دین کے نام پر کئے جانے والے جرائم کا وبال - 1

دین کے نام پر قتل و غارت کا گناہ

سوال: کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ بعض تنظیموں کی جانب سے دین کے نام پر جو مختلف جرائم اور تخریبی کارروائیاں کی جاتی ہیں ، ان کے پیچھے صرف خفیہ طاقتیں اور بیرونی ہاتھ ہے؟ اور یہ واقعات آج کل کیوں ہورہے ہیں ؟

جواب: اسلام کا دعویٰ کرنے والے بعض لوگ آج بارود بھری گاڑیاں بے گناہ لوگوں کو قتل اور عبادت گاہوں کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ، جبکہ یہ اسلام اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہےلیکن افسوس یہ واقعات ایک ایسی زمینی حقیقت ہیں جو ایمان والے دلوں کو گھائل کرتی ہے اور ہمارے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ جی ہاں ، ان دہشت گردانہ کارروائیوں کے پیچھے بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہے اور ان کے خبیث اور مرتب منصوبے بھی ہیں لیکن اسلام کی سمجھ اور اس کی تشریح میں انحراف بھی ان کا ایک سبب ہے، جبکہ اس انحرانف کے جرائم اسلامی دنیا کے لئے صلیبی جنگوں اور تاتاریوں کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک ہیں اور یہ ہمارے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔

شجاعت اور بہادری کے مفہوم میں غلطی

میں سمجھتا ہوں کہ جرأت و بہادری کو سمجھنے میں غلطی ان معاملات میں سرفہرست ہے جن کی غلط تشریح اور ان کے بارے میں غلط فہمی ان واقعات میں پڑنے کا سبب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مومن دل کو جرأت و بہادری سے مزین ہونا چاہئے لیکن بصیرت، حکمت اور ایسے حال کے ساتھ جو مخاطبین کو امن و امان کا پیغام دے۔ اسے چاہئے کہ وہ ہر حال میں دین کے نظریات پر کاربند رہے خواہ حالات کچھ بھی ہوں اور اسے معلوم ہونا چاہئے کہ مقصد و سائل کی دلیل فراہم نہیں کرتا یعنی جائز اہداف کے لئے جائز وسائل بھی ضروری ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں سچی جرأت اور شجاعت یہ ہے کہ مسلمان اپنے اقدار کے دفاع کے لئے سینہ سپر رہے اور ہمیشہ حق پر ثاقت قدم رہے اور اپنے اوپر آنے والے مصائب پر صبر کرے اگرچہ اس کی خاطر اس کا ایک ایک عضو کیوں نہ کاٹ دیا جائے۔

جو شخص عصر سعادت (اسلام کے عصر اول) کو اس کی روشنی میں دیکھے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ فخر انسانیت ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام نے مکی زندگی کے تیرہ سالوں میں اتنے زیادہ مصائب جھیلے جو انسان کے بس سے باہر ہیں ، یہاں تک کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اکثر اوقات غم کی وجہ سے اپنی آنکھوں میں آنسو بھر کراللہ تعالیٰ کی قدرت مطلقہ اور سلطان ادب و اخلاق جس کو رب تعالیٰ نے ا نسانیت کی نجات کے لئے بھیجا تھا ان کی اور ان پر ایمان لانے والوں کو پیش آنے والی طرح طرح کی تکلیفوں کو دیکھتے اور کہتے ،’’ اے ہمارے رب تو کس قدر بردبار ہے!‘‘ کیونکہ وہ اس منظر کے سامنے حیران و پریشان ہوتے تھے جس کی حکمت کو وہ کماحقہ نہیں سمجھ پاتے تھے۔

