شرور اور باطل کی تصویر کشی سے پرہیز
سوال: حضرت بدیع الزمان فرماتے ہیں: ” باطل کی واضح تصویر کشی صاف اذہان کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے“ مگر اس کے باوجود باطل کے شر کے بارے میں بولنا ضروری ہے تاکہ لوگوں کو اس سے دور کیا جاسکے، ان دونوں باتوں میں توازن کس طرح پیدا کیا جا سکتا ہے؟
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی شے کو شر کہہ کر اس سے خبردار کرنا اور بات ہے اور تمام تفصیلات کے ساتھ اس کی تصویر کشی دوسری بات۔ اس لئے ان دونوں برے تصورات کے بارے میں یاد دہانی کرانا ضروری ہے جن سے فرد اور معاشرے کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور ان کی جانب لوگوں کو توجہ دلانا ضروری ہے تاکہ لوگوں کو ان دونوں سے دور کیا جاسکے اور ان کے دل میں ان کے بارے میں نفرت پیدا کی جا سکے، لیکن ایسا کرتے وقت ان افعال اور تصرفات کی اس طرح واضح اور کھلی تصویر کشی نہیں کرنی چاہئے جس سے ذہنوں میں ان کی صورت مرتسم ہوجائے کیونکہ اس طرح کی تصویر کشی سے اس برائی کی جانب میلان کا جذبہ پیدا ہو سکتا ہے۔
لیکن اس کےباوجود مقصد کو واضح کرنے کے لئے تفصیل میں جائے بغیر برائیوں اور گناہوں کو اجمالی طور پر ان کے نقصانات کے ہمراہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ جس کے بعد ان کے منفی انجام کا بھی تذکرہ کر دیا جائے جس کی جانب گناہ انسان کودنیا اور آخرت میں لے جاتے ہیں۔ مثلاً اچھی بات ہے کہ اس بات کا تذکرہ کیا جائے کہ جو شخص گناہوں کا مرتکب ہوگا اور ہمیشہ ان کے پیچھے لگا رہے گا وہ روحانی فیوضات سے محروم ہوجائے گا، اپنی عبادات اور اطاعت سے لطف اندوز نہ ہوسکے گا، اس کی بصیرت اندھی ہوجائے گی اور وہ اپنے احساسات کو حرکت میں نہ لا سکے گا۔ وہ اپنے ذاتی احساسات سے دور رہے گا، وہ اسلام کی ظاہری شکل سے اپنے آپ کو نہ چھڑا سکے گا اور ا س کے ہاں اللہ تعالی کی معرفت صرف نظری ہوگی اور اس کے لئے اللہ تعالی کی حضوری کے احساس کے ساتھ زندگی گزارنا ناممکن ہوجائے گا۔ مطلب یہ کہ گناہ کی تصویر پیش کرنے کی بجائے اس کے انجام بد کی طرف توجہ دلانی چاہئے۔
منفی اثرات کی تباہ کن تاثیر
(جیسے کہ سب جانتے ہیں) شیطان انسان کو گناہوں کی طرف دھکیلنے کے لئے اس کے منفی جذبات نہایت اچھے انداز سے استعمال میں لاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ یہ جذبات اور احساس بیدار ہو اور نہ اسے بیدار کیا جائے کیونکہ باطل کی تصویر کشی کے لئے استعمال ہونے والا ہر لفظ گویا ان جذبات کو بیدار کرنے کا ایک سبب ہے کیونکہ یہ انسان کے پوشیدہ جذبات کو بھڑکاتا ہے تو شیطان اس موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اور ان منفی اثرات کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں پر اثر انداز ہونے اور ان کو برائیوں کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتا ہے۔
پھر جس وقت باطل کی تصویر کشی کی جاتی ہے تو دل میں عام طور پر وہ امور آجاتے ہیں جو انسانی احساسات کو بھڑکاتے ہیں ، لیکن اس بات کو صرف شہوانی خواہشات سے جوڑنا درست
