دین کے نام پر کئے جانے والے جرائم کا وبال۔2

دین کے نام پر کئے جانے والے جرائم کا وبال

جب سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا تو اسلامی دنیا بھی شکست و ریخت کے ایک سلسلے سے دوچار ہوئی جس کے بعد ایسی کوششیں شروع ہوئیں جن کا مقصد مسلمانوں کی دوبارہ شیرزاہ بندی، اپنی ذات کی جانب واپسی اوردوبارہ اپنی روح کو حاصل کرنا تھا۔ ان کوششوں میں سے وہی کوششیں آپ کے لئے کافی ہیں جو ترکی میں ہوئیں جبکہ اسلامی دنیا کے دیگر ممالک میں ہونے والی کوششوں کا تذکرہ نہیں کرتے۔اگر آپ ان پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ گزشتہ چار یا پانچ دہائیوںمیں بہت سی چیزیں بدل گئیں اور کوئی شے اپنی پرانی حالت پر برقرار نہ رہی چنانچہ عالم اسلامی میں وقوع پذیر ہونے والی ان تبدیلیوں اور تغیرات کی وجہ سے دنیا کی قوت کے مراکز میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ چنانچہ ان مراکز نے بعض ایسے لوگوں کو بھڑکانے کی کوشش کی جن میں جوش و جذبہ تو بہت تھا مگر اسلام کے بنیادی عناصر اور اس کے قواعد و ضوابط کا کوئی علم نہ تھا اور ان کو اپنے مکروہ عزائم کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔

فریب خوردہ عوام اور عظمت کا جنون

نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج اسلامی دنیا کے باشندوں میں تو ازن اور سمجھداری کے ساتھ سوچ اور بنیادی مصادر کا علم عام بات نہیں رہی ۔ اسی وجہ سے جو لوگ عظمت کے جنون کے جذبات کے ذریعے اپنی مصلحتوں کے مطابق ایک عام سوچ پیدا کرنا چاہتے تھے، انہوں نے ہماری ان کمزوریوں کو پہچان لیا جن کی بنیادجہالت اور غربت ہے اور اپنے منظرنامے تیار کئے ۔ اس کے بعد ان منظر ناموں کے مناسب لوگوں کوچنا اور پھر ان کو کبھی دھوکے اور کبھی دواؤں کے ذریعے دور رہ کر استعمال کیا۔

جی ہاں انہوں نے جہالت کی شکار نسلوں کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو دھوکا دیا جبکہ اس صورت حال سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے اندرونی دفاعی نظام کو مضبوط کریں کیونکہ جب یہ نظام طاقتور ہوگا تو عمارت میں داخل ہونے والے ہر جراثیم کو روکا جاسکتا ہے لیکن آپ کے دفاعی نظام کی کمزوری نے دوسروں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ جراثیمی ٹیکے لگا کر بنیادی عمارت کو کمزور کریں جبکہ اس وقت تم ان کو روک سکتے ہو اور نہ ان کا مقابلہ کرسکتے ہو۔

اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ مسلمان نبی کریم ﷺ کی اتباع کریں اور اس دنیا میں مزید عقلمندی اور حکمت سے کام کریں جو سمٹتے سمٹتے ایک چھوٹے سے گاؤں کی شکل اختیار کرگئی ہے ا ور کوئی بھی قدم اٹھانے سے قبل اس کے بارے میں سوچیں اور کوئی بھی لفظ منہ سے نکالنے سے قبل یہ سوچیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا اور اس اثر کے بارے میں غور کریں جو مخاطبین پر مرتب ہوگا… ان پر لازم ہے کوئی بھی لفظ کہنے سے قبل پوری باریک بینی سے ہزار مرتبہ اس کے نقصان اور فائدے کے بارے میں سوچیں اور اندازہ لگائیں اور یہ بات ان لوگوں کے لئے اور بھی ضروری ہے جو کسی تنظیم یا لوگوں کے کسی گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ وہ اس کا زیادہ خیال رکھیں اور زیادہ باریک بینی کا اہتمام کریں کیونکہ ان میں سے کسی ایک شخص کی غلطی کی سزا اس تنظیم کے تمام لوگوں کو دی جائے گی جس سے وہ منسوب ہے۔ مثلاً اگر ایک عام آدمی آکر یہ کہے کہ:’’ فلاں لوگوں نے ہماری مساجد کو نقصان پہچاکیا ہے چلو ان پر حملہ کریں‘‘۔تو اس کی جانب کوئی بھی متوجہ نہیں ہوگا لیکن یہی بات اگر کوئی ایسا شخص کہے جس کی بات سنی جاتی ہے تو لوگ اس کی بات مان لیں گے اور ایسی تخریب کاری ہوگی جس کی اصلاح کرنا مشکل ہوجائے گا۔

