قبلہ ایک کیجیے اور ہمیت کو یکجا رکھئے

قبلہ ایک کیجیے اور ہمیت کو یکجا رکھئے

سوال: حضرت بدیع الزمان سعید نورسی رحمہ اللہ نے اپنے رسائل میں ایک جگہ فرمایا ہے: امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ نے ایک توارد کے دوران ان کو ’’قبلہ ایک کرنے‘‘(1)کی نصیحت فرمائی اور اسی وجہ سے انہوں نے قرآن کریم کا دامن تھام لیا اور اسے اپنا اکیلا مرشد بنا لیا۔ یہ واقعہ ہمارے زمانے میں کس چیز کا اظہار کرتا ہے؟

جواب: آغاز میں آپ کی توجہ دو باتوں کی طرف مبذول کرانا چاہ رہا ہوں جن کو غلط انداز سے سمجھا جا سکتا ہے:

اول: یہ جاننا ضروری ہے کہ حضرت نورسی رحمہ اللہ اس طرح کے فال اور خوابوں کو عمومی حکم بنانے کو درست نہیں سمجھتے تھے کیونکہ ان سے مستنبط ہونے والے احکام خاص ہیں موضوعی نہیں۔ علاوہ ازیں ان ناموں اور خوابوں کی درست تعبیر کرنا بھی ضروری ہے جبکہ خوابوں کی تعبیر کا مطلب ہے بعض خصوصی امور کی تعبیر کے ذریعے کسی نتیجے تک رسائی حاصل کرنا۔ اسی وجہ سے خواب میں آنے والی چیزیں اس حقیقت سے مختلف ہوتی ہیں جو اس کی تعبیر کرتی ہے۔ فال اور خوابوں کے بارے میں یہاں جو بات بیان کی ہے وہ ایک مسلمہ اصول ہے۔ پس یہ ضروری ہے کہ جب حضرت نورسی اس توارد تک پہنچے تو اس کا نتیجہ ان کے ذہن میں راسخ ہوگیا۔ ان کے دل نے اس کی تصدیق کی اور انہوں نے اسےاپنے تجربات کے موافق پایا۔ اس لیے انہوں نے اس کو اس قدر اہمیت دی اور اسے ہم تک پہنچایا۔

دوم: اس فال کے یہ الفاظ ’’قبلے کو قرآن کی طرف یکسو کرو‘‘ اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ حضرت نورسی قرآن سے الگ ہوگئے تھے اور اس چھوڑ کر( اللہ معاف فرمائے) دیگر امور کے پیچھے پھر رہے تھے کیونکہ آپ کی زندگی سب کے سامنے ہے اور سب جانتے ہیں کہ وہ ساری زندگی دیگر چیزوں کی بجائے قرآنی حقائق کے پیچھے سعی کرتے رہے۔ اس کے باوجود ’’قبلہ یکسو کرو‘‘ کے الفاظ ایک ایسا ہدف ہے جس کی جانب حضرت نورسی نے ایک خاص فال کے اندر راہنمائی کی ہے۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ حضرت اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل میں حق اور حقیقت کو قائم کرنے میں ایک تناسب اور ان دونوں باتوں کو اپنے زمانے کی روح اور تقاضوں کے مطابق بیان کرنا چاہتے تھے۔ اسی کی خاطر آپ نے خانقاہوں کے چکر لگائے اور بہت سے لوگوں سے متعارف ہوئے مگر آپ کو(اپنی سوچ کے مطابق) ایسا کوئی آدمی نہ مل سکا جو اس زمانے کی مشکلات کو سمجھتا ہو جن کو جاننا اور زمانے کی ضرورت کے مطابق ان کا حل پیش کرنا چاہیے تھا۔ اس حالت میں انہوں نے مسلمانوں کی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کو ایک مختلف اور الگ اسلوب سے لیا اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ قرآن کریم وہ واحد رہنما ہے جس کی جانب رجوع کرنا اور اس سے مدد چاہنا ضروری ہے۔

اگر ہم حضرت نورسی کے زمانے پرنگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس زمانے میں ہر شے خرابی اور تباہی کا شکار تھی اور تمام اقدار بالکل الٹے ہوگئے تھے۔ اس زمانے کی تصویر شاعر محمد عاکف ان الفاظ میں کھینچتے ہیں:

