قربانی اور خرچ میں میانہ روی
سوال: کیا ا للہ تعالیٰ کی رضا کے لئے پیش کی جانے والی خدمات کی کوئی حد ہے ؟ اور اس شخص کے لئے روحانی اور مادی قربانی کا کیا معیار ہے جس نے اپنی زندگی تعلیمی خدمات کے لئے وقف کردی ہو؟
جواب: آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں لوگ برابر نہیں ہوتے کیونکہ ان میں زمین و آسمان کا فرق ہوسکتا ہے۔ بالفاظِ دیگر ہر انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق اس کے ایمان،معرفت،اللہ سے محبت و عشق اور شوق کے بقدر ہوتا ہے۔ مثلاً ایسے لوگ موجود ہیں جو دین کے احکامات کو پوری حساسیت اور باریک بینی سے بجا لاتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ نوافل کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صرف فرائض ادا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بندے اور اس کے رب کے درمیان تعلق کو کبھی بھی معمولی نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ اس کی توہین ایک ایسی چیز کی توہین ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے عظمت بخشی ہے۔ تھوڑی اور تفصیل میں جائیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کے مخدوش حالات میں جو شخص کلمہ شہادت پڑھتا ہے، پنجگانہ نماز ادا کرتا ہے، رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے، زکوٰۃ دیتا ہے اور حج کرتا ہے بشرطیکہ یہ چیزیں اس پر واجب ہوں اور طعن و تشنیع اور طرح طرح مظالم کا شکار ہونے کے باوجود جس مقام پر ثابت قدمی ضروری ہو وہاں ثابت قدم بھی رہتا ہے ، تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے بڑا زبردست کام کیا اور ہمیں یقین ہے کہ وہ روز قیامت اللہ تعالیٰ کے ابدی الطاف سے لطف اندوزہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جو بھی عمل اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرتا ہے، حق تعالیٰ کے ہاں اس کی ایک قیمت ہے۔ اس لئے ہمیں ایسے لوگوں کی قربانی کی کبھی بھی تحقیر نہیں کرنی چاہئے جو اپنے مال ا ور جان کے ذریعے حق کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں بلکہ وہ جو کچھ پیش کرتے ہیں اس کو احترام اور عظمت کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔
خیراتی کاموں کے لئے کی جانے والی کوششوں کی حوصلہ افزائی
جب ہم انفاق (خرچ کرنے )کے لحاظ سے اس موضوع پر نظر ڈالتے ہیں تو صحابہ کرام کے مبارک زمانے میں بھی معیار میں فرق نظر آتا ہے۔ مثلاً جب غزوہ تبوک میں اللہ کے رستے میں خرچ کرنے کی صدا لگائی گئی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا مال صدقہ کردیا اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال فرمایا کہ : ’’اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ تو جواب دیا: ’’ ان کے لئے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ یہ صدیقیت کا مرتبہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ سچے مخلص مومن ہیں اور اسلام پر پابندی کا ایک مثالی نمونہ ہے ۔ دوسری جانب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا آدھا مال صدقہ کر دیا۔یہاں میں اس بات پر زور دینا چاہوں گا کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضرت عمر حضرت ابو بکر سے پیچھے رہ گئے تھے کیونکہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بے ادبی ہے کیونکہ آپ کے دیگر بہت سے فضائل اور خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے دوسروں پر فضیلت حاصل ہے۔ اسی طرح دیگر حضرات صحابہ کرام جیسے حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی عنہما نے تقریباً پانچ پانچ سو اونٹ صدقہ کئے جو ہمارے آج کے عرف کے مطابق پانچ سو گاڑیوں کے برابر ہیں جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں اخلاص کا ایک اور پہلو اجاگر فرمایا۔ چنانچہ کچھ مال چھپا کر اور کچھ سب کے سامنے خرچ کیا کیونکہ آپ اعلانیہ خرچ کرکے دوسروں کے سامنے نمونہ پیش کررہے تھے اور بتا رہے تھے کہ دوسرے لوگ جو کام کررہے ہیں ان میں وہ بھی ان سے پیچھے نہیں جبکہ خفیہ صدقے سے یہ چاہتے کہ وہ اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو۔ انہی حضرات کے ہمراہ خصوصاً ابتدائی مدت میں ایسے حضرات بھی شامل تھے جنہوں نے اس قافلہ خیر میں ایک ایک مٹھی کجھوریں یا تھوڑا سا مال صدقہ کیا۔ جی ہاں ، ان لوگو ں نے اپنا سارا مال صدقہ کردیا، کچھ ایسے تھے جنہوں نے آدھا مال دے دیا، چوتھائی دیا یا دسواں حصہ جبکہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ یہ معاملہ ہمیشہ اسی طرح رہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کو فراموش نہ کریں کیونکہ یہی معاملہ آج بھی ہوسکتا ہے ۔ اس لئے سب سے معمولی قربانی کا بھی احترام کیا جانا چاہیے اور اسے اچھا سمجھنا چاہیے۔
یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ معمولی قربانیوں کی قدردانی اور ان کی حوصلہ افز ائی معاملے کا ایک رخ ہے جبکہ دوسرا رخ لوگوں کے معیار کو بلند کرنے کی مسلسل کوشش اور بھلائی کے نئے نئے دروازے کھول کر ان کے لئے کئی اہداف مقرر کرنا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے ایسے نیک اعمال ہوسکتے ہیں جن میں انسان دیگر ضروری اعمال کے ساتھ بھی شامل ہوسکتا ہے ۔ اس لئے اسے کبھی بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے بلکہ ہمیشہ اعلیٰ ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر صبح ایک بار پھر اس بات کی کوشش کرے کہ اپنے وجدان میں اللہ تعالیٰ کے احساس کو مزید پختہ کرے اور دین کی روح کی معرفت حاصل کرنے کے لئے مزید کوشش کرے اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ اپنے قلبی تعلق کو مضبوط کرنے کے نت نئے رستے تلاش کرے۔ اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنے معیار کو ہمیشہ بلند کرنے کی مسلسل سعی کرے اور اپنے معیار پر نہ رکے بلکہ ضروری ہے کہ وہ ’’ ہل من مزید ‘‘ کہتے ہوئے اپنے گھوڑے کو چوکے دیتا رہے اور اسے آگے بڑھاتا رہے، بلکہ اگر وہ کسی دن ’’فنا فی اللہ‘‘ اور ’’ بقاء باللہ‘‘ کے مرتبے تک پہنچ جائے یعنی حق تعالیٰ کی ذات کی تسبیح کی شعاعوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے اس کی نظروں میں لاشئ ہو جائے اور کائنات اس کی نظرمیں پگھل کر بالکل ختم ہوجائے اور وہ اس فانی اور زوال پذیر دنیا کو ایک طرف پھینک کر اپنے جسمانی اور نفسانی رخ سے فنا ہو کر ایک ابدی وجود حاصل کرلے اور اسے اپنے قلب و روح اور احساسات کے ساتھ دوبارہ زندہ کیا جائے اور وہ دیکھ لے کہ اس کا سر نقطے کے اس آسمان تک پہنچ گیا ہے جس تک وہ پہنچ سکتا تھا، تو (اس سب کے باوجود) اس پر لازم ہے کہ وہ ہمت کو بلند کرتے ہوئے یہ دعا کرے:’’ اے اللہ مجھے میری صلاحیتوں سے بڑھ کر صلاحیتیں عطا فرما اور مجھ پر اپنی نعمتوں اور لطف کی ایسی برکھا چھم چھم برسا جو میری صلاحیتوں کو موسلادھار بارش کی طرح ظاہرکردے۔‘‘
