مستقبل کی دنیا کی طرف

عالم اسلام صدیوں سے ایک خالی دائرے میں گھوم رہاہے اور بار بار ایک جیسی غلطیاں دہرا رہا ہے،لیکن وہ اپنی ذات اور روح کی حقیقت کو نہیں پا سکا۔اگر وہ ایک قدم آگے کی طرف بڑھاتا ہے تو کئی قدم پیچھے کی طرف اور غلط راستے کی طرف اٹھاتا ہے،بلکہ بہت دفعہ تو اس منحوس طرزعمل اور ملعون انحراف نے کہ جس کی غلطیاں درست اقدامات سے اور نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں،ذات کی طرف لوٹنے کے راستوں کی تلاش کے لیے کی جانے والی عمدہ معاشرتی کاوشوں پر بھی نامسعود اثرات ڈالے ہیں،جس کے نتیجے میں اچھے کام کرنے والوں کے قدم بھی ڈگمگا گئے۔یہ صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ عالم اسلام کی تسبیح کے دانوں کی گرہ کھل چکی ہے اور اقوام و ملل کا پہیہ اس کے مفادات کے خلاف گھوم رہا ہے۔

اسی لیے ہمارے نزدیک تمام عالم اسلام کو ایمانی فہم،اسلامی تصورات،احسانی شعور،ذوق وشوق،فراست، طرزفکر اور ان کیفیات کو پیدا کرنے والے اداروں سے فائدہ اٹھانے کے اسالیب کے بارے میں بھرپور انداز سے احیائے نو کی ضرورت ہے۔

ہماری روحانی زندگی دینی فکر اور دینی تصورات پر قائم ہے۔اسی بنیاد پر قائم رہنے کی وجہ سے آج تک ہمارا وجود برقرار ہے۔ہماری دوڑدھوپ کا مرکز یہی ہے۔ اگر ہم اس سے دستبردار ہو گئے تو ایک ہزار سال پیچھے چلے جائیں گے۔انسان اور کائنات کو مقصدیت دینے،انسانی روح اور شخصیت کے اندر جھانکنے،دنیا سے ماوراء تک پھیلی ہوئی خواہشات کی تکمیل کرنے اور وجدان میں حیات جاوداں پانے کے جذبے کی تسکین کرنے والے عالی مقاصد کا حامل دین صرف عبادات تک محدود نہیں ہو سکتا، بلکہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ہر پہلو اس کے دائرے میں آتا ہے۔وہ ہماری عقلی، روحانی اور قلبی معاملات میں مداخلت کا حق رکھتا ہے اور وہ ہماری نیتوں کے مطابق ہمارے ہر کام پر اپنے اثرات چھوڑ جاتا ہے۔

بلاشبہ حقیقی مؤمن کا ہر کام عبادت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے،اس کی ہر سعی میں جہادی روح کارفرما ہوتی ہے اور اس کے ہر اقدام اور جدوجہد پر آخرت اور رجائے حق کا رنگ چڑھا ہوتا ہے،لہٰذا اس کی زندگی میں دنیا اور آخرت کی تفریق ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے دل اور عقل کے درمیان کوئی پردہ حائل ہوتا ہے۔اس کے جذبات اور سنجیدہ خیالات ہم رنگ ہوتے ہیں اور اس کے عقلی فیصلوں اور الہامی خیالات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔فکری دنیا میں اس کا تجربہ اور مہارت عقل سے منسلک نورانی زینہ اور اس کا علم فراست پر قائم بلند مینارہ ہے۔وہ عقاب کی مانند عشق کے بڑے بڑے پروں کے ذریعے اس زینے پر ہمیشہ لانہایت کی طرف محو پرواز رہتا ہے اور اس مینارے میں اپنی فراست کے ذریعے کائنات کی روئی کو دھنتا رہتا ہے۔ چونکہ اس فہم کے کسی بھی گوشے میں کوئی خلا نہیں ہے،اس لیے اس نظام حیات میں انسان کے کسی بھی انفرادی یا اجتماعی پہلو کو نظرانداز کرنے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔

