مسکنت کا حقیقی مفہوم

مسکنت کا حقیقی مفہوم

سوال: نبی اکرم ﷺ اپنی دعا میں فرماتے تھے:’’اے اللہ مجھے مسکین زندہ رکھ ، مسکینی کی حالت میں موت عطا فرما اور مسکینوں کی جماعت کے ہمراہ حشر میں زندہ فرما۔‘‘(1) آنحضرت ﷺ کی اس دعا کو ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں؟ اور اس سے کیا درس ملتا ہے؟

جواب: مسکین کا لفظ ’’سَکَن‘‘ سے مشتق ہے اور لغت میں اس کا مطلب ہے وہ انسان جو راحت پسند ہو، سست ہو، اس کی حرکت رک گئی ہو اور وہ کوئی چیز کماتا ہو نہ بناتا ہو جبکہ شریعت کی اصطلاح میں مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ بھی مال نہ ہو اور زمین و آسمان کے سوا اس کا کوئی بچھونا اور اوڑھنا نہ ہو۔ اس لحاظ سے مادی طور پر مسکین ، فقر سے زیادہ بدحال ہوتا ہے کیونکہ فقیر وہ انسان ہوتا ہے جس کے پاس زکاۃ کے نصاب جتنا مال نہ ہو (نصاب زکاۃ تقریباً اسی گرام سونا ہوتا ہے ) مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس تھوڑا سا مال ہے جبکہ مسکین کے پاس یہ معمولی مقدار بھی نہیں ہے۔ اس لیے مسکین وہ شخص ہے جو زکاۃ اور صدقات قبول کرتا ہے اور دوسروں کی مدد کے سوا اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔

وہ مسکنت جس سے بچنا ضروری ہے

نبی اکرمﷺ سستی ، کمزوری اور بے کاری یا کسی کے اوپر بوجھ بننے کو کبھی پسند نہ فرماتے تھے ۔ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ علیہ السلام نے ہی بھکاری پن کے خلاف زبردست مہم چلائی۔ کئی احادیث میں اس کی مذمت فرمائی اور اپنی امت کو اس سے خبردار کیا! حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ر وایت ہے کہ انصار کا ایک آدمی آپ علیہ السلام کے پاس کچھ مانگنے آیا۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ کیوں نہیں ، ایک کمبل ہے جس کا کچھ حصہ ہم اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھاتے ہیں، ایک پیالہ ہے جس میں پانی پیتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: وہ دونوں میرے پاس لے آؤ ۔ راوی فرماتے ہیں کہ وہ شخص وہ دونوں چیزیں لے آیا تو آپ علیہ السلام نے ان کو اپنے دست مبارک میں لے کر پوچھا: یہ دونوں چیزیں کون خریدے گا؟ ایک شخص بولا : میں یہ دونوں ایک درہم میں لے لوں گا۔ آپ علیہ السلام نے تین بار فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دے گا؟ ایک اور شخص نے کہا: میں دو درہم میں لے لوں گا، تو آپ علیہ اسلام نے وہ د ونوں چیزیں اس کو دے دیں اور دو درہم لے کر اس انصاری کے حوالے کردیئے اور فرمایا: ان میں سے ایک درہم کا کھانا پینا لیکر گھر والوں کو دے دو اور ایک درہم سے ایک کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ، تو اس شخص نے ایسا ہی کیا چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس سے دستہ لگایا اور اس سے فرمایا: جاؤ لکڑیاں کاٹو اور فروخت کرو اور پندرہ دن تک مجھے نظر نہ آؤ۔ پس وہ آدمی چلا گیا اور لکڑیاں کاٹ کاٹ کر بیچنے لگا۔ پھر جب آپ علیہ السلام کے پاس آیا تو اس کے پاس دس درہم تھے۔ ان میں سے کچھ کے اس نے کپڑے خریدے اور کچھ سے کھانے کا سامان۔ تو آپ علیہ السلام نے اس سے فرمایا: یہ تمہارے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن تمہارے چہرے پر ’’مانگنا‘‘ ایک نشان بن جائے کیونکہ سوال کرنے کی اجازت صرف تین آدمیوں کو ہے: انتہائی فقیر کو، نہایت مقروض کو اور تکلیف دینے والے خون کے طلبگار کو۔‘‘(2) اسی بارے میں آپ علیہ السلام کا ارشاد ہے: ’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘(3)