جی ہاں، جرأت و بہادری کے ساتھ علم و حکمت اور فراست و بصیرت بھی ہونی چاہئے ورنہ آدمی پاگل پن کا شکار ہوجائے گا اور اس وقت کئے جانے والے فیصلوں کی اصلاح نہایت مشکل ہوگی۔ اس لئے اپنے اوپر آنے والی ہر مصیبت کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا غلط ہے۔

اسلام کے دشمن نہیں چاہتے کہ لوگ اسلام کے جمال کامشاہدہ کریں اور اپنی زندگیوں کو اس سے سجائیں۔ اس لئے وہ اسلام کے آغاز سے ہی اس طرح کی سازشیں اور حیلے بناتے رہتے ہیں۔ چنانچہ خلفائے راشدین اور ان کے بعد ان کے طریقے پر چلنے والے ہر سمجھدار حاکم نے ان سازشوں کا دوازہ بند کیا لیکن گزشتہ دو یا تین دہائیوں سے سازشی عناصر ایک خاص رنگ کے لوگوں کو استعمال کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں چنانچہ (افسوس کی بات ہے) انہوں نے اسلام کے روشن چہرے کو داغدار کردیا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اسلام نے کسی بھی زمانے میں ایسی وحشیانہ کارروائیاں نہیں دیکھیں جن کا ارتکاب دین کے نام پر آج ہو رہا ہے۔ جی ہاں، تاریخ میں فرقہ موحدین اور قرامطہ نے ایسی کارروائیاں کیں مگر ان خود کش حملوں کی کوئی مثال نہیں ملتی جو عورتوں، بچوں اور بوڑھوں میں کوئی فرق کئے بغیر قتل عام کا سبب بنتی ہیں۔

مومن کی جنگ اور اس کا مناسب طریقہ

یہاں پر میں ایک واقعہ ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ ایک بار میرے پاس ایک مہمان آیا اور مجھ سے مغرب میں اسلام فوبیا کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے کہنے لگا کہ مغرب مسلمانوں کو وحشی جانور سمجھتا ہے اور اخبارات اور مغربی ذرائع ابلاغ میں ہونے والے اسلام مخالف پروپیگنڈے کا تذکرہ کرنے لگا، تو میں نے کہا کہ ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو جذبات کے پیچھے چلتے ہیں اور جب اسلام پر ظلم کیا جاتا ہے تو وہ ایسا جواب دیتے ہیں جو اسلام کے لئے قابل قبول نہیں ہوتا۔ اس لئے اپنے آپ کو بالکل پاک قرار دینا غلط ہوگا۔ اس جواب نے ہمارے مہمان کو حیران کردیا کیونکہ اس کو اس کی توقع نہ تھی۔ جی ہاں، ہم پر لازم ہے کہ جب ہم کسی ظلم کا جواب دیں تو اس کا طریقہ ایسا ہونا چاہئے جو ہم مسلمانوں کے شایان شان ہو، ورنہ (چند لوگوں کی غلطیوں سے) سارے مسلمان مشکل میں پڑ جاتے ہیں کیونکہ ان سے قوت کے بعض غلط مراکز کو مسلمانوں کی کردار کشی کے لئے ایک ہتھیار مل جاتا ہے،جبکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم دین کے اصولوں کی اچھی طرح پیروی کرکے ان حملوں کا جواب دیں اور اچھی طرح جان لیں کہ ہمارا برتاؤ اورہمارا اسلوب ہماری عزت اور عصمت ہے۔

وحشیانہ کارروائیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں

کیا آپ نے کبھی سنا کہ سختی، طاقت کا ظالمانہ استعمال ، شدت اور زبردستی نے دین کو کسی آدمی کے لئے محبوب بنایا ہو یا اسے دین کے قریب کیا ہو؟ آپ جانتے ہیں کہ دین کی تعریف یہ ہے’’ ایک ایسا خدائی نظام جو عقل والوں کواچھائی اختیار کرنے کی وجہ سے بذات خود بھلائی تک پہنچاتا ہے‘‘۔ چنانچہ اس تعریف میں موجود آزادی، جمہوریت کی تمام قسموں کی آزادی سے بڑھ کر ہے کیونکہ انسان کا ارادہ اس کا رکن ہے جواسے اس کے آزاد ارادے کے حوالے کرتا ہے اور چونکہ انسان اسلام میں محترم ہے اس لئے وہ فطری طور پر اچھائی کی قدر کرتا ہے اور اسے پسند کرتا ہے ۔ اس لئے اگر مسلمان اسلام کی حقیقی نمائندگی کریں اور اپنی زندگیوں کواس کے ان محاسن سے سجا لیں جو انسانیت کے مستقبل کی ضمانت دیتے ہیں تو لازمی طورپر لوگ اس رستے کو اختیار کرلیتے۔