جی ہاں، لوگوں کے معیار میں جتنا بھی فرق ہو خواہ وہ روح اور قلب کی زندگی کے بارے میں ہو یا خدمت حق کے بارے میں، یہاں یہ بات جان لینی چاہیے کہ بلندی اور ترقی کا رستہ ہر اس آدمی کے سامنے کھلا ہوا ہے جو واجبات میں سے کم ترین کو بجا لاتا ہے کیونکہ جب بھی ان لوگوں کو اپنے دل میں خدمت کے جو ہر کا احساس ہو گا تو اس کی بنیاد ان کو دے دی جائے گی اور وہ مزید اخلاص کے ساتھ اس کو اس تھام لیں گے اور یہ سارے امور کچھ وقت کے بعد ان واجب امور کی ادائیگی کی وجہ سے ان کی فطرت بن جائیں گے کہ گویا وہ ان کو اپنے دلوں پر نقش کررہے ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی وقت ایسا آجائے جب ان کی ضرورت باقی نہ ر ہے اور حق کی خدمت کے لئے ان سے کچھ بھی مطلوب نہ ہو اور یہ آواز نہ لگائی جائے کہ ’’ چلو یہ کام کرو‘‘ تو ان کو احساس ہوجائے گا کہ وہ تو بالکل خالی خولی ہیں اور اس حالت کو وہ موت کی مانند سمجھتے ہوئے تلملانے لگیں اور انفاق کے مختلف طریقے تلاش کرنے لگیں لیکن اس مرتبے تک پہنچنے کے لئے طویل وقت درکار ہے اور اس کا تعلق اس عمل کو صبر و ثبات کے ساتھ تھامے رکھنے اور سمجھنے میں ہے۔
مخاطبین کو خوب اچھی طرح جاننے کی ضرورت
ایک اور سوچ ایسی ہے جو اس موضوع پر زیادہ روشنی ڈالتی ہے ، وہ یہ کہ بعض حضرات اس مسئلے کو شریعت کی ان حدود میں پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو مدینہ منورہ میں رائج تھی۔ چنانچہ وہ فرائض کی ادائیگی پر اکتفا کرتے ہیں اور اگر عشر یا زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا فرض ادا ہوجائے گا جبکہ کچھ حضرات اس مسئلے کو مکہ مکرمہ کے حالات پر محمول کرتے ہوئے مطلق چھوڑتے ہیں( کیونکہ مکی آیات میں انفاق کی کوئی حد مقرر نہیں) اس لئے وہ جتنا ممکن ہو سکے خرچ کرتے ہیں، چنانچہ حق کی خدمت کے ہراول دستے اور دوسروں کو ان بھلائی کے کاموں میں شرکت کی دعوت دینے والے داعیوں پر لازم ہے کہ وہ حکمت اور فراست سے کام لیں اور اپنے مخاطبین کو خوب اچھی طرح جان لیں کیونکہ اگر وہ پورے کئے گئے کاموں کو کم سمجھیں گے یا لوگوں کی طاقت سے بڑھ کر ان پر بوجھ ڈالیں گے تو (خدانخواستہ) اپنے مخاطبین میں زبردستی کرنے کے جذبات پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
یہ واقعہ سن لیجئے جو مجھے اس طرح یاد ہے کہ گویا ابھی ابھی ہوا ہے ۔ یہ معیار ہونا چاہئے۔ میں نے ازمیر شہر میں ’’ بوزیقا‘‘کے مقام پر طلبہ کے ہاسٹل کے لئے لوگوں سے تعاون کی اپیل کی۔ اس مسئلے کی اہمیت کے بارے میں تقریر کی اور اس کے بعد اپنے کمرے کا رخ کیا جہاں میں بطور مہمان مقیم تھا۔ اچانک ایک شخص بڑی جلدی میں سیڑھیاں چڑھا اور میرے پاس آگیا۔ میں اسے اچھی طرح جانتا تھاکہ کچھ ہی عرصہ قبل ایک سرکاری محکمے سے سبکدوش ہوا ہے اور پنشن کی رقم سے ایک گھر خریدا ہے۔ چنانچہ اس نے گھر کی چابیاں میرے حوالے کرکے کہا : ’’ہر ایک نے کوئی نہ کوئی کام اپنے ذمے لے لیا ہے میرے پاس اس کے سوا کوئی مال نہیں جبکہ یہ بھی اللہ کی راہ میں قربان ہے۔‘‘جذبات کو بھڑکانے اور آنکھوں سے آنسو جاری کرنے والی اس تصویر کے سامنے میں نے کہا: ’’ دین میں اس طرح کا کوئی حکم نہیں‘‘ اور چابیاں اس کو واپس کرتے ہوئے کہا:’’جائیے، اس گھر میں آپ خود،آپ کے گھر والے اور بچے رہیں اور جب اللہ تعالیٰ دے خرچ کریں۔‘‘ اس لئے میرا خیال ہے کہ اگر ہم اس توازن کے ساتھ کام نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی مخالفت کریں گے: ’’ لا اکرا ہ فی الدین‘‘ ( البقرۃ:256) (دین (اسلام) میں زبردستی نہیں)۔ جی ہاں ، دین میں کوئی زبردستی نہیں خواہ وہ لوگوں کے دین میں داخل اور اسے قبول کرنے کے بارے میں ہو یا ان کاموں میں جو دین کی تنفیذ اور اس احیاء کے لئے انجام دئے جائیں۔
