احساسِ ذمہ داری

تحریک اور مہم جوئی وجود کا اہم ترین پہلو ہے اور سکون زوال اور موت کا دوسرا نام ہے۔ تحریک کا ذمہ داری کے ساتھ ارتباط اس کا سب سے پہلا انسانی پہلو ہے۔کسی بھی تحریک یا مہم جوئی کو مسئولیت کے ساتھ مربوط کئے بغیر کمال کا دعوی کرنا ممکن نہیں ہے۔

اکثر لوگ مختلف اغراض و مقاصد کی خاطر بڑی لگن سے دوڑدھوپ کرتے ہیں،لیکن جدوجہد کو ذمہ داریوں کے ساتھ مربوط کیے بغیر کسی بھلائی کی امید رکھنا فضول ہے۔جب حرص و ہوس سے چکی کی طرح نظریں گھمانے والے مفادپرست بغیر تھکاوٹ اور اکتاہٹ کے کام کریں،جب سیاست دان جگہ جگہ مسحورکن تقریریں کریں، جب میڈیا خبروں اور مکالمات وغیرہ کے پروگراموں میں غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرے، جب مختلف ادارے ساراسال کرپشن کا بازار گرم رکھیں،جب دین کا لبادہ اوڑھنے والے مفادات کے پیچھے دوڑنے لگیں،جب بازارِحصص کا سارا نظام تخمینوں پر چلے، جب ریاستی ادارے مخصوص نظریات کی سرپرستی کریں اور جب اہل علم اہم واقعات کو بے توجہی سے دیکھیں تو ایسی صورت حال میں استحصال کرنے والا اپنے مفادات سمیٹتا ہے اور ظلم کی چکی میں پسنے والا ‘‘فطری انتخاب’’ کے تحت ہر چیز کو فطرت کا تقاضا سمجھ کر اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ایسے حالات میں فرض کی ادائیگی بہت مشکل اور دشوار ہو جاتی ہے۔اگر کوئی شخص کھڑے ہو کر ان نامسعود تحریکوں اور گروہوں یا ان خوفناک مشینوں کے شکنجوں میں پسنے والے بدحالوں سے کہے: ‘‘ٹھہرجاؤ!آخرتم کدھرجارہے ہو؟‘‘

’’یہ بالکل جھوٹ ہے کہ کوئی بے حس معاشرہ بھی زندہ رہ سکتاہے۔مجھے کوئی ایک قوم بھی ایسی دکھاؤ جو بے حوصلہ ہونے کے بعد بھی باقی رہی ہو۔‘‘{qluetip title=[1]}(۱) محمدعاکف کے ایک شعر کا ترجمہ:دیوان‘‘الصفحات’’ ، ص۳۷۲.{/qluetip}

تو اگر وہ اسے تھپڑ رسید کر کے اس کے منہ پر تھوکیں گے نہیں تو کم از کم غلیظ گالیوں سے اس کی مزاج پرسی کرکے اس کا مذاق ضرور اڑائیں گے۔شاید وہ اس کے احساسِ ذمہ داری کا مذاق اڑاتے ہوئے کہیں گے: ‘‘ہر بکری کو اس کی ٹانگوں کے ساتھ ہی لٹکایا جاتا ہے۔’’یا بے توجہی سے کہیں گے: ‘‘ماہر ناخدا وہی ہوتا ہے جو اپنی کشتی کو بچا لے۔’’{qluetip title=[۲]}(۲) پہلی ضرب المثل دوسروں کے معاملات میں مداخلت کرنے سے روکنے یا ہر انسان کے اپنے کاموں کے خود ذمہ دار ہونے کے بارے میں کہی جاتی ہے اور دوسری ضرب المثل کا تعلق دوسروں کی پرواہ کیے بغیر صرف اپنی کامیابی کی فکر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(عربی مترجم){/qluetip}بلکہ شاید وہ آزادمنش اور بے پرواہ انسان کی طرح یوں بکیں گے: ‘‘اگر کوئی سانپ مجھے نہیں ڈستا تو اگر وہ ہزار برس بھی جیتا ہے مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔’’ یہ باتیں سن کر اس شخص کا زندہ ضمیر تڑپ اٹھتا ہے۔

کون جانتا ہے کہ اس بیاباں میں اس کی پاکیزہ فکر اور معصوم جذبات کن کن باتوں سے مجروح ہوتے ہوں گے!