اس مقام پر آپ علیہ السلام نے کنایہ استعمال فرماتے ہوئے اس جانب اشارہ فرمایا ہے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ گویا آپ علیہ السلام مسلمانوں کو اس بات کی ترغیب دے رہے ہیں کہ ان کا ہاتھ ہی اوپر والا ہونا چاہیے یعنی: ’’جب تک تمہارے پاس کام کرنے والا ہاتھ اور چلنے والا پاؤں موجود ہے، دوسروں کی قربت اور ان سے محبت کا اظہار کرکے اپنی انسانی شرافت اور عزت کو پامال مت کرو۔ اپنا روزگار خود فراہم کرو اور کسی کے اوپر بوجھ نہ بنو۔‘‘ لیکن اس کے باوجود اسلام نے ضرورت کے وقت مانگنے کی اجازت دی ہے اور ضرورت ختم ہونے سے اس کی اجازت بھی ختم ہوجاتی ہے ، مثلاً بھوک پیاس اور اس دوران ہلاکت اور نقصاان سے بچنے کی حد تک مانگنے کی اجازت ہے مگر اس سے زیادہ کی نہیں۔ اسی طرح قرآن کریم نے حقیقی خطرے سے دوچار انسان کے لیے خنزیرکا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے مگر صرف اتنی مقدار کی جس سے زندگی کی رمق باقی رہ سکے زیادہ کی نہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ (سُورَةُ البَقَرَةِ: 173) (اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی کا نام پکارا جائے، حرام کر دیا ہے۔ ہاں جو مجبور ہو جائے بشرطیکہ اللہ کی نا فرمانی نہ کرے اور حد ضرورت سے باہر نہ نکل جائے، اس پر کچھ گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بخشنے والا ہے رحم کرنے والا ہے ) چنانچہ مضطر اور مجبور کو اس کی ضرورت کے بقدر گناہ نہ ہوگا۔

ہمارے اسلاف رحمہم اللہ نے اس حدیث شریف کے راز کو سمجھ لیا تھا۔ اس لیے فقیر کی عزت نفس کو محفوظ رکھنے کا حکم فرمایا کہ زکات یا صدقہ دیتے ہوئے، دینے والے اپنے ہاتھ کو فقیر کے ہاتھ سے نیچے رکھے۔ سلطنت عثمانیہ کے دوران ’’صدقے کے پتھروں ‘‘ نے فقراء کی عزت نفس کی حفاظت میں بڑا کردار ادا کیا ہے کیونکہ اس زمانے میں امیر لوگ صدقات ان پتھروں کے اوپر رکھ دیا کرتے تھے پھر فقیر آکر صرف اپنی ضرورت کے مطابق ان میں سے لے لیا کرتا تھا۔ یہ بات اس زمانے کے عثمانی معاشرے میں لوگوں کی دلوں کی صفائی اور ایک دوسرے سے تعاون اور ہم آ ہنگی کی دلیل ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ معاشرہ آسمان کے فرشتوں سے مشابہت رکھتا تھا کیونکہ آج پولیس اور دیگر اداروں کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہونے کے باوجود (افسوس کی بات ہے) ہمیں امن و سکون کا وہ ماحول دستیاب نہیں جو اس زمانے میں تھا کیونکہ آج دل کے اندر کوئی منع کرنے والا جذبہ ہے نہ لوگوں کو آخرت کا خیال ۔ اس طرح محاسبہ کا احساس بھی لوگوں کے دلوں سے اٹھ گیا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ انسان کا دل اور اس کا ضمیر مرچکا ہے۔

اچھی مسکنت اور نبی اکرم ﷺ کا بندہ اور رسول ہونا

اوپر مذکور باتوں سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے اس مسکنت کا سوال نہیں فرمایا جس کا مطلب لوگوں سے مانگنا اوران کے سامنے ہاتھ پھیلانا ہے بلکہ اس سے مراد ملنسار زندگی یا اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اور فقر کا احساس ہے۔ حضرت نورسی رحمہ اللہ نے اپنی دعوت کے ایک بنیادی اصول یعنی فقر کی تعریف یوں کی ہے کہ انسان اس بات کا ادراک کرے کہ وہ حقیت میں کسی شے کا مالک نہیں ۔ اسے اللہ تعالیٰ کا محتاج ہونے کا احساس ہو اور ایسے عظیم شعور کا مالک انسان یہ کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حفاظت، رحمت اور نگرانی کا طالب ہوتا ہے: (يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ أَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ، وَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَينٍ) ’’اے زندہ رہنے والے، قائم رہنے والے ، میں تیری رحمت کی مدد چاہتا ہوں۔ میرے سارے معاملات کو درست کردے اور آنکھ جھپکنے کے برابر بھی مجھے میرے اپنے حوالے نہ کر‘‘۔(4)

