بدنظمی سے نظام کی طرف ۔۱

صدیوں سے ہمارا معاشرہ اخلاقی،علمی اور فکری لحاظ سے تباہ ہوتا جا رہا ہے۔ ابھی تک معاشرے کو تربیت،فن اور اخلاق کے شعبوں میں متبادل نظام کی تلاش ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ ہمیں فولادی عزم اور ایسے دماغوں کی ضرورت ہے،جو نہ صرف وجود کی تمام گہرائیوں اور انسان کی تمام دنیوی و اخروی وسعتوں کا احاطہ کیے ہوئے ہوں،،بلکہ زمین پر خلافتِ الٰہیہ کی بنیاد پر ہر چیز پر اثرانداز ہوتے ہوں۔

حال ہی میں دنیا میں تبدیلی کی تحریکوں نے بہت سے چہروں کو بے نقاب کر کے ان کی حقیقت واضح کر دی اور ہماری آنکھوں سے کسی حد تک پردہ ہٹا دیا ہے،جس کے نتیجے میں ہم پر اشخاص اور اشیاء کی حقیقت بتدریج واضح ہونے لگی اور ہم صورت حال کو زیادہ واضح انداز میں دیکھنے اور واقعات سے زیادہ درست اور مضبوط نتائج اخذ کرنے لگے اور ہمیں یہ بات سمجھ میں آنے لگی کہ اس ملک میں دو صدیوں سے صرف شکل و صورت،فکر اور فلسفہ زندگی ہی معزولی، غفلت اورفراموشی کی نحوست کا شکار نہیں،بلکہ ہماری ملی ثقافت،تاریخی شعور،اخلاقی نظام،اقدار کا فہم، فنی تصور اور روحانی جڑیں بھی شاید پہلے سے زیادہ نقصان دہ انداز میں کھوکھلے پن کا نشانہ بنی ہوئی ہیں، جس کے نتیجے میں ہمارے روحانی رشتے کمزور پڑ گئے،ہمارے اخلاقِ عالیہ کے سرچشمے سوکھ گئے اور ہمارے ماضی اور حال کے درمیان خلیج وسیع تر ہوگئی۔

عالم اسلام ایسے عجیب وغریب حالات میں سے گزرا،جن میں تعلیم یافتہ لوگوں پر خاموشی طاری ہوگئی،فکر کے منہ پر تالے پڑ گئے،اصحاب اقتدار و قوت نے گمراہی اور اصولوں سے فرار میں معاونت کی اور لاشوں کی طرح دکھائی دینے والی نسلیں حیرت کے عالم میں بجھے ہوئے تاریک اور مایوس کن احساسات سے متعارف ہوئیں۔

بیچارگی کے عالم میں ہر طرف سے مایوسی کے تاریک بادلوں میں گھری ہوئی آنکھوں نے کتنے آنسو بہائے ہوں گے اور دل کے احساسات نے شرم و حیا سے عاری لوگوں کے سامنے اپنی بات کا اظہار کرتے ہوئے گڑگڑا کر کہا ہو گا: ‘‘الحاد کی ہوا کے لیے اپنے بادبان کھولنے والے سرگرداں لوگوں،ہرشخص اور ہر چیز پر احمقانہ انداز میں تالیاں بجانے والوں،طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے بے ضمیروں اور داغدار عزت و شرف والوں سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے؟’’جو چیز کانپ گئی وہ متزلزل ہوگئی،جو منہدم ہوگئی وہ برباد ہوگئی،جوچلی گئی بے نشان ہوگئی،لیکن اس کی جگہ کسی نئی چیز نے نہیں لی،جو چیز ٹوٹ گئی اسے مٹا دیا گیا،لیکن اس کے قائم مقام کوئی اور چیز نہیں آئی،جس کے نتیجے میں معاشرے کی اقدار مکمل طور پر الٹ ہو گئیں، خصوصاً دورِحاضر میں نہ صرف ہمارے بلکہ واقعیت پسند اور صرف اپنی روزمرہ کی ضروریات کی فکر کرنے والے سیکولر لوگوں کے دلوں میں بھی محسوس ہونے والا اضطراب اور غیرمحفوظ ہونے کا احساس اس کی واضح دلیل ہے۔

مجھے آپ سے امید ہے کہ آپ اس بارے میں سوچیں گے کہ ہم اخلاقی افلاس اور پے در پے آنے والی ان مشکلات سے جن کی وجہ سے زندگی ایک بوجھ اور ناقابل برداشت پریشانی کا باعث بن گئی ہے،کیسے نجات حاصل کرسکتے ہیں؟ہم اپنی انفرادی،خاندانی اور معاشرتی خرابیوں کو کیسے دور کرسکتے ہیں؟اور ہم اطمینان اور اعتماد کے ساتھ مستقبل کی طرف سفر کیسے جاری رکھ سکتے ہیں۔

کیاہم اِدھراُدھر سے خیالی اور وہمی افکار درآمد کرلیں؟یا اس معاصر ذہنیت سے کام لیں جس پر ہم ہر چیز کی عمارت استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟نہیں،نہیں کوہِ قاف سے بھی زیادہ بوجھل اس وزن کو ایسی منطق یا مجہول النسب افکار ہرگز نہیں اٹھا سکتے۔

