مستقبل کے فکری معمار

مستقبل کے فکری معمار

سوال: بعض اساتذہ کا کہنا ہے کہ تدریسی مواد کی کمی اور مشکلات کے علاوہ تحصیل علم میں طلبہ کی عدم دلچسپی اور بے رغبتی بھی ان کے لیے ایک بہت بڑی مشکل ہے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب: بعض دینی اصولوں کے پیشِ نظرہم کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم و تعلم اعلیٰ ترین فرائض میں سے ہیں۔ متعددقرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ میں علم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور لوگوں کوتحصیل علم کی ترغیب دی گئی ہے۔ مثال کے طورپر درج ذیل آیت مبارکہ میں حق تعالیٰ اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ اصحاب علم جاہل لوگوں سے افضل ہیں: ﴿هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ [الزمر:9] (بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے کیا دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟) ایک اورآیت مبارکہ میں حق تعالیٰ اصحاب علم کو بینا لوگوں اور جہلاء کو نابینا لوگوں سےتشبیہ دیتے ہیں: ﴿هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ﴾ [الانعام:50] (بھلااندھا اور آنکھ والا برابر ہوتے ہیں؟ تو پھر تم غور کیوں نہیں کرتے؟)

نبی کریم ﷺ کی سنت کے وارث

قرآن کریم میں جہاں حضرت آدم علیہ السلام کی فرشتوں پرفوقیت کا تذکرہ ہے وہاں علم کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ یہ ایک معنی خیز نکتہ ہے، جس سے قرآن کریم کے نزدیک علم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اسماء سکھانے کے بعد فرشتوں سے ان کے بارے میں پوچھا۔ فرشتوں کو ان اسماء کا علم نہ تھا، جبکہ آدم علیہ اسلام نے تعلیم کردہ اسماء کے بارے میں بتا دیا (البقرۃ:32-31)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانوں کی ملائکہ پر فوقیت کا سبب اسماء کا علم یعنی علوم کے حصول کی استعداد ہے۔

ایک حدیث مبارک میں نبی کریم ﷺنے علم کو انبیائے کرام علیہم السلام کی میراث قرار دے کر تحصیل علم کی ترغیب دی ہے۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے : انبیائے کرام اپنے پیچھے میراث میں مال و دولت نہیں چھوڑتے ، بلکہ ان کی میراث علم ہے، جو شخص بھی اسے حاصل کرتا ہے وہ یقیناًبہت بڑی چیز حاصل کرتا ہے۔[1] ایک اور حدیث مبارک میں نبی کریم ﷺنے فرمایا: ’’مجھے (انسانیت کی طرف)معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘[2] اس طرح آپ ﷺ نے تحصیل علم اوردوسروں تک اسے پہنچانے دونوں کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

لہٰذا ایک استاذ بلند ہدف کا نمائندہ اور فکری معمار ہے۔ میرے خیال میں ر وحانیت کا ادراک رکھنے والا استاذ دورِ حاضر کی سہولیات کے ذریعے علوم کی اساسیات تک پہنچ کر ریاضی، حیاتیات، طبیعیات، کیمیا، علم التشریح ، عضویات اور ارضیات جیسےعلوم سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے طلبہ و طالبات کے دل و دماغ کو روشن کرسکتا ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں کی تربیت اور اصلاح کا سب سے اہم ذریعہ تدریس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم تحصیل علم کو اس قدر اہمیت دیتا اور نبی کریمﷺاس کی مسلسل تاکید فرماتے ہیں۔ لہٰذا جو لوگ اپنے معاشرے، قوم اورساری انسانیت کے لیے اپنے آپ کو مفید بنانا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کریں، تمام رکاوٹوں کے باوجود اس میدان میں اپنی خدمات پیش کریں اور اس اہم وسیلے کا بھرپور استعمال کریں۔

