نفس، شیطان اور اصحابِ اعراف
سوال: اس آیت ﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ (الاعراف 175) ﴾ (اور ان کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائیں (اور ہفت ارچہ علم شرائع سے مزین کیا) تو اس نے ان کو اتار دیا پھر شیطان اس کے پیچھے لگا تو وہ گمراہوں میں ہوگیا) میں قرآن کریم ایک بدقسمت انسان کے بارے میں بتارہا ہے جو آخر کار سرکشی پر اتر آیا کیونکہ حق اور حقیقت تک رسائی کے لئے عطا کردہ آیات کے باوجود ، اس نے ان سے منہ موڑا اور شیطان کی پیروی کی۔ پس وہ کون سے اسباب ہیں جو انسان کو حق تک پہنچانے والے رستے پر چلنے کے بعد آخر کار اس کی زندگی کو اس افسوسناک انجام تک پہنچاتے ہیں؟
جواب: اس جادہ حق سے پھیرنے والے اسباب جس پر ہم چل رہے ہوتے ہیں، سب سے پہلا سبب اس حقیقت کو فراموش کرنا ہے کہ آپ کی زندگی امتحان کے لئے پیدا کی گئی ہےاور اس کے ہر لمحے میں ہم آزمائش سے گزر رہے ہوتے ہیں جبکہ اس نسیان کی وجہ سے شیطان اور نفس کے دھوکوں سے فریب اس کےعلاوہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان نفس کے نظام اور اس شیطان سے ہر وقت برسرِ پیکار رہتا ہے جس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کس جگہ سے، کس مقام پر اور کس شکل میں (انسان کے) سامنے آجائے اور اسے دھوکہ دے دے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دشمن انسان سے اکثر اوقات دوستوں کی شکل میں قریب آتے ہیں اور درست کو غلط ،برے کو اچھا اور باطل کو حق بتا کر دکھاتے اور اسے گمراہ کرتے ہیں۔ اس لئے انسان پر لازم ہے کہ وہ ہر وقت نفس اور شیطان کے وسوسوں کے مقابلے میں چوکنا رہے تاکہ ان حیلوں سے دھوکہ نہ کھائے، ورنہ غفلت کا ایک لمحہ اسے اتنے حیلوں میں گرفتار کرسکتا ہے جن کی تلافی اس کے لئے مشکل یا ناممکن ہوسکتی ہے۔
آپ اس دلکش دنیا کی جمالیات میں سے ہر خوبصورتی کو (اس کے ہمارے اجسام اور نفس سے متعلق رخ کے اعتبار سے) ایک ایسا مادہ سمجھ سکتے ہیں جسے دھوکہ باز شیطان دھوکہ دینے کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ جی ہاں، شیطان بڑا سخت دشمن ہے کیونکہ وہ انسان کو ایسی چیز سے دھوکہ دیتا ہے جس کو وہ پسند نہیں کرتا۔ جبکہ دوسری طرف ہمیں پسند بعض چیزیں (نتیجے کے اعتبار سے) اس آیت کے مطابق سم قاتل ہوسکتی ہیں: ﴿وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (البقرة 216) (تعجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔ اور (ان باتوں کو) خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے)۔
بالفاظ دیگر زہر آلود شہد کو چکھتے وقت جتنا بھی پسند کریں اور شروع میں اسے جتنا بھی زیادہ کھائیں، آخر کار اس کی وجہ سے ہم شدید متلی کا شکار ہوں گے ۔ اس کے مقابلے میں انسان ایسے واقعات سے دوبدو ہوجاتا ہے جو بادئ النظر میں اپنے خارجی منظر کے لحاظ سے تکلیف دہ اور المناک معلوم ہوتے ہیں لیکن جب وہ ان کی تکلیف کو برداشت کر لیتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ان کے ہمراہ اڑ رہا ہے اور باغ وبہار میں جا پہنچا ہے۔ مثال کے طور پر شیطان تمہارے گھر کے سامنے موجود ایک ایسی نہر کو جس میں آپ اتر کر پاکیزگی حاصل کرسکتے ہیں ایک خوفناک اورنہایت گہرا دریا بنا کر دکھاتا ہے ، لیکن اگر آپ اس صورت حال کو عقلِ سلیم اور حسِ سلیم اور قلبِ سلیم سے دیکھیں اور اس کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں اور نہر میں اتر جائیں تو معلوم ہوگا کہ پانی ٹخنوں تک بھی نہیں پہنچتا جبکہ اسی وقت وہ پانی آپ کو پاک صاف بھی کر سکتا ہے۔ اس طرح شیطان ایک طرف تمہیں اپنے منفی ہتھکنڈوں سے کھینچتا ہے تو دوسری طرف اچھے اعمال سے ایسے حیلوں سے روکتا ہے ہے جو بظاہر مثبت معلو م ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے جسے کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ شیطان "مسول" او رمزین" ہے یعنی وہ انسانوں کے سامنے گناہوں کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔
موقع پرست جو غفلت کی تاک میں رہتا ہے