ملک تباہ، گھر ویران، صحرا وحشت کا شکار ہے

دنوں سے برکت اٹھ چکی ہے، راتیں اعلیٰ ہدف کی محتاج ہیں

جب حضرت نورسی نے یہ سب دیکھا تو ان کو بیماری کی شدت کا اندازہ ہوا، چنانچہ وہ دائیں بائیں اس کا کوئی شافی علاج تلاش کرنے لگے۔ اگرچہ انہوں نے تباہی اور ویرانی کی شدت اور سختی اور مسئلے کا نئے سرے سے بنیاد سے علاج کرنے اور ایمان کے مسئلے کے اہتمام کی ضرورت کی وضاحت کرنے کی کوشش کی مگر افسوس کی بات ہے کہ ان کو بہت کم ایسے لوگ مل سکے جو ان کے غم کو سمجھ سکتے۔ اس وجہ سے انہوں ے اپنا رخ قرآن کریم کی طرف کردیا لیکن اس بارے میں بھی تفسیر کے روایتی طریقوں پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ ایک ایسا خاص اسلوب اختیار کیا جو خود قرآن کریم کے سر چشمے سے مستنبط تھا اور اس اسلوب کے ذریعے قرآن کریم کے ہیروں جیسے اصولوں کے ذریعے ایسے نسخے پیش کیے جو ہمارے زمانے کے تمام امراض کا علاج کرتے ہیں۔

سب سے پہلے زمانے کی مشکلات کو متعین کرنا

سچی بات یہ ہے کہ بہت سے علماء (کئی صدیوں کے دوران) ایسے حل تلاش کرنے میں مصروف رہے جو ان کے زمانے کے تقاضوں اور حالات کی ضروریات کو پورا کرسکیں،چنانچہ اس بنیاد پر انہوں نے اپنی کتابیں تحریر کیں۔ (مثال کے طورپر )امام غزالی کے زمانے میں بہت سی مشکلات پیدا ہوئیں جیسے اسلامی دنیا میں یونانی فلسفے کا پھیلاؤ، معتزلہ اور جبریہ کے عقائد کا پرچار اور باطنی اور قرامطی فرقوں کا ظہور وغیرہ جبکہ یونانی فلسفے کا باطنی رخ عالم اسلام میں سرایت کرگیا تھا، جس کی وجہ سے بہت سے مسلمان اس سے متاثر ہوئے۔ مثلاً فارابی اور ابن سینا کو ہم دیکھتے ہیں کہ (اپنی ابتدائی کتابوں میں)اس فلسفی سوچ سے متاثر ہوئے جو ارسطو اور سقراط کی کتابوں کے ترجمہ سے ہم تک پہنچے تھے۔چنانچہ امام غزالی نے اپنے زمانے میں اپنی ساری توانائیاں لوگوں کو آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کے طریقے کی جانب موڑنے میں لگا دیں اور اللہ کے فضل و کرم سے اس میں کامیاب بھی ہوئے کیونکہ انہوں نے یونانی فلسفے سے دور ایک خاص منہج اور طریقہ وضع کیا اور ا شراقی فلسفے پر ایک خاص رنگ چڑھا دیا۔

حضرت مجدد الف ثانی اپنے زمانے کی مشکلات حل کرنے میں مصرورف رہے۔ جیسے کہ آپ جانتے ہیں کہ مجدد الف ثانی ہندوستان کے بادشاہ جلال الدین اکبر شاہ کے ہمعصر ہیں۔

