استغناء: دعوت و ارشاد کا کام کرنے والوں کا سب سے بڑا اثاثہ

فتح اللہ گولن: استغناء: دعوت و ارشاد کا کام کرنے والوں کا سب سے بڑا اثاثہ

سوال: دلوں کی رہنمائی اور ان کو حق اور حقیقت سے روشناس کرنے کی ذمہ داری کے بنیاد ی اصول کیا ہیں؟

جواب: انسان کو چاہیے کہ وہ معبود مطلق یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ’’عبودیت مطلقہ‘‘ کے درجے تک لے جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی اس بندگی میں کوئی اور شے خلل نہ ڈال سکے کیونکہ ہم اس کے آگے بندگی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا معاملہ اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ یہ بات ہم پر چھائی کمزوری ، فقر اور عجز سے بالکل ظاہرہے کہ ہم کسی شے کو پکڑنا چاہتے ہیں مگر وہ ہمارے ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے اوراس مطلوب تک پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم اپنی جانوں کے مالک نہیں بلکہ ہمارے اوپر کسی اور کا مکمل قبضہ اور قابو ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر وقت انسان کے لیے اس احساس کو برقرار رکھنا مشکل ہے کیونکہ جب ریڈیو کو کسی خاص فریکوینسی پر سیٹ کیا جاتا ہے مگر جب اس فریکوینسی میں خلل آجاتا ہے تو اس میں ادھر ادھر سے دوسری فریکوینسیاں شامل ہوجاتی ہیں اور اسے خراب کردیتی ہیں۔ پس جب انسان کسی بات میں اپنی ذاتی رائے کو زبردستی شامل کرتا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی کے ذریعے مختلف پیمانوں کو درست کرکے درست آواز کو تلاش کرنے کی کوشش کرے۔ جی ہاں ، اسے اس وقت تک اپنے خیالات اورافکار کو ظاہر نہیں کرنا چاہیے جب تک وہ عارفانہ ضمیر کے پیمانے پر ان کا وزن نہ کرلے۔ اس لیے اگر (غلطیوں سے بچنے کے لیے پوری کوشش اور سعی کے باوجود) اس میں ہماری غلطیاں شامل ہوجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ ہماری کمزوری سے درگزر فرمائےگا، ورنہ غیر سنجیدہ اور غلط کام عبودیت کے احساس کے ساتھ کبھی یکجا نہیں ہوسکتے۔

ایک کے بعد دوسرا ہتھوڑا

آپ ذرا سوچیں کہ اگر آپ نے نماز میں سجدہ کیا اور اسے ذرا لمبا کردیا اور چند منٹ تک اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانے لگے تو ایسے میں شیطان آ کر اس عمل کو پسند کرنے اور بڑا سمجھنے کی سرگوشی کرنے لگتا ہے کہ :’’ تم اللہ تعالیٰ کی کتنی اچھی عبادت کررہے ہو!‘‘ اس سرگوشی کے لیے وہ نفس کو استعمال کرتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کا نفس اس طرح کی بات کرے تو فوراً اس کے مقابلہ کریں اور یہ کہیں: ’’اے معبود ہم تیری عبادت کا حق ادا نہیں کرسکے ۔ اے مذکور ہم تیرے ذکر کا حق ادا نہیں کرسکے۔ اے مشکور ہم تیرے شکر کا حق ادا نہیں کرسکے۔ اے وہ ذات جس کی تسبیح ساتوں آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی مخلوق کرتی ہے، ہم تیری تسبیح کا حق ادا نہیں کرسکے۔‘‘ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے مخالف تمام افکار اور خیالات کے سر پر مسلسل ہتھوڑے برساتے چلے جائیں اور اس کے بازو کو اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کردیں کہ اس میں کچھ بھی باقی نہ رہے۔ اگر آپ شیطان کے ایسے وسوسوں پر سب سے بھاری ہتھوڑا بھی برسائیں جن کو شیطان دل میں ڈالتا ہے اور نفس امارہ ان کو سجا سجا کر پیش کرتا ہے ، تو بھی آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جذبات دوبارہ غیر متوقع انداز میں پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی سات روحیں ہیں۔ یہاں تک کہ نفس اور شیطان انسان کے ذہن میں تسلسل کے ساتھ جذبات پیدا کرتے رہتے ہیں اگرچہ وہ کعبہ کا طواف ہی کیوں نہ کررہا ہو یا میدان عرفات میں دعاؤں میں مشغول ہو یا مزدلفہ میں رات گزار رہا ہو بلکہ اس وقت بھی جب وہ منیٰ میں جب شیطان کو اس طرح کنکریاں مار رہا ہو کہ گویا وہ اپنی خواہشات اور جذبات کا سر کچل رہا ہے تو بھی نفس اور شیطان اس کو بہکانے اور گرانے میں لگے رہتے ہیں۔

