خدمات کے بارے میں بات کرنے کا منطقی اور موضوعی ا سلوب

خدمات کے بارے میں بات کرنے کا منطقی اور موضوعی ا سلوب

سوال: آپ اکثر اس بات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں کہ جو خدمات انجام دی جاتی ہیں، ان کے بارے میں بات انفعال اور جذبات کی بجائے منطقی اور موضوعی انداز سے کی جائے۔ اس کی کچھ وضاحت فرمائیں گے؟

جواب: سب سے پہلے تو یہ بتانا ضروری ہے کہ انسان کو اپنے ا وپر کی جانے والی تنقید کا سامنا اوراس کو قبول کرنا چاہیے اورجب خدمات کے بارے میں بات کرے تو فخر اور غرور سے دور بھاگےکیونکہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ انسان اپنے جن اعمال اور افعال کو صائب اور صحیح سمجھتا ہو، ان کے اندر بھی غلطیوں اور مغالطوں کا ایک مجموعہ ہو۔ اس لیے (مثال کے طور پر ) ہم پر لازم ہے کہ اس بات سے کبھی غافل نہ ہوں کہ اس نماز میں بھی کوئی بہت بڑی کوتاہی ہوسکتی ہے جو ایک شخص فقہ کی کتابوں میں مذکور فرائض اور شرائط کے مطابق ادا کرتا ہے اور یہی بات زکاۃ، روزہ اور حج میں بھی ہوسکتی ہے کیونکہ ان میں سے ہر حکم کے اپنے خاص اصول ہیں اور ایک مسلمان کے لیے ان تمام عبادات کو بغیر کسی کمی کوتاہی کے ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ اس مسئلے میں مشکلات اس وقت مزید واضح ہوجاتی ہیں جب انسان کے فطری رخ کا بھی خیال رکھا جائے ۔ مثلاً اس نے جو ا عمال کئے ہیں وہ اس کی فطرت اور طبیعت کا حصہ ہوں، وہ ان کو اخلاص اور امانتداری سے ادا کرے اور دکھلاوے اور شہرت سے دور رکھے۔

انسان خطا اور غلطی میں پڑ سکتا ہے۔

اگر اس قدر کمی کوتاہی کا احتمال اس عبادت میں بھی رہتا ہے جو ہم ہمیشہ ادا کرتے ہیں، تو پھر انسانیت کے لیے انجام دی جانے والی خدمات سے متعلق مختلف انواع و اقسام کے کاموں میں بھی غلطی ہونے کے بغیرکوئی چارہ نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اور سنت صحیحہ نے حق کی خدمت کے لیے انجام دئے جانے والوں کاموں کے لیے بنیادی قواعد و ضوابط سے آگاہ فرمایا ہے جبکہ یہ ایسے مستقل امور ہیں جن پر زمان و مکان کی تبدیلی کا کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن (ان مستقل قواعد و ضوابط کے ساتھ ساتھ) کچھ ایسے رخ بھی ہیں جن کا زمان و مکان کی تبدیلی کے دوران خیال رکھنا ضروری ہے لیکن یہ بات بڑی مشکل ہے کہ انسان کو اس نقطہ پر ہمیشہ صحیح انتخاب کی توفیق ملے۔ اس کے باوجود، جو تجاویز پیش کی جائیں ان کو ایک طرف ان بنیادی قواعد سے جڑا ہونا چاہیے اور دوسری طرف ان کو زندگی میں ایسی شکل میں نافذ کیا جانا چاہیے جو زمان و مکان اور حالات سے مطابقت رکھتی ہے۔ چونکہ ہر وقت غلطی کا احتمال باقی رہتا ہے (خصوصاً اس قدر پیچیدہ مشکل کام میں) اس لیے شروع سے ہی اس بات کو تسلیم کرلینا حق کا اعتراف ہوگا۔