اوپر ذکرکردہ امور کا کسی باشعور مسلمان کے دل میں خیال بھی پیدا نہیں ہو سکتا،لیکن یہ بات بھی ہمارے احساسِ ذمہ داری کے شایاں اور مناسب نہیں کہ ہم اسے بے وقوفی اور واہیات کہہ کر اپنی راہ لیں،کیونکہ ہم بحیثیت قوم دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں اور جب تک دشمنوں کا یہ حصار قائم ہے اس وقت تک ہم شعور،فکر،عقائد،فن اور آزادانہ طرزعمل میں اپنے ذاتی جوہر دکھا سکتے ہیں اور نہ ہی اسلامی وقار اور ملی پاکیزگی کی حفاظت کر سکتے ہیں،نہ اپنے سفینے کو بچا کر سلامتی کے ساحل تک پہنچا سکتے ہیں اور نہ اپنی مخصوص دنیاقائم کرکے اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتے ہیں،نہ زمین کے وارث بن سکتے ہیں اور نہ ہی اللہ تک پہنچ سکتے ہیں،لہٰذا ہمیں آنکھیں کھول کر حقائق کو دیکھنا چاہیے،بصیرت سے کام لیتے ہوئے ماضی سے حال کی طرف منتقل ہونے والے اپنے خواص کی حفاظت کرنی چاہیے اور جو چیزیں اندر سے ہمارے وجود اور شخصیت کو کھوکھلا کئے جا رہی ہیں انہیں چھوڑ دینا چاہیے۔اگر ہم اب بھی نہ سنبھلے تو ہمیں وہ دن دیکھنا پڑے گا جب ہم اپنی موجودہ حالت کی حفاظت کرنے سے بھی عاجز ہوں گے۔

ماضی میں جہالت،غربت،فرقہ واریت اور تعصّب وغیرہ ہمارے دشمن تھے، آج ان میں فریب،محکومی،بے وقوفی،بے راہ روی،بے پروائی اور شناخت کے فقدان کا اضافہ ہو گیا ہے۔اس موقع پر اپنے سینے میں دینی اور فکری پاکیزگی اور ملی جذبے کا درد رکھنے والے حضرات مجھے یہ کہنے میں معذور سمجھیں کہ ایک طویل عرصے سے نوجوان نسلیں اور بعض نیک فطرت،پختہ عمر حضرات معصوم اور پاکیزہ جذبے کے باوجود گمراہی کا شکار ہیں۔وہ سچی مگر فریب زدہ شخصیت کے فریب اور تکلیف میں مبتلا ہیں اور ایسے منحرف نظریات سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں،جن کے پاس رنگین الفاظ کے سوا کچھ نہیں۔قوم کے بعض افراد پر اس صورت حال کے کچھ بھی اثرات ظاہر ہوں، شخصیت کا یہ فکری انحراف،تبدیلی اور لغزش اس مبارک وطن کے زوال سے عبارت ہے۔ایک ایسا زوال جس نے محمد فاتح کو زہر دلوائی،مرادخداوندیکار کے پیٹ میں خنجر گھونپا،بایزید یلدرم کو غم سے مار ڈالا اور یاووز سلیم کو شیرپنجہ {qluetip title=[۳]}(۳) یہ محمدفاتح کو زہر دیئے جانے،سلطان مراد کو میدانِ جنگ میں امان دیئے گئے ایک خائن سرب کے ہاتھوں خنجر مارے جانے،سلطان بایزید کے تیمورلنگ کے ہاتھوں گرفتار ہونے اور ذلّت آمیز سلوک کے بعد غم سے ہلاک ہونے اور سلطان یاووز سلیم کے اپنے کندھے پر نکلنے والے ‘‘شیرپنجہ’’ نامی سرطانی پھوڑے کی وجہ سے وفات پانے کی طرف اشارہ ہے۔شیرپنجہ فارسی زبان کا لفظ ہے،جس کا معنی ‘‘شیر کا ہاتھ’’ہے۔ (عربی مترجم){/qluetip}کے ذریعے مغلوب کیا۔اس رسواکن زوال نے جنگِ آزادی میں کامیاب وکامران ہونے والی ملت کی روح کو زمانے کی برائیوں،دانش وروں کی غفلت اور عوام کی ناالتفاتی کے ہاتھوں ذبح ہونے کے لیے چھوڑ دیا۔