جو لوگ دین،سائنس اورعقل کے درمیان مصنوعی تصادم دکھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بیچارے دین اورعقل کی روح سے ناآشنا ہیں۔مختلف معاشرتی طبقات کے درمیان تصادم کی ذمہ داری دین کےسرتھوپنا خودفریبی کی بدترین مثال ہے،کیونکہ مختلف طبقات کے درمیان تصادم کے پیچھے جہالت،ذاتی مفادات اورگروہی مصالح کارفرما ہوتے ہیں۔دین اس قسم کے جذبات اور افکار کی کبھی بھی پشت پناہی نہیں کرتا۔بسااوقات بعض دیندار لوگوں کے درمیان بھی تصادم اورٹکراؤکی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی روحانی جذبے سے سرشار ہونے کے باوجود صدق و اخلاص کے مطلوبہ درجے تک ان کی رسائی نہیں ہوئی ہوتی اور وہ بعض اوقات اپنے جذبات کی رومیں بہہ جاتے ہیں۔۔۔ مؤمنانہ اخلاق اس بدحالی کا راستہ روک سکتے ہیں اور امر واقع یہ ہے کہ اس بدحالی کا شکار ہونے سے بچنے کا واحد راستہ دین کے تمام شعبوں کا احیاء کر کے ان کی معاشرے میں بھرپور ترویج ہے۔

مسلم معاشرے کو نئی زندگی پانے اور اپنی عقلی،روحانی اور فکری صلاحیتوں کی سنجیدگی سے اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔اسے ایک ایسے احیائے نو کی ضرورت ہے،جس میں ہر زمان و مکان کے ہر قسم کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان موجود ہو،اس کے دائرے میں زندگی کا ہر پہلو شامل ہو اور دین کی اصل روح کی حفاظت کی بھرپور کوشش کے ساتھ ساتھ نصوص میں پائی جانے والی لچک کی بقدر وسعت و عالمگیریت کا مظاہرہ کیا جائے۔

جب سے ہم اس مبارک نظام کے سائے تلے آئے ہیں(خدا اس سائے کو ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم رکھے!)اس نے کئی بار تجدید و اصلاح کا موقع فراہم کیا ہے۔ہم بارہا احیاء کی تحریکوں کو اٹھتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔اکثرمسالک فقہ اور قانون کے میدان میں تجدید کا مظاہرہ کرتے ہیں۔صوفیائے کرام کے سلاسل قلب و روح کے راستوں کو مزین کرنے کا اہم ذریعہ ہیں۔جب مکاتب و مدارس ہمارے زیرانتظام تھے تو وہ وجود اور کائنات کی مقصدیت کو اجاگر کرنے میں مشغول رہے۔دورحاضر میں جس تجدید و احیاء کی امید کی جا رہی ہے اسے معاشرے کے سارے عناصر کو یکجا کر کے حقیقت کا روپ دیا جا سکتا ہے،لیکن یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم ہر معاملے میں چھلکے سے مغز کی طرف اور ظاہرپرستی سے حقیقت اور روح کی طرف آئیں،لیکن یہ بات ایمان میں یقین،عمل میں اخلاص اور فکروشعور میں احسان پیداکرنے کی طرف متوجہ ہو کر ہی حاصل ہو سکتی ہے۔

