علم حاصل کرو گود سے گور تک

تعارف

انسان کی زندگی کا سب سے اہم مقصد اور فرض سمجھ بوجھ حاصل کرنا ہے ۔ اس مقصد کے لئے ہم جو کوشش کرتے ہیں اسے تعلیم کہتے ہیں یہ تعلیم روحانی ، ذہنی اور جسمانی ہر طرح کی ہوتی ہے اور اس طرح ہم اشرف المخلوقات کے درجے تک پہنچتے ہیں پیدائش کے وقت جو کہ ہماری زندگی کے دنیاوی دور کا آغاز ہوتا ہے اور جس سے ہم عالم ارواح سے ابدی زندگی کے سفر کا آغاز کرتے ہیں ہم مکمل طور پر بے بس اور محتاج ہوتے ہیں جبکہ بہت سے جانور اس دنیا میں آتے ہی پہلے سے تیار یا مکمل ہوتے ہیں ۔ چند ہی گھنٹوں ، دنوں یا مہینوں میں یہ وہ سب کچھ سیکھ جاتے ہیں جو ان کی بقاءکے لئے ضروری ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اپنے ماحول اور دوسرے جانوروں کے ساتھ تعلق کو بھی سمجھ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک چڑیا یا شہد کی مکھی بیس دنوں کے اندر وہ تمام جسمانی اور سماجی مہارتیں سیکھ چکی ہوتی ہے جو اس کے لئے ضروری ہوتی ہیں ہمیں اس طرح کی پختگی حاصل کرنے میں 20برس لگتے ہیں ہم پیدائش کے وقت ہی سے مجبور ہوتے ہیں اور قوانین زندگی سے بھی بے خبر ہوتے ہیں مدد حاصل کرنے کے لئے روتے ہیں ۔ ایک برس کی عمر کو پہنچ کر ہم کھڑا ہونا اور پاﺅں پاﺅں چلنا سیکھتے ہیں ۔ جب ہم 15 برس کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہمیں اچھے اور برے میں فرق پتہ ہو اوریہ پتہ ہو کیا چیز فائدہ مند ہے اور کونسی نقصان دہ ۔البتہ ذہنی اور روحانی پختگی حاصل کرنے میں پوری زندگی گزر جاتی ہے ۔ زندگی میں ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی سوچ وفکر اور ایمان کے حوالے سے پختگی اور پاکیزگی حاصل کریں ۔ اور اپنے خالق ، اپنے رازق اور اپنی نگہبان ذات کے حقوق پورے کریں اپنی سوچ وفکر کو استعمال کرتے ہوئے تخلیق کے راز سمجھنے کی کوشش کریں ۔ اس طرح ہم حقیقی انسان کا مقام حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں اور ابدی زندگی میں رحمت خداوندی کے حقدار ٹھہرتے ہیں ۔

انسانیت کا براہ راست تعلق ہماری جذباتی پاکیزگی کےساتھ ہے ۔ بظاہر وہ لوگ بھی انسان دکھائی دیتے ہیں جن کی فکر پر اگندہ ہوتی ہے اور جو نفس پرستی کے زیر اثر ہوتے ہیں لیکن ان کے انسان ہونے میں شک ہوتا ہے اپنی جسمانی تربیت تقریباً ہر ا نسان کر سکتا ہے البتہ اپنے ذہن اور جذبات کی تربیت کوئی کوئی کر سکتا ہے ۔اول الذکر تربیت جسمانی مضبوطی دیتی ہے جبکہ ثانی الذکر روحانی شخصیات پیدا کرتی ہے

ہماری پیدائشی صلاحیتیں اور تعلیم :۔

ابن مسکاوة کے وقت سے انسانی صلاحیتوں کی درجہ بندی تین حصوں میں کی گئی ہے ۔ منطق ، غصہ اور ہوس منطق میں ہمارے سوچنے سمجھنے ، قوت ادراک ، یا د داشت ، آموزش اور اس قسم کی صلاحیتیں شامل ہیں ۔ غصے کا تعلق دفاع ذات سے ہے اور اس کے سہارے ہم اپنے ایمان اور مذہب ، املاک ، زندگی اور کنبے اور دیگر مقدس اقدار کا دفاع کرتے ہیں ۔ ہوس کا تعلق ہماری حیوانی خواہشات کے ساتھ ہے ۔

