دنیوی لذتوں میں مخمور اور پیچھے رہ جانے والے لوگ

دنیوی لذتوں میں مخمور اور پیچھے رہ جانے والے لوگ

سوال: انسانیت کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والے لوگوں کو درج ذیل آیت مبارکہ سے کیا سبق ملتا ہے:¬ ﴿فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ﴾ [التوبہ: 81] (جو لوگ (غزوہ تبوک میں ) پیچھے رہ گئے تھے، وہ اللہ کے پیغمبر کی مرضی کے بر خلاف بیٹھ رہنے سے خوش ہوئے اور اس بات کو ناپسند کیا کہ اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کریں اور دوسروں سے بھی کہنے لگے کہ گرمی میں مت نکلنا۔ ان سے کہہ دو کہ دوزخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے۔ کاش یہ اس بات کو سمجھتے)؟

جواب: اس آیت مبارکہ کے سیاق و سباق پر روشی ڈالنے والی کتب تفسیر کے مطابق یہ آیت کریمہ جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں منافقین کے معاندانہ رویے پر تنقید کرتی ہے۔ اس آیت مبارکہ میں راہِ خدا میں سستی کامظاہرہ کرنے والے اور سہولت پسندانہ زندگی کے خوگر اہل ایمان کے لیے بھی بڑی اہم وعید اور سبق ہے۔ یہی وجہ ہےکہ حضرت عائشہؓ ،حضرت ابوذرؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ جیسی بہت سی عظیم ہستیوں نے منافقین کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کو کسی نہ کسی پہلو سے اپنی ذات سے متعلق خیال کیا ہے اور اپنے بعض معاملات کے بارے میں ایسی آیات سے رہنمائی حاصل کی ہے، تاہم اس بارے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے ، کیونکہ عقیدہ کے لحاظ سے اہل ایمان کا اپنے آپ کو منافق سمجھنا درست نہیں، کیونکہ حقیقی مفہوم میں نفاق کفر ہے اور یہ بات کسی بھی مسلمان کے لیے قابل قبول نہیں ، چنانچہ بدیع الزمان سعید نورسی ’’لمعات ‘‘ میں لکھتے ہیں: "مومن کو ہمیشہ یوں کہنا چاہیے: 'کفر اور گمراہی کے سوا میں ہر حالت میں حق تعالیٰ کا شکراور تعریف کرتا ہوں۔'"[1]  اس سے پتا چلتا ہے کہ کفر کو قبول کرنے سے انسان کافر بن جاتا ہے، لہٰذا ہر مسلمان سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ نفاق اور کفر سے ایسے ہی دور رہے گا جیسے کسی زہریلی چیز سے دور رہا جاتا ہے۔

آدم کی اولاد کسی بھی طرف جاسکتی ہے

تاہم انسان فطری طور پر کمزور واقع ہوا ہے۔ شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کے پتلے (نہ کہ ان کی ماہیت) میں خواہشاتِ نفس کی پیروی، شہرت پسندی، حبِ جاہ، آرام طلبی، گھر کی اسیری، خدا کے سوا دوسری مخلوقات کے خوف اور وسائل و اختیارات کے غلط استعمال جیسی کمزوری کو محسوس کرلیا تھا، چنانچہ اس نے خدا کے حضور عرض کی تھی: ﴿فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16) ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ﴾ [الاعراف: 17-16] (مجھے تو تو نے گمراہ کیا ہے میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان کو گمراہ کرنے کے لیے بیٹھوں گا پھران کے آگے سے اور پیچھے سے ،دائیں سے اور بائیں سے غرض ہر طرف سے آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزارنہیں پائے گا۔) انسانوں کی فطرت میں موجود یہ پوشیدہ کمزوریاں شیطان کواپنی کارروائیاں کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں ۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی مسلمان گمراہی، منافقت اور کفر کا نشانہ بن سکتا ہے۔ ہم اس حقیقت کو درج ذیل الفاظ سےبھی تعبیرکرسکتے ہیں: کوئی شخص حالت ایمان میں بھی گمراہی، نفاق اورکفر سے تعلق رکھنے والے بعض اوصاف سے متصف ہوسکتا ہے،لیکن جس طرح کسی شخص کو گمراہ سمجھنا درست نہیں اسی طرح اسےمنافق یا کافر کہنا بھی یقیناًغلط ہے۔ انسانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ مسلسل اپنے باطن کا جائزہ لیتے رہیں اور دیکھیں کہ کہیں ان میں قابل نفرت صفات تو نہیں پائی جاتیں اوراگروہ کسی ایسے وصف کواپنے اندرمحسوس کریں تو جلد از جلد اس سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کریں۔