اکبر کی سلطنت سارے ہندوستان پرچھائی تھی اور اس نے کبھی ہمارے زمانے کے ’’تاریخا نیوں‘‘(وہ جدت پسند لوگ جو اس بات کے منکر ہیں کہ قرآن و حدیث کے احکام کے ہر زمانے اور مقام کے لیے ہیں) کی طرح یہ دعویٰ کیا کہ قرآن و سنت اپنی حقیقی ماہیت کے اعتبار سے اس زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں ۔ چنانچہ اس نے ایک نیا دین گھڑا۔ مطلب یہ ہے کہ اس نے ایک ایسے دین کی بنیاد رکھی ہے جو یہودیت ،عیسائیت، بدھ مت، ہندو مت اور اسلام کے کچھ احکام کا ملغوبہ تھا۔ حضرت مجدد الف ثانی نے اس گمراہ کن غلط سوچ کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام کے گرد چاردیواری کھڑی کردی اور اپنے اندر پوشیدہ تجدید کے جذبے کے ذریعے عالم اسلام کی روح کے محل کو دوبارہ تعمیر کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ اور اس طرح کے دیگر پختہ ارادے نبی کریمﷺ کی اس ہمت سے مستنبط ہیں جبکہ آپ علیہ السلام وحی کے اثرات سے چھ ماہ قبل ’’سلطنت حراء ‘‘ میں کنارہ کش ہوگئے تھے۔ اس لیے یہ بات بالکل نامعقول ہے کہ آنحضرت ﷺ جیسی اعلیٰ ترین عقل اور اس عظیم ترین انسان نے ’’سلطنت حراء‘‘ میں کنارہ کش ہونے سے قبل جاہلیت کے زمانے میں پھیلی مشکلات پر ایک خاص تیاری کے ساتھ غور و فکر نہ فرمایا ہو۔ پس اس منفرد روح نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اور دین حنیف کی جانب دعوت دینے کے لیے غار حراء کو شرف بخشنے سے قبل اپنے آپ اور اپنی روح کو کس قدر تھکایا ہوگا! آخر کار نبی اکرمﷺ پر وحی نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کا رخ اپنی طرف موڑ دیا اور آپ کے لیے ایک نئی شریعت بھیجی جس میں زمانے کی ساری مشکلات اور امراض کا شافی علاج موجود تھا۔

قرآن کریم کے ہیروں جیسے اصول ،مریض زمانے کے لیے طبی نسخے

جب حضرت بدیع الزمان سعید نورسی نے حضرت مجدد الف ثانی کی کتاب ’’المکتوبات‘‘ کا مطالعہ فرمایا تو یہ توارد خیالات ہوا اور آپ نے ان کی اس وصیت کو لے لیا جو ایک بار پھر نئے سرے سے قرآن کریم کی جانب رخ کرنے اور دیگر چیزوں کی بجائے زمانے کی مشکلات کا حل قرلآن کریم کے ہیروں جیسے اصولوں میں تلاش کرنے کی دعوت دے رہی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس توارد خیالات کا نتیجہ ان احساسات اور افکار کے مطابق تھا جو پہلے سے ان کے دل میں تھے بلکہ وہ اسی رخ پر تھے۔ چنانچہ اس بنیاد پر انہوں نے ہر شے سے اپنا تعلق منقطع کرلیا اور ایک نقطے پر توجہ مرکوز کردی اور اپنی پوری ہمت اس ایک موضوع پر لگا دی یہاں تک کہ کوئی بھی چیز ، نہ تکالیف اور تنگیاں، نہ جلا وطنی اور قیدوبند اورنہ ہی قید خانے ان کا ارخ موڑ سے اور نہ ان کو ایک بھی قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ موجودہ زمانے کے انسان کی نجات اور خلاصی صرف اور صرف قرآن کریم کے ہیرے جیسے اصولوں کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے اور یہ نجات دیگر بہت سے لوگوں کے لیے امید کا سرچشمہ ہوگی۔

اگر آپ اس معاملے کو ہمارے زمانے کے رخ سے دیکھیں تو آپ کے لیے اس زمانے میں ہونے والی برائیوں اور بدکاریوں کو پوری طرح دیکھنا مشکل ہوجائے گا اور آپ تصویر کو اس کی تمام تر تفصیلات کے ساتھ نہ دیکھ سکیں گے کیونکہ اس زمانے میں رہنے والے ایسے علماء جن میں ہر ایک کو ’’علامہ‘‘ کا لقب دیا جاتا ہے، وہ بھی مختلف معاملات کے بار ے میں تذبذب کا شکار رہے کیونکہ اگر آپ ان کی کتابوں پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ بعض نے نظریہ ارتقاء کا ساتھ دیا یہاں تک کہ کچھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’نظریہ ارتقاء‘‘ ایک نظریہ ہے اور اگر تطبیقی سائنس بھی اس کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اس میں اور قرآنی آیات میں مطابقت پیدا کی جاسکتی ہے۔