” لوگوں کے لئے مرغوبات نفس۔ عورتیں‘ اولاد‘ سونے چاندی کے ڈھیر‘ چیدہ گھوڑے‘ مویشی اور زرعی زمینیں۔ خوش آئند بنادی گئی ہیں“ (3:14)

یہ جذباتی محرکات دیگر مخلوق میں بھی پائے جاتے ہیں البتہ اپنے ان جذبات اور زندگی اور علاقے کے تحفظ کے حوالے سے تمام حیوانات کے ‘ماسوائے انسان کے یہ جذباتی محرکات محدود ہوتے ہیں ۔ ہم میں سے ہر انسان اپنی مرضی پر چلنے میں ا ور اپنی قوت کو منظم کرنے کا فرض ادا کرنے میں آزاد ہے ۔ تنظیم ذات کی کوشش ہی ہماری انسانیت کا تعین کرتی ہے ۔ ایک دوسرے کے ساتھ میل جول اور حالات کے ہاتھوں ہم اپنی ذہنی صلاحیتوں کا اظہار حسد ، نفرت ، دشمنی ، منافقت اورنمود ونمائش کے ذریعے کرتے ہیں ا ن پر بھی قابو پانے کی ضرورت ہے ۔

ہم محض ذہن اور بدن کا مجموعہ نہیں ہیں ۔ ہم سب کی ایک روح بھی ہے جو اطمینان مانگتی ہے ۔ اس کے بغیر ہم حقیقی خوشی اور قابلیت حاصل نہیں کر سکتے ۔ روحانی اطمینان صرف اللہ کی ذات کو سمجھ کراور اس پر ایمان کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ اگر ہم محض مادی دنیا میں گم ہو کر رہ جائیں تو پھر ہم خود کو اپنی ذات اور زمان ومکان کے زندان میں مبحوس سمجھیں گے ۔ اس زندان سے ہم ایمان اور عبادت کے ذریعے اور اپنی صلاحیتوں کے استعمال میں انتہا پسندی سے بچ کر ہی باہر آسکتے ہیں ۔ ہمیں اپنے جذباتی محرکات کو دبانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے بلکہ ان پر قابو پاتے ہوئے انہیں اچھائی اور نیکی کی سمت دینی چاہئے مثال کے طور پر ہم اپنی جنس ہوس کو ختم نہیں کر سکتے بلکہ ہمیں چاہئے کہ ہم جائز طور پر اس خواہش کی تسکین کرتے ہوئے نسل کشی کریں اطمینان اور خوشی حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنا نی جسمانی خواہش قانونی حدود کے دائرے میں رکھیں اور جنسی بے راہ روی سے گریز کریں ۔

اسی طرح حسد ورقابت کے جذبے کو درست سمت دیتے ہوئے ان لوگوں کی طرف دیکھیں جو نیکی اور بھلائی میں ہم سے آگے ہیں جب ہم استدلال اور منطق کی قوت کو درست سمت دیتے ہیں تو یہ ہمارے علم میں اضافے کا سبب بنتی ہے ۔ اور یقینا ہمارے شعور کو وسعت ملتی ہے ۔ غصے اور اشتعال کو پاک کرنے سے ہمارے اندر جرات اور برداشت پیدا ہوتی ہے ۔ اپنی خواہشات اور جذبات کو قابو میں رکھنے سے ہمارے اندر تقویٰ پیدا ہوتا ہے ۔ اگر ہم ہر نیکی کو ایک دائرے کا مرکز تصور کریں اور اس دائرے سے دوری کو گناہ سمجھیں تو پھر ہم اس دائرے کے مرکز سے جس قدر دور ہوں گے گناہ اتنا ہی بڑا ہوگا اس لئے ہر نیکی کے مقابل گناہوں کے لا متناہی نکات ہوتے ہیں اس بات سے قطع نظر کہ آپ کی دوری کی سمت کون سی ہے مرکز سے دوری ایک گناہ ہے ۔