سید الانبیاءﷺ ایسے ہی جذبات کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے تھے۔ انہی کے ہمراہ اپنی روح کے مقام تک سفر کی خواہش رکھتے تھے اور یہ کہ ان مساکین کے زمرے میں آپ کا حشر ہو جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع کرتے ہیں اور آخرت میں فقر و عاجزی کے پروں سے اڑیں گے۔ بالفاظ یگر آخرت میں بھی نبی اکرمﷺ ایسے احساسات اور شعور کے مالک لوگوں کے مرشد و رہنما ہوں گے کیونکہ آپ علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی ایک عام آدمی کی طرح بسر فرمائی اور کبھی بھی تواضع اور انکساری کا دامن نہیں چھوڑا۔ مثلاً ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے: ’’ہم پر مہینہ گزر جاتا تھا اور ہم اس میں آگ نہیں جلاتے تھے۔ پس کھجور اور پانی (پر گزارا) ہوتا تھا۔ ہاں تھوڑا سا گوشت مل جاتا۔‘‘(5) کس کو معلوم کہ (بعض اوقات )نبی اکرمﷺ کے دل میں اپنے گھر والوں کے بار ے میں ذمہ داری کی فکر بھی پیدا ہوجاتی ہوگی۔

ایک بار حضرت جبریل آنحضرت ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو دیکھا کہ ایک فرشتہ اتر رہا ہے تو حضرت جبریل نے آپ علیہ السلام سے فرمایا: یہ فرشتہ اپنی پیدائش کے بعد اس وقت سے پہلے کبھی نہیں اترا۔ پھر جب وہ فرشتہ اتر گیا تو کہنے لگا: اے محمد (ﷺ) مجھے آپ کے رب نے بھیجا ہے۔ اس نے آپ کو ان کے لیے فرشتہ بنایا ہے یا بندہ اور رسول؟ تو حضرت جبریل نے آپ علیہ السلام سے کہا:محمد اپنے رب کے آگے انکساری اختیار کیجیے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: بلکہ بندہ اور رسول (بنا کر بھیجا ہے)۔(6)

نبی کریم ﷺ نے فقیرانہ زندگی بسر فرمائی اور جب آپ کی روح نے ملاء اعلیٰ کی جانب پرواز کی تو پیچھے ایسا کوئی مال نہیں چھوڑا جس پر آخرت میں محاسبہ ہو کیونکہ آپ علیہ السلام نے اللہ کی نعمتوں کا حق ادا کردیا۔ اپنا سارا مال حق تعالیٰ شانہ کے راستے میں خرچ کردیا تو پھر سرخرو ہو کر چمکتی پیشانی کے ساتھ پاک صاف ہو کر دیوان مقدس کی راہ لی۔

عفت کا پہاڑ اوراس کے سپوت

اس سب کے باوجود آپ علیہ السلام کبھی بھی سستی اور عیش و عشرت کی جانب مائل نہیں ہوئے اور جتنی بھی مشکلات کا شکار ہوئے اپنے خالق کے سوا کسی کے آگے ان کا شکوہ نہیں کیا۔ آپ کبھی کسی کے اوپر بوجھ نہیں بنے، کسی سے کچھ نہیں مانگا اور کبھی صدقہ اور زکاۃ قبول نہیں کی یہاں تک کہ آپ علیہ السلام نے خود اپنے اور اپنے اہل بیت پرصدقہ کو حرام قرار دیا۔(7) جب کبھی آپ کے پاس کوئی ہدیہ آتا تو اسے دوسروں میں تقسیم فرما دیتے(8) یہاں تک آپ علیہ السلام نے وصال سے قبل اپنے گھر والوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایک یہودی سے کچھ غلہ ادھار خریدا اور اس کے بدلے اپنی زرہ مبارک رہن رکھوائی۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺ کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کہ بدلے رہن تھی۔(9) اس بات کا احتمال ہے کہ صحابہ کرام کو شایدا س کا علم نہ ہو کیونکہ اگر ان کو پتہ ہوتا تو اس بار ے میں ضرورت کے مطابق قدم ضرور اٹھاتے۔