اس وجہ سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا: ﴿فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ﴾ (ہود:112)(سو (اے پیغمبر) جیسا کہ تم کو حکم ہوتا ہے اس پر قائم رہو) جبکہ ہم ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ (الفاتحہ:6)(ہم کو سیدہے رستے چلا)کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور استقامت کی دعا کرتے ہیں۔ پس اگر ہم فرض اور سنت نمازیں پڑھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ دن میں چالیس مرتبہ اس درخواست کو دہراتے ہیں اور اگر ہم اوابین، تہجد اور اشراق جیسی نفل نمازیں بھی پڑھتے ہیں تو پھر ستر بار اللہ تعالیٰ سے عا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں سیدھی راہ دکھائے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ ہماری دستگیری فرما کر ہمیں اپنی جانب ہدایت نصیب نہ فرمائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نفس امارہ کی گلیوں اور چوکھٹ سے اٹک جائیں گے جس کے نتیجے میں اتنے ٹریفک حادثات ہوں گے کہ ان سے پیدا ہونے والے نقصانات اور تباہیوں کو درست کرنا نہایت مشکل ہوگا۔

جو شخص اپنی خدمات کا اجر مانگے اللہ تعالیٰ اس کو توفیق نہیں دیتا

ہم جب ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں تو رات کو اس کے حضور کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ ہم پر لازم ہے کہ ہم ’’اس ‘‘ کو اپنی سانسوں میں شامل کریں۔ اس طرح حق سبحانہ و تعالیٰ سے ہمارا تعلق برقرار رہتا ہے خواہ ہم انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق کسی بھی حالت میں کیوں نہ ہوں۔ مثال کے طور پر نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’ مَنْ أَتَى فِرَاشَهُ، وَهُوَ يَنْوِي أَنْ يَقُومَ فَيُصَلِّيَ مِنَ اللَّيْلِ، فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ حَتَّى يُصْبِحَ، كُتِبَ لَهُ مَا نَوَى، وَكَانَ نَوْمُهُ صَدَقَةً عَلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ“ (اگر کوئی آدمی انپے بستر پر آئے اور نیت کرے کہ وہ رات کو اٹھ کر نماز پڑھے گا، پھر اس پر نیند غالب آگئی اور صبح ہوگئی، تو اس کے لیے اس کی نیت کے مطابق اجر لکھا جائے گا اور اس کی نیند اس کے رب کی جانب سے اس کے لیے صدقہ ہوگی۔) (1)یہ ایک ایسا تحفہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی وسیع رحمت کی برکت سے ہمیں عطا فرماتا ہے۔ جی ہاں، اس کی رحمت وسیع ہے۔ اس لیے اس نے ہم پر وہ اعمال لازم نہیں کہ جو ہمارے بس سے باہر ہوں بلکہ ہمیں ان چیزوں کا مکلف بنایا ہے جو ہم کرسکتے ہیں کیونکہ دین نے بس سے باہر کوئی شے لازم نہیں کی جیسے کہ یہ آیت شریفہ بتا رہی ہے: ﴿لاَ يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ:286)(اللہ تعالی کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا)اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں اس اللہ کی خوشنودی کے سوا کوئی چیز نہیں مانگنی چاہیے جو ہم پر اپنی وسیع رحمت اور کرم کی بارش چھم چھم برساتا ہے کیونکہ اس کی خوشنودی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ کی رویت مبارکہ کے بعد جنت والوں کے لیے اس کی جانب سے اس سے بڑا تحفہ اس کی خوشنودی ہے﴿وَرِضْوَانٌ مِنَ اللهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ (التوبہ:72)(اور اللہ کی رضامندی تو سب سے بڑھ کر (نعمت) ہے۔ یہی بڑی کامیابی ہے) اور جنت والوں کے لیے سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ فرما دے کہ: ’’أُحِلُّ عَلَيْكُمْ رِضْوَانِي، فَلاَ أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا“ (میں تم پر اپنی خوشنودی اتاروں گا اور کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا۔) (2) اس دنیا میں رہتے ہوئے ہمارے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد گرامی سے مومن کے دل میں کتنی خوشی پیدا ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی ، ابوالحسن شاذلی، محمد بہاء الدین نقشبندی ، مولانا خالد بغدادی، حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت بدیع الزمان جیسے اولیاء اللہ نے اس دنیا کے حالات کے مطابق اس کی لذت کو محسوس کیا ہو۔ میں اس طرح کی کوئی بات بیان کرنے یا اس کی تصویر کشی سے عاجز ہوں کیونکہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ جنت کی نعمتوں کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ“ (میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کیا ہے کہ جس کو کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا خیال آسکا۔) (3) اس مخصوص اور محدود پس منظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسئلہ انسان کے ادراک اور علم سے باہر ہے۔