ہر اخلاقی بھلائی کے ساتھ دو انتہائیں جڑی ہوتی ہیں ایک کا تعلق کمی اور دوسرے کا ز یادتی کے ساتھ ہے ۔ اسی طرح انسانی سمجھ بوجھ اور علم کے ساتھ بھی دو انتہائیں وابستہ ہیں یعنی حماقت اور چالاکی ، ہمت وجرا ت کے ساتھ بھی بزدلی اور بد تمیزی جڑی ہوئی ہیں ۔ اسی طرح جنسی حوالے سے بھی انسان بے رغبتی یا ہوس پرستی کا شکار ہوسکتا ہے اس لئے انسانی زندگی کا مقصد میانہ روی کو بر قرار رکھنا ہے اور اسی طرح ہر نیکی کے حوالے سے اعتدال کی راہ پر چلنا ہے ۔

علی ابن طالب سے روایت ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو دانائی دی ہے لیکن ان میں جنسی خواہش ، جذبات اور خواہشات نہیں ہیں اسی طرح حیوانات کو غصہ اور جذبات دیئے ہیں لیکن ان کی عقل خالی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ سب کچھ دیا اس لئے انسان اشرف المخلوقات ہے ۔ اگر انسان کی عقل اور سمجھ بوجھ اس کی خواہشات اور غصے پر حاوی ہوجاتی ہے تو وہ فرشتوں سے بھی بلندتر ہوجاتا ہے کیونکہ انسان یہ مقام ان رکاوٹوں کی موجودگی میں حاصل کرتا ہے جو کسی فرشتے کے راہ میں مزاحم نہیں ہیں ۔

کسی قوم کی نوجوان نسل کو انسانیت کے اصل مقام پر پہنچا کر ہی اس قوم کی حالت سنواری جاسکتی ہے جب تک مذہب روایات اور تاریخی شعور کا بیج پورے ملک میں نہیں بویا جاتا ، نت نئی برائیاں ظاہر ہوتی رہیں گی اور جن برائیوں کی بیخ کنی کی گئی ہے وہ نمو دار ہوں گی ۔

تعلیم کی قدر وقیمت اور حقیقی مفہوم :۔

آموزش اور بہتر طرز زندگی کے ذریعے حصول علم کے فرض کی ادائیگی در اصل صفت ربانی ” رب “ ( پالنے والا ) کو ظاہر کرتی ہے ۔ اس فرض کی ادائیگی کے ذریعے ہم انسانیت کے حقیقی مقام تک پہنچتے ہیں اور معاشرے کے لئے سود مند بنتے ہیں ۔علم معاشرے اور فرد دونوں کے لئے اہم اور لازمی ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انسانیت ہمارے جذبات کی پاکیزگی کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتی ہے ۔ وہ لوگ جن کا دل منفی جذبات کی آماجگاہ بن چکا ہوتا ہے اور جو نفس پرستی کے زیر اثر ہوتے ہیں بظاہر وہ بھی انسان دکھتے ہیں ۔ جبکہ ان کے انسان ہونے میں شک ہوتا ہے ۔ جہاں تک جسمانی تربیت کا سوال ہے ہر انسان یہ کامیابی سے حاصل کر سکتا ہے لیکن اپنے ذہن اور جذبات کی اصلاح کرنا کسی کسی کا کام ہے اور دوسری بات یہ کہ کسی معاشرے کی اصلاح صرف اسی وقت ممکن ہے جب آنے والی نسلوں کو انسانیت کے حقیقی مقام پر پہنچایا جائے ۔ اور جب تک کسی ملک میں مذہب ، روایتی اقدار اور تاریخی شعور کی تخم ریزی نہیں کی جاتی ، ختم کی گئی برائیوں کی جگہ نئی برائیاں ظہور پذیر ہونے لگتی ہیں ۔