اگر معاملہ اس کے برعکس ہو، کہ آدمی اپنے تمام اعمال اور افعال کو درست اور صحیح سمجھتا ہو، تنقید سے تنگ ہوتا ہو اور ہمیشہ احترام اور عزت کی توقع رکھتا ہو، بلکہ جو کام اس نے نہیں کیے ان پر تعریف کے لیے بھی احسانمند ہوتا ہو، حالانکہ یہ سب باتیں منافق کی صفات ہیں کیونکہ حق تعالیٰ شانہ سورۃ آل عمران میں منافقوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا﴾ (آل عمران:188) (اور وہ کام جو کرتے نہیں ، ان کے لئے چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے) اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ کبھی یہ بات نہ بھولے کہ وہ ایک ایسی مخلوق ہے جس سے غلطی اور کوتاہی ہوسکتی ہے۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے عیوب اور کوتاہیوں کا شروع سے ہی ادراک کرے اور جب دوسرے لوگ ان کی طرف توجہ مبذول کرائیں تو اس سے تنگ نہ ہو بلکہ معاملہ اس سے الٹ ہونا چاہیے کہ جب دوسرے اس کو اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے خلاصی اور نجات کا رستہ بتائیں تو اس پر ان کا احسانمند اور خوش ہو۔

تنقید کو قبول کرنے اور اس سے تنگ نہ ہونے کے بارے میں اس مختصر گفتگو کے بعد، ہم خدمات کے بارے میں موضوعی اور منطقی انداز میں بات کرنے کے اصولوں کو درج ذیل انداز سے گن سکتے ہیں:

بنیادی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے خدمت کی کوشش

خدمات کے بارے میں مخاطبین کو بتانا اور وضاحت کرنا ضروری ہے کہ ان خدمات کو ان اصولوں اور اعلیٰ انسانی اقدار کے مطابق مکمل کرنا ضروری ہے جو دین نے مقرر کردیے ہیں کیونکہ ایسے کاموں اور معاملات کا باقی رہنا ناممکن ہے جو قرآن و سنت کی نصوص کے مخالف اور عارضی افکار کے مطابق چلائے جاتے ہوں۔ جی ہاں، جو لوگ ہمیشہ قواعد کلیہ سے نہیں جڑ ے رہتے وہ یقیناًٹیڑھے رستوں پر حیران پریشان چلتے رہتے ہیں اور جس طرح ان کے موجودہ کام ان سے پہلے لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں، اسی طرح بعد میں بھی وہ ایسے افعال اور تصرفات میں ملوث ہوسکتے ہیں جو ان گزشتہ دنوں سے مختلف ہوں۔ اس لیے انسان کے افکار و احساسات اور اس کے دماغ کے تمام عصبی خلیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بنیادی اصولوں اور عالمی اخلاقی قدروں سے جڑے ہوئے ہوں تاکہ ان کے تصرفات اور برتاؤ درست ہو۔

حقیقت واقعہ یہ ہے کہ ہمارے (یعنی عالمی دین اسلام کی طرف منسوب لوگوں) کے اصول ایسے ہیں کہ وہ سب کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں۔ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم اس درست رستے کو متعین کریں جس کی روشنی میں ہم اپنی اصل پہچان اور شخصیت کو برقرار رکھ سکیں۔ یہ کام کرلینے کے بعد ہمیں چاہیے کہ ہم بیان کریں اور اپنے مخاطبین کے سامنے ثابت کریں کہ ہم تنقید اور محاسبے کے لیے تیار ہیں اور یوں کہیں کہ :’’ جس طرح ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ عطا (دوسروں کو دینا ) ایک ذمہ داری اور فرض ہے، اسی طرح ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جو کچھ آپ دیں گے یا خرچ کریں گے وہ بھی بہت اہم بات ہے جس سے کمال تک پہنچنے میں مددملے گی۔ اس لیے اگر آپ ہمارے اندرکوئی نقص یا عیب دیکھیں تو براہ کرم ہمیں اس سے آگاہ فرمائیں تاکہ ہم اس پرمناقشہ کریں اوراس کوحل کریں۔‘‘

اگر آپ بنیادی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کے سامنے کھلیں گے تو ان شاء اللہ مرکز سے آپ کا تعلق کبھی نہیں ٹوٹے گا اگرچہ زمان و مکان اوراشخاص بدل بھی جائیں۔ بقول مولانا جلال الدین رومی: ’’اگر آپ کا ایک پاؤں بہت ساری قوموں کے درمیان اور دوسرا مرکز میں ہو ، اور تم دوسروں کے سامنے اپنےکھلنے کا امتحان ، مرکز والے پاؤں کے مطابق لو گے، تو تم اپنی استقامت پر قائم رہو گے۔‘‘