اس رخ سے دیکھا جائے تو دنیا اور آخرت میں اس سے بڑھ کر قیمتی کوئی چیز نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو تلاش کیا جائے اور دوسروں کو اس کی تلاش پر کھڑا کیا جائے۔ اس لیے انبیائے کرام نے اپنی اعلیٰ زندگیوں کو اللہ تعالیٰ کاتعارف کرانے، لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدا کرنے اور دوسروں کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے کے بنیادی اصولوں کے لیے وقف کردیں۔ انہوں نے کسی سے کوئی اجرت مانگی اور نہ اس کا انتظار کیا کیونکہ یہ بات اخلاص کو نقصان پہنچاتی ہے اور عمل کو ضائع کردیتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات ثابت نہیں ہے کہ اپنی خدمات کی قیمت یا اجرت مانگنے والوں کو توفیق ملی ہو اور اگر ان کو کوئی کامیابی ملی تو وہ بھی عارضی تھی جس کو باد مخالف اس طرح اڑا کر لے گئی جس طرح تیز ہوائیں خشک گھاس کو اڑاتی ہیں۔

تمام انبیائے کرام نے ایک حقیقت کو بیان کیا

سورۃ الشعراء میں اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے حضرت نوح، ہود، صالح، لوط اور شعیب علیہم السلام جیسے جلیل القدر انبیائے کرا م کا تذکرہ فرمایا ہے اور ساتھ یہ بیان فرمایا ہے کہ ان سب میں مشترک بات یہ تھی کہ: ﴿وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ (الشعراء:180,164,145, 127, 109) ( اور میں تم سے اس کا بدلہ نہیں مانگتا، میرا بدلہ رب العالمین کے ذمے ہے۔) کیونکہ ان کو جس چیز پر مامور کیا گیا تھا وہ انہوں نے صرف اللہ کی خاطر کی ۔ ہمیشہ اللہ کی جانب رخ کیا اور وہی ان کا مطلوب رہا اور اپنی خدمات کے بدلے کبھی ایک ذرہ بھر اجر کی بھی خواہش نہیں رکھی۔

زمانے، حالات اور مختلف زمانوں میں مختلف اسباب کی وجہ سے مختلف تشریحات اور تجزیوں کے سامنے آنے کے باوجود بھی مذکورہ بالا تمام انبیائے کرام علیہم السلام ایک ہی موقف پر ڈٹے رہے اور اس بارے میں ایک ہی جملے کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ چنانچہ حضرت ہود نے وہی فرمایا جو حضرت صالح کہہ چکے تھے اور ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت لوط وہی کچھ فرما رہے ہیں جو قبل ازیں حضرت نوح کہہ چکے ہیں، علیہم السلام۔ جی ہاں، ان سب کی بات ایک ہے حالانکہ جن معاشروں میں ان کی بعثت ہوئی ان میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی مخصوص مشکلات ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مشکلات کتنی بھی مختلف اور الگ الگ کیوں نہ ہوں، اخلاص اور استغناء ہی ان کا واحد حل ہے۔

مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے اپنے بڑے لوگوں کو معبود بنا لیا اور ان کے مختلف نام رکھ دئے جیسے ، ’’ود‘‘ ، ’’سواع‘‘، ‘‘یغوث‘‘، ’’یعوق‘‘ اور’’نسر۔‘‘ یہ لوگ مردوں کو خدا مانتے تھے، اور ان سے مدد مانگتے تھے اور ان سے وہ طلب کرتے تھے جو وہ اپنے لیے بھی نہیں کرسکتے تھے: ﴿وَقَالُوا لاَ تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلاَ تَذَرُنَّ وَدًّا وَلاَ سُوَاعًا وَلاَ يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا * وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا وَلاَ تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلاَّ ضَلاَلاً﴾ (نوح:24-23) (اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو کبھی نہ چھوڑنا۔اور اے پروردگار انھوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے اور تو ان ظالموں کو اور گمراہ کر دے۔) یہ خطرہ کسی بھی زمانے میں پیدا ہوسکتا ہے۔

اس کے مقابلے میں قوم عاد کو اپنے بڑے بڑے اجسام اور اپنی عظمت پر فخر تھا۔ چنانچہ وہ غرور و تکبر کی مصیبت کے نیچے پس گئے اور کہا: ﴿وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً﴾ (حم السجدۃ:15)(ہم سے بڑھ کر قوت میں کون ہے) وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے کی امید کے ساتھ پختہ اور مضبوط محل تعمیر کرتے تھے کہ گویا ان کو موت نہیں آئے گی اور ان کو زمین یا آسمان سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور اگر تباہی کے سارے اسباب بھی ان کے خلاف اکٹھے ہو جائیں تو بھی ان کی عمارتوں کو نہ گرا سکیں گے۔ یوں ان کی مشکل حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی مشکل سے مختلف تھی۔ چناچنہ حضرت ہود علیہم السلام نے اپنی قوم کو ان کی غلطی سمجھائی اوران کی دھمکیوں سے بے پروا ہو کر اس غلطی کے خطرات سے آگاہ فرمایا اورساتھ ہی اس پیغام کے مقابلے میں کسی اجرت سے استغناء کا اظہار فرمایا جیےئ کہ خود قرآن کریم کہتا ہے: ﴿كَذَّبَتْ عَادٌ الْمُرْسَلِينَ * إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ هُودٌ أَلاَ تَتَّقُونَ * إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ * فَاتَّقُوا اللهَ وَأَطِيعُونِ * وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ * أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ * وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ * وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ * فَاتَّقُوا اللهَ وَأَطِيعُونِ * وَاتَّقُوا الَّذِي أَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُونَ * أَمَدَّكُمْ بِأَنْعَامٍ وَبَنِينَ* وَجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ * إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ * قَالُوا سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَوَعَظْتَ أَمْ لَمْ تَكُنْ مِنَ الْوَاعِظِينَ﴾ (الشعراء:136-123)(قوم عاد نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا۔ جب ان کے بھائی ہود نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟ میں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں۔ تو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔ اور میں تم سے اس کا کوئی بدلہ نہیں مانگتا، میرا بدلہ رب العالمین کے ذمے ہے۔ بھلا تم ہر اونچی جگہ پر فضول نشان تعمیر کرتے ہو۔ اور محل بناتے ہو کہ شاید تم ہمیشہ رہو گے۔ اور جب کسی کو پکڑتے ہو تو جابرانہ پکڑتے ہو۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اور اس سے ڈرو جس نے تم کو ان چیزوں سے مدد دی جن کو تم جانتے ہو۔ اور اس نے تمہیں مویشیوں اور بیٹوں سے مدد دی۔ اور باغوں اور چشموں سے۔ مجھ کو تمہارے بارے میں بڑے سخت دن کے عذاب کا خوف ہے۔ وہ کہنے لگے تم خواہ ہمیں نصیحت کرو یا نہ کرو ہمارے لئے یکساں ہے۔)