کسی قوم کے مستقبل کا دار و مدار اس کی جوان نسلی پر ہے ۔ جو بھی لوگ اپنے مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں انہیں اپنے بچوں کی اصلاح پر اتنی ہی توجہ دینا ہوگی جتنا کہ دیگر معاملات پر دیتے ہیں جو بھی قوم اپنی نوجوان نسل کو بنانے میں ناکام رہتی ہے اور جو اسے غیروں کی ثقافت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتی ہے ان کی شناخت کو خطرے میں ڈال کر ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے کمزور کردیتی ہے ۔ آجکل کی نسل میں پائی جانے والی برائیوں اور اس کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی نا اہلی اور قومی سطح کے مسائل کی وجہ موجودہ حالات اور 25 برس پرانی مقتدر راشرافیہ ہے ۔اسی طرح جن لوگوں کے کاندھوں پر موجودہ نسل کو تعلیم دینے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یہی لوگ ان خرابیوں کے ذمہ دار ہوں گے جو آئندہ 25 برس بعد رونما ہوں گی وہ لوگ جو کسی نسل کے مستقبل کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں ۔ بڑے درست اندازمیں اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں اس کے لئے انہیں موجودہ نسل کی تعلیم اور نشوونما کو بغور دیکھنا ہوگا ۔ حقیقی زندگی صرف علم ہی سے وابستہ ہے اسی لئے وہ لوگ جو تعلیم وتربیت اور درس وتدریس کو نظر انداز کرتے ہیں مردہ ہیں خواہ کیوں نہ وہ بظاہر زندہ دکھائی دیتے ہوں کیونکہ بنی نوع انسان کی تخلیق علم حاصل کرنے اور باہمی گفت وشنید کے لئے ہی کی گئی ہے درست فیصلے کا انحصار مضبوط ذہن اور مضبوط فکر پر ہے سائنس اور علم ذہن کو جلا بخشتے ہیں اور اسے قوی بناتے ہیں اسی لئے سائنس اور علم سے محروم ذہن درست فیصلے کی قوت سے محروم ہوتا ہے اور فریب خوردگی اور گمراہی کا شکار ہوسکتا ہے ہم صرف اسی صورت میں انسان ہیں جب ہم علم حاصل کریں ، دوسروں کو سکھا سکیں اور دوسروں کو اس جانب راغب کر سکیں وہ لوگ جو جاہل ہوں اور جن میں سیکھنے سکھانے کی خواہش موجود نہ ہو انسان کہلائے جانے کے قابل نہیں ۔ اور اسی طرح وہ صاحب علم جو دوسروں کے سامنے مثالی بننے کے لئے اپنی اصلاح نہیں کرتے ان کا انسان ہونا بھی مشکوک ہے ۔ سائنس اور علم کے ذریعے حاصل کردہ مقام دیگر ذرائع سے حاصل کردہ مرتبے اور مقام سے زیادہ پائیدار ہے ۔

تعلیم وتدریس کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں اس بات کاتعین کرنا چاہئے کہ کیا سیکھنا اور سکھانا ہے اور یہ کب اور کس طرح کرنا ہے اگرچہ کہ علم کی اپنی جگہ اہمیت مسلم ہے لیکن علم کا حقیقی مقصد زندگی کی رہنمائی اور بہتر زندگی کی جانب جانے والی شاہراہ کو روشن کرنا ہے اس لئے جو بھی تعلیم اصلاح ذات کے لئے نہ ہو سیکھنے والے کے لئے محض ایک بوجھ ہے اور سائنس جو انسان کو حقیقی مقصد کی جانب نہ لے جائے محض ایک فریب ہے ۔

حقیقی مقصد کے لئے حاصل کیاگیا علم طالب علم کے لئے رحمت وبرکت کا ابدی ذریعہ ہے وہ لوگ جن کے پاس علم کا خزانہ موجود ہو لوگ ان کی قدر کرتے ہیں اور ان کی قربت چاہتے ہیں جس طرح لوگ تازہ پانی کے چشمے کی قدر کرتے ہیں ۔ وہ علم جو محض خالی خولی نظریات اور غیر جاذب معلومات پر مشتمل ہو دلوں کو تاریک کرتا ہے اور دلوں میں شکوک اور وسوسے پیدا کرتا ہے ۔ اور اس کی حیثیت گندگی کے ڈھیر کی سی ہے ایک ایسا ڈھیرجس کے گردبھٹکی ہوئی بے چین روحیں منڈلا رہی ہوں اس لئے سائنس کا مقصد انسانی فطرت اور تخلیق کے رازوں سے پردہ اٹھا نا ہونا چاہئے ۔ اسی لئے کوئی بھی علم حتیٰ کہ سائنس بھی اس صورت میں حقیقی علم ہے جب یہ انسانی فطرت کے رازوں اور وجودیت کے تاریک پہلوﺅں پر روشنی ڈالے ۔

