ایثار کی روح

ایثار کی روح

سوال: انسانی مشکلات کو حل کرنے میں ایثار کی خوبی کی کیا اہمیت ہے؟ اور انسان اس کو کس طرح اپنا سکتا ہے؟

جواب: ایثار کا مطلب ہے انسان کا دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح دینا ۔ یہ ان اعلیٰ اقدار میں سے ہے جو ہم کھو چکے ہیں ۔ آج افراد اور معاشروں کے درمیان اختلاف، تفرقہ بازی، دوسروں کو قبول نہ کرنے ، انارکی اور جھگڑوں کا سبب ایثار کی روح کی موت ہے اور اس روح کی موت کا سبب اخلاقی زوال اور دل کی خرابی ہے کیونکہ جب دل خراب ہو جاتا ہے تو اس سے تمام انسانی اقدار، نقوش اور اعلیٰ اخلاق مٹ جاتے ہیں جن پر ’’احسن تقویم‘‘ ہونے کے لحاظ سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔ اس کے بعد شیطان انسان کی فکری دنیا میں خاموشی سے گھس جاتا ہے اور بڑی آسانی سے اس کے ساتھ کھیلتا ہے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے ’’ إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ ‘‘(حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے) والی حدیث کو ان الفاظ پر ختم فرمایا ہے: ’’أَلَا وإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِي الْقَلْبُ ‘‘(1) (خبردار جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار وہ ٹکڑا دل ہے۔)

اس کا مطلب یہ ہوا کہ دل کی روحانی زندگی اور اس کی حفاظت کا دارومدار انسان کی جانب سے دل کی صفائی اور اسے ہر طرح کی آلائشوں سے پاک کرنے اور روزانہ اس کی نگرانی کرنے پرہے۔ اس لیے سالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلسل دعا کے ذریعے اس پاکیزگی اور طہارت کو حاصل کرے۔ اس کوچاہیے کہ وہ نہایت چوکس اور محتاط رہے یہاں تک کہ اس کو چاہیے کہ وہ ایسے برے خیالات اور افکارسے بھی بالکل دور رہے جو دل میں منفی اثرات چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ:’’ إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى أَجْسَادِكُمْ، وَلَا إِلَى صُوَرِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ‘‘(2) (اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کود یکھتا ہے اور نہ شکلوں کو لیکن وہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔) اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے دل کو دیکھتا ہے ا ور اسی بنیاد پر اس کو بدلہ دیتا ہے۔ حق تعالیٰ شانہ انسان کے وزن، اس کی شکل و صورت اور اس کے ماحول کو نہیں دیکھتا بلکہ اس کے دل کی صفائی اور پاکیزگی کو دیکھتا ہے اور اس کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہے۔ اسی طرح قیامت میں بھی ترازو کے پاس دل کی قیمت اور اس کے وزن کو دیکھا جائے گا اور انسان کی قدر اس کے دل کی اللہ کی جانب توجہ اور اس سے خوف اور ڈر کے احساس کے بقدر ہوگی۔(ارشاد خداوندی ہے) ﴿يَوْمَ لاَ يَنْفَعُ مَالٌ وَلاَ بَنُونَ * إِلاَّ مَنْ أَتَى اللهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ﴾ (الشعراء:89-88) (جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے سکے گا اور نہ بیٹے۔ ہاں جو شخص اللہ کے پاس پاک دل لے کر آیا (وہ بچ جائے گا))

عصرسعادت : ایثار کی روح کا سنہری دور

پاکیزہ اور صاف ستھر ے دلوں کے مالک لوگوں میں انسانیت کے لیے شفقت اور نرمی کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوتے ہیں اور وہ اسی وقت خود اپنی زندگی سے زیادہ دوسروں کی زندگی اور اسے زندہ کرنے کے بارے میں سوچتے اور اس کے لیے کام کرتے ہیں جبکہ درحقیقت اس بات کا تعلق ایثار کی روح کے ساتھ ہے۔ قرآن کریم نے ایثار کی اس خوبی کی جانب یوں اشارہ فرمایا ہے: ﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ (الحشر:9)( (دوسروں کو ) اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو) اس روح کا سب سے ترقی یافتہ عمومی زمانہ ’’عصرسعادت‘‘ یعنی اسلامی تاریخ کا ابتدائی زمانہ ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس ایک شخص آیا تو آپ علیہ السلام نے ازواج مطہرات کے پاس پیغام بھیجا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس تو پانی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’اس شخص کی مہمان نوازی کون کرے گا؟‘‘ تو انصار میں سے ایک صاحب نے کہا کہ میں ۔