جی ہاں، انسان کا سخت ترین دشمن شیطان ، ہمیشہ انسان کی فراغت کے اوقات کی تاک میں رہتا ہے اور اس موقع کی تلاش میں رہتا ہے جب اس پر وار کرسکے اور انسان کی کمزوریوں جیسے شہوت، خوف، حب جاہ، منفعت پسندی وغیرہ کو تلاش کرتا رہتاہے اور جیسے ہی اسے موقع ملتا ہے انسان کو الٹا کر کے سر کے بل زمین پر پٹخ دیتا ہے۔
قرآن کریم نے شیطان کے دل میں انسان کے لئے چھپے کینہ اور بغض اور اس کی انسان سے نفرت اور کراہیت کو یوں بیان فرمایا ہے: ﴿قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16) ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (17)﴾ (الاعراف: 16-17) (شیطان نے کہا مجھے تو تُو نے ملعون کیا ہی ہے میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان (کو گمراہ کرنے) کے لیے بیٹھوں گا۔ پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے دائیں سے اور بائیں سے (غرض ہر طرف سے) آؤں گا (اور ان کی راہ ماروں گا) اور تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا)۔
اسی طرح سورہ "ص" میں بھی شیطان کی انسان سے دشمنی، اس سے حسد ، بغض اور کینہ کو اسی انداز سے بیان فرمایا ہے کہ شیطان نے کہا: ﴿فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴾(سورہ ص :82) ( مجھے تیری عزت کی قسم میں ان سب کو بہکاتا رہوں گا)۔ اس لئے اگر ہم ان الفاظ او رقرآن کریم کی اس موضوع سے متعلق تمام آیات کو سامنے رکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ شیطان کے اشارے اور اس کے وسوسے ہی انسان کی تمام لغزشوں، خطاؤں اور حق تعالی کے مقابلے میں اس کے غیر ذمہ دارانہ تصرفات اور برتاؤ اور اپنے معاملے سے غافل ہوکر اس کی اچھل کود اور غرور وتکبر کا سبب بنتے ہیں۔
وہ شخص فریب خوردہ ہے جو اپنے پاس موجود دچیزوں پر اکتفا کرے
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان کو ایسے سخت دشمن کے مقابلے میں اصحابِ اعراف کا موقف نہیں اپنانا چاہئے بلکہ اس پر لازم ہی کہ وہ اپنی عقل، فہم اور قرآن و سنت کے واضح دلائل کو ان تمام اقدار کی سچائی کی دلیل سمجھے جن پر اس کا ایمان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اپنےہاں ایمان اورتوکل کا قلعہ تعمیر کرے اور اللہ تعالی کی رحمت کی پناہ تلاش کرے تاکہ اس آیت کریمہ ﴿إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ﴾ (النحل: 99) ( جو مومن ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں اُن پر اس کا کچھ زور نہیں چلتا) کی بشارت کا اہل ہوجائے۔ بالفاظ دیگر: جو شخص اپنے اس ماحول سے حاصل شدہ معلومات پر اکتفا کرلے جس میں وہ پلا بڑھا ہے اور ان اقدار کو اپنے اوپر نافذ نہ کرسکے جن پر اس کا ایمان ہے اور تحقیقی ایمان کے درجے تک نہ پہنچ سکے تو اس کے لئے شیطان کے جال میں پھنسنےکے سوا کوئی چارہ نہیں۔
چنانچہ قرآن کریم اس متردد انسان کے بارے میں ہمیں بتاتا ہے ، جیسا کہ سوال میں بھی آیا ، جو ادھر ہے اور نہ ادھر، پس اس کا فرمان ہے: ﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ ﴾ (الاعراف 175) (اور ان کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائیں (اور ہفت پارچہٴ علم شرائع سے مزین کیا) تو اس نے ان کو اتار دیا پھر شیطان اس کے پیچھے لگا تو وہ گمراہوں میں ہوگیا)۔
پس قرآن کریم اس آیت میں ایک ناکام انسان کے سفر زندگی کو اس لئے بیان کررہاہے کہ ہم اس سے عبرت حاصل کریں۔ یہ ایک ایسا انسان ہے جس کو اللہ تعالی نے آیات بینات یعنی اپنے دلائل ، حجتیں، کرامتیں او رمعجزے دئے تھے جن سے آنکھیں اور کان کھل جاتے اور زبان ان کی تصدیق کرتی اور دل فکر سلیم کی طرف چلا جاتا، مگر اس کے باوجود اس نے ان سے منہ موڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کی ۔ اس سے ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ وہ بدبخت انسان اپنے پاس ساری
صفات ہونے کے باوجود اپنے مقام کو متعین نہ کرسکا، یا وہ سخت زمین پر قدم نہ جما سکا، یعنی اعراف سے نجات نہ پا سکا۔
دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ یہ انسان ایک اچھے ماحول میں پروان چڑھا مگر ان اخلاق کو نہ اپنا سکا جو اس ماحول نے اس کے لئے تیار کئے تھے۔ جی ہاں، اس تہذیبی ماحول کے پروردہ اس بد نصیب انسان نے اپنے آپ کو تھکایا اور نہ اپنے علم اورعقیدے کی صداقت پر دلالت کرنے کے لئے کوئی تکلیف گوارا کی ، بلکہ حق طریقے سے اپنی سوچ کو استعمال میں لایا اور نہ ہی اپنی فکر اور عقائد کے عالم کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لئے اپنے ارادے کو کوئی راستہ دیا ۔ اس لئے اس کے نتیجے میں وہ رستے میں گر پڑا، اسے کوئی راستہ سجھائی نہ دیا اورناکام لوگوں میں شامل ہوگیا۔ چنانچہ بعض مفسرین کے قول کے مطابق اسے اسم اعظم کی معرفت سے کوئی فائدہ ہوا نہ الوہیت اور ربوبیت کے اسرار کو جاننے سے کیونکہ یہ معلومات اس کے دل میں گھر نہ کر سکیں۔
اس وجہ سے جو شخص اپنے آباؤ واجداد سے ملنے والے افکار کی اصلاح وتجدید کی نظر سے خیال رکھے اور نہ اپنے پاس موجود معلومات پر غور کرکے ان کی درستگی کو یقینی بنائے، وہ اکثر اوقات اس خطرے سے دوچار رہتا ہے کہ شیطان اس کے دل میں شک اور وسوسے کے بیج ڈال دے اور اس کے دل اورعقل کو مکدرکردے۔
ایمانی مجالس کی پابندی
بعد ازاں حق سبحانہ وتعالٰی اس شخص کی حالت کو بیان فرماتا ہے جو اعراف سے خلاصی نہ پا سکا :﴿ولَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَـٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ﴾(الاعراف : 176) (اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں سے اس (کے درجے) کو بلند کر دیتے مگر وہ تو پستی کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑا)۔ اس نے جسمانی راحت، شہرت ،واہ واہ اور زندہ باد کے نعروں کو پسند کیا اور اپنی خواہشات اور شہوات سےچمٹ کر یہ بھول گیا کہ اس کے پاس جو بھی نعمتیں ہیں، اللہ ان کا مالک ہے، تو وہ بھی بھلائے ہوئے لوگوں میں شامل ہو گیا۔
بعد ازاں حق تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: ﴿ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ﴾ (الاعراف: 176) ( تو اس کی مثال کتے کی سی ہوگئی کہ اگر سختی کرو تو زبان نکالے رہے اور یونہی چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے)۔ اور چند آیات کے بعد فرمایا : ﴿أُولَئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ﴾(الاعراف : 179) (یہ لوگ بالکل چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بھٹکے ہوئے۔ یہی وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس حالت میں گر جاتا ہے وہ چوپائیوں سے بھی گھٹیا مقام پر اتر جاتا ہے۔
اگرچہ انسان اللہ تعالی کی افضل ترین مخلوق اور ہر قسم کی بلندی اور عزت کا اہل ہے، جس کے لئے فرشتوں سے بھی اعلٰی مقام تیار کیا گیا ہے، لیکن اگر وہ گر جائے اور اس کے پاؤں پھسل جائیں تو وہ کسی سیدھی زمین پر نہیں پڑتے، بلکہ نہایت گہری کھائی میں گر جاتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ وہ انسان اپنی پسند اورخواہشات کا اسیر ہوگیااور انسان کے عام مرتبے کو بھی برقرار نہ رکھ سکا اور جانوروں کے مقام میں گرگیا۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم اس مسئلے کی عظمت اور دہشت کی وجہ سے نرمی اورلطف کو ایک طرف رکھ دیتا ہے اور ایسے انسان کے برتاؤ کو جانور کے برتاؤ سے تشبیہ دیتا ہے۔
خلاصہ کلام : اگر انسان اپنے رستے پر ثابت قدم نہ رہے اور وہ زادِ راہ نہ لے جس سے وہ اس رستے پر چل سکتا ہے ، اس کے پاس اپنے نفس کی تجدید کا ارادہ نہ ہو اور اس حقیقت کو نہ اپنائے کہ ”جَدِّدُوا إِيمَانَكُمْ.. أَكْثِرُوا مِنْ قَوْلِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّہ“ (مسند احمد بن حنبل 2/359) ( اپنے ایمان کی تجدید کرو ... لا الہ الا اللہ کا ذکر کثرت سے کرو) تو ہوسکتا ہے اس کے پاؤں ہمیشہ کسی رکاوٹ سے ٹکراتے رہیں ۔
اس وجہ سے انسان کو چاہے کہ وہ پورے عزم اور استقامت اور اصرار کے ساتھ اپنے ایمان کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرے تاکہ وہ ان سب رکاوٹوں کو پار کرتے ہوئے مطلوبہ ہدف تک پہنچ سکے اور اپنے گرد مضبوط باڑ قائم کرے اور اپنی روح کو ہمیشہ عمل صالح اور ایمانی مجالس کی غذا فراہم کرتا رہے۔
- Created on .