ہر انسان کا مستقبل بچپن اور جوانی کے اثرات اور تجربات سے گہرا تعلق رکھتا ہے اگر بچوں اور جوانوں کی تربیت ایسے ماحول میں کی جائے جہاں ان کا جوش وجذبہ مثبت جذبات کے ذریعے پروان چڑھایا جائے تو ان کا ذہن توانا ہوگا اور وہ اچھی عادات اور اطوار کا مظاہرہ کرینگے ۔

اگرچہ کہ یہ بات بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ لڑکیوں کی تربیت اسی طرح کی جائے کہ وہ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے پھولوں کی طرح نرم ونازک اور محبت کرنے والی استاد ہوں لیکن سچائی کی بھی مضبوط محافظ ہوں ۔ ورنہ ہم انہیں نرمی اور لچک پیدا کرنے کی کوشش میں بے ہمت اور بزدل بنادیں گے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ شیرنی مادہ ہونے کے باوجود شیرنی ہی ہوتی ہے ۔

کنبہ مدرسہ اور ماحول :۔

وہ لوگ جو اپنے مستقبل کی ضمانت چاہتے ہیں اپنے بچوں کی تعلیم سے لا تعلق نہیں رہ سکتے کنبے ، سکول ، ماحول اور ابلاغ عامہ کو خاطر خواہ نتائج کے حصول کو ممکن بنانے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے ۔ ان انتہائی اہم اداروں میں مخالف رجحانات بچوں میں متضاد رجحانات کو جنم دیں گے جس کی بناءپر ان کی توجہ بٹ جائے گی اور وہ اپنی توانائیاں کھو بیٹھیں گے ۔ خاص طور پر ابلاغ عامہ کو کمیونٹی کی طرف سے منظور شدہ تعلیمی پالیسی کی پیروی کرتے ہوئے نوجوانوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ نصاب ، اخلاقی اور سائنس کے حوالے سے اساتذہ کے معیار اور اپنی حالت کے حوالے سے اسکول ایک مکمل سکول ہونا چاہئے کنبے کو وہ گرمجوشی اور معیاری ماحول فراہم کرنا چاہئے جو بچے کی پرورش اور نگہداشت کے لئے ضروری ہے ۔اسلام کی ابتدائی صدیوں میں لوگوں کے ذہن قلب اور روجیں رضائے الٰہی کو سمجھنے کی جستجو میں تھیں ہر مجلس ، مذاکرے ، خط وکتابت اور واقع کا مدعا ومقصد اسی چیز کا حصول تھا اور نتیجتاً جو بھی یہ سمجھنے میں کامیاب ہوجاتا وہ گردو بیش کی اچھی اقدار اور نیک جذبے کو اپنے اندر سمو لیتا ہر شے فرد کی ذہنی اور روحانی تربیت کرنے والی استاد تھی اور اسلامی سائنس کی بلندی تک پہنچنے میں اس کی صلاحیتوں میں اضافے کا موجب تھی ۔ وہ پہلا مدرسہ جہاں ہمیں سب سے اہم اور ضروری تعلیم ملتی ہے اور جسے بہترین ہونا چاہئے وہ گھر ہے ایک اچھی نسل اور صحتمند سماجی نظام یا ڈھانچے کی تعمیر میں گھر سب سے اہم مقام ہے تمام زندگی یہ ذمہ داری گھر کے ذمے ہوتی ہے ۔ گھر کے جو اثرات ہم پر مرتب ہوتے ہیں ہم انہیں آئندہ کی زندگی میں مٹا نہیں سکتے کھلونوں اور دوسری چیزوں کے حوالے سے گھر میںملنے والی تربیت اور کنٹرول آئندہ سکول کی زندگی میں بھی ہم پر اثر انداز ہوتا ہے مثلاً سکول میں دوست بنانے، کتابوں کے انتخاب اور سیر وتفریح کی جگہوں کے انتخاب کے حوالے سے اس کے اثرات ہم پر رہتے ہیں ۔ والدین کو چاہئے کہ بچے کا ذہن علم اور سائنسی معلومات سے بھر دیں اس سے پہلے کہ ان کا ذہن خرافات اور فضولیات سے اٹ جائے کیونکہ سچائی کی روشنی سے محروم روحیں اس کھیتی کی مانند ہیں جہاں شیطانی سوچ کی فصل بوئی اور کاٹی جاتی ہے ۔

