۔ (2) اس میں آپ علیہ السلام نے اس جانب رہنمائی فرمائی ہے کہ جو ہمارے ساتھ برائی کرے ہم اس سے عفوو درگزر سے کام لیں اور اس سے اچھائی سے پیش آئیں تاکہ وہ دوبارہ اس فعل کا اعادہ نہ کرے۔ جی ہاں، یہ سب برائی کا بدلہ اچھائی سے دینے کے نمونے ہیں۔ بالفاظ دیگر ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے تمام منفی تصرفات اور برے برتاؤ کا جواب اچھائی اور بھلائی سے دے اگرچہ دوسرے لوگ اس پر برائیوں کی بوچھاڑ کیوں نہ کردیں اور اپنے ہاتھوں ، زبان، آنکھوں ، کانوں بلکہ اپنے اشاروں اور حرکتوں سے اس سے بدترین معاملہ کیوں نہ کریں۔ اس طرح وہ غلط دائروں کے بننے میں رکاوٹ بن جائے گا۔ ایک ترکی نظم میں اس کی تصویر کشی یوں کی گئی ہے:

اچھائی کا بدلہ اچھائی سے دینا بہت آسان اور سہل ہے
اور برائی کا بدلہ اچھائی سے دینا قدرت والے انسان کا کام ہے

جی ہاں، مومن کی جانب سے برائی کا مقابلہ اچھائی سے کرنا ’’قدرت والے مرد‘‘ کی شان ہے ۔اس کے لیے یہ مناسب نہیں کہ ’’جیسے کو تیسا‘‘ کے ظالمانہ اصول کے مطابق یوں کہے کہ: ’’اگر وہ یوں کہیں گا اور یوں کرے گا تو میں بھی یوں کہوں گا اور یوں کروں گا۔‘‘ کیونکہ اسلامی قاعدہ یہ ہے کہ’’ ضرر کو اسی جیسے ضرر سے دور نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ اس طرح کے تصرف سے آدمی قیل و قال کا شکار ہوجاتا ہے جو بوڑھی عورتوں کا وطیرہ ہے۔ اس سے آدمی گناہوں کے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی اس طرح کی سوچ آج کے زمانے کی مشکلات کو حل کرنے میں قطعاً مفید نہیں۔ اس لیے سب کو چاہیے کہ اس بارے میں نہایت محتاط اور چوکس رہیں خصوصاً اس وقت جب وہ اعلیٰ افکار اور اونچے اہداف سے جڑے ہوں۔

زیادہ اچھے طریقے سے دور کرنا اور رستے کی سلامتی

اچھائی صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ ’’کوبرا‘‘ سانپ پر بھی اثر کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ مارے خوشی کے جھوم اٹھتا ہے۔ آپ نے دستاویزی فلموں میں بھی دیکھا ہو گا کہ وہ بانسری کی آواز پر کس طرح ناچتا ہے۔ چونکہ کوبرا بہرا جانور ہے وہ بانسری کی آواز نہیں سن سکتا مگر جب وہ بانسری بجانے والے کی انگلیوں کو بانسری پر ناچتے ہوئے دیکھتا ہے اور یہ بھی دیکھتا ہے کہ ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تو وہ ناچتا اور جھومتا ہے اور جب وہ منظر بدل جائے جو اسے ناچنے پر مجبور کرتا ہے تو شاید ڈنگ مار دے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کیونکہ اگر اکثر اوقات ایسا ہو تا تو میرے خیال میں اس کام میں اتنی دلچسپی نہ لی جاتی۔

خلاصہ کلام: اللہ تعالیٰ نے حیوان میں بھی اس سے کی جانے والی اچھائی کے مقابلے کے لیے ایسی حس اور شعور رکھا ہے تو پھر انسان پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے فائدہ ا ٹھائے اور اس مفہوم اور نہج کے مطابق چلے کہ’’ جس کے شر سے بچ جائے اس سے اچھائی کر‘‘۔ اس لیے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے کی خوشی اور ہم آہنگی کی حفاظت اور بغض ، عناد اور فتنے کی آگ کو بجھانے کے لیے اس طرح کا برتاؤ اپنے ارادے سے اختیار کیا جائے۔ اس برتاؤ کی حدود مقرر ہیں کہ اس میں قربانی ذاتی حقوق کی دی جاتی ہے ورنہ جب ظلم کا تعلق عام لوگوں کے حق سے ہو تو ایسے وقت خاموشی اور اس میں شرکت انسان کو گونگے شیطان کے مقام پر لا کھڑا کرتا ہے۔ یہ کام مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔ البتہ اگر (تمہیں قتل کرنے کے لیے کوئی شخص غصے کے ساتھ اپنا نیزا لہرائے) تو ضرورت ہو تو تم اس سے کہہ سکتے ہو کہ: ’’آؤ دوست میں تمہیں گلے لگاؤ ں گا!‘‘ اور مہلک نیزے اور بھالے کو اپنی جگہ رکھنے پر مجبور کرسکے تویہ الگ بات ہے۔ میں بار دگر ذکر کرتا ہوں کہ آج ہم جن مشکلات کا شکار ہیں، ان کے مقابلے میں ایسے برتاؤ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

[1] سنن الترمذي، البر والصلة، 55؛ مسند الإمام أحمد، 284/35.
[2] جامع معمر بن راشد، 172/11 (الفاظ ان کے ہیں)؛ ملاحظہ ہو: مسند الإمام أحمد، 654/28؛ البيهقي: شُعب الإيمان، 417/10.