عبادات میں مکمل کمیت کے ساتھ ساتھ کیفیت بھی ہدف ہونی چاہیے۔ دعاؤں میں الفاظ وسیلہ اور جذبہ اور سچائی اساس ہونی چاہیے۔معاملات میں سنت نبویہ راہنما ہونی چاہیے اور اثرپذیری لازمی ہونی چاہیے۔سب سے بڑھ کر ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہونی چاہیے۔ نماز صرف اٹھک بیٹھک کا نام ہے اور نہ ہی زکوٰۃ ذمہ داری کا بوجھ اتارنے کے لیے بے مقصد طور پر مال خرچ کرنے سے عبارت ہے۔اگر روزے میں صرف بھوک اور پیاس ہی ہو تو اس میں اور پرہیز میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟اگر حج صحیح منہج کے مطابق نہ ہو تواس میں اور زرِمبادلہ کمانے کا ذریعہ بننے والی سیاحت میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟اگر عبادات صرف کمیت تک محدود ہوں تو وہ بچوں کا کھیل بن جاتی ہیں اور اگر حج و عمرہ کی مشقت ‘‘حاجی’’کہلوانے کے لیے اٹھائی جائے تو ہم معانی و مقاصد کے دائرے کو تنگ کرنے کے مرتکب ہوں گے۔

سلبیات کی نذر ہو جانے والے اس ضعف و اضمحلال سے چھٹکارے کا راستہ اپنے خلا کو پر کرنا اور اس نفیرعام کا اعلان کرنا ہے،جو ہماری کمزوریوں کو دور کر کے ہمیں جسم اور بدن کی غلامی سے نجات دلا دے،جس کے نتیجے میں قلب و روح کو زندگی عطاکرنے والے ایسے روحانی طبیب تیار ہوں گے،جن کے دل روح اور حقائق سے لبریز ہوں گے اور وہ طبیعات سے مابعدالطبیعات تک، ریاضیات سے اخلاقیات تک،فنونِ لطیفہ سے تصوّف تک،کیمیاء سے روحانیت تک،فضائیات سے نفسیات تک، قانون سے فقہ تک اور سیاسیات سے سِیَرواخلاقیات تک علم و عرفان اور روحانی ورادات و فیوض کے تمام شعبوں کو اپنی جولان گاہ بنائے ہوئے ہوں گے۔اس قوم کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔اسے صرف اور صرف ایسی عقل و دانش کی ضرورت ہے۔جس طرح عقل اعصابی نظام کے ذریعے بدن کے دور اور نزدیک کے تمام حصوں سے رابطے میں رہتی ہے اور ان تک پیغام پہنچاتی اور ان کی طرف سے پیغامات وصول کرتی ہے،اسی طرح عقل و دانش سے بہرہ مند حضرات قوم کے تمام عناصر کے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں،معاشرے کی تمام اکائیوں تک رسائی حاصل کرکے اس کے تمام حیات بخش اجزاء کو اپنے دست تصرف میں لاتے ہیں اور ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے،حال کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہوئے اورمستقبل پر نظر رکھتے ہوئے ہر صنف کے لوگوں کے دلوں میں کوئی نہ کوئی بامقصد روحانی بات ڈال دیتے ہیں۔

اس گروہ کے دل میں سب کے لیے جگہ ہوتی ہے۔وہ جس طرح اسکولوں کے مؤدب اور نظم و ضبط کے پابند بچے کو سینے سے لگاتا ہے،اسی طرح گلیوں میں گھومنے پھرنے والے نظم و ضبط سے عاری بچوں کو بھی اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔ وہ ہر ایک کے سینے میں اپنی روح کے الہاموں کو ڈال کر انہیں معاشرے کے مفید افراد بنانے کے لیے مستقبل کے علوم و فنون سے آراستہ کرتا ہے اور طلبہ کی اقامت گاہوں،اسکولوں،یونیورسٹیوں،عبادت گاہوں اور خانقاہوں وغیرہ ایسی نورانی جگہوں میں ہر انسان کو زمانے کی آلودگیوں سے پاک کر کے انسانی کمالات کی معراج تک پہنچا دیتا ہے۔

یہ گروہ اخبارات،رسائل،ریڈیو،ٹیلی وژن اور مضبوط ذرائع ابلاغ کے وحشی پن کو ختم کر کے ایک طرف انہیں قوم و ملت کی آواز بنا دیتا ہے تو دوسری طرف ان کے ذریعے سیاہ جذبات اور تاریک افکار کو انسانیت کا راستہ دکھاتاہے۔