اسی طرح جب ہم حضرت صالح علیہ السلام کے زمانے کو دیکھتے ہیں تو اس زمانے کے لوگوں کی مشکل مختلف تھی کیونکہ وہ دنیا کی زیب و زینت اور باغات اور باغیچوں کی زندگی میں منہمک تھے۔ وہ بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے پختہ اور اعلیٰ عمارتوں میں رہتے تھے جبکہ حضرت صالح علیہ السلام نے ان تمام مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے فریضہ تبلیغ ادا فرمایا اور کسی بھی چیز کی مطلقاً کوئی خواہش نہیں رکھی۔ ان لوگوں کو توحید کی دعوت دی اور اسراف اور فساد سے خبردار کیا۔ ارشاد خداوندی ہے: ﴿كَذَّبَتْ ثَمُودُ الْمُرْسَلِينَ * إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ صَالِحٌ أَلاَ تَتَّقُونَ * إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ * فَاتَّقُوا اللهَ وَأَطِيعُونِ * وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ * أَتُتْرَكُونَ فِي مَا هَاهُنَا آمِنِينَ * فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ * وَزُرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِيمٌ * وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا فَارِهِينَ * فَاتَّقُوا اللهَ وَأَطِيعُونِ * وَلاَ تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ﴾ (الشعراء:151-141)(قوم ثمود نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا۔ جب ان کے بھائی صالح نے کہا کہ تم ڈرتے کیوں نہیں؟ میں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں۔ تو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔ اور میں تم سے اس کا کوئی بدلہ نہیں مانگتا، میرا بدلہ رب العالمین کے ذمے ہے۔ کیا جو چیزیں تمہیں یہاں میسر ہیں ان میں تم یوں ہی بےخوف چھوڑ دئے جاؤ گے؟ یعنی باغ اور چشمے۔ اور کھتیاں اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں۔ اور پہاڑوں میں تراش تراش کر پر تکلف گھر بناتے ہو۔تو اللہ سے ڈرو اور میرے کہے پر چلو۔ اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی بات نہ مانو۔ )

ایسے ہی حضرت لوط علیہ السلام حضرت صالح علیہ السلام کے بعد تشریف لائے اور آپ کے زمانے میں لوگ ایسے غلط کاموں میں پڑ گئے جو انسانیت کے خلاف تھے۔ چنانچہ ان کا معاشرہ بگڑ گیا، نشے میں آیا اور فسق و فجور میں مبتلا ہوگیا۔ لیکن آپ علیہ السلام نے دیگر ابنیائے کرام کی طرح شہر سے نکالے جانے اور ہر شے چھین لینے کی دھمکیوں کی پروا کیے بغیر اپنی قوم کو توحید، اچھے اخلاق اور اعمال درست کرنے کی د عوت دی اور اس دعوت کے مقابلے میں کسی بھی قسم کی کسی اجرت کا مطالبہ نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ﴿كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ الْمُرْسَلِين * إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ لُوطٌ أَلاَ تَتَّقُونَ * إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ * فَاتَّقُوا اللهَ وَأَطِيعُونِ * وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ * أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ * وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ * قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يَا لُوطُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِينَ * قَالَ إِنِّي لِعَمَلِكُمْ مِنَ الْقَالِينَ * رَبِّ نَجِّنِي وَأَهْلِي مِمَّا يَعْمَلُونَ * فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ *إِلاَّ عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ * ثُمَّ دَمَّرْنَا الآخَرِينَ * وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ * إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ * وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾ (الشعراء: 175-160)(قوم لوط نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا۔ جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کہ تم کیوں نہیں ڈرتے۔ میں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں۔ تو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔ اور میں تم سے اس ( کام) کا بدلہ نہیں مانگتا میرا بدلہ رب العالمین کے ذمے ہے۔ کیا تم اہل عالم میں سے لڑکوں پر مائل ہوتے ہو اور تمہارے پروردگار نے جو تمہارے لئے بیویاں پیدا کی ہین ان کو چھوڑ دیتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے لوگ ہو۔ وہ کہنے لگے کہ لوط اگر تم باز نہ آؤ گے تو شہر بدر کر دئے جاؤ گے۔ (لوط نے ) کہا کہ میں تمہارے کام سے سخت بیزار ہوں۔ اے میرے پروردگار مجھ کو اور میرے گھر والوں کو ان کاموں سے نجات دے۔ سو ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو سب کو نجات دی، مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی۔ پھر ہم نے اوروں کو ہلاک کر دیا۔ اور ان پر مینہ برسایا ۔ سو جو مینہ ان (لوگوں) پر برسا جو ڈرائے گئے تھے وہ برا تھا۔ بیشک اس میں نشانی ہے اور ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے۔ اور تمہارا پروردگار تو غالب (اور) مہربان ہے۔)