ایک ذریعہ جس کا اثر ایک طالب علم سے اس کے تمام رشتہ داروں تک پہنچتاہے

ایک اور پہلو سے دیکھیں تو اگرچہ بچے مذہبی معاملات میں قانوناً گواہ نہیں بن سکتے، لیکن انسانی نفسیات کے اعتبار سے وہ دنیا کےمعتبر ترین گواہ سمجھے جاتے ہیں۔ بچوں کی باتوں پر ہر کوئی یقین کرتا ہے۔ لہٰذا ایک استاذ صرف اپنے سامنے موجود بچے سے مخاطب نہیں ہوتا۔بچوں کے بہت سے رشتہ دار ان سے مربوط ہوتے ہیں۔جب بچے گھرآتے ہیں تو فطری طورپر اسکول کی باتیں اور اساتذہ کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں بتاتے ہیں۔چنانچہ استاذ جیسا نمونہ بچوں کے سامنے پیش کرےگا بچے بالکل ویسا ہی نمونہ اپنے گھر والوں کے سامنے پیش کریں گے۔ مثال کے طورپر اگر کوئی استاذ بچے کے ساتھ ہمدردی سے پیش آتا ہے تو وہ بچہ اپنے گھر والوں سے کہتا ہے: ’’انہوں نے میرے ساتھ ایسااایسا ہمدردانہ برتاؤ کیا ہے۔ وہ ہماری مشکلات سنتے اور انہیں حل کرتے ہیں اورجب ہم افسردہ ہوتے ہیں تو ہماری پریشانی دور کرکے ہمیں تسلی دیتے ہیں۔۔۔‘‘ اس قسم کی باتیں خاندان والوں کے ذہن میں استاذ کے بارے میں اچھا تصور قائم کرتی ہیں اور اگر استاذ اہل خانہ کے ساتھ ملاقات کے مواقع سے فائدہ اٹھائے تو وہ ان کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرسکتا ہے۔ اس طرح بعض اوقات صرف ایک بچہ اپنے بہت سارے رشتہ داروں کے ساتھ اساتذہ کے رابطے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو ایک بچے کا خیال رکھنے والا استاذ دراصل ایک گھرانے بلکہ اس گھرانے سےکسی نہ کسی قسم کا تعلق رکھنے والے تمام رشتہ داروں کا خیال رکھتا ہے۔ اسی لیے استاذ کا دائرہ اثر بہت وسیع ہوتا ہے۔

میری رائے میں اس قدرمفید پیشے سے ہرقسم کی مشکلات کے باوجود وابستہ رہنا چاہیے۔اگر ضرورت پڑے تو بہت تھوڑی آمدنی پربھی گزارہ کرنا چاہیے اورمادی نقصانات مثلاً کم تنخواہ کورکاوٹ نہیں سمجھنا چاہیے ۔ صرف مال و دولت ہی پرہرچیزمنحصر نہیں ہوتی ۔ شاید انبیائے کرام علیہم السلام مالی لحاظ سے دنیا میں سب سے زیادہ کمزور تھے ، لیکن اس کے باوجود انبیائے کرام نے لوگوں کے دل جیتے ہیں، راست بازی کی طرف ان کی رہنمائی کی ہے اور دنیا کو ایک نئی زندگی دی ہے،لیکن اس سے میرامقصد یہ ہرگز نہیں کہ اساتذہ کو بہ تکلف غربت اختیار کرنی چاہیے۔ میں جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مادی دولت ہی سب کچھ نہیں ہے، بلکہ اس کے علاوہ دلوں کو جیتنے، روح کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کرنے اور بلند اہداف کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی اور بھی بہت سی صورتیں ہیں۔ خاص طورپر ایسے دور میں کہ جس میں تعلیم کے ذریعے پوری دنیا ایک گاؤں بن چکی ہے، تدریس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔اگرچہ بعض لوگ تمام تر مثبت ردِ عمل اور فیڈ بیک کے باوجود اس ذمہ داری کو شدید ناپسندیدگی اور جبر سے ادا کرتے ہیں، مگرآپ کو لوگوں کے دلوں کی طرف اس سفرکو اپنی شفقت اور نرم مزاجی کے ذریعے تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس نقطہ نظر کے پیچھے جذبہ تدریس کی قوت کارفرما ہے۔اسی لیے میرے خیال میں ہر سطح کے طلبہ کو تدریس کے پیشےکو اختیارکرنے کی ترغیب دی جانی چاہیے، تاہم اس سے کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ معاشرے کی بقا و استمرار کے لیے ناگزیر تمام پیشوں کو اہمیت دی جانی چاہیے اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں خلا نہیں ہونا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ معاشرے کو زندہ رکھنے میں تدریس کا غیر معمولی کردار ہے۔

