علم پرعمل کرنے کی اہمیت

علم پرعمل کرنے کی اہمیت

سوال: صحابہ کرام کے حالات زندگی کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ جب قرآن کریم کی کوئی آیت مبارکہ نازل ہوتی تھی تو وہ فوراً خدائی حکم پر عمل کرنا شروع کردیتے تھے، جبکہ ہم ایسے رویے کا اظہار نہیں کرپاتے۔ ہمارے اپنے علم پر عمل نہ کرسکنے کی کیاوجوہات ہیں؟ اور ہم اس نصب العین کو کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟

جواب: اپنے علم کو عملی شکل دینے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ وہ سطحی معلومات پرمشتمل نہ ہو، بلکہ حقیقی ’’علم‘‘ ہو، یعنی وہ کسی بھی معاملے کی اصل حقیقت جاننے اور شعوری اور منظم تفکیر کے ذریعے اس کی تہ تک پہنچنے سے عبارت ہو، بصورت دیگر اگر ہمارا علم صرف سطحی معلومات پر مشتمل ہوا تو وہ کسی عملی رویے کو جنم نہیں دے گا، کیونکہ ایساعلم دلوں کو متاثر نہیں کرسکتا۔ لہذا علم کو عمل کی صورت دینے کے لیے سب سے پہلے سیکھنے کی بےپناہ اور شدید خواہش کےذریعے حقیقی علم اور ایمان میں رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی حضرت محمدﷺ کو درج ذیل حکم دیتے ہیں: ­﴿وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا﴾ [طہ:14] (اور دعا کرو کہ میرا پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے۔)نبی کریم ﷺکےپیروکار ہونے کی حیثیت سےہم سے ہر ایک کو ہمیشہ علم میں مزید رسوخ پیدا کرنے اور اس کی حقیقی جستجو کرنے والا ہونا چاہیے۔ مثال کے طورپر قرآن کریم کی تلاوت ایک دینی فریضہ ہے، لیکن اگر ہم قرآن کریم کوسمجھنے اور اس کے معانی کی گہرائی میں اترنے کی کوشش کے بغیر سارے قرآن کو زبانی بھی یاد کرلیں تب بھی ہم روشنی کے اِس لازوال سرچشمے کے خزانوں سے استفادہ کرنے میں ناکام رہیں گے۔ قرآن کریم میں ایسے ایسے معانی اورافکار ہیں جو صرف مکمل توجہ اور پُرخلوص کاوش ہی کے ذریعے اخذ کیے جاسکتے ہیں۔

علم پر شکر کی ادائیگی

معلومات کو حقیقی علم میں تبدیل کرنے کے پہلےمرحلے کے بعد کچھ اور اموربھی قابل توجہ ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ نظر ی علوم میں بڑی گہرائی حاصل کرکے نہ صرف علم الیقین بلکہ عین الیقین کا درجہ حاصل کرلیں، لیکن اگر آپ اس نظری علم کو عملی زندگی میں نہ ڈھال سکے تو آپ خدائی اسماء وصفات کے ذریعے خدائی حقیقت کو پہچاننے میں ناکام رہیں گے اور اپنے آپ کو خدا کی درگاہ پر وفاشعار بندہ ثابت نہ کرسکیں گے۔ مزید برآں اس بارے میں نبی کریمﷺ نے خوشخبری دی ہے: ’’جوشخص اپنے علم پر عمل کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے ان چیزوں کا علم عطا کرتے ہیں جواسے پہلے معلوم نہیں ہوتیں۔‘‘ [1] اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی علم کے حصول کے لیے اپنے علم پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی خاص درجے کا علم عطا کیا ہے تو آپ کو اس پر ناز کرنے کے بجائے اس نعمت کا شکر ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پراگر دوسرے لوگ بشمول سنتوں کے ایک دن میں چالیس رکعات پڑھتے ہیں تو آپ کو یوں سوچنا چاہیے: ’’چونکہ مجھ پر حق تعالیٰ کے بے شمار احسانات ہیں، اس لیے مجھے ایک دن میں اسی رکعات پڑھنی چاہئیں۔‘‘ اس طرح آپ ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کرنے والے بن جائیں گے۔