دوسری جانب حضرت شعیب علیہ السلام کی بعثت کے زمانے میں بازاروں اور دوکانوں میں ناپ تول کے پیمانے خراب ہو چکے تھے ۔ ترازو اور تلنے والی چیزمیں کوئی فرق نہ تھا اور تجارتی زندگی ا ختلافات سے بھری تھی اور سارا مال و دولت طاقت اور دبدبے والے لوگوں کے ذاتی مفادات کے لیے استعمال ہوتی تھی، چنانچہ حضرت شعیب علیہ السلام نے ان کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا: ﴿أَلاَ تَتَّقُونَ * إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ * فَاتَّقُوا اللهَ وَأَطِيعُونِ * وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ * أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ * وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ* وَلاَ تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلاَ تَعْثَوْا فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ * وَاتَّقُوا الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الأَوَّلِينَ﴾ (الشعراء :184-177) (تم ڈرتے کیوں نہیں۔ میں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں۔ تو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔ اور میں تم سے اس ( کام) کا بدلہ نہیں مانگتا میرا بدلہ رب العالمین کے ذمے ہے۔ (دیکھو) پیمانہ پورا بھرا کرو اور نقصان نہ کیا کرو۔ اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور ملک میں فساد نہ کرتے پھرو۔اور اس سے ڈرو جس نے تم کو اور پہلی خلقت کو پیدا کیا۔)

اس کے بعد اللہ تعالیٰ فخر انسانیت ﷺ کو اس بات کا حکم فرماتے ہیں جو سابقہ انبیائے کرام نے کہی تھی: ﴿قُلْ لاَ أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا﴾ (الانعام:90 ) (کہہ دو کہ میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا) ﴿قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ﴾ (الفرقان:57، ص:86)(کہہ دو کہ میں تم سے اس (کام) کی اجرت نہیں مانگتا) یہ اللہ کی جانب سے حکم ہے کہ آپ علیہ السلام اپنی اس قوم سے کوئی چیز اور اجرت نہ مانگیں جس نے مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک آپ کو ہر طرح کی تکالیف اور اذیتوں سے دو چار کیا اورآپ علیہ السلام کو ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تاکہ آپ علیہ ا لسلام کو مکہ کے فراق کی تکلیف بھی اٹھانی پڑے۔ جی ہاں، آپ علیہ السلام نے کوئی چیز مانگی اورنہ اپنے مخاطبین سے کسی شے کے ملنے کی خواہش رکھی حالانکہ یہ بات ان کے لیے سعادت دارین کا باعث تھی۔ اس لیے آپ علیہ السلام چٹائی پر آرام فرماتے تھے اور کئی کئی دن تک بھوک برداشت کرتے تھے مگر آپ علیہ السلام کا رویہ اور موقف کبھی بھی تبدیل نہیں ہوا۔

قیمت کا فقدان اور رستے کی دشواری

حقیقت واقعہ یہ ہے کہ استغناء (دوسروں سے بے نیازی) مخاطب کو قائل کرنے اور اعتماد کو بڑھانے کا واحد وسلہی ہے کیونکہ جو شخص اپنی خدمات کے مقابلے میں کسی شے کی خواہش رکھتا ہے اسے کسی فائدے یا نفع کا لالچ ہوتا ہے، وہ لوگوں کے اپنی جانب التفات اور شہرت کے ساتھ برا کرتا ہے اور اپنے مخاطبین کی نظر میں اپنا اعتبار کھو دیتا ہے اور اپنی ساکھ مجروح کرتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کو ئی کام کریں تو نبی کریمﷺ کے طریقے سے نہ ہٹیں کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ تمہارے کاموں کو دیکھنے والا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ: ’’جب ان لوگوں نے کام شروع کیا تھا تو ان کے پاس سو روپے تھے اور جب وہ جارہے تھے تو ہم نے دیکھا کہ ان کے پاس نوے روپے باقی ہیں یعنی وہ اپنے مال کو بھی نہ بچا سکے اور اس رستے میں خرچ کر ڈالا۔‘‘ بے شک استغناء اور لالچ سے کام نہ لینے کے اصول جس طرح گاؤں کے نمبردار سے لے کر ملک کے وزیراعظم تک تمام سرکاری ملازمین کے لیے ضروری ہیں ، اسی طرح یہ بات ان لوگوں سے بھی مطلوب ہے جنہوں نے اپنے آپ کو حق اور حقیقت کے پرچار کے لیے وقف کردیا ہے کیونکہ استغناء اور قربانی ان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