اپنے باطنی نقصان پر خوش ہونے والے بدقسمت لوگ

اب ہم اصل سوال کی طرف واپس آتے ہیں۔ مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں اس بات کا ذکر ہے کہ منافقین گھروں میں بیٹھے رہنے پر خوش تھے۔ شاید وہ دل میں اپنے آپ کو بڑا  ہوشیار سمجھ رہے تھے اور اپنے آپ سےکہہ رہے تھے: ’’انہیں دیکھو! وہ روم کی عظیم طاقت سے ٹکرلینےجا رہے ہیں۔ وہ نہ صرف تپتے صحراء  میں گرمی سےجھلس جائیں گے، بلکہ ایک عظیم طاقت سے شکست کھا کردوڑتے ہوئےواپس آئیں گے۔‘‘ اس طرح کے جملے کس کر انہوں نے اس مہم میں شرکت کرنے والے مسلمانوں کا تمسخر اڑایا اورخوش ہوئے۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے غزوہ تبوک جولائی سے اگست کے مہینے میں پیش آیا تھا جب صحراء کی تپش 50سے 60سینٹی گریڈ (یعنی 1۲2سے140فارن ہائیٹ) تک پہنچی ہوتی ہے۔ مدینہ میں یہ پھلوں کے پکنے کا موسم تھا اور درختوں کی خوشگوار چھاؤں میں بڑی دلکشی تھی۔ لہٰذا پانی کے چشموں، چھاؤں اور پکے ہوئے پھلوں کو چھوڑ کر سخت گرمی میں جنگ کے لیے روانہ ہونا بہت مشکل تھا، نیز یہ مہم طاقت ور رومیوں کے خلاف تھی، جوپیش قدمی کرکےاردن تک آچکے تھے۔ رومیوں کے خلاف مشکل ترین حالات میں مہم کا آغاز کرکے امام الانبیاءﷺصحراء میں امن و امان قائم کرنا اور ہرشخص کے ذہن میں یہ بات بٹھانا چاہتے تھے کہ مدینے میں ایک خود مختار طاقت موجود ہے۔ اس طرح فخرانسانیتﷺتمام مشکلات کے باوجود اپنی فوج کے ہمراہ رومیوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے روانہ ہوئے اورآپﷺنے اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے خطرے کو ٹال دیا۔ ایسے مشکل حالات میں چند سو منافقین نے گھروں میں بیٹھے رہنے کوترجیح دی۔

 منافقین کے علاوہ تین مسلمان بھی نبوی حکم کی تعمیل کرنے میں ناکام ثابت ہوئے، مہم میں شریک نہ ہوسکے اور پیچھے رہ گئے۔ شاید وہ صورت حال کا صحیح اندازہ نہ لگا سکے تھےاور یہ سمجھ بیٹھےتھے کہ مہم میں ہر ایک کی شرکت ضروری نہیں ہے، تاہم حق تعالیٰ نے ان کے معاملے کو "تخلّف" کے الفاظ سے تعبیر فرمایا، یعنی جیسے وہ قریب قریب پیچھے رہ گئے ہوں۔ چونکہ پیچھے ہٹنا منافقین کا طرزِ عمل ہے، اس لیے حق تعالیٰ نے عارضی مقاطعہ کے ذریعے انہیں سزا دی، تاہم ان بہادر ہستیوں نے اس آزمائش میں خوش اسلوبی سے پورا اتر کر بالآخر حق تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرلی۔ اس آیت مبارکہ میں حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ منافقین کا طرزِ عمل رسول خداﷺکے حکم کے خلاف تھا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہےکہ نبی کریمﷺکے راستے سے دوری تباہی کا باعث بننے والی سنگین غلطی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو ہر حال میں آپﷺکے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔

منفی اثرات کی دوسروں کی طرف منتقلی

 اس آیت مبارکہ میں جن منافقین کا ذکر ہے وہ نہ صرف راہِ خدا میں مال و جان کے ذریعے جہاد کرنے سے پیچھے رہے، بلکہ انہوں نے دوسروں کو گرمی کےموسم میں جنگ کے لیے نہ جانے کا کہہ کر اوروں پر بھی منفی اثرات ڈالے۔ کچھ لوگوں کےفکری   افق میں ہمیشہ بغاوت اور اختلاف کی طرف میلان پایا جاتا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد اختلاف کے تیر چلانے اور نیک کاموں کو روکنے کی مسلسل کوشش کرتے رہتےہیں، چنانچہ ان لوگوں نے بغاوت اور مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو پھیلانے کی منصوبہ بندی کی اور سخت گرمی اور دیگر مشکلات کا تذکرہ کرکے رومیوں کے خلاف دفاعی جنگ میں شمولیت کا ارادہ رکھنے والے لوگوں کی رائے بدلنے کی کوشش کی۔ اس کے جواب میں حق تعالیٰ نے آیت مبارکہ کادرج حصہ نازل فرمایا: ﴿قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ﴾ [التوبہ: 81] (ان سے کہہ دو کہ دوزخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے۔ کاش یہ اس بات کو سمجھتے)۔ اس آیت مبارکہ میں عربی کا عام مستعمل لفظ  ’’یعلمون‘‘یا ’’یعقلون‘‘ نہیں استعمال کیا گیا، بلکہ ’’یفقهون‘‘  کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جس کا معنی ہے: ’’ گہرا غور و فکر کرنا، علت و معلول کے تعلق کی روشنی میں کسی بھی معاملے کا جائزہ لینا اور بدیہی اورنظری بنیادوں پر معاملے کو پرکھنا۔‘‘ لہٰذا اس لفظ کا انتخاب اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ اس تعبیر سے سمجھ میں آنے والا مفہوم کچھ یوں ہے: ’’اگر وہ کچھ فقہی ذوق (فقہ اسلامی جومعاملات کی گہرائی میں اترتی ہے) رکھتے تو علت اور معلول کے درمیان پائے جانے والے تعلق کوسمجھ جاتے، لیکن بدقسمتی سے وہ تمام وعیدوں کے باوجود ایسا کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ۔

اگروہ عبرت حاصل کرتے تو ان سے بار بارغلطیوں کا صدور نہ ہوتا

جب ہم ماضی کے ان واقعات کا آج کے حالات کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ جس طرح اس دور کے منافقین اس حقیقت کا ادراک نہ کرسکے اسی طرح آج بھی بہت سے لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے ۔ ماضی کی طرح آج بھی بعض لوگ کسی عظیم مقصد اور خدا کی خوشنودی کے لیے ہجرت کرنے کو غیر اہم سمجھتے ہیں اور نبی کریم ﷺکے اسوہ حسنہ اور آپ ﷺکے پیغام کی بنیادی باتوں کو دوسر وں تک پہنچانے کے بارے میں لاپرواہی برتتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جس جگہ نبی کریمﷺکا پیغام نہ پھیلا وہ قید خانے سے مختلف نہیں۔ لہٰذا اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مذکورہ بالا نقطہ نظر سے کتنے لوگ قید خانوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ انہیں پُرسکون وسعتوں کی طرف لے جانے کی خاطر ہر طرح کی مشکلات کے خلاف ڈٹ جانے کی ضرورت ہے۔ اس پہلو پرسطحی انداز سے نہیں سوچنا چاہیے۔

خلاصہ یہ ہے کہ دور حاضر میں بندوں سے خدا کا تعارف کرانے، انہیں خدا کی یاد دلانے اور خدا اور بندوں کے دلوں کے درمیان موجود رکاوٹوں کو دور کرنے کی خاطر ہر قسم کی تکلیفیں اور مشکلیں برداشت کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسروں تک اپنے دلوں کے نیک خیالات پہنچانے اور انہیں ایک ہزار سال سے زیادہ پرانے روحانی ورثے کے بارے میں بتانے کے لیے ہمیں مسلسل جدوجہد کرنی چاہیے اور اس بارے میں کسی بھی قسم کی سستی و کاہلی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔نیز ہمیں یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا میں (مشکلات کی) گرمی برداشت کرنا آخرت میں جہنم کی آگ سے نجات کاباعث ہے، نیز اس دینا میں مشکلات کا سامنا کرنااور تکلیفیں اٹھانا آخرت کی نعمتوں اور ابدی سکون کے حصول کا ذریعہ ہے۔

[1] Bediüzzaman Said Nursi, The Gleams (New Jersey: Tughra Books, 2008), 15.