سالہاسال سے احیائی تحریکیں صورت کی تبدیلی سے آگے نہیں بڑھیں اور خیالوں اور امیدوں کے مقاصد اور ان کی واضح اور قریب ترین اغراض کے ادراک سے قاصر رہیں۔ زمام اقتدار تھامنے والے یہ سمجھ بیٹھے کہ برش ہاتھ میں لے کر معاشرے اور ملت کے زخموں میں مختلف رنگ بھر دینا ہی علم و تجربہ کی معراج ہے،بلکہ شاید انقلاب ہے،لیکن معاشرے کے فعال اعضا اور روح کی رگوں سے بہنے والا خون ان کی نظروں سے مکمل طور پر اوجھل رہا۔یہ سب کچھ ہماری ماضی قریب میں پیش آچکا ہے،تاہم ایمان،امید اور عزم سے تقویت حاصل کرنے والے تحریکِ آزادی کے کچھ سرفروشوں کا کردار اس سے مستثنیٰ ہے،بلکہ مبارک اصولوں کی حامل اس تحریک میں پوشیدہ اور منتخب طاقت کو بے اثرکرنے کی ہماری کوششوں کے باوجود اس جیسی وحدت، بیداری اور توانائی دوبارہ حاصل نہ ہوئی۔

حاصل یہ کہ گزشتہ چند سالوں میں لوگوں کے جو گروہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے اور ان کے درمیان خلیج وسیع ہو گئی اگرچہ وہ فکری، روحانی اور جوہری لحاظ سے بالکل مفلس نہ بھی ہوئے ہوں ان کے درمیان اجنبیت بڑھی ہے اور وہ بھیڑیوں کی طرح ایک دوسرے پر جھپٹنے لگے ہیں۔بعض کے نزدیک جو چیز سفید ہے وہ دوسروں کے نزدیک سیاہ ہے۔بعض جس بات کی دعوت دیتے ہیں،دوسرے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔بعض کی طرف سے تجویز کردہ متبادل دوسروں کے نزدیک ہزیمت کا باعث ہے۔بعض کی صلابت دوسروں کی نظر میں تعصب ہے۔ان منفی پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اس جنگ یا اندھوں کے جھگڑے کا ذرا تصور کیجئے،جس میں کوئی ایسا متفقہ معیار نہیں کہ جس کے ذریعے سے معلوم کیا جاسکے کہ کون حق کے قریب تر ہے۔

اس صورتحال کے پیش نظر آج ہمیں حقیقت اور مکارم اخلاق تک پہنچانے والے راستے، دھوکا نہ دینے والے طرز فکر اور گمراہ نہ کرنے والے معیاروں کی شدید ضرورت ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ضمیر اوراخلاقی اقدار بہت سی مشکلات کو حل کر سکنے والے نور کے سرچشمے ہیں،لیکن دورحاضر میں ضمیر مجروح اور اخلاقی اقدار منتشر ہیں،لہٰذا یہ دو عوامل بھی جڑوں سے اکھڑ چکے ہیں اور ان کے سوتے خشک ہوچکے ہیں۔

اخلاق میں عرفان و وجدان کی وجہ سے بلندی نہیں آتی،
بلکہ انسان میں اعلیٰ اخلاق خوفِ خدا سے پیداہوتے ہیں۔
بالفرض اگر دلوں سے خوفِ خدا جاتا رہے
توآپ کو عرفان و وجدان کا نشان تک نہ ملے گا۔{qluetip title=[(۱)]}(۱) محمدعاکف،‘‘دیوان’’ ،ص:۲۷۱.{/qluetip}

جن خوفناک حالات میں ہم جی رہے ہیں ان کا اندازہ کرنے کے لیے اوپر ذکرکردہ صورتحال پر ارادے کی کمزوری،عقلی محاکمے کے کھوکھلے پن،انسانی جذبات کے وحشی پن اور ان کے اژدھے کی مانند خون کے پیاسے ہونے کا اضافہ کرلیجئے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کام کاآغاز اپنے بنیادی فیصلوں پر نظرثانی، منطقی اندازِ فکر کی تمیز،ارادے کی کماحقہ ادائیگی اور پرعزم نسلوں کی تیاری سے کریں۔ہمیں سب سے پہلے اسباب کی رعایت کا اعتراف کرنا چاہیے،کیونکہ ہم اسباب میں گھری ہوئی دنیامیں رہتے ہیں،چونکہ ہم عالم اسباب میں رہتے ہیں،اس لیے انہیں نظرانداز کرنا جبر اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔نہ صرف اسباب کی رعایت بلکہ علت و معلول کے درمیان مناسبت کا خیال رکھنا بھی مکلف ہونے کے اہم ترین لوازم میں سے ہے۔

اگر ہم نے ابھی سے سنجیدگی سے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ مضر افکار اور غلط رجحانات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی بنیادوں کا تعین نہ کیا تو ہمیں مستقبل میں اخلاقی بدحالی،معاشرتی خرابی اور دیگرانحرافات کی مختلف صورتیں نظر آئیں گی۔