کسی بھی فردیا جماعت کا خدمات کا اپنی جانب منسوب کرنا ناممکن ہے۔

دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ: جو خدمات انجام دی گئی ہوں، ان میں سے دوسروں کے حقوق کو نہ بھولنا اوراس کو اس نظر سے نہ دیکھنا کہ وہ کسی ایک خاص شعبے کا کام ہے کیونکہ پرانے زمانے سے لے کر آج تک ہمارے اور اسلامی معاشرے میں مختلف گروہ اور تحریکیں رہی ہیں۔ انہوں نے ایسی اہم خدمات انجام دی ہیں جو آپ کے لیے مشعل راہ ہیں اور آپ کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور تمہارے لیے ایسا مناسب ماحول تیار کرتی ہیں جس میں تم آسانی کے ساتھ حرکت کرسکتے ہو۔ انہوں نے اس معاملے کو ایک خاص نقطے تک پہنچا دیا اور گویا وہ یوں تم سے مخاطب ہیں کہ’’ تم بھی کام کو جاری رکھو۔‘‘ آپ اس طرح بھی سوچ سکتے ہیں: یہ معاملہ پھل چننے کے وقت کا ہے جب تم اپنے خصوصی وسائل کے ساتھ میدان میں اترے ہو جبکہ دیگر لوگ میدان تیارکرچکے ہیں، بعض نے بیج بوئے،درخت بننے کے لیے کچھ اور ضروری خدمات انجام دیں اوراللہ کے حکم سے یہ بیج بعد میں پھول نکالیں گے جبکہ آپ کو خدمت کاموقع پھل آنے کے موسم میں ملا ہے۔ اس لیے اس بات کو صرف اپنی کوشش اور سعی کانتیجہ سمجھنا اور دوسروں کے حق کو بالکل نظر انداز کردینا کھلی طوطا چشمی ہے۔

جی ہاں، قربانی اور ایثار کے جذبات اناطولیہ کے انسان کی فطرت اور روح میں پوشیدہ ہیں اوربہت سے لوگ اب تک اس جوہر نفیس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آگیا جب معاشرے کے مختلف طبقات میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے جو ان نفیس جواہر کو ظاہر کرنے اور دنیا کے گوشے گوشے کے آگے کھلنے لگے۔ پس جب بھی ان تاجروں ، حرفت ہمیشہ لوگوں، مربیوں اورمعلموں نے جو اپنی طرف سے پیش کی جانے والی عمومی خدمات کے فائدہ مند ہونے پر یقین رکھتے ہیں، جب کسی جگہ کامیابی حاصل کی تو اپنے جیسے دوسرے لوگوں کو آواز دی اور اس مقام پر سرمایہ کاری کرنے اور کامیابی حاصل کرنے پر حوصلہ افزائی کی ۔ اس طرح خدمات دوگنی ہوتی اور بڑھتی چلی گئیں ۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہوا لیکن اگر ہم اس بات کو اسباب کے ساتھ جوڑیں اور اسباب کے مطابق ان کا اندازہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس طرح ان خدمات کے انجام تک پہنچنے کا احتما ل دس لاکھ میں ایک بھی نہیں تھا۔