جی ہاں ، اسلام آسانی کے قاعدے پر قائم ہے۔ اس لئے اگر آپ معاملات کو اس طرح مشکل بنادیں کہ وہ لوگوں کے بس سے باہر ہو جائیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ آپ نے دین کو ایسا بنا دیا ہے کہ اس کی تنفیذ ناممکن ہے اور ایسی حالت سے دو چار ہوگئے جو تمہارے ارادے کے برعکس ہے۔ اس لئے جب آپ لوگوں کو سخاوت کی دعوت دیں اور یہ چاہیں کہ جو کچھ ان کے پاس ہے وہ پیش کردیں تو واقعات آپ کی امیدوں کے برخلاف پیش آسکتے ہیں اور آپ شکست سے دوچار ہوجائیں گے کیونکہ آپ نے دین کو ناقابل برداشت بنا دیا۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ : ’’ دین آسانی ہے اور جو بھی دین کے ساتھ زور آوری کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا‘‘ ( النجاری، الایمان: 29، النسائی، الایمان:28) اس بنا پران رہنماؤں پر لازم ہے جنہوں نے اس کام کی ذمہ داری لی ہے کہ وہ اپنے مخاطبین کو اچھی طرح پہچاننے کے بعد حکمت اور فراست سے کام لیں اور یہ بھی جانیں کہ کس کو دعوت دینی چاہئے، کس بات سے اسے تقویت ملے گی اور وہ کیا کر سکتا ہے؟
یہیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اس طرح حکمت سے کام کرنا خلق الہٰی میں بھی شامل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (لا يكلّف الله نفساً إلا وسعها) (البقرۃ:286) (اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا) اس لئے ضروری ہے کہ لوگوں کے اچھے کاموں کی تعریف کی جائے اور ایسے طریقے بروئے کار لائے جائیں جن سے ان کے شوق کو مہمیز ملے اور ان کو ایسے کاموں کا مکلف نہ بنایا جائے جو ان کے بس میں نہ ہوں کیونکہ اس سے وہ ہلاکت میں پڑ جائیں گے۔
انفاق میں تسلسل
زبردستی کرکے لوگوں کو انفاق پر مجبور کرکے ان کے وسائل کو ہتھیانے سے پیداوار کا پہیہ رک جاتا ہے جبکہ کاموں کا پہیہ رواں رہنے سے ان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ وہ بعد میں اس سے زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرنے والے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کا عشق اور شوق انتہاء کو پہنچ جائے تو اپنے پاس موجود سب کچھ خرچ کر ڈالنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ،ایسے میں آپ کا فرض ہے کہ اس بارے میں توازن سے کام لیں، مستقبل کے بارے میں سوچیں اور اس کے تسلسل کا خیال رکھیں۔
خلاصہ یہ کہ خدمت کے میدان بہت ہیں جو طرح طرح کی بہت سی قربانیوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس لئے ذمہ داروں پر لازم ہے کہ وہ صیغۂ امر میں تسلسل کے ساتھ تبدیلی اور تجدید کرتے رہیں تاکہ اس میں کہنگی نہ پیدا ہوجائے اور ہر بار اپنے اقدار کو نئے رنگ، نئی خوبصورتی اور نئے لہجے میں پیش کریں جس سے مخاطبین میں عشق اور جذبے کی لہریں مسلسل پیدا ہوتی رہیں لیکن اس بارے میں خیال رہے کہ اس سے امرکے ان رخوں پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے جن کا تعلق محکمات سے ہے۔ یاد رکھئے کہ ’’ ہر نئی شے میں ایک لذت ہوتی ہے‘‘ ۔ اس لئے جو پیغام آپ متنوع وسائل کو استعمال کرکے پیش کریں گے اس سے ایک نیا ذوق اور نیا لطف پیدا ہوگا جس سے اسے مخاطبین میں پذیرائی ملے گی جبکہ اس کے خلاف کام کرنے سے وہ مسئلہ پرانا لگے گا اورلوگوں میں اس کے معمول کا کام ہونے کا شعور پیدا ہوگا جس سے اکتاہٹ پیدا ہوجائے گی اور دلوں پر آپ کے پیغامات کی تاثیر کم ہوجائے گی۔
- Created on .