انسانیت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والے لوگ اس وقت باقی رہنے والی نشانی چھوڑ سکتے ہیں جب وہ انبیائے کرام علیہم السلام کے رستے پر چلیں گے ورنہ جو لوگ آغاز میں حضرت ہارون علیہ السلام کے نقش قد پر چلتے ہوئے اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں اور بعد میں ان میں سے ہر ایک قارون کا روپ دھار لیتا ہے، ان کو زمین میں دھنسایا جائے گا ، وہ خود اور ان کے خزانے زمین میں دھنس جائیں گے۔ ان پر بھی قارون کی طرح لعنت ہوگی۔ میرے دل میں لعنت اورکسی کے لیے بدعا کی ذرا سی بھی گنجائش ہوتی تو میں اپنے ذاتی مفاد کو سوچنے اور تجارتی ٹھیکے اپنے اور اپنے حاشیہ برداروں کے لیے خاص کرنے والوں اور ان سے حصہ لے لے کر ان کو قریب کرنے اور ان کو دوسروں پر ترجیح دینے والوں کے لیے کہتا کہ: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں، تمہارے اہل و عیال اور لالچوں کو دھنسا دے اور تمہیں نیست و نابود کردے۔‘‘ لیکن چونکہ میرے دل میں دوسروں کے لیے بد دعا کرنے کی کوئی جگہ نہیں اس لیے میں نے ان کی ہدایت کے لیے دعا کی ، گڑگڑایا اور علامہ اقبال کے الفاظ میں یہ کہا : ’’ان کے لیے بد دعا اور لعنت پر میں آمین نہ کہہ سکا۔‘‘

اس رخ سے قرآن اور ایمان کی خاطر اپنے آپ کو وقف کرنے والوں اور اس مبارک ماحول میں زندگی گزارنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خدمات کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہ کریں۔ ان کو چاہیے کہ وہ ایسا ٹھیکہ نہ لیں جس کے وہ مستحق نہیں اور کسی مفاد کے پیچھے نہ بھاگیں۔ اس کام کے لیے معاشرے میں اپنی شہرت اورساکھ کو استعمال نہ کریں۔ ان کے لیے لازم ہے کہ ’’قربانی‘‘ اور ’’استغناء‘‘ (جو ان کی سب سے بڑی خاصیت ہے) کو دنیا کی معمولی اور فضول چیزوں کے لیے استعمال نہ کریں کیونکہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو مال کمانے کے لیے تگ و دو کررہے ہیں اور ان کی کوشش شریعت کے دائرے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تجارتی زندگی میں برکت عطا فرمائی ہے اور مزید برکت عطا فرمائے گا۔ وہ اپنے مال و دولت کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کررہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو وقف کرنے والے لوگوں میں سے ہر شخص ’’سیدھا رستہ دکھانے والا مرشد و رہنما ہے۔‘‘ اور اس کی سب سے بڑی دولت استغناء اور للہیت ہے۔ اس لیے اگر یہ لوگ بھی اس کام کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کے پیچھے بھاگیں گے تو گویا انہوں نے کثیر کو قلیل سے بدل دیا۔ جیسے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جب فخر انسانیت ﷺ کاوصال ہوا تو آپ علیہ السلام نے کوئی درہم و دینار چھوڑے اور نہ غلام اور لونڈیاں، جبکہ آپ علیہ السلام کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کہ بدلے میں رہن تھی۔(4) اس بارے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپ علیہ السلام سے مختلف نہ تھے۔ آپ نے خلیفہ ہونے کے بعد ملنے والی تنخواہ سے بچ جانے والی رقم کو ایک گھڑے میں جمع فرمایا اور جب موت کا وقت قریب آیا تو فرمایا: ’’امارت کو قبول کرنے کے بعد میرے پاس آنے والے زائد مال کو دیکھو اور اسے میرے بعد آنے والے خلیفہ کے پاس بھیج دو۔‘‘(5)ایسے ہی حضرت فاروق اعظم بھی زاہد تھے اور مسجد نبوی میں کنکریوں اور ریت پر سوجایا کرتے تھے۔