جس طرح یہ بات درست نہیں کہ انسانیت کی خدمت کے لیے انجام دی جانے والی کامیابیوں کو کسی ایک جماعت کی جانب منسوب کیا جائے ، اسی طرح یہ بھی ناقابل قبول ہے کہ ان کو بعینہ چند لوگوں کی طرف منسوب کیا جائے کیونکہ بعض احباب کا ان خدمات میں پہل کرنا تقدیر کی تجلیوں میں سے ایک تجلی ہے۔ اس لیے کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے افراد کے نام ذکر کرنے سے بچنا چاہیے۔ اس کے بدلے ہمیں ایسی خدمات کو تحریک خدمت اورانسانیت سے اپنی محبت کے علاوہ، امت کے دل میں پوشیدہ جذبات اور سچے انفعالات اوراس کے درست ارادے اور نہ ختم ہونے والے عزم کی جانب منسوب کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہم پر لازم ہے کہ ہم اس بات کو واضح کریں کہ یہ ساری خدمات پوری امت کی سعی کا نتیجہ ہیں کیونکہ اس کوشش کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے افراد پر یہ کرم فرمایا کہ وہ ہمارے ثقافتی اقدار کو پورے عالم کے سامنے بیان کریں اور ان کی تبلیغ کریں ۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ جس وقت ہم دینی جمالیات کو دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچاتے ہیں تو ان کی جمالیات میں سے بھی کچھ حاصل کرتے ہیں اور اپنی دولت میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ خدمات اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہم پر موسلادھار بارش کی طرح برسنے والی عنایات کا شکر ادا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اگر ہم اس مسئلے کو مخاطبین کے سامنے واضح کرسکیں تو اس ظلم میں مبتلا نہیں ہوں گے جس کا ارتکاب اہل غفلت اس وقت کرتے ہیں جب وہ ان کامیابیوں کو(جو پوری امت کی جدوجہد سے حاصل ہوئی ہیں) چند رہنما شخصیات کی طرف منسوب کرتے ہیں،حالانکہ غنیمت، جنگ میں شریک سب افراد میں برابر تقسیم ہوتی ہے صرف رہنماؤں کے درمیان نہیں۔ اس لئے اگر ہم سب کچھ ان رہنماؤں کی طرف منسوب کریں تو ان کو ہلاکت میں ڈال دیں گے اور ان کی جانب وہ کام منسوب کریں گے جو ان کا نہیں بلکہ الوہیت کا خاصہ ہے کیونکہ اس وقت یہ لوگ ان خدمات کو اپنی جانب منسوب کرنے لگیں گے اور لوگوں سے عزت و احترام اور زندہ باد کے نعروں کی توقع کریں گے اور یوں اپنی آخرت کے پھلوں کو دنیا میں ہی ختم کردیں گے۔

رشک کے جذبات سے اس طرح بھاگو جس طرح سانپ اور بچھو سے

اس بارے میں زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ بعینہ کچھ اشخاص کے ناموں کے اظہار سے دوسروں کے اندر غیرت کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں کیونکہ غیرت اور حسد کے جذبات ہر انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہیں اور خصوصاً جب آ پ کچھ مفکرین، بڑے علماء اور دینی علوم کے چند ماہرین کو آگے بڑھاتے ہیں تو اس طرح ہوسکتا ہے کہ آپ غیر ارادی طورپر ان کے اندر موجود غیرت اور حسد کے جذبات پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اس طرح اپنے دوستوں کو خود اپنے ہاتھوں سے اپنا دشمن بنالیتے ہیں بلکہ بعض اہل ایمان میں اس وقت حسد کے جذبات پیدا ہوسکتے ہیں جب وہ ایسی کوشش اورجدوجہد کے بعد بھی اس قدر کامیابیاں حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ اس طرح آپ (بغیر کسی ارادے کے) اس جرم کا سبب بن جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں غیرت اور حسد کے جذبات پیدا کرنے کے بعد آپ کے لئے اس انسان سے بات کرنا بھی اس قدر آسان نہیں رہتا۔ اس لیے ہمیں خدمت کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے ، اشخاص کو نہیں تاکہ ہم اس طرح کے منفی جذبات کو پیدا کرنے سے بچ سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں لوگوں کے سامنے خدمات اوران کے پس منظر کو ذکر کرنا چاہئے تاکہ اس کے ذریعے ہم ان کے جذبات میں سکون پیدا کرسکیں۔ دوسری جانب بات کرنے میں ہمیں ایسا اسلوب اپنانا چاہیے جس سے کسی میں بھی رشک کے جذبات کو ہوا نہ ملے تاکہ ہم اپنے لیے نئے حاسد اور مد مقابل پیدا کرنے سے محفوظ رہیں۔