عمر بھر کے لیے لوگوں کی دعائیں لینے کا طریقہ

اب ہم طلبہ کے شرارتی رویوں اور تعلیم میں عدم دلچسپی کے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں یہ بات شروع ہی سے تسلیم کرلینی چاہیے کہ اس قسم کے رویے کا اظہار کسی بھی طالب علم سے ہوسکتا ہے۔ تدریس کا ایک اہم پہلو ان مشکلات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ گزارہ کرنا ہے۔ ایک کشیدہ کار کوبھی سنگ مرمر کے کسی خشک ٹکڑے کو فن کےشاہ پارےمیں ڈھالنے میں بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔وہ اسے مخصوص صورت دینے کے لیے اپنے آپ کو تھکاتا اور پسینے سے شرابور کرتا ہے۔ استاذ کا فریضہ اس سے کم سہل نہیں ہوتا۔ استاذ بھی بالقوّہ انسانوں کی شخصیت کے کھردرےپہلووں کی اصلاح کرکے انہیں حقیقی انسانیت کے مقام تک بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں استاذ ایک جوہری کی طرح ان میں موجود قیمتی صلاحیتوں کو کام میں لاکر ان کے احساسات میں بلندی پیدا کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔ ایک ماہر فن کار کی طرح استاذ بھی تقریباً ایک نئے انسان کو وجود میں لاتا ہے، لیکن اگر اس کے باوجود بعض طلبہ سنگین نوعیت کے مسائل کھڑے کریں اور نظم و ضبط کو خراب کریں تو کم از کم انہیں اپنے ماحول کے دیگر بچوں کو نقصان پہنچانے سے روکنے کے لیے اساتذہ ان کے والدین سے رابطہ کریں یا ان کی رہنمائی کے لیے متبادل طریقے استعمال کریں۔ اس طرح یہ طلبہ بھی کسی نہ کسی حد تک محفوظ ہوجائیں گے۔ مثال کے طور پر بوقت ضرورت ایسے طلبہ کے اہل خانہ کو بلوا کر انہیں اپنے بچوں کی صورتحال دور سے دیکھنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے، جس کے نتیجے میں وہ اساتذہ کی مشاورت سے اس مسئلے کے مختلف حل تلاش کرسکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے سب سے زیادہ متعصب ،وحشی اور غیر مہذب لوگوں کو مہذب دنیا کا معلم بنا دیا، جس کے نتیجے میں آپﷺ لاکھوں انسانوں کے محبوب بن گئے، حتی کہ جن لوگوں نے آپﷺکی مجلس میں آکر بلند آواز سے پوچھا تھا: ’’ عبدالمطلب کا پوتا کون ہے؟‘‘ وہ آپﷺکی باتیں اتنے دھیان سے سننے لگے جیسے انہیں اپنے سروں پر بیٹھے پرندوں کے اڑنے کا اندیشہ ہو۔ چنانچہ یہ تدریس اور رہنمائی کا عظیم ترین نمونہ ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ انبیائے کرام نے وحشی ترین انسانوں کوہمارے لیے نمونہ کی حیثیت رکھنے والے راست باز انسانوں میں تبدیل کردیا تھا، ایسا ہونا ہر دور میں ممکن ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اگرچہ استاذ کو تکلیف اور مشقت اٹھانی پڑتی ہے،لیکن اس کا نتیجہ ایسے افراد کی صورت میں نکلتا ہے، جو احسان شناسی کے جذبے سے عمر بھر اسے دعائیں دیتے ہیں۔ مزید برآں ان کے اچھے اعمال کا ثواب بھی ان کے اساتذہ کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔ ایسے عمدہ ثمرات کی کوئی بھی قیمت ادا کی جانی چاہیے۔ ایک استاذ شاید اپنے زیر تربیت تمام طلبہ میں مطلوبہ اوصاف پیدا نہ کرسکے اوران سب کے دلوں کو جیتنے میں ناکام رہے، لیکن اسےاس سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ کچھ لوگوں نے کامل ترین رہنماؤں کے حلقے کو بھی چھوڑ کر اپنی بربادی کا سامان خود کیا ہے۔ لہٰذا استاذ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے طورپرپوری کوشش کرے۔ باقی نتائج حق تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، لیکن یہ بات کبھی بھی فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ جواستاذ اپنی ذمہ داری کو اپنا نصب العین بنا کر ادا کرتا ہے اور اپنے فریضے کو احسن طریقے سے ادا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی محنت کو کبھی بھی ضائع نہیں فرماتے، اسے مختلف انعامات سے نوازتے ہیں اور اس کے دل میں مختلف قسم کے حل الہام کرتے ہیں۔