آپ علیہ السلام کھلی ہوا سے زیادہ سخی تھے۔ اسی طرح عطا کرتے تھے کہ فقر کا کوئی ڈر نہ ہوتا تھا۔ اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں لٹا دیا اور (محض ا پنے ارادے سے) ایسی زندگی بسر فرمائی جو آپ علیہ السلام کی امت کے فقیر کی زندگی سے بھی کم تر تھی لیکن اس کے باوجود کسی سے مانگنے کے لیے ہاتھ نہیں پھیلایا بلکہ ایسا کوئی اشارہ بھی نہیں فرمایا جس سے اس کا پتہ چلے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ علیہ السلام کو مطلوب مسکنت کا مطلب سادہ اور معمولی زندگی کو مزید سخاوت اور مروت کے اظہارکے ساتھ پسند کرنا تھا۔ دوسری بات یہ کہ آپ علیہ السلام عفت کے بلند پہاڑ تھے اور کسی سے بھی کسی شے کی خواہش نہیں رکھتے تھے، چونکہ آ پ علیہ السلام عفت کی ایک منفرد علامت تھے اس لیے آپ علیہ السلام کے نقش قدم پر قدم بقدم چلنے والے صحابہ کرام بھی عفت کے سرخیل تھے چنانچہ قرآن کریم نے اسلام کے اس ہراول دستے کی تعریف اور مدح سرائی کی ہے جس نے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائے ، ان سے کوی شے مانگی، نہ لوگوں کے پاس موجود چیزوں کو دیکھا اورنہ ہی شدید فقر و فاقہ ، ضرورت اور زندگی کی سختیوں کے باوجود کسی سے بھیک مانگی۔ سو ارشادا باری تعالی ہے: ﴿يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا﴾ (البقرۃ:273) (نہ مانگنے کی وجہ سے نا واقف شخص ان کو تونگر خیال کرتا ہے اور تم قیافے سے ان صاف پہچان لو کہ حاجتمند ہیں اور شرم کے سبب منہ پھوڑ کر اور لپٹ کر نہیں مانگ سکتے)۔

جی ہاں، جب ہم صحابہ کرام کی زندگی پر نظرڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ انتہائی حساسیت کے ساتھ مانگنے اور ہاتھ پھیلانے کی مختلف صورتوں سے بچتے رہے اور اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کو اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی سے پورا کیا۔ مثلاً حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ عشرہ مبشر ہ میں سے ہیں۔ آپ مدینہ منورہ ہجرت کے وقت اپنا سب مال اسباب مکہ مکرمہ میں چھوڑنے پر مجبور ہوئے لیکن جونہی مدینہ منورہ پہنچے تو بازار کے بارے میں پوچھا اور کام شروع کردیا۔کسی کی امداد قبول نہیں کی۔ آپ فرماتے ہیں کہ: جب ہم مدینہ منورہ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے میرے اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا: تو سعد بن ربیع نے کہا: میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار ہوں اس لیے آپ کو اپنا نصف مال دو ں گا اور میری دو بیویوں میں سے کسی ایک کو پسند کرو ، اس کو میں طلاق دے وں گا اور جب اس کی عدت گزر جائے تو شادی کر لینا۔ تو حضرت عبدالرحمن نے فرمایا: مجھے اس کی کوئی خواہش نہیں۔ کیا یہاں کوئی بازرار ہے جس میں تجارت ہوتی ہو؟ جواب دیا کہ : قینقاع کا بازار ہے تو عبدارحمن وہاں گئے اور وہاں سے کچھ پنیر اور گھی لائے۔ پھر بازار جاتے رہے۔(10) کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ (اللہ کے فضل و کرم سے) مدینہ کے امیر ترین آدمی بن گئے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ اپنے گھر میں تشریف رکھتی تھیں کہ اچانک مدینہ میں ایک آواز سنی تو پوچھا کہ کیا ہے؟ بتایا گیا کہ عبدالرحمن بن عوف کا قافلہ شام سے ہر شے لے کر پہنچا ہے (قافلے میں سات سو اونٹ تھے) اور مدینہ اس کی آواز سے گونج اٹھا ۔ تو حضرت عائشہ نے فرمایا کہ : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا :آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’میں نے عبدالرحمن بن عوف کو جنت میں گھٹنوں کے بل داخل ہوتے ہوئے دیکھا‘‘۔ جب یہ بات عبدالرحمن بن عوف تک پہنچی تو کہنے لگے :’’اگر ہو سکا تو میں جنت میں کھڑا ہو کرداخل ہوں گا‘‘ اور اس کے بعد ان سب اونٹوں کو ان کے سازو سامان اور بوجھ کے ہمراہ اللہ کی راہ میں خرچ کردیا۔(11)جی ہاں، حضرات صحابہ کرام نے مانگنے کی برائی کو آزما کر دیکھا اور اپنی حقیقی ضرورت اور فقر کے باوجود کمانے اور لقمہ حاصل کرنے کے طریقے تلاش کیے ۔ اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ اپنے اوقات خرچ کرتے ہیں اوراللہ کے رستے میں خدمت کرتے ہیں ، ان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ دوسروں سے کسی عطیے یا وظیفے کا انتظار کریں کیونکہ ہمیشہ افضل بات یہ ہے کہ وہ اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی سے کھائیں خواہ وہ پتھر توڑنے یا پلازوں اور عمارتوں کی صفائی کا کام ہی کیوں نہ ہو البتہ کچھ مقامات اور خدمات ایسی ہوتی ہیں جہاں انسان ان کے علاوہ کوئی اور کام انجام نہیں دے سکتا، چنانچہ ایسے حالات میں ایسے شخص کو اسے ملنے والے وظیفے سے اتن لینے کی رخصت ہے جس سے اس کی صرف ضروری حاجتیں پوری ہوجائیں۔