خدمات اور ذمہ داری کا احساس

بعض لوگوں کا یہ خیال ہوسکتا ہے کہ خدمت ایک ایسا ادارہ ہے جس میں کچھ دنیا دار لوگ یکجا ہوگئے ہیں اورکچھ خاص اہداف حاصل کرنے کے لیےاسے بنایا ہے بلکہ یہ وہم بھی ہوسکتا ہے کہ یہ سیاسی مقاصد کے لیے قائم کی گئی ایک تحریک ہے لیکن ہماری خدمات کا اصل منبع ہمارا ثقافتی ورثہ ہے اور ان کے ذریعے ہم اس ذمہ داری کو ا دا کررہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے کاندھوں پر ڈالی ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ حذمات انسانیت کی خاطر ہم پر لازم ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی ایک کوشش ہے بلکہ اگرہم گہری نظر سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ خدمات کوئی ایسا کام نہیں جس سے انسان کو کوئی ا ضافی صفت مل سکے بلکہ یہ عبودیت کی بنیادی ذمہ داری کی ادائیگی اور رب العالمین کی ہم پر پہلے سے ہونے والی نعمتوں پر اس کا شکر اور حمد و ثنا ہے۔ چنانچہ جب لوگوں نے دین کی جانب سے عائد کردہ ذمہ اریوں کے پس منظر میں یہ خدمات انجام دیں اور عقل و منطق پر استوار اسلوب اختیار کیا تو یہ دوگنی چوگنی ہوگئیں اور اللہ کے حکم سے اس طرح بڑھتی اور مزید دوگنی ہوتی رہیں گی۔

اس خدمت کو ہم حق اور حقیقت کی تبلیغ میں مسابقت کی سوچ کی طرف منسوب کرسکتے ہیں کیونکہ یہ بھلائیوں کے بارے میں مقابلے اور مسابقت کے ضمن میں داخل ہیں جس کے بارے میں قرآن کریم کا صریح ارشاد ہے: ﴿فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ﴾ (البقرۃ:148) (تم نیکیوں کے کاموں میں سبقت حاصل کرو) اس لیے جو آدمی خدمت کے میدان میں سابقین اولین کو دیکھتا یا سنتا ہے وہ بھی ان سے پیچھے نہ رہنے کے لیے اپنے ذمے لگائی گئی خدمات کو پورا کرتا ہے۔

نیت کی سچائی اور اعمال کی عقل سے مطابقت

بعض لوگ ان خدمات سے تنگ ہوسکتے ہیں اوران کے دلوں میں ان کے بارے میں قلق پیدا ہوسکتا ہے۔اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر اس شے کی وضاحت کریں جس سے لوگوں کے ہاں کوئی شبہہ پیدا ہوسکتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی نیت کی سچائی اور اپنے کاموں کی عقل سے مطابقت کو ظاہر کریں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو خدمات انجام دی جارہی ہیں، وہ اس امت کی کوشش اور ہمت کی وجہ سے اس پر اللہ تعالیٰ کی عنایت کے سوا کچھ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خدمت والوں پر مزید فضل اور احسان فرمایا ہے کیونکہ انہوں نے امت کے افراد کے درمیان ا تفاق اوریگانگت پیدا کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں ورنہ بہت سے منصوبے ایسے ہیں کہ جو بہت سے لوگوں کے آپس میں ربط و تعلق کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے۔

کچھ لوگوں کو اب تک انجام پانے والی خدمات کی سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے یہ وہم بھی ہوسکتا ہے کہ اس تحریک کا کوئی خفیہ ایجنڈا ہے۔ اس لیے ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم ان کے سامنے درج ذیل بات بیان کریں کہ: ’’ہم اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا کے سوا کسی بھی چیز کی لالچ حرام سمجھتے ہیں اور ہم پوری انسانیت کو انسانی اقدار کے ذریعے گلے لگانے کو دنیا کی ساری جمالیات پرترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے اگر قیامت میں اللہ تعالیٰ ہم سے یہ فرمادے کہ ’’ تم نے ان لوگوں کی جانب دست تعاون بڑھایا اور حقیقت کوپہچاننے میں ان کی مدد کی، اس لیے آج میں دنیا میں تمہارے اس عمل کی جزا دوں گا‘‘، تو یہ بات ہمارے لیے دنیا و مافیاا سے بڑھ کر ہے۔ علاوہ ازیں دوسرے اغراض سے تعلق اس تاجر کی مانند ہے جو صرافہ بازار میں سونے کا کاروبار کرتا تھا اور اس کے بعد پیتل کی تجارت کے لیے پیتل فروشوں کے بازار کا رخ کرلیا۔

اس طرح ہمارے افکار کوان احساسات سے پر ہونا چاہیے، ہم غلط تصرفات اور برے الفاظ سے تنگ ہوں اور نہ مایوس ، بلکہ صبراور سکون کے ساتھ ان اوہام اورشکوک کو دور کرنے کی کوشش کریں جو ہمارے بارے میں بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوسکتے ہیں۔