برسبیل تذکرہ میں ایک واقعہ کا ذکر کرنا چاہوں گا، جو میرے لیے بہت اہم ہے۔ ایک دفعہ میں اپنی مرحوم والدہ سے ملنے گیا تو انہوں نے مجھے بتایا:’’ میں ہر روز ’’جوشن کبیر‘‘ [2] شروع سے آخر تک پڑھتی ہوں۔ کیا تم میرے لیے اس کے علاوہ کچھ اوربھی پڑھنے کے لیے تجویز کرو گے؟‘‘ یہ مزید علم کی جستجو میں مسلسل ترقی کرنے والوں کے جذبے کا اظہار ہے۔ خدائی نعمتوں سے سرفراز شخص کو احساسِ احسان مندی کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپﷺاس قدرنماز پڑھتے تھے کہ آپﷺکے مبارک قدموں پر ورم آجاتا تھا۔ امام بو صیری نے اسی حقیقت کو اشعار میں یوں بیان فرمایاہے: ’’میں نبی کریم ﷺ کی پیروی کرنے سے عاجز آگیا، جو رات کو جاگ کر اس قدر نماز پڑھتے تھے کہ آپ ﷺ کے قدم مبارک ورم زدہ ہوگئے۔‘‘

یہ منظر دیکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: ’’اے اللہ کے رسول اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے (ممکنہ) گناہ معاف فرما دیے ہیں پھر آپ نماز پڑھتے ہوئے اپنے آپ کو اس قدر مشقت میں کیوں ڈالتے ہیں؟‘‘ فخر انسانیتﷺنے انہیں درج ذیل جواب دیا: ’’پھرکیا میں (اپنے پروردگار کی ان نعمتوں کے بدلے) شکر گزاربندہ نہ بنوں؟ ‘‘ [3] احساسِ بندگی کے بارے میں اس حدیث میں بہت ہی اہم پیغام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہر بندے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اوپر ہونے والے انعامات و احسانات کی بقدر حق تعالیٰ کا شکر اور حمد و ثنا کرے اور اس طرح اپنے علم کی گہرائی کے مطابق اپنے علم پر عمل کرے۔

عملی عقل

اس مقام پرکانٹ کی Critique of Pure Reason پر تبصرہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ کانٹ کا کہناہے کہ خدا کا علم نظری عقل کے ذریعے حاصل نہیں ہوسکتا، بلکہ خدا کے بارے میں صرف عملی عقل کے ذریعے علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اگر نظری علم کو بھرپور طریقے سے عمل میں ڈھال دیا جائے تو اہل ایمان اپنے باطن میں خدا کے بارے میں انتہائی راسخ علم محسوس کریں گے اوراس کے نتیجے میں انہیں خدا سے اس قدر محبت ہوجائے گی کہ وہ دنیا کی تاریکی سے چھٹکارہ پا کر خدا کے ساتھ وصال کی شدید خواہش میں پکار اٹھیں گے: ’’اے خدا ہم آپ کا وصال چاہتے ہیں!‘‘ بدیع الزمان خدا پر ایمان کو عبادت کی روح قرار دیتے ہیں۔ خدا کا علم خدا پر ایمان کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ اس کے بعد خدا سے محبت ہوتی ہے اور پھر وہ روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے، جو خدا کی طرف سے ایک اضافی انعام ہوتا ہے۔