پھر وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور بیوی سے کہنے لگے کہ ’’رسول اللہ کے مہمان کی تواضع کرو۔‘‘ تو وہ کہنے لگیں کہ ہمارے پاس تو بس بچوں کے لیے کھانا ہے۔ وہ کہنے لگے: کھانا تیار کرو، چراغ روشن کرو اور جب بچے کھانے کا ارادہ کریں تو ان کو سلا دو ۔ چنانچہ بیوی نے کھانا تیار کیا ، چراغ جلایا اور بچوں کو سلا دیا۔ اس کے بعد چراغ کو درست کرتے کرتے اسے بجھا دیا اور دونوں میاں بیوی اس طرح دکھانے لگے کہ گویا وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ اس کے بعد دونوں بھوکے پیٹ سو گئے۔ جب صبح ہوئی تو وہ صحابی آپ ﷺ کے پاس گئے تو آپ علیہ اسلام نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو تم دونوں کا رات کا عمل بہت پسند آیا۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ المُفْلِحُونَ﴾ (الحشر:9)((دوسروں کو ) اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا، تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔)(3)

شاعر محمد عاکف نے اس مبارک اور اعلیٰ روح کو ’’یرموک‘‘ کے بارے میں ایک واقعہ میں نظم کی شکل میں پیش کیا ہے کہ اس جنگ میں حضرات صحابہ کرام میں سے حارث بن ہشام، عکرمہ بن ابو جہل اور عیاش بن ربیعہ رضی اللہ عنہم شدید زخمی ہو کر موت و حیات کی کشمکش میں تھے۔(4)حضرت حارث نے پینے کے لیے پانی مانگا تو حضرت عکرمہ ان کی جانب دیکھنے لگے انہوں نے فرمایا کہ پانی عکرمہ کو دو۔ اتنے میں حضرت عیاش بن ربہ4ص نے حضرت عکرمہ کی جانب دیکھا تو وہ فرمانے لگے کہ پانی عیاش کو دے دو لیکن پانی حضرت عیاش تک پہنچ نہ سکا اور نہ کسی اور کو ملا یہاں تک کہ سب نے جام شہادت نوش کرلیا اورپانی نہ چکھ سکے۔(5)

میری آنکھوں کے سامنے ایسا ہی ایک واقعہ پیش آچکا ہے جو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ہم ’’بوجہ‘‘ (6) کیمپ میں تھے اور جب کھانا کھانے لگے تو میری پلیٹ میں گوشت کا ایک ٹکڑا آگیا۔ میں نے فوراً وہ ایک مہمان استاد کے سامنے پیش کردیاجو میرے پہلو میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے اسے اپنے ساتھ والے آدمی کو دے دیا۔ اس طرح باری باری وہ گوشت کا ٹکڑا آگے چلتے رہا اور شاید بارہ آدمیوں کی پلیٹ سے گزر کر دوبارہ پہلے مہمان استاد کے سامنے آگیا تو اس استاد نے اس پر یہ آیت پڑھی: ﴿بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا﴾ (یوسف:65)(ہماری پونجی ہمیں واپس کر دی گئی) اس طرح لوگوں میں اس شعور اور احساس کا عام ہونا اور معاشرے کی سلامتی، اطمینان اوراس کے افراد کے درمیان اخوت کی روح کی بیداری کے لیے نہایت ضروری ہے۔