جی ہاں اگر آپ اسلام کے محاسن کو ظاہر کریں، دین کو لوگوں کے لئے پسندیدہ بنائیں اور ان کے دلوں میں دین کا شوق پیدا کریں تو وہ محض اپنے ارادے سے اختیار کرلیتے جبکہ اس پر کسی کو اعتراض کا حق حاصل نہیں کیونکہ ہر انسان اپنے پسندیدہ دین کو اختیار کرنے میں آزاد ہے اوراس کا بنیادی رکن دین کو اچھے طریقے سے پیش کرنا ہے جبکہ یہ بات فخر انسانیت ﷺ کے ہاں آپ کی دلکش تبلیغ سے کم نہیں ہے کیونکہ آپ ﷺ کی جانب سے دین پر عمل، تبلیغ کے نقش قدم پر تھا کیونکہ آپ ﷺ نے جس بات کی تبلیغ کی اس کو پورا پورا کرکے بھی دکھایا اوراس طرح آپ دلوں میں اتر گئے۔

ہم نبی کریم ﷺ کی امت بھی پہلے ایسے ہی تھے یہاں تک کہ فاسد لوگوں نے چند صدیوں سے ہماری جنیا ت کو خراب کردیا چنانچہ(افسوس کہ ) ہمارے درمیان ایسے لوگ پیدا ہوگئے جنہوں نے دین کے نام پر بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کیا ۔ اس لئے وحشی کارروائیاں کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔میں کتنی بارکہہ چکا ہوں اوربار بار کہہ رہا ہوں کہ مسلمان دہشت گرد اور دہشت گردمسلمان نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اگر مسلمانوں میں کوئی دہشت گرد ظاہر ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی اسلامی صفات سے عاری ہوگیا ہے۔ اس لئے اسے صحیح مسلمان کہنا قطعاً ناممکن ہے ۔ اسے مسلمان کیسے کہا جاسکتا ہے جبکہ جنگ کے بھی اسلام میں اپنے مخصوص ضوابط ہیں۔ ذرا غور فرمائیے کہ نبی کریم ﷺ لشکر کو الوداع کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ :’’ کسی نہایت بوڑھے شخص کو قتل نہ کرنا اورنہ کسی بچے یا چھوٹے کو اورنہ ہی کسی عورت اور عبادت خانوں والوںکو‘‘۔[1]چنانچہ کتاب و سنت کے اصولوں اور آج دین کے نام پر کئے جانے والے جرائم کو یکجا کرنا ناممکن ہے۔

اس بحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دین پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے ہم پر لازم ہے کہ ہم تمام لوگوں کا احترام کریں اور ہر سوچ اور رائے کو احترام کی نگاہ سے دیکھیں کیونکہ طاقت کے بل پر اپنی رائے کو دوسروں پر تھوپنا اسلام کی اصل کے خلاف ہے۔ اسی طرح لوگوں پر توپوں اور بندوقوں سے ظلم اور سختی، شدت اور ظالمانہ طاقت کا استعمال اور کسی تجارتی مرکز پر قبضہ کرکے عام لوگوں کو یرغمال بنانا اور اپنی خواہش کے تقاضے کے مطابق جنگ کا اعلان کرنے کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں کیونکہ ہم فرزندان اسلام برابر سرابر جواب دینے کو ظالمانہ کام سمجھتے ہیں اور مطلقاً مروت کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ مومن کے بارے میں اصل بات یہ ہے کہ اس طرح کے تصرفات کے لئے گڑھے میں گرا ہےاورنہ کرے گا۔

اے اللہ ہمارے دلوں کو اپنی حکمت سے زندہ فرما اور ہمیں ہر اس شے سے محفوظ فرما جو تیری مراد کے مخالف ہو اور ہم سب کو رسول اکرم ﷺ کے رستے پر چلا اور ہمیں آپ ﷺ کے رستے پر چلنے والوں کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور یہ کام ہمارے لئے آسان فرما۔

[1] البہقیے ، معرفۃ السنن والآثار:365/14