نہیں کیونکہ یہ شرور کی ان تمام انواع کو شامل ہے جن کی انسان کی اندر رغبت اور خواہش ہوتی ہے۔ اس لئے اگر آپ منافقت کی قباحت کی تشریح کرنا چاہیں اور مسئلہ کو اس طرح پیش کریں جس سے معلوم ہو کہ نفاق بھی ایک مہارت ہے تو آپ بعض لوگوں کے دلوں میں اس کی پسندیدگی پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسا اسلوب اختیار کیا جائے جو برائیوں کے ضمن میں آنے والے تمام تصرفات اور برتاؤ سے ڈرانے کے رنگ میں رنگا ہو اور اس کے مرتکب ہونے والے کے لئے آخرت کے عذاب کا بیان کیا جائے۔
شرک کی تصویر کشی کرتے وقت بھی اس شدید حساسیت کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ مثال کے طور پر بلا ضرورت ان بتوں اور اصنام کے نام کے تذکرے کی ضرورت نہیں جن کو اللہ تعالی کے ساتھ شریک کیا جاتا ہے، بلکہ اس بارے میں اجمالی بات کی جائے اور اس پر توجہ دی جائے کہ اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرانے والا انسان ابدی سعادت سے محروم ہو جائے گا او رجہنم کی ابدی زندگی اس کا نصیب ہوگی۔
اس طرح والدین کی نافرمانی، جھوٹی گواہی، چوری اور غیبت وغیرہ .... کے تذکرے کے وقت بھی اجمالی اسلوب اپنانا اور لوگوں کی توجہ ان گناہوں کے انجام کی جانب مبذول کرانا ضروری ہے تاکہ ان کے اندر ان گناہوں کا مقابلہ کرنے کا جذبہ اورشعور پیدا ہو۔ یہ طریقہ نبوی طریقہ ہے، مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’ مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الجَنَّةَ‘‘ (البخاری ، الرقاق:23) (جو شخص مجھے اپنے جبڑوں اورٹانگوں کے بیچ والی چیز کی ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دے دوں گا)۔ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتا رہے ہیں کہ زبان کی آفتوں اورزنا سے بچنے سے آدمی کس طرح آخرت میں کامیاب ہوسکتاہے۔ یہاں آپ علیہ السلام اس مسئلے کو اجمالی اور معجز بیان اشارے سے بیان فرماتے ھوئے آدمی کی توجہ ان شرور سے بچنے کی صورت میں اسے ملنے والی آخرت کی جزا کی جانب مبذول فرمارہے ہیں۔
ہمارے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اگر انسان کا ذہن باطل کی تصویر کشی کا شکار ہوجائے تو وہ کئی کئی دن بلکہ کئی ہفتوں تک مکدر رہ سکتا ہے، بلکہ ہو سکتا ہے کہ بعض برے افعال اس کے ذہن کو اس وقت بھی پراگندہ کریں جب وہ اپنے رب کے حضور عبادت میں مشغول ہو۔ اس لئے انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ شروع سے ہی ان منفی امور سے بچنے کی پوری پوری کوشش کرے اور ساتھ ہی ہمیشہ اپنے ذہن کو اچھے کاموں میں مشغول رکھے یہاں تک کہ جب یہ قبیح تصاویر اس کے سامنے سے ختم ہو جائیں گی تو اچھے اقوال اور افکار اور اچھی تصویریں اس کے سامنے آجائیں گی اور اگر اس کے آنکھ یا کان یا اس کا ذہن کسی بھی طرح ان گندی باتوں سے آلودہ ہو جائے یا کوئی منفی کام اس کے دل پر زنگ لگا دے تو اسے زیادہ دیر برقرا رنہ رہنے دے بلکہ فوراً قریب ترین جائے نماز کی طرف دوڑ لگا دے اور پاکیزگی کے اس حوض میں گھس کر اپنے ساتھ چپکی اس میل کچیل سے پاک ہوجائے۔
صاف ذہن اچھا انجام
سچی بات یہ ہے کہ ہمارے اس زمانے میں گلیوں اور بازاروں میں کئی طرح کی کدورتیں منتشر ہیں، بلکہ ہمارے گھروں کے اندر بھی ، جو ہمارے لئے سب سے محفوظ مقام ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے ذہن اور حافظے میں جمع ہونے والی یہ منفی تصویریں اور مناظر انسان کے دماغ اور حافظے کو مکدر کر دیتی ہیں اور پھر انسان کو اپنے اندر مشغول کرکے اس میں برے جذبات کو ابھارتے ہیں اور اس طرح انسان کے ذہن میں پوشیدہ وہ تصویریں اس کی فکری اور