یہ گروہ بیرونی دباؤ اور اندرونی انحرافات کے دباؤ کے تحت ہر روز ایک نئی صورت اختیار کرتے ہوئے نظام تعلیم و تربیت کو بدیسی افکار کی بالادستی سے محفوظ رکھتا ہے اور اسے حال کے تقاضوں اور تاریخی پس منظر کے مطابق ڈھالتا ہے تاکہ وہ اپنے مستقل تشخص،مقصد اور طریقِ کار کا حامل ادارہ بن سکے۔

اس کے نتیجے میں امت شعوری اور فکری افلاس،ظاہرپرستی اور اندھی تقلید سے صحیح علمی فکر کی طرف،فن کے نام پر رذائل کے تزکیے سے حقیقی فن اور جمالیات کی طرف، بے مقصد اور نامعلوم عادتوں اور پابندیوں سے دین اور تاریخ سے حاصل ہونے والے شعور کی طرف اور ہمارے سینوں میں مچلتے مختلف افکار پر پڑے تالوں سے خدمت، اطاعت،شعور اور توکل کی وحدت کی طرف پیش رفت کرے گی۔

دنیا میں نئی تشکیلات کے غلغلے کو ایک طرف رکھ دیجیے۔ہم کہنہ سرمایہ دارانہ نظام کی دلکشی، سوشلزم کے سپنوں،اس کے اشتراکی اجزاء،کمینی معاشرتی جمہوریت اور لبرل ازم کے پرانے چیتھڑوں سے کسی نئی چیز کے وجود میں آنے پر یقین نہیں رکھتے۔ درحقیقت اگر کسی نئے عالمی نظام کے لیے کسی عالم کے دروازے کھلے ہیں تو وہ ہمارا عالم ہے اور آئندہ آنے والی نسل اس نظام کو اپنی نشاۃ ثانیہ کے دور کی حیثیت سے قبول کرے گی۔

اس نئی ولادت کے نتیجے میں ہمارے جذبات و افکار کے عالم اور ہمارے فنون و جمالیات کے مفاہیم کو ایسی گہرائی حاصل ہو گی جو موجودہ صورتحال سے بہت مختلف ہو گی،جس کی روشنی میں ہم اپنے انوکھے ذوق کو پالیں گے،اپنی موسیقی تک رسائی حاصل کر لیں گے،اپنی رومانویت کو دریافت کر لیں گے،ہماری قوم علم و فن اور فکر و اخلاق کے میدانوں میں ہر طرح سے محفوظ و مامون ہو جائے گی اور ہم اس کے مستقبل کو بھی محفوظ بنا سکیں گے۔

اس میدانِ جنگ میں ہمارا شعار دعوت اور پیش قدمی ہے اور ہماری طاقت کا سرچشمہ ایمان اور حق پرستی ہے۔ان لوگوں کو ہمیشہ ناکامی ہوئی،جو ایمان اور اخلاق سے چھٹکارے کے ذریعے بیماریوں سے شفایاب ہونے کی امید پر ہمیں دوسروں کے در پر لیے پھرتے رہے۔ہم نے عزت و شرف پا لیا ہے اور ہم ہمیشہ سے معزز رہے ہیں،کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے دلوں میں الفت پائی جاتی ہے۔ہمارا تعلق ایسی امت سے ہے،جسے ہم ہرقسم کی دنیوی چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں اور جس دھرتی کی آغوش میں ہم نے پرورش پائی ہے،ہمیں اس کی طرف انتساب سے عزت ملی ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ مجھے موجودہ صورت حال کی وضاحت کے لیے اس کے برعکس کوئی بات کہنے کی ضرورت ہے۔

ان شاء اللہ ہم آئندہ کسی مضمون میں نشاۃثانیہ کے موضوعات پر گفتگو کریں گے۔