کردار کے پیغام کے ذریعے ہر مشکل حل ہوسکتی ہے

ایک اہم نکتہ جسے اساتذہ کوکبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے وہ اپنے رویوں اور ذاتی عمل سے اقدار کی بہترین نمائندگی کے ذریعے طلبہ کی رہنمائی کرنا ہے۔ انسان میں برائیوں اور غصے، شہوت، بغض، نفرت اور دوسروں کے حقوق کی پامالی جیسے بُرے اخلاق جن میں سے ہر ایک اسے اسفل سافلین کے مقام تک گرا سکتا ہے،کو اپنانے کی استعداد موجود ہوتی ہے اوراگر اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ لامحالہ بگڑ جائے گا۔ اس لیے ایسے انسان کے بُرے جذبات کو قابو میں لا کر اسے اچھے اخلاق سے صرف ایسا عمدہ رہنما ہی سنوارسکتا ہے، جس کا رویہ اور طرزِ عمل قابل رشک ہو اور اس کی شخصیت کو نمونہ سمجھا جاتا ہو۔

آخر میں مجھے اپنے ایک احساس کا اظہار کرنے دیجیے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اسے اظہارِ فخرپرمحمول نہیں کریں گے۔ میری عمر چوہترسال ہوچکی ہے، لیکن اب بھی اگر میری ذمہ داری اس لکڑی کے جھونپڑے میں لگائی جائے،جس میں میں کئی برس پہلے ایک معلم کی حیثیت سے رہتا تھا تو میں بخوشی دوڑ کر وہاں جاؤں گا اور ا پنی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔ شاید ہمارے بعض دوست اس کام کو سادہ اور معمولی سمجھتے ہوں، لیکن میں نے اس ذمہ داری کو کبھی بھی کم اہم نہیں سمجھا اور نہ ہی کبھی ایسا کروں گا حتی کہ آج بھی نوجوان اہل علم کے ایک چھوٹے سے حلقے کے ساتھ یہاں ہماری درس و تدریس کو شاید بعض لوگ سادہ اور معمولی کام سمجھتے ہوں، لیکن میری نظر میں یہ اہم ترین پیشہ ہے، جو انسان کو بلند ترین مقام تک پہنچا سکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ انسان کو دل و جان سے پڑھانا چاہیے اور اسے انبیائے کرام کی سنت سمجھنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی قوم کی خدمت میں مصروف لوگوں میں اہمیت کے لحاظ سے اساتذہ کا ہمسر کوئی نہیں ہوسکتا، کیونکہ جان و مال سے انسانیت کی خدمت کرنا کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ مقدس ہے۔ اگر آپ پوری دنیا کے باغوں کے باغبان بن جائیں تب بھی چند ایک لوگوں کو کوئی مفید بات سکھانے کے ساتھ اس کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور تو اور بادشاہت بھی لوگوں کو حقیقی انسانیت کی تعلیم دینے جتنی قابل قدر ذمہ داری نہیں ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو؟ کیا تاریخ کے عظیم ترین حکمرانوں نے بہترین اساتذہ کرام کے سامنے زانوئے تلمذتہ نہیں کیے؟ اس لیےہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے مقرب ترین بندے اپنے آپ کو دوسروں کی نفع رسانی کے لیے وقف کرنے والے اساتذہ ہیں، کیونکہ وہی انسانیت اور معاشرے کو تعمیر کرتے ہیں۔ اساتذہ ہی حال اور مستقبل کے معمار ہیں اور وہی مستقبل پر ا پنے اثرات ڈالتے ہیں۔

[1]ابوداود، سنن، العلم، ۱۔
[2]ابن ماجہ، سنن، مقدمہ، ۱۷۔