تجربہ کار شخص اسے نہیں کہتے جو مصیبت اور بدحالی کے واضح نتائج دیکھنے کے بعدچوکنا ہوتا ہو،بلکہ تجربہ کار وہ شخص ہے جو وقت سے پہلے نہ صرف وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو بلکہ ان کے اسباب اور سیاق کو بھی بھانپ لیتا ہے۔یہ دعویٰ کرنا بہت مشکل ہے کہ ہم نے ماضی قریب میں اس قسم کی فراست کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمارا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ ہم نے ارادے کا حق اداکر دیا ہے،بلکہ اس تاریک ترین دور میں رہنے والاانسان اپنے ذاتی ارادے،عزم اور فکر کے بارے میں ہی شکوک و شبہات کا شکار ہے اور ابھی تک اپنا نظام زندگی چلانے کے لیے حیرت انگیز اور بلند ارادوں کا متلاشی ہے۔اس سے بھی بڑی مصیبت اور تلخ صورتحال کسی مفکر،عالم یا ملک کے اشارے پر پاکیزہ جذبات اور ضمیر رکھنے والے لوگو ں کی کردارکشی اور حوصلے پست کرنا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے طرز عمل اور طرز فکر میں فلان و علّان کو حَکَم بنانے لگے،جنہوں نے ہمیں سردرد،فیصلے اور مشاہدے کی کجی اور شخصیت کی لغزش میں مبتلا کیا،جس کے نتیجے میں مکمل طور پر فرمانبردار لوگ بھی ایسے خوفناک بگاڑ کا شکار ہوئے کہ جس کی اصلاح ناممکن دکھائی دیتی تھی۔اصول کاتقاضا تو یہ تھا کہ ہم خدائی ارادے کے سوا کسی بھی ایسے ارادے پر ایمان لاتے اور نہ اس پر راضی ہوتے، جس کے بارے میں ہم نے اچھی طرح چھان پھٹک اور تحقیق نہ کرلی ہو۔

ڈیکارٹ نے کہا تھا: ‘‘جب تک فکر آزاد نہ ہو اس وقت تک اس کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی۔’’ اپنی روحوں کو بوسیدہ اور اکثر پہلوؤں سے متعفن مدرسی (Scholastic) فکری نظاموں سے نجات دلانے کے لیے کیا ہمیں کم از کم ڈیکارٹ کی طرح نہیں سوچنا چاہیے۔

دنیوی و اخروی لحاظ سے منور آفاق کی حامل اور آنے والے سالوں میں یقینی طورپر ظہورپذیر ہونے والی صورتحال کی نشاندہی کرنے والی نسلوں کا فرض ہے کہ وہ باہر سے درآمد شدہ یا مقامی طور پر تیارکردہ نظاموں اور افکار پر نظرثانی کریں اور معاشرے کو اجنبیت کی غلاظت سے پاک کرکے اسے اس کے ذاتی حقائق کی جڑوں سے جوڑ دیں،تاکہ وہ اپنی حقیقت اور شخصیت کی حفاظت کرسکے،دنیا سے بھرپور طور پر رابطے میں رہتے ہوئے اپنے ذاتی خطوط پر مستقبل کی طرف بڑھتا رہے اور آگے بڑھتے ہوئے ماضی کو حال سے مربوط رکھے،نہ ماضی سے اس وجہ سے منہ موڑے کہ وہ قدیم ہے اور نہ ہر تروتازہ دکھائی دینے والی چیز کی طرف بغیر بصیرت کے صرف اس لیے متوجہ ہو کہ وہ نئی ہے۔اس نورانی نسل کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ حال اورمستقبل کا پورا علم رکھتی ہے۔وہ یہ جانتی ہے کہ جن امور کی ہمیں ضرورت ہے وہ صرف ہمارے علوم تک ہی محدود نہیں ہیں، نیز وہ حقیقت کو جاننے کے لیے اسے عقل و منطق کی چھلنی سے گزار کے الہام اور تجربات کی روشنی میں فیصلہ کرتی ہے۔

اس قسم کی ترقی اور تبدیلی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماضی قریب اور اپنی تاریخ کے ہیروؤں سے بخوبی آگاہی حاصل کریں، چنانچہ ہمیں اپنی معا صر تاریخ پر اثر انداز ہونے والی شخصیات اور عوامل کے بارے میں علم ہونا چاہیے نیز ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے کن ہم وطنوں نے اس ملت کے سینے میں اتفاق و اتحاد کا نیا جذبہ بیدار کیا اور ملی جذبے کے ترانے گائے ۔ مجھے یقین ہے کہ اوپر ذکر کردہ امور کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد ہم اصولوں کی روشنی میں مستقبل کے لیے واضح لائحہ عمل تیا ر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اپنے سینوں میں فکری ترو تازگی ، عشق اور رواداری کے اخلاق محفوظ رکھنے والے بہادروں کے نقش قدم پر چلنے کی سعادت حاصل کریں گے۔<