جب ہم اس روحانی مسرت کومحسوس کرتے ہیں تو فطری طورپر ہمارے دل میں تمام خوبصورتیوں کے اصل سرچشمے کو دیکھنے کی شدید خواہش پیدا ہوتی ہے،کیونکہ ہر قسم کا حسن ذات والاصفات کا مدہم سا پرتاؤ ہے۔ اگر ہم اپنے دل میں اس قسم کی خواہش محسوس نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ابھی تک اس مرحلے سے نہیں گزرے، بلکہ باہرہی سرگرداں ہیں۔ میں کسی کو مایوس نہیں کرنا چاہتا، لیکن ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ہم نے جو راستہ چنا ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے۔ میں دوبارہ کہتا ہوں کہ آپ نظری مباحث میں خواہ کتنی ہی گہرائی کیوں نہ حاصل کرلیں ،لیکن جب تک آپ اپنے علم کو عمل میں نہ ڈھالیں گے اس وقت تک آپ ہر گز پیش رفت نہ کرسکیں گے، بلکہ جہاں ہیں وہیں کھڑے رہیں گے۔ اگر آپ عمل کرنا شروع کردیں،مگر اس عمل کی گہرائی میں اتر کر خدا کا علم حاصل نہ کرسکیں تو پھر بھی آپ کی پیش رفت رک جائے گی اور آپ مشینی انداز میں انجام دیے جانے والے اعمال سے آگے نہ بڑھ پائیں گے، حتی کہ آپ عبادت بھی روز مرہ کے کاموں کی طرح کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں آپ مطلوبہ اعمال کو سرانجام تو دیں گے، لیکن خدا کا علم حاصل کرسکیں گے، نہ اس کی محبت محسوس کرسکیں گےاور نہ ہی روحانی مسرت کا مزا چکھ سکیں گے۔ اپنے علم پر عمل نہ کرنے والوں کو قرآن کریم میں کتابوں کا بوجھ اٹھانے والے گدھے سے تشبیہ دی گئی ہے: ﴿مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا﴾ [الجمعہ:5] (جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیاپھرانہوں نے اس کے حامل ہونے کا حق ادا نہ کیا ان کی مثال گدھے کی سی ہے،جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں۔) لہذا انسان کو ایسی صورت حال سے بچنا چاہیے تاکہ علم اس کی پشت کا بوجھ نہ بنے۔ بصورت دیگر ایسا علم غیر نافع ہوگا۔ اس تناظر میں ہم علم پر عمل کی اس دعا کی تاثیر محسوس کرسکتے ہیں، جو نبی اکرمﷺسےمنقول ہے: ’’اللهم إنی أعوذبك من علم لاینفع‘‘ [4] (اے اللہ! میں ایسے علم سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ پہنچائے۔)