ہم نے دنیا میں انسان اور آزادی کی محبت اور ایمان سے سرشار نئی روح پھیلانے اور ایک ایسے مبارک درخت کی روحانی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لیے ماحول سازگار بنانے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائی ہے کہ جس کی پھلتی پھولتی شاخوں سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے اور اس کی جڑوں کے پھیلنے سے نئے نئے کھیت آباد ہوں گے۔بلاشبہ اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہونا ایسے بہادرانِ قوم پر موقوف ہے،جو وطن کے مستقبل اور معاصرانسان کی تاریخ،دین،رسم و رواج،روایات اور تمام مقدسات کی حفاظت کرتے ہیں،ایسے بہادرانِ قوم جو علم کی محبت سے سرشار، تخلیقی اور تعمیری سرگرمیوں کی طرف میلان رکھنے والے،انتہائی پُرخلوص دیندار،قوم سے محبت رکھنے والے اور ہمیشہ احساسِ ذمہ داری سے اپنے فرائض سرانجام دینے والے ہیں۔ ایسے لوگوں کی جدوجہد سے ہمارے افکار کے اثرات قوم کی زندگی پر مرتب ہوں گے،ہر انسان میں معاشرے کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا،فرائض کی تقسیم اور باہمی تعاون کا مفہوم پھر سے اجاگر ہو گا،آجر اور مزدور،زمیندار اور مزارع،افسر اور ماتحت، مالکِ مکان اور کرایہ دار،صاحبِ فن اور فن کے دلدادہ، مؤکل اور وکیل اور استاد اور شاگرد کے باہمی تعلق میں ایک ہی چیز کے مختلف جہتوں سے سامنے آنے کی روایت دوبارہ زندہ ہو گی اور صدیوں سے ہمیں جن اہداف کا انتظار ہے وہ پورے ہوں گے۔ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں،جس میں ہم اپنے خوابوں کو مثالی افکار میں ڈھال رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ زمانے کے ذمہ دارانسان وقت آنے پر انہیں اوقات کی عمدہ تعیین کے ساتھ شرمندہ تعبیر کریں گے۔

یہ صدیوں سے ہمارے خوابوں اور تصورات کی بنیاد ہے۔ذمہ داری کے اخلاق اور احساسِ ذمہ داری ہمارے خوابوں اور تصورات کو عملی جامہ پہنانے کی طرف پہلا قدم ہے۔چونکہ سکون اور جمود موت اور زوال ہے اور تحریک میں غیرذمہ دارانہ رویہ بدامنی اور شوروغل ہے،اس لیے اپنے طرزعمل کو جواب دہی سے مربوط کئے بغیرچارہ نہیں۔ہماری ہر جدوجہد جواب دہی کی پابند ہونی چاہیے۔ہمارا راستہ حق، ہمارا فرض حق کی علمبرداری اور ہمارا ہدف ہر لحظہ رضائے الٰہی کی جستجو ہے۔درحقیقت یہ انسان کے وجود کا راز اور ارادے کے وجود کی حکمت ہے۔ہم اپنے آپ کو اپنی زندگی میں مقصدِزیست کو تلاش کرنے،اپنی روحوں میں عشق تک رسائی پانے،اپنے ضمیر میں احساسِ ذمہ داری کا ادراک کرنے اور بیدار لوگوں کی ایسے سرچشمے کی طرف راہنمائی کرنے پر مجبور پاتے ہیں،جس کے نظام کی بنیاد ایمان،جس کی طاقت کا سرچشمہ عشق اور جس کی روشنی علم، فن، اخلاق اورحکمت ہے۔۔۔ ہم اپنے آپ کو اس پیغام کے ایسے غلام سمجھتے ہیں،جن کی آزادی کی کوئی صورت نہیں۔اس عالمگیر نشاۃ ثانیہ کی ابتدا ان کوششوں سے ہوگی،جن کے بارے میں امید ہے کہ وہ آغاز سے اب تک کے تمام اولیاء،اصفیاء،ابرار اور مقربین کی استقامت و روحانیت کے صدقے پھلیں پھولیں گی۔

ہر دور کا کوئی نہ کوئی اعزاز ہوتا ہے۔چھٹی صدی عیسوی میں انسانیت کو اسلام کی بدولت نئی زندگی ملی۔دسویں صدی عیسوی میں بہت سی ترک اقوام نے اسلام قبول کرکے نئی زندگی کا آغاز کیا۔چودھویں صدی عیسوی میں‘‘سوکود’’(۱) کے مقام پر تتلی کے اوپر سے کویا (Cocoon) اتر گیا اور میں سمجھتا ہوں کہ اکیسویں صدی کے اعزاز کا اظہار بین الاقوامی توازن میں ہماری قوم اور اس سے منسلک اقوام کو مناسب مقام ملنے کی صورت میں ہو گا۔دنیا کی تاریخ کا رُخ پلٹنے والا یہ نیا بلاک روح،اخلاق،عشق اور اعلیٰ کردار کے فلک میں گھومے گا۔ہمیں یقین ہے کہ ہماری اس روحانی جدوجہد سے جسے ہم علم،اخلاق،حق اور انصاف کی جدوجہد کا نام بھی دے سکتے ہیں،ہماری امّت کے مبارک،مگربدحال اور اطراف عالم میں بکھرے ہوئے جوڑوں کی حالت سدھرے گی،تاکہ مقصد اور نگہبان سے محروم نسلیں فکر کے سائے تلے جمع ہو جائیں اور لواء الحمد کے ساتھ وصال کی کیفیت میں نئے انداز سے جینے لگیں۔