جی ہاں، اس زمانے میں معاشرہ اپنی تمام بنیادوں سمیت ہل گیا تھا اور اس پر مسلسل صدموں اور شکست کے حملے ہوتے رہے اور ایک ایسی اعلیٰ عقل کا ظہور ہوا جو یہ جانتی تھی کہ واقعات پر ایک جامع نظر کیسے ڈالی جاسکتی ہے، اسباب اور نتائج کو کیسے یکجا دیکھا جاسکتا ہے اور اس دماغ نے مجدد الف ثانی کی نصیحت کو پلے باندھ لیا کیونکہ اسے اس پر مکمل اعتماد تھا۔ بالفاظ دیگر : یہ توارد اس کے مخصوص اندرونی خیالات کے عین مطابق تھا، چنانچہ اس نے اس توارد سے فائدہ اٹھایا اور اس رستے پر سفر جاری رکھا۔

نئے افق اور نیا نقطۂ نظر

(حضرت بدیع الزمان کی جانب سے کھلے چھوڑے گئے دریچوں سے آغاز کرتے ہوئے) آج بھی ان مسائل اور مشکلات کی ایک نئی تصویر پیش کی جاسکتی ہے جن پر انہوں نے بحث کی اور اس کے ذریعے لوگوں میں ایک تازہ اثر پیدا کیا جاسکتا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ جن حقائق کو انہوں نے لیا، ان کو ایک الگ طریقے اور مختلف انداز سے اس طرح پیش کریں کہ جوبھی ان پر مطلع ہو، ان کا گرویدہ ہوجائے اور لوگ یوں کہنے لگیں کہ: ’’ہم برسوں سے اس مسئلے پر غور کررہے تھے مگر اس انداز سے کبھی اس کو نہیں سمجھ سکے‘‘ اور ان کو اپنی روح میں اس کا نیا اثر اور شعور محسوس ہو۔ سچی بات یہ ہے کہ ان کا اکثر کلام معنی اور الفاظ دونوں کے لحاظ سے اس قدر گہرا ہے کہ ان میں سے ہر ایک، ایک تحقیقی مقالے کا موضوع بن سکتا ہے لیکن اس گہرائی کو سمجھنے کے لیے بھی ایسی کوشش اور تحقیق کی ضرورت ہے جو ظاہری شکل و صورت سے گزر کر اندرونی اور پوشیدہ لطائف تک جاپہنچے۔ آپ جانتے ہیں کہ مراکش کے عالم مرحوم ’’فریدالانصاری‘‘ نے ’’مفاتحو النور‘‘ کے عنوان سے ایک خوبصورت کتاب لکھی ہے جس میں ’’رسائل نور ‘‘ میں وارد اہم افکار کو بیان کیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس مبارک انسان کی کتابوں کے بارے میں اپنے ملک میں کوئی ایسی تحقیق کیوں نہیں کی گئی جو اس شیخ فرید انصاری کی کتاب کی ہم پلہ ہو؟ ہم لوگ اس عظیم ،ممتاز اور یگانہ روزگار شخصیت کی کتابوں کامختلف زاویوں سے جائزہ کیوں نہیں لے سکے؟ حقیقت یہ ہے کہ آدمی جب بھی ان معاملات پر سوچتا ہے تو اس کے دل سے آہ نکلتی ہے اور وہ افسوس اور حسرت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