میں ذاتی طورپر ہمیشہ اس بار ے میں اپنی زندگی میں غور و فکر کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ مثلاً میں نے فوج میں عسکری خدمت کی ادائیگی کے لیے شامل ہونے سے قبل تین سال تک امامت کی۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی تنخواہ کا اکثر حصہ کتابیں خریدنے اور دیگر خدمات میں صرف کرتا تھا جبکہ روزانہ ایک وقت کے کھانے سے پیٹ بھر سکتا تھا پھر جب مجھے واعظ بنانے کی پیشکش کی گئیں تو مجھے کسی سے فتویٰ طلب کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کیا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام مادی عوض کے بدلے کرنا جائز ہے؟ تو میں نے حضرت بدیع الزمان سعید نورسی کے ایک قریب ترین شاگرد سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ حضرت بدیع الزمان سے یہی سوال پوچھا گیا تھا اور ان کا جوب یہ تھا : ’’اگر آپ کو ملازمت دیئے بغیر وعظ وار شادکی اجازت نہ دیں تو اس ملازمت کو قبول کر لو اور اگر تمہیں اس مال کی ضرورت نہ ہو تو ضرورتمندوں کو دے دو اور اگر خود محتاج ہو تو تنخواہ سے اپنی ضرورت کے بقدر لے لو۔‘‘ چنانچہ اس بنا پر میں شعبۂ وعظ میں ملازم ہو گیا اور اپنی مخصوص تنخواہ سے اتنی رقم لی جس سے میری ضروری حاجات پوری ہوجاتی تھیں جبکہ باقی حصہ اللہ کی رضا کے لیے حاجتمندوں کے لیے چھوڑ دیا۔ اس کے بعد جب مجھے کتابوں کی تالیف سے اجرت ملنے لگی تو اس تنخواہ کو کبھی ہاتھ نہ لگایا اور گزارش کی کہ وہ ضرورت مندوں کو دے دی جائے۔

ہمارے اس زمانے میں خدمت سے وابستہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ بھی کسی سے کوئی چیز نہ مانگیں بلکہ دوسروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوڑیں اور یہ کہیں کہ: ’’اس کام کی مزید ضرورت اور حاجت ہے تاکہ تم دوسرے میدانوں میں بھی خدمات پیش کرو اور معاشرے کو زیادہ فائدہ پہنچاؤ۔‘‘ ایسے حالات میں بھی آپ خوشی سے نہیں بلکہ مجبوراً اس معمولی رقم کو قبول کرسکتے ہیں جو آ پ کے لیے مخصوص کی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف انسان کا اپنی زندگی کو دوسروں سے ملنے والے عطیات سے جوڑنا (میرے خیال میں) اس مسکنت اور ذلت کے دائرے میں داخل ہے جس کی قرآن کریم اور سنت مطہرہ نے مذمت کی ہے۔