آپ کو معلوم ہے کہ ایک جاہل منکر نے فخر انسانیت سید نا ومولانا حضرت محمدﷺکے سر پر اس وقت اونٹ کی اوجڑی رکھ دی تھی جب آپ علیہ السلام کعبہ کے پاس سجدے ریز تھے۔ ان لوگوں نے آپ ﷺ کو کتنی بار پتھر مارے حالانکہ وہ خود ان کے زیادہ حق دار تھے لیکن اس کے باوجود رسول اکرم ﷺ نے کبھی بھی ان کو بددعا نہیں دی اور یہ نہیں فرمایا کہ : ’’ یا اللہ ان پر اپنے ہاں سے پتھروں کی بارش فرما‘‘ بلکہ آپ علیہ السلام پر سنگ باری کی گئی اور اگلے دندان مبارک شہید ہوگئے، آپ ﷺ کا چہرہ انور زخمی ہوگیا اور خون بہنے لگا تو بھی آپ ﷺ نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند فرمائے اور یہ دعا فرمائی: ’’ اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي (أو: اِهْدِ قَوْمِي) فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ‘‘ (سنن سعید بن منصور:353/2، البہقیھ ، شعب الایمان:45/3) (اے ا للہ میری قوم کو معاف فرما دے (یا ہدایت دے دے) کیونکہ وہ نہیں جانتے)۔ اس دعا کا خلاصہ یہ ہے کہ : ’’اگر انہوں نے مجھے پہچانا ہوتا اور میری دعوت کو سمجھا ہوتا اور یہ جانا ہوتا کہ میں ان کی خاطر بار بار مراور جی سکتا ہوں تو انہوں نے وہ کچھ نہ کیا ہوتا جو انہوں نے کیا۔ قرآن کریم کی یہ آیت : ﴿فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا﴾ )سُورَةُ الْكَهْفِ: (6 ((اے پیغمبر) اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم ان کے پیچھے رنج کرکر کے اپنے تئیں ہلاک کر دو گے) مشرکین کے منتخب کردہ غلط رستے کے بارے میں آپ علیہ السلام کا موقف واضح کررہی ہے۔

جی ہاں ، فخر انسانیت ﷺ جنہوں نے دلوں کو فتح کیا ، کلیجوں کو نرمادیا ، لوگوں کو حقیقی انسانیت کا رستہ بتایا اور اپنی فطرت میں پوشیدہ انسانیت کاملہ کے ذریعے انسانوں کو یکجا فرمایا، انہوں نے اپنے دشمنوں کے غصے اور حسد کا جواب ان کی طرح نہیں دیا بلکہ آپ ﷺ نے ایسی بری اور سخت باتوں پر عمل کرنے کا کبھی ارادہ بھی نہیں فرمایا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اس ابو جہل کے لئے بھی بد دعا نہیں فرمائی جس نے پندرہ سال آپ ﷺ سے دشمنی کی لیکن جب اللہ تعالی نے ابو جہل کے بیٹوں جویریہ اور عکرمہ کے دل اسلام کے لئے کھول دئے تو انہوں نے وہ وہ جوہر دکھائے جن پر عقل انگشت بدنداں رہ جاتی ہے، چنانچہ حضرت عکرمہ نے غزوۂ یرموک میں رومیوں کا مقابلہ کیا اور شدید زخمی ہوئے اور خیمے میں منتقل کئے گئے تو اچانک اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے: ’’ یا رسول اللہ کیا آپ نے قدم رنجہ فرما کر ہمیں شرف بخشا؟ ‘‘ حالانکہ ابھی آپ علیہ السلام سے جان پہچان ہوئے دو برس سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا تھا۔ سچی بات ہے کہ اس تھوڑے سے عرصے میں ان کی اس عمودی بلندی کی وضاحت مشکل ہے کہ آپ معرفت کے اس رتبے اور اس داخلی گہرائی تک کس طرح پہنچے؟ اس لئے اگر نبی کریم ﷺ اپنے دشمنوں سے بھی بردباری اور حکمت کا برتاؤ نہ کرتے تو اس طرح کی کوئی بات ہوسکتی تھی؟

سچی بات یہ ہے کہ نبی کریمﷺ اگر اس مشکل وقت میں صحابہ کرام کو انگلی کا ایک معمولی اشارہ بھی فرما دیتے تو وہ ابتدائی زمانے کے بہادر اور جرأت مند مسلمان اٹھ کھڑے ہوتے اور اپنے خون کے آخری قطرے تک بغیر کسی سستی،کمزوری اور بزدلی کے مشرکین سے لڑتےلیکن انہوں نے طرح طرح کی اذیتیں سہنے اور ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑے جانے کے باوجود کوئی انفرادی، فوری اور جذباتی کام نہیں کیا جس سے ان پر کیا گیا اعتماد متزلزل ہو اور کبھی بھی وحشیانہ اور خوفناک کام نہیں کئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی رحمت کا رستہ تمام لوگوں کی ابدی سعادت کے لئے دلوں کو فتح اور عقلوں کو قائل کرنا ہے اور اس بات کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے حکمت، نرمی اور رحمت کا برتاؤ کیا جائے۔