اس کے باوجود معاملہ صرف افسوس اور حسرت کے اظہار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ میرا خیال ہے کہ ہمارے زمانے کی روشن عقلوں کے کاندھوں پر آنے والی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حضرت بدیع الزمان کی قیمتی تالیفات کا ایک نئے نقطۂ نظر سے مطالعہ کریں۔ یہ ذمہ داری خصوصاً ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو وسیع علم کے مالک اور دینی تعلیم کا تجربہ رکھتے ہیں کیونکہ یہ لوگ ان کتابوں کا امام ماتریدی ، امام غزالی، عزالدین ابن عبدالسلام، ابن سینا اور فخر الدین رازی جیسے بڑے بڑے علمائے کرام کی کتابوں سے موازنہ کرسکتے ہیں جس سے ان کتابوں کے بارے میں ایک نیا جذبہ اور جوش پیدا ہوگا۔ پھر یہ لوگ اسی پر اکتفا نہ کریں بلکہ ان اعلیٰ کتابوں کا ایک نئے تحقیقی انداز سے تجزیہ اور مطالعہ کریں۔ اس طرح وہ حضرت بدیع الزمان نورسی کی جانب سے کھلے چھوڑ ہوئے دریچوں کے ذریعے علماء کی ایک ایسی نسل تیار کرسکتے ہیں جو مستقبل کے لیے ایک سائنسی منہج اور فقہی مناہج کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ فقہ، حدیث اور تفسیر جیسے دیگر علوم کے بارے میں بھی مختلف تحقیقات کرسکتے ہیں۔

(1) حضرت بدیع الزمان فرماتے ہیں:’’ مجھے حضرت مجدد الف ثانی امام فاروقی سرہندی کی کتاب ’’المکتوبات‘‘ ملی تو میں نے اسے خالص خیر کا شگون کو سمجھا اوراس کو کھولا تو ایک عجیب بات سامنے آئی۔۔۔کہ اس میں دو خطوط ایسے ہیں جو حضرت نے ’’میرزابدیع الزمان‘‘ کو لکھے ہیں۔ مجھے ایسا لگا کہ گویا آپ مجھے میرا نام لے کر مخاطب فرماے رہے ہیں کیونکہ میرے والد کا نام میرزا تھا اور دونوں خط میرزا بدیع الزمان کو لکھے گئے تھے ۔ میں نے کہاں سبحان اللہ! یہ تو بنہا مجھے مخاطب کر رہے ہیں کیونکہ پہلے میرا لقب بھی ’’بدیع الزمان‘‘ تھا۔ مجھے بدیع الزمان ہمدانی کے علاوہ کوئی ایسا شخص معلوم نہ تھا جو اس لقب سے مشہور ہوا ہو جبکہ وہ بھی چوتھی صدی ہجری میں گزرے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے علاوہ کوئی اور شخص اس نام کا ہو جو مجدد الف ثانی کا ہم عصر ہو اور اسے اس لقب سے پکارا گیا ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی حالت بھی میرے جیسی ہو۔ یہاں تک کہ ان دو خطوط میں مجھے اپنی دوا مل گئی۔۔۔ امام ربانی ان دو خطوط اور دیگر خطوط میں پوری شدت کے ساتھ یہ نصیحت فرماتے ہیں کہ : قبلہ ایک کرو، یعنی ایک ہی مرشد کے پیچھے چلو اور اس کےعلاوہ کسی میں مشغول نہ ہو! یہ نصیتط (اس وقت) میری استعداد اور روحانی حالات کو موافق نہ آئی۔۔۔ اور میں ایک وقت تک سوچتا رہا کہ کس شیخ کا اتباع کروں! اس کے پیچھے چلوں یا اُس کے ؟ میں بہت حیران ہوا اور حیرت بڑی شدید تھی۔
پھر جس وقت میں اس شدید حیرت میں لوٹ رہا تھا۔۔۔ اچانک میرے دل میں اللہ کی جانب سے ایک رحمانی خیال آیا اور اس نے مجھے آواز دی: ’’ ان تمام رستوں کا آغاز۔۔۔ ان تمام نالیوں کا سرچمہم۔۔۔ اور تمام کواکب کا سورج۔۔۔ صرف اور صرف قرآن کریم ہے۔ اس لیے حقیقی معنی میں قبلہ صرف قرآن کریم میں ایک ہو سکتا ہے۔۔۔کیونکہ قرآن کریم سب سے اعلیٰ مرشد۔۔۔ اور علی الاطلاق سب سے مقدس استاد ہے۔۔۔ بس اس دن سے میں نے قرآن کریم پر توجہ مرکوز کردی، اس کی پناہ لی اور اسی سے مدد چاہی۔۔۔‘‘ (بدیع الزمان سعید نورسی، المکتوبات، اٹھائیسواں مکتوب، تیسرا خط)