انسان ایسی حقیر چیز نہیں جسے مال سے خریدیا بیچا جائے

ہمارے زمانے میں ایمان والے دلوں کو اس بارے میں زیادہ حساس ہونا چاہیے۔ ان کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ اپنی ساری زندگی عزت اور شرافت کے ساتھ گزاریں اور دوسروں کے ہاتھ میں موجود کسی شے کی امید نہ رکھیں خواہ وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ ان کو کسی بھی انسا ن کوکوئی بدلے دینے پر مجبور نہیں ہونا چاہیے۔ جی ہاں، عفت کے میدانوں کے سپوت ہونے کی وجہ سے ان کو کسی کے سامنے ذلیل اور رسوا نہیں ہونا چاہیے ورنہ منفعت اور مصلحت کا جال دین کے رستے میں کوشش کرنے والے ان لوگوں کو پھنسا لے گا اور اپنا غلام بنا لے گا۔ اس کے بعد ایک ایسا دن آجائے گا جب یہ جال ان کوان کے دین کی کسی شے سے بھی (خدانخواستہ) پیچھے ہٹنے پر مجبور کردے گا۔

نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنے زمانے میں اس کی بہت سی دردناک مثالیں دیکھتے ہیں۔ جی ہاں، ہم دیکھتے ہیں اور اس بات پر ہمارا دل درد اور تلخی سے کٹتا ہے کہ بعض لوگوں کو خریدا جاتا یہ پھر ان کو مختلف طریقوں اور طرح طرح کے ذرائع سے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ انسان کوئی ایسی چیزنہیں جس کو مال کے بدلے خریدا یا بیچا جائے۔ ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ انسان کی قیمت اور بدلہ جنت کا حصول ہے اور اس کی چوٹی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کے جمال کانظارہ ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی قیمت نہیں ۔ جی ہاں، اگر استنبول کی فتح کو بھی انسان کا بدل اور عوض قرار دیا جائے تو بھی یہ انسان کے نفس کو فروخت کرنے کی قیمت نہیں ہوسکتی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر انسان کو بیچا جائے تو اس سے استنبول فتح ہوجائے گا، تو بھی اسے اس پر راضی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ انسان کی عزت و شرافت اس سب سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔

اگر اس بات کا اعتراف نہ کریں کہ اس قدسی دائرے میں موجود بعض لوگ روح کی اس قدر صفائی حاصل کرچکے ہیں تو یہ ناشکری اور حقیقت کا انکار ہوگی لیکن ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم سب لوگوں کو اس روحانی حالت تک پہنچائیں اور لوگوں کے سامنے ہاتھ سے کام کرنے، شرافت کو بچانے اور عزت و مروت کے ساتھ زندگی گزارنے کی قدرو قیمت بیان کریں کیونکہ نبی کریم ﷺ کی جانب سے ’’بندہ اور رسول ‘‘ ہونے کا انتخاب، اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ خدمت کے منہج کو (جو رسالت کے منہج اور کام کا سلسلہ ہے) اسی روحانی حالت کے ساتھ پیش اور ادا کیا جاسکتا ہے۔

حضرت بدیع الزمان کی دار البقاء کی جانب کوچ کرنے کے بعد میں نے آپ کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے طلبہ کو دیکھا جبکہ اس زمانے میں پورے ترکی میں خدمت کے چند گھر تھے جن پر سادگی کا راج تھا۔ ان میں گھی سے خالی شوربے کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا اور پنیر اور روٹی کے ایک ٹکڑے کے ساتھ چائے کے ایک پیالے کو سالن کے طورپر استعمال کرنے پر اکتفا کرلیا جاتا تھا لیکن ان لوگوں کے دلوں میں حق کی خدمت کا حقیقی شوق اور نشہ تھا۔ چنانچہ وہ خدمت کے عشق میں جوان گھوڑے کی طرح نشے میں ہوتے تھے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ بنیادی خدمت انہوں نے شروع کی اور آ پ کے لیے موجودہ زمین ہموار کی، زمین میں ہل چلایا، اس میں بیج بوئے، پھر ان کا خیال رکھا اور آخر میں فضل کی کٹائی کا وقت آپ کے نصیب میں آگیا۔

بعض لوگوں کے لیے اس قدرعفت اور استغناء کی زندگی مشکل ہوسکتی ہے لیکن اعلیٰ ہدف کے وہ مہاجرین جن کو اعلیٰ اور اونچی فکر سے عشق ہے، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس منزل تک پہنچنے کی کوشش کریں۔