شعوری دنیا کو تباہ کر دیتی ہیں اور اس کو اپنی خواہشات اور ہوس کے پیچھے چلنے پر مجبور کرتی ہیں اور جب موقع ملتا ہے اس کے ارادے کو مقید کرکے اسے ایسے گناہوں اور معاصی کی طرف لے جاتی ہیں جو اس کی اخروی زندگی کو برباد کر دیتے ہیں۔
جی ہاں، یہ عریاں تصویریں اور جذبات کو بھڑکا نے والے مناظر وقت گزرنےکے ساتھ ساتھ انسان کے اندر لا شعوری طور پراثر ڈالتے ہیں اور اس کے خیالوں کو آلودہ کرنا شروع کردیتے ہیں، لیکن انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس اپنے خوابوں میں بھی پاکیزہ رہنے کا عزم ہو۔ اس لئے اگر ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعاؤں سے رہنمائی حاصل کریں اور رات کو سونے کے وقت پڑھی جانے والی دعاؤں کی پابندی کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ کہتے ہوئے اپنے رب کی پناہ میں آتے ہیں کہ : ” اے اللہ، اے وہ ذات جس کی امانتیں کبھی ضائع نہیں ہوتیں، میں اپنے احساسات، اپنے افکار اور خوابوں کو تیرے پاس ودیعت رکھتا ہوں، اے اللہ ، ان کدورتوں اور میل سے مجھے محفوظ رکھ تاکہ جب میری آنکھ کھلے تو مجھے گندے خیالات کا سامنا نہ کرنا پڑے“ ۔ اس وقت گو یا ہم اپنی رات کی دنیا کو اللہ تعالی کی حفظ وامان کے سپرد کر دیتے ھیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قدر باریک بینی سے اپنے اندر کا خیال رکھنے کی آدمی کی اخروی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ ہمارے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ انسان کا ایک ایسا دفتر اعمال ہے جس میں اس کی نیکیاں یعنی اس کی نیت، دعا اور اس کی کوشش بھی اس میں درج ہوتی ہے بلکہ انسان کی وہ کوشش جو اپنے خوابوں اور اپنے لا شعوری احساسات کو کدورت سے بچانے اور اپنے جذبات اور احساسات کی صفائی کی حفاظت کٍے لئے کرتا ہے، شاید سو رکعت نفل نماز سے افضل ہو، لیکن پاکیزہ عالم میں رہنا یہاں تک کہ خوابوں میں بھی انسان کا پاکیزہ رہنا اور جنت میں پھولوں کے درمیان چلنا، اس کے عزم اور اپنے ارادے کو اس کا حق دینے کا مرہون منت ہے۔
انسان اپنی سوچ میں جس قدر گناہوں اور ان عوامل سے بچے گا جو گناہوں کی جانب دھکیلنے والے ہیں تو اسی قدر وہ گناہوں کا مرتکب ہونے سے بچے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اس دعا کے ذریعے گناہوں سے بچنے کی جانب اشارہ فرماتے ہیں: ”اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ“ (البخاری،الاذان:89) (اے اللہ میرے اور میرے گناہوں کے درمیان بھی اتنی دوری پیدا فرما جتنی تونے مشرق ومغرب کے درمیان رکھی ہے)۔
اگلی بات یہ ہے کہ جو شخص گناہوں کی باڑ کے گرد گھومے گا، وہ ضرور ایک روز موجوں کے ساتھ بہہ جائے گا اور دوبارہ ساحل تک نہ پہنچ سکے گا۔
جی ہاں، اگر انسان ایک بار گناہوں کے سمندر میں تیرنا شروع کردے تو وہ دوسری بار ساحل تک نہیں پہنچ سکے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے ذہن، سوچ اور احساسات کو ہمیشہ صاف رکھنے کی کوشش کرے اور نفس اور شیطان کی چالوں سے ہمیشہ خبردار رہے۔
- Created on .