جی ہاں ، ہم بارہاکہتے ہیں کہ ان وحشیانہ کاموں کا کتاب و سنت اور فخر انسانیت ﷺ کے طریقے، آپ کی منصوبہ بندی، آپ کے طرز فکر اور آپ کی رہنمائی کے طریقے سے کوئی تعلق نہیں۔

بضر کے بیج بونے والے کو محبت نہیں مل سکتی

اس بات کے شواہد عصر اول میں کس قدر زیادہ ہیں ۔ جس وقت بیت المقدس فتح ہوا حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں تھے تو آپ اور آپ کا غلام شہر کی چابیاں وصول کرنے تشریف لائے تو اپنے ہمراہ پھٹے کپڑوں کو سینے کے لئے سوئی دھاگا اور بیت ا لمال سے ایک سواری بھی لے لی جس پر دونوں باری باری سوار ہوتے تھے۔ آپ نے دو سواریاں لینا گوارا نہیں فرمایا۔ چنانچہ بیت المقدس کے قریب پہنچے تو غلام کی باری آگئی تو اس نے قسم دے کر کہا کہ آپ سوار ہوں لیکن آپ نے انکار کردیا۔ اس کے بعد عیسائی مذہبی رہنماؤں نے شہر کے باہر آپ کا استقبال کیا، آپ کا احترام کیا اور مہمان نوازی کی اور کہنے لگے:’’ آپ ہی وہ شخص ہیں جن کے اوصاف ہم نے اپنی کتابوں میں پڑھے ہیں جو بیت المقدس کو فتح کرے گا کہ وہ خود اس شہر میں پیدل اور اس کا غلام سواری پر داخل ہوگا اور اس کے کپڑوں پر سترہ پیوند لگے ہوں گے ‘‘۔ بعد ازاں بیت المقدس کے بڑے راہب صفر و نیوس نے شہر کی چابیاں آپ کے حوالے کردیں اورجب نماز کا وقت ہوا تو آپ نے راہب کی جانب دیکھا اور پوچھا کہ میں نماز کہاں پڑھوں ؟ تو وہ بولا: ’’اپنی جگہ پڑھ لیں‘‘ تو حضرت عمر فرمانے لگے کہ ’’ عمر کلیسہ قیامت میں نماز نہیں پڑھ سکتاکہ کل کو میرے بعد مسلمان آکر یہ نہ کہیں کہ یہاں عمر نے نماز پڑھی تھی اور اس جگہ مسجد بنا لیں ‘‘۔ چنانچہ آپ وہاں سے ایک پتھر پھینکنے جتنی مسافت دور ہوگئے اور اپنی عبا زمین پر بچھا کر نماز ادا فرمائی۔ ذرا حضرت عمر کی اس بصیرت ، باریک بینی ،نرمی اور دیگر ادیان کی عبادتگاہوں کی تعظیم کو دیکھئے اور پھر ان گندے حملوں کے مناظر بھی دیکھ لیجئے جو اسلام کے نام پر ہورہے ہیں حالانکہ اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور پھر ان میں موازنہ کریں !