ہمیں کبھی بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس اعلیٰ ہدف کا تسلسل صرف اور صرف ان اعلیٰ صفات اور خصال حمیدہ کا مرہون منت ہے کیونکہ اگر آپ طمطراق اور طنطنے سے زندگی گزاریں گے تو (خدا نخواستہ) لوگوں کا تم سے اعتبار اٹھ جائے گا جس سے وہ آپ سے دور ہوجائیں گے اور اس وقت (خدا نخواستہ) دنیا کے ایک وسیع علاقے میں پھیلی ہوئی سرگرمیاں رک جائیں گی۔ جی ہاں، اس طرح کی خدمات ساری انسانیت کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ اس لیے اگر لاتعداد رضا کاروں کی بہت زیادہ قربانیاں نہ ہوتیں تو یہ سرگرمیاں جاری نہیں رہ سکتی تھیں۔ آ ج بہت سے لوگ شک اور الزامات کی نظر سے سوالات اٹھاتے ہیں۔ اس کی وجہ غیرت، یا حسد ہوسکتی ہے حالانکہ ان کو حقیقت کا اچھی طرح علم ہے۔ مثلاً سوال کرتے ہیں کہ: ’’ اس چکی کا پانی کہاں سے آتا ہے؟‘‘ جبکہ یہ بات یقینی ہے کہ ’’چکی ‘‘ پانی یا ہوا سے نہیں چلتی بلکہ اس مروت، جرأت اور قربانی سے چلتی ہے جو اناطولیہ کے باشندوں نے جنگ آزادی سے قبل بھی اس طرح پیش کی تھی کہ دنیا انگشت بدندان رہ گئی تھی۔ اس لیے کسی بھی قسم کی غلطی کا ارتکاب سے دور بھاگنا چاہیے(اگرچہ وہ معمولی اور چھوٹی کیوں نہ ہو) جس کی وجہ سے ان سخی معاونین کے ذہن میں خلجان پیدا نہ ہو اور وہ بد ظنی کا شکار نہ ہوں۔ اگر (ایسا ہوا) تو یہ ایسا وبال ہے جو ہمارے لئے ناقابل برداشت ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ اس پر محاسبہ کرے گا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی تاجر اور بزنس مین جب تجارتی زندگی کی موجوں میں شناوری کرے گا تو وہ کام کرے گا اور فائدہ اٹھائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ان کی تجارت میں برکت عطا فرمائے ۔ ان کو یہ کام اور فائدہ جاری رکھنا چاہیے مگر جن لوگوں نے اپنی جان حق کے لیے وقف کردی ہے اور اعلیٰ ہدف کے لیے ہجرت کی ہے اور جو اس حالت کی وجہ سے سادہ اور معمولی زندگی گزرانے پر مجبور ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ آخری لمحے تک زاہدانہ اور متواضع زندگی گزاریں ، دنیا سے مستغنی ہوجائیں اور اپنے احساسات، جذبات اور اذہان بلکہ اپنے پورے نفس کو مکمل طورپر ایمان اور قرآن کریم کی خدمت کے لیے تحفے میں پیش کریں۔

(1) سنن الترمذي، الزهد، 37؛ سنن ابن ماجه، الزهد، 7.
(2) سنن أبي داود، الزكاة، 26؛ سنن ابن ماجه، التجارات، 25.
(3) صحيح البخاري، الزكاة، 18؛ صحيح مسلم، الزكاة، 94، 97.
(4) النسائي: السنن الكبرى، 212/9؛ الحاكم: المستدرك، 730/1؛ البيهقي: شعب الإيمان، 212/2.
(5) صحيح البخاري، الهبة، 1، الرقاق، 17؛ صحيح مسلم، الزهد، 26-28.
(6) مسند أبو يعلى الموصلي، 491/10؛ مسند الإمام أحمد، 77/12، صحيح ابن حبّان، 280/14.
(7) صحيح البخاري، الزكاة، 60، الجهاد، 188، صحيح مسلم، الزكاة، 161.
(8) صحيح البخاري، الزكاة، 50، الرقاق، 20، صحيح مسلم، الزكاة، 124، الفضائل، 50.
(9) صحيح البخاري، الجهاد، 89، سنن الترمذي، البيوع، 7، سنن ابن ماجه، الرهون،1.(واللفظُ للبخاري)
(10) صحيح البخاري، مناقب الأنصار، 3.
(11) مسند الإمام أحمد، 337/41.