بدعنوانی اور چوری کرنے والوں کا انجام

ابھی ہم نے جن حضرات کا ذکر کیا۔ یہ وہ عظیم لوگ ہیں جو قابل اتباع ہیں کیونکہ ان کا رستہ اور طریقہ ہی سب سے درست ہے جبکہ اس کے علاوہ دیگر رستے ’’گمراہی اور سراب‘‘ ہیں۔ اس لئے جو شخص ان کے طریقے سے ہٹے گا وہ جانے بغیر مختلف قسم کی بدعنونیوں کا شکار ہوجائے گا۔ بدعنوانی کے یہ رخ (اگرچہ شروع میں اس کی خوشی کا باعث ہوں گے مگر) آخر کار ان پر افسوس کرنے پر مجبور کردیں گے کہ:’’کاش میں مٹی ہوتا اور نیست و نابود ہوجاتا۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس عالی ہمت جماعت کے افراد کو دنیا کا ضرورت سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے اور نہ اس کے حق سے زیادہ دینا چاہیے کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ: ’’لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ“ (اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کافر کو اس سے پانی کا گھونٹ بھی نہ دیتا۔) (6) اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت میں آیا ہے کہ :’’اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ دنیا کی مثال ایک ایسے مردار کی ہے جس کو کتے کھینچ رہے ہیں۔ کیا تم یہ پسند کرو گے کہ تم بھی کتے بن کر ان کے ہمراہ اس کو کھینچو؟‘‘(7)

کاش ہم اپنے لئے ضروری رخوں کے علاوہ اس دھوکہ باز دنیا کو بھول سکتے کیونکہ جن لوگوں نے اس کو فراموش نہ کیا انہوں نے اپنی ذات ، امت اور تاریخ پر ظلم کیا۔ تاریخ سے ایک عبرت حاصل کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ ’’توپ کاپے‘‘ محل نے امت کو عالمی قیادت تک پہنچایا کیونکہ یہ مقام خارج میں ہماری روحانی دنیا کا عکس تھا کیونکہ یہاں وہ فکر مجسم نظر آتی تھی جس کو ’’محمد فاتح‘‘ ، ’’بایزید ثانی‘‘،’’ یاووز سلیم‘‘ اور ’’سلیمان قانونی‘‘ نے اختیار کیا۔ ان لوگوں نے اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے دور دراز کے سفر کئے اوردنیا میں توازن پیدا کرنے کے لیے جو کچھ کیا جاسکتا تھا وہ کرڈالا۔ انہو ں نے ظالموں کی حکومتوں کو مٹا کر مظلوموں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کیا اور جب واپس اپنے ملک آتے تو ’’توپ کاپے‘‘ کے سادہ اور معمولی محل میں اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کرتے تھے جبکہ ’’دولمہ باغیچہ‘‘ اور’’ یلدز‘‘ کے اعلیٰ محلات نے اپنی تمام چکا چوند کے باوجود ہمارے ستاروں کی روشنی بجھا دی ۔ ان محلات نے اگرچہ دنیا کو ہمارے سامنے جنت بنا کر دکھادیا مگر اللہ تعالیٰ اور حقیقی جنت کو بھلا دیا۔

[1] سنن النسائي، قيام الليل، 63؛ سنن ابن ماجه، إقامة الصلاة، 177.
[2] صحيح البخاري، الرقاق، 51؛ صحيح مسلم، الإيمان، 302.
[3] صحيح البخاري، التوحيد، 35؛ صحيح مسلم، الجنة، 4-5.
[4] مسند الإمام أحمد: 473/4.
[5] ابن سعد: الطبقات الكبرى، 143/3.
[6] سنن الترمذي، الزهد، 13؛ سنن ابن ماجه، الزهد، 3.
[7] الديلمي: الفردوس بمأثورِ الخِطابِ، 142/1.