مرتبے اور منصب میں ایثار

ایثار کے بارے میں یہ سب مثالیں بہت اہمیت کی حامل ہیں لیکن ایثار کا مطلب صرف یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ دوسروں کو کھانے پینے اور لباس پوشاک میں اپنے اوپر ترجیح دی جائے کیونکہ مرتبے، مقام اور منصب کے لحاظ سے دوسرے بھائی کو اپنے اوپر ترجیح دینا بھی ایثار کے معنی کے لحاظ سے بڑی اہم بات ہے۔ اس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا موقف کتنا زبردست اور کتنی خوبصورت مثال ہے۔ جب آنحضرت ﷺ کا وصال ہوگیا تو صحابہ کرام فوراً اکٹھے ہوگئے تاکہ ایک خلیفہ پر متفق ہو جائیں جس سے مسلمانوں کے درمیان قائم وحدت برقرار رہ سکے اور اسلامی معاشرے میں افراتفری پیدا نہ ہو۔ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر کے فضائل بیان فرمائے اور سقیہ بنو ساعدہ میں تشریف فرما دیگر صحابہ کرام سے فرمایا کہ عمر یا ابو عبیدہ بن الجراح میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو۔ اس پر حضرت عمر فرمانے لگے بلکہ ہم آپ کی بیعت کریں گے کیونکہ آپ ہمارے سردار ہیں، آپ ہم میں سب سے بہتر ہیں، آپ ہم میں سے رسول اللہ ﷺ کو زیادہ محبوب تھے۔ اس کے بعد ان کا ہاتھ پکڑا اور بیعت کی۔باقی حضرات نے بھی حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی۔(7) اس سے معلوم ہوا کہ امارت اور منصب کے وقت آدمی کا ایک قدم پیچھے ہٹ کر اپنے بھائی کو اپنے سے آگے کرنا، ایثار کی ایک نہایت اہم قسم ہے۔

اس مناسبت سے یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ یہاں حضرت ابو بکر و عمر میں سے ہر ایک کے مرتبے اورعظمت کی وجوہات کو بیان کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ہمارے پاس ایسا کوئی ترازو نہیں ہے جو ان کے مرتبے کے مطابق ان کے اعمال کا وزن کرسکے بلکہ میرا خیال یہ ہے کہ اگر آخرت کا ترازو بھی حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے اعمال کو تولنا چاہے گا تو ان کے اعمال اس پر بھی بھاری ہوں گے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی بذات خود ایک الگ قیمت ہے یہاں تک وہ مرتبے میں برابر ہوگئے اور ان کے سامنے رسالت کے سوا کوئی ایسا مرتبہ نہیں رہ گیا جس تک نہ پہنچ سکے ہوں۔ ان کو رسالت اس لئے نہیں مل سکی کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی رسالت کا وجود نہیں ۔اس لیے اگر نبوت ممکن ہوتی تو ان حضرات میں سے کوئی ایک نبی ہوتا۔

جی ہاں، جس وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر کو خلافت کے قابل سمجھا تو حضرت عمر نے بھی ان کو اس کا اہل سمجھا حالانکہ یہ بات پکی ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی اپنے دل میں بھی یہ نہ سوچا ہو گا کہ میں یہ کام اپنے ساتھی سے بہتر انداز میں کرسکتا ہوں، اسی وجہ سے میری طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یوں کوئی خاص منصب حاصل کرتے وقت اپنے بھائیوں میں سے کسی کو اپنے اوپر ترجیح دینا بذات خود ایثار کا ایک ایسا مرتبہ ہے جو مادی مفادات کی تمام قسموں سے بڑھ کر ہے۔اس لیے جس شخص میں یہ خاصیت ہوگی وہ صرف خود نہیں جینا چاہیے گا بلکہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دے گا کہ وہ بھی زندہ رہیں اور ایسی جرأت اور بہادری سے کام کرے گا اور یہ بھی کہہ ڈالے گا کہ:’’ اگر ضرورت ہو تو میں مر بھی جاؤں گا کیونکہ یہ ضروری ہے کہ لوگ زندہ رہیں اور اگر میری امت کی بقا اور ثابت قدمی میری قربانی پر منحصر ہو تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ فوراً میرے لیے یہ فیصلہ فرما دے۔‘‘ اس کے برعکس اس پاکیزہ روح سے محروم وہ شخص بدبخت ہے جو اپنے آپ کو ہر شے کی بنیاد سمجھتا ہے کہ گویا وہ زمین کو سرپر اٹھانے والا بیل ہے اور اس کا خیال ہے کہ اگر وہ ہٹ گیا تو زمین گر پڑے گی اور قیامت آجائے گی۔