تعلیمی حلقوں کے وسیع تر آفاق

اگرچہ اہل ایمان کا انفرادی طورپربھی پڑھنا، سوچنا، تحقیق کرنا، چیزوں اور مظاہر کو پرکھنا اورانسان، کائنات اور خدا کے باہمی تعلق پر غور و فکر کرنا قابل تحسین عمل ہے، لیکن اس قسم کے افکار اور خیالات رکھنے والے اہل ایمان کی مجلس میں شرکت کرنا اوراس بابرکت ماحول سے مستفید ہونا اس سے بھی بڑی نعمتوں کےحصول کا ذریعہ ہے۔ ایسے ماحول میں شریک ہونے والا حلقے کے دیگر افراد کے ساتھ متحد ہوجاتا ہے اور سب ایک دوسرے کے ساتھ اِس خصوصی تعلق کی بدولت ایک ہی روحانی رنگ میں رنگے جانے کے بعد مختلف آفاق کی طرف پرواز کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ﴾ [الفتح:10] ( اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔) نیز رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی : ’’اللہ تعالیٰ کی تائید جماعت کے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘ [5] بھی جماعت کے ساتھ رہنے کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ ایک دوسرے موقع پر نبی کریم ﷺ نے جماعت سے علیحدگی کے خطرے کو اس مثال سےسمجھایا ہے کہ جس طرح ریوڑ سے الگ ہوجانے والی بھیڑ کو بھیڑیے کھا جاتے ہیں اسی طرح جو شخص اجتماعی شعور کی مخالفت کرتا ہے، جماعت کو چھوڑتا ہے اور اس کے ساتھ ہم آہنگی اختیار نہیں کرتا وہ بالآخر (شیطانی )بھیڑیوں کا نوالہ بن جاتا ہے۔ لہذا ہمیں ہر قسم کی مشکلات کے باوجود نیک لوگوں کے حلقے میں شامل رہنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس بارے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اورانفرادی طورپر کام کرنے سے گریز کرنا چاہیے، تاہم ہمیں اپنی محفلوں اورحلقوں کو ہنسی مزاح اور بے فائدہ باتوں سے بچانا چاہیے اورایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر علمی اور روحانی گہرائی حاصل کرکے ان سے بھرپور فائدہ اٹھنا چاہیے۔ بدقسمتی سے اس معاملے میں ہم اس قدر حساس نہیں ہیں جس قدر کہ ہمیں ہونا چاہیےتھا۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جب ہم دین، ایمان اورخدا کی رضا جوئی کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں اس وقت بھی بعض اوقات ہم ایسے معاملات پر گفتگو کرنے لگتے ہیں جو دینی یا دنیوی کسی بھی لحاظ سے ہمارے لیے مفید نہیں ہوتے یا پھر ہم ایسے غیر سنجیدہ رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں، جو لوگوں میں بے پروائی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ میری رائے میں ایک حقیقی مومن کو ایسی منظم زندگی گزارنی چاہیے جیسی کبھی صوفیائے کرام کی خانقاہوں میں گزاری جاتی تھی۔ ایک مستند روایت کے مطابق فخر انسانیتﷺپوری زندگی میں صرف تین باراتنےہنسےکہ آپﷺ کی باچھیں کھل گئیں۔ [6] جیسا کہ سب کو معلوم ہے آپﷺکے چہرہ انور پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی، لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے کبھی بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ آپﷺکا طرز عمل ایسا تھا کہ خدا کی ہر جگہ موجودگی کا احساس آپﷺکےسارےوجود میں جھلکتا تھا اورآپﷺکی حالت اور اداؤں حتی کہ نظر کی گہرائی کو دیکھ کر خدا یاد آجاتا تھا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں علم کی دولت سے مالامال ہوکر اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالنے اور اسے حقیقی طورپر اپنی زندگیوں کی روح اورطرز زندگی بنانے کی غرض سے ان تمام محفلوں اور حلقوں سے بھرپور طریقے سے استفادہ کرنا چاہیے،جن میں ہم اپنے دل اوررو ح کے آفاق کے احیا کے لیے شرکت کرتے ہیں۔ اگر ہم کسی بھی قسم کے انحراف اور تصادم کے بغیر صراط مستقیم پر چلنا چاہتے ہیں تو ہمارے تمام احساسات، جذبات، خیالات، گفتگوؤں اورمباحثوں میں استقامت پائی جانی چاہیے اور ان کا رخ روح اور دل کے آفاق میں مزید گہرائی اور معنویت حاصل کرنے کی طرف ہونا چاہیے۔

[1] ابو نعیم، حلیہ،15:10
[2] یہ دعاؤں کی ایک ضخیم کتاب ہے، جسے بدیع الزمان سعید نورسی نے تالیف کیا ہے۔ اس میں دعائے جوشن بھی شامل ہے،جو نبی کریمﷺسے مروی سو دعاؤں پر مشتمل ہے۔
[3] صحیح بخاری، کتاب التھجد، 16۔
[4] صحیح مسلم، کتاب الذکر، 73۔
[5] سنن ا لترمذی، کتاب الفتن، 7۔
[6] صحیح البخاری، کتاب التفسیر ، سورۃ الزمر،2۔