ایک اور منظر بھی ہمارے موضوع پر روشنی ڈالتا ہے کہ جب فتنوں نے سر اٹھایا اور پھیل گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بالکل اسی طرح انتہا تک پہنچ گئے جس طرح آج ہورہا ہے اور آپ کی مخالفت میں خوارج نے (نہروان میں ) خروج کیا اور حضرت علی سے کہا گیا کہ : ’’ خوارج نے نرجوان میں لشکر اکٹھے کئے ہیں ۔ آپ صبح سویرے حملہ کرکے اس سے پہلے سب کو کاٹ کر رکھ دیں کہ وہ آپ پر حملہ آور ہوں‘‘۔ اس پر اس عظیم رہنما، حیدر کرار اور اس امام الاولیاء کا جواب جس نے قلعہ خیبر کا دروازہ اپنے ہاتھوں سے اکھاڑ پھینکا تھا اور جو تلوار کوبے نیام کرتے تھے تو کئی کئی سروں کو ایک ساتھ قلم کردیتے تھے، ان کے شایان شان تھا۔ آپ نے فرمایا ’’ تم ان سے لڑ ائی کی پہل نہ کرو یہاں تک کہ وہ تم سے لڑیں ۔ تمہیں کیا معلوم کہ وہ حملہ کرنے والے ہیں؟‘‘خدا کے لئے غور کیجئے کہ آ پ کی فہم میں کس قدر احتیاط ہے ! میں خیبر کے قلعے کا دروازے کو اکھاڑنے یا عمرو بن عبدود کو ایک ہی وار سے قلے کرنے کو حضرت علی کی سب سے بڑی بہادری نہیں سمجھتا بلکہ آپ کی سب سے بڑی بہادری اپنے نفس پر اس وقت قابو پانا ہے جب آدمی کے دل میں انانیت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ ببانگ دہل ’’ انا انا‘‘ کی صدائیں بلند کرتا ہے اور دوسری بہادری اپنے ارادے کا حق ادا کرنا ہے۔ جی ہاں ،میں بنیادی بہادری، شجاعت اورجرأت اس نظرئے پر قائم رہنے میں سمجھتا ہوں کہ ’’ کس کو معلوم کہ وہ حملہ کرنے والے ہیں ؟‘‘ اور وہ بھی ایسے خطرناک وقت ۔ اسی سے امام ا عظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر باغی کسی جگہ اکٹھے ہوجائیں تو ان سے اس وقت تک لڑائی نہیں کی جائے گی جب تک وہ لڑائی میں پہل نہ کریں ۔

جی ہاں ، ضروری بات یہ ہے کہ ضرر کو کم سے کم نقصان اور ایک مضبوط، مربوط اور قابل عمل منصوبے کے ذریعے دور کیا جائے۔ آ پ فتح مکہ پر غور فرمائیں تو نظر آئے گا کہ رسول اکرم ﷺ نے خون نہ بہانے کے تمام اقدامات کئے تاکہ دشمنی اور بغض میں اضافہ نہ ہو اور مشکل مسائل بھی نرمی اورآسانی سے حل ہوجائیں ۔ جی ہاں ، فخر انسانیت ﷺ مکہ میں داخل ہوئے جبکہ وہاں کے اکثر باشندے مشرک تھے مگر اکادکا معمولی واقعات کے علاوہ کہیں بھی خون نہیں بہایا گیا بلکہ جب آ پﷺ وہاں داخل ہوئے تو اہل مکہ سے سوال فرمایا : ’’ تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟ ‘‘ تو بچپن سے جاننے والے مشرکین نے جواب دیا: ’’آپ مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے بیٹے ہیں‘‘ تو آپ علیہ السلام نے جواب دیا: ’’ آج تمہاری کوئی پکڑ نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویہ: 74/5) آپ علیہ السلام کے دہن مبارک سے نکلنے والے ان کلمات نے اتنا اچھا اثر چھوڑا کہ گویا وہ جبریل کی سانسوں کی خوشبو ہے اور مشرکین مکہ کو معلوم ہوگیا کہ وہ کس قدر سرکشی میں حیران و سرگرداں تھے۔ چنانچہ صبح سویرے آپ ﷺ کے پاس آ کر یوں اکٹھے ہوگئے جس طرح چاند کے گرد ہالہ ہوتا ہے۔ جی ہاں ، برسوں دشمنی کرنے والے باغیوں کی طبیعت اور اخلاق میں نرمی آگئی اور جب نرمی اور حسن سلوک نے ان کو اسلام کی خوبصورت فضا کی جانب کھینچا تو وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔

جی ہاں ، آپ جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ اس لئے جو شخص اچھا پھل چننا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ ہمیشہ اپنے ارد گرد بھلائی اور اچھائی کے بیج بوئے۔