جنت کی دہلیز پر بھی ایثار

یہ منظر کتنا پر اثر اور قابل غور ہے کہ ایثار کی کیا حد ہو سکتی ہے۔ نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ علیہ السلام کو جنت کے دروازے پر مالداروں اور علماء کی ملاقات کے حال سے آگاہ کیا گیا تو آپ علیہ السلام نے وہ حال ہمارے سامنے بیان فرمایا : آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ علماء نے مالداروں سے کہا کہ: ’’چلئے ، آپ کو اولیت حاصل ہے، یہ آپ کا حق ہے، پہلے آپ داخل ہوں کیونکہ اگر آپ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرتے، علم کے مراکز قائم نہ کرتے اور ہمارے لئے تعلیمی وسائل کا بندوبست نہ کرتے تو ہم علماء نہ بن سکتے اور درست اور سیدھا رستہ نہ پا سکتے۔ آپ لوگ ہمارے علم اور وسعت ظرفی کا سبب بنے، ہم آ پ کے شکر گزار ہیں۔ اس لیے آپ کو اولیت حاصل ہے چلئے تشریف لے جائیں۔!‘‘اور ان کے احترام میں علماء ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں گے مگر مالدار اور سخی لوگ ان کو یوں جواب دیں گے: ’’حقیقت یہ ہے کہ ہم آپ کے شکر گزار ہیں کیونکہ اگر آپ اپنے وسیع علم کے نور سے ہمیں روشنی نہ دکھاتے، اچھی طرح ہماری رہنمائی نہ کرتے، ہمیں تکوینی اور تشریعی اوامر کو ایک ساتھ پڑھنے کی تعلیم نہ دیتے اور حلال کمائی اور اللہ کے رستے میں خرچ کرنے کی خوبصورتی کی جانب رہنمائی نہ کرتے تو ہم اپنے مال ایسے اچھے کاموں میں کہاں خرچ کرسکتے تھے۔ آپ لوگوں نے ایک بار خرچ کرنے کی ترغیب دے کر ہزار بار کابنے پر ابھارا۔ اس لیے آپ یہاں آخرت میں اس طرح ہمارے رہنما میں جس طرح دنیا میں تھے۔ اس لیے آپ پہلے تشریف لے چلیں!‘‘ اس خوبصورت گفتگو کے بعد علماء آگے بڑھیں گے اور سخی مالداروں کے ہمراہ ایک دوسرے کے پیچھے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔

ہمیں علماء اور سخی مالداروں کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو صرف بعد میں آنے والے واقعے کی تصویر کشی نہیں سمجھنی چاہئے بلکہ اس کے برعکس ضروری ہے کہ ایثار کی وسعت کی بات کی جائے۔ ذرا سوچیں کہ لوگ جنت کے دوازے پر پل صراط اور سخت حساب کتاب سے گزر کر پہنچے ہیں جبکہ ان کے سامنے جنت کے جمال کی اتنی وجوہات ہیں جوعقلوں کو حیران و پریشان کررہی ہیں جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ، کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی دل پر ان کا خیال گزرا ۔ ذرا سوچئے کہ انسان کس قدر حیران ہو گا اور جب وہ ان جمالیات اور خوبصورتی کو دیکھے گا تو بے ہوش ہونے کے قریب ہو جائے گا۔ ذرا خیال فرمائیے کہ اس خوبصورت منظر کے سامنے ایثار کی روح کس طرح تجلی افروز ہوگی! یوں اس منظر کی تصویر کشی کرکے آپ ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں کہ ایثار کی روح کا رستہ کس حد تک جاتا ہے۔

ہمارے زمانے کی نابغۂ روزگار شخصیت اور انبیائے کرام کے ایک وارث حضرت بدیع الزمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’میں نے اپنی پوری عمر جو کچھ اوپر اسی سال ہے، دنیا کی کوئی لذت نہیں چکھی ۔ میں نے اپنی زندگی جنگ کے میدانوں، جیل کی کوٹھڑیوں، ملک کی جیلوں اور کچہریوں میں گزاری ہے۔ ایسی کوئی تکلیف اور مصیبت باقی نہیں بچی جو میں نے نہ چکھی ہو ۔۔۔ میں نے معاشرے کے ایمان کی حفاظت کی خاطر اپنی آخرت کی بھی قربانی دے دی ہے۔ اس لیے میرے دل میں جنت کا شوق ہے اور نہ جہنم کا خوف۔۔۔ اگر میں دیکھوں کہ میری قوم کا ایمان سلامت ہے تو میں جہنم کے شعلوں میں جلنے پر راضی ہوں کیونکہ جس وقت میرا جسم جل رہا ہوگا، میرا دل خوشی اور سرور سے ناچ رہا ہوگا۔‘‘(8) جو شخص ان کے یہ کلمات سنے گا وہ یہ سمجھے گا کہ یہ چودہ صدیاں پہلے کی آواز ہے اور اسلام کے ابتدائی زمانے سے آرہی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کو عمومی ایثار کی روح کی، پانی اور ہوا سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔

ایثار کے اعلیٰ مرتبے کو سمجھنے کے لیے آنحضرت ﷺ معراج کے سفر ( جس میں وہ کچھ دیکھے جو کسی نے نہیں دیکھا اور وہاں تک جانے جہاں تک کوئی نہیں پہنچا ) اور اس کے بعد تکالیف کے اس عالم میں واپسی کی اہمیت کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ اس سفر کے دوران آپ علیہ السلام کی حضرت عیسٰی، حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم اور حضرت آدم علیہم السلام سے ملاقات ہوئی۔ ان انبیائے کرام نے آپ علیہ السلام کا اعزاز و اکرام کیا۔ اس کے بعد جنت میں داخل ہو کر اس کے دلکش حسن کو دیکھا۔(9) بعد ازاں حق تعالیٰ کے جمال کا مشاہدہ فرمایا اور کس کو پتہ ہے کہ انسان کی روح حق تعالیٰ کے مشاہدے کو کس طرح محسوس کرتی ہے: ’’بدء الامالی‘‘نامی کتاب میں لکھا ہے:

ایمان و الے اس کو بلاکیف و ادراک اور مثال کے دیکھیں گے

تو دیکھنے کے بعد نعمتوں کو بھول جائیں گے۔ ہائے مزتےلوشں کا خسارہ(10)

یعنی جنت کے تمام محلات اور مہمان خانے ، وہ تمام حوریں جن میں سے ایک کے نور کا عکس پڑ جائے تو ساری دنیا اس میں غرق ہوجائے اور پھل اور کھانے اوران کے علاوہ دیگر چیزیں، اللہ تعالیٰ کی رویت کے وقت آنکھوں سے اوجھل ہوجائیں گی۔ اس طرح آنحضرت ﷺ ان سب چیزوں سے محظوظ ہونے اور وجوب اور امکان کے درمیان کے مرتبے تک پہننےت کے باوجود دوبارہ انسانیت کی جانب واپس تشریف لائے اور آپ کی نظر نہیں پھری۔ آپ علیہ السلام کی واپسی صرف اس لیے ہے کہ اپنی امت کو بھی ان نعمتوں تک پہنچائیں جو آپ نے دیکھیں اور محسوس فرمائیں۔

جب ایک بزرگ (جن کا نام عبدالقدوس ہے) نے آپ علیہ السلام کی ایسے سفر سے واپسی کا تذکرہ سنا تو کہنے لگے: ’’واللہ باللہ تم تاللہ،اگر میں ان مقامات اور مراتب تک پہنچا ہوتا تو کبھی دنیا میں دوبارہ واپس نہ آتا۔‘‘ اس پر ایک اور بزرگ نے یہ تبصرہ فرمایا کہ ’’یہی مقام ولایت اور نبوت میں سب سے بڑا فرق ہے۔‘‘ جی ہاں، انبیائے کرام علیہم السلام کا وجود صرف دوسروں کے لیے ہے جبکہ اولیاء کرام روحانی مراتب اور لذتوں کی خواہش رکھتے ہیں۔

علاوہ ازیں آپ علیہ السلام جو دنیا میں ہی اپنی حیات طیبہ میں اس مرتبے تک جا پہنچے ہیں، جب آخرت میں اپنی امت کے جہنم میں داخل ہوانے والے لوگوں کی چیخیں سنیں گے (تو ہو سکتا ہے ) کہ اس کے کنارے جائیں، ان کی جانب اپنا ہاتھ بڑھائیں اور ان کو وہاں سے نکالنے کی اسی طرح درخواست کریں جس طرح دنیا میں ان کو سیدھا رستہ دکھانے کے لیے واپس تشریف لائے تھے۔ یہ سب باتیں نبوت کے مرتبے کے مطابق ایثار کے مختلف رخوں کی تجلیات کا مظہرہیں۔

لڑائی جھگڑے ختم کرنے کا تریاق

آج ہمیں ایمان، دل کی زندگی، اللہ تعالیٰ سے قرب، شفقت اور دوسروں کو زندہ کرنے کے جذبات سے جڑی ایثار کی روح کی شدید ضرورت ہے۔ جی ہاں،ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو دنیا کی خواہشات،لذتوں اور شہوتوں سے کنارہ کش ہو سکتے ہوں، جو صرف دوسروں کو زندہ کرنے کے لیے زندہ رہنا چاہتے ہوں اور جو لوگ یہ کہتے ہوں کے کہ: ’’اے اللہ میری زندگی کی اس وقت تک کوئی قیمت نہیں جب تک وہ دوسروں کی زندگی اور ان کو زندہ کرنے میں حصہ نہ ڈالے، ورنہ مجھے اس زندگی سے گھن آتی ہے جو دوسروں کو کوئی فائدہ نہیں دیتی، ان میں دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کا جذبہ پیدا نہیں کرتی اور میں ایسی زندگی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ تو مجھے اس آزمائش سے نجات عطا فرما۔‘‘

اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اناپرست لوگ جو ہمیشہ ’’میں، میں‘‘ کی رٹ لگائے رکھتے ہیں، ان کی وجہ سے لوگوں میں جھگڑے پیدا ہوتے ہیں، ان میں حسد اور غیرت اور لڑائی جھگڑے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے معاشرے کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب ایسے لوگ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں جو وہ کام کرسکتے ہیں جو انہوں نے کئے ہیں۔ کاش ان کو اللہ تعالیٰ پر تھوڑا سا بھروسہ ہوتا ہے اور وہ رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کے رستے پر چلتے جس کے بارے میں وہ ہمیشہ باتیں کرتے ہیں۔ کاش وہ یہ کہتے کہ:’’ چلئے یہ کام آپ اپنے ذمے لے لیجئے۔‘‘ اس لئے اگر کوئی ایسی اکسیر جو بکھرے ہوئے معاشروں کی شیرازہ بندی کرسکتی ہے تو وہ لامحالہ ایثار کی وہ روح ہے جو ان دلوں میں دوبارہ پرورش پا سکتی ہے۔

 

یہ مشکلات سفارتکاری ، سیاسی حیلوں اور طفل تسلیوں سے حل ہوں گی اور نہ فکری اور منصوبہ بندی کے اداروں کی تجاویز سے حل ہوں گی۔ اگر ایسا ہو سکتا تو بہت سے انقلابات اور تغیرات سے گزرنے والا معاشرہ مضبوط قدموں کے ساتھ آگے کی منزل کی طرف بڑھتا مگر جو چیز نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ بربریت جاری ہے۔ لوگ اب بھی ایک دوسرے کو اسی طرح کھا رہے ہیں جس طرح آدم خور کھاتے تھے۔ بخدا بتائیے کہ لوگوں پر بو ں کی بارش کرنا، زہریلی گیسوں کا استعمال اور دوسروں کے جینے کا حق تسلیم نہ کرنا، اسلام سے خوف کی فضا کے مطابق کام کرنا اور جماعت کے خوف سے طرح طرح کے ظلم کا ارتکاب کرنا، کیا یہ سب کچھ انسانوں کا گوشت کھانے سے کسی بھی طرح مختلف ہے؟ یہ سب کچھ بربریت کی ایک اور شکل کے سواکچھ نہیں جبکہ اس سب کو ختم کرنے کا رستہ دوبارہ انسانیت کی روح کی جانب واپسی اور ’’احسن تقویم‘‘ کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش اور سعی ہے۔

[1] صحيح البخاري، الإيمان، 39؛ صحيح مسلم، المساقاة، 107.
[2]صحيح مسلم، البر، 33-34؛ سنن ابن ماجه، الزهد، 9.
[3] انظر: صحيح البخاري، مناقب الأنصار، 70؛ تفسير سورة الحشر، 6/148؛ صحيح مسلم، الأشربة، 172-173.
[4] ارْتُثَّ فلان: میدان جنگ میں شدید زخمی ہوا اور زندگی کی رمق باقی تھی.
[5] الحاكم: المستدرك، 270/3؛ البيهقي: شعب الإيمان، 143/5؛ ابن عبد البر: الاستيعاب، 3/1084.
[6] ’’بوجہ ‘‘ کیمپ (1968)، طلبہ کی تربیت کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ مزید معلومات کے لئے ملاحظہ فرمائیے: فتح الله كولن: قصة حياة ومسيرة فكر، ص 70-79.
[7] انظر: صحيح البخاري، المناقب، 33؛ سنن النسائي، الإمامة، 2؛ مسند الإمام أحمد، 1/ 282.
[8] بديع الزمان: السيرة، ص 492.
[9] انظر: صحيح البخاري، بدء الخلق 6، الأنبياء 43؛ مناقب الأنصار 42؛ صحيح مسلم، الإيمان 259، 264.
[10] الأوشي: بدءُ الأمالي، ص 41