گھر پر بچے اچھی تعلیم صحتمند خاندانی ماحول کی موجودگی میں ہی حاصل کر سکتے ہیں ۔ اس لئے شادی کا مطمع نظر ایک صحتمند خانگی زندگی کا قیام ہونا چاہئے تاکہ بالخصوص قوم کو اور بالعموم بنی نوح انسان کو فائدہ پہنچے ۔ میاں بیوی کے مابین خیالات ، اخلاقیات اور عقائد میں پائی جانے والی ہم آہنگی در اصل گھریلو سکھ چین مسرت اور تحفظ کی ضمانت ہوتی ہے وہ جوڑے جو رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا چاہتے ہیں انہیں ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھنا چاہئے اور دولت اور جسمانی مسرتوں کو ترجیح دینے کی بجائے جذبات کی پاکیزگی ، شرم وحیاءاور اخلاقی اقدار کو سامنے رکھنا چاہئے ۔ بچوں کی شرارت اور بد تمیزی سے در اصل اس ماحول کا پتہ چلتا ہے جس میں بچہ پروان چڑھا ۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار خانگی زندگی بچے کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتی ہے اور نتیجتاً اس کا اثر معاشرے پر پڑتا ہے ۔

بڑوں کو چاہئے کہ گھر میں بچوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آئیں اور چھوٹوں کو چاہئے کہ وہ بڑوں کی عزت کریں ۔ والدین کو چاہئے کہ وہ بھی ایک دوسرے کا احترام کریں ۔ بچوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کے ساتھ پیش آئیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھیں انہیں ہر بچے کے ساتھ مساوی برتاﺅ کرنا چاہئے اور ان کے درمیان فرق نہیں رکھنا چاہئے ۔ اگر والدین بچوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور انہیں بہتر بنانے میں بچوں کی مدد کریں اور انہیں اپنے لئے اور معاشرے کے لئے کار آمد بنائیں تو یہ قوم کے لئے ایک مضبوط ستون تعمیر کرنے کے برابر ہے ۔ اگر وہ بچوں میں موزوں جذبات کی تعمیر نہیں کرتے تو پھر وہ معاشرے کو زہریلے بچھو دے رہے ہیں ۔

اچھی عادات واطوار ایک ایسی خوبی ہے کہ جس میں بھی یہ موجود ہو اس کی تعریف وتوصیف کی جاتی ہے ۔ اچھی عادات واطوار کے حامل لوگ غیر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی پسند کئے جاتے ہیں تہذیب اور تعلیم سے عاری کمیونٹیز گنوار افراد کی مانند ہوتی ہیں کیونکہ ان کی دوستی مروت سے خالی اور دشمنی توازن سے خالی ہوتی ہے وہ لوگ جو ایسے لوگوں پر اعتبار کرتے ہیں ہمیشہ مایوس ہوتے ہیں اور وہ لوگ جو ان پر انحصار کرتے ہیں جلد یابدیربے یارومدد گار رہ جاتے ہیں ۔

مدرسہ اور استاد :۔

مدرسہ کو ایک ایسی تجربہ گاہ سمجھا جاسکتا ہے جہاں عوارض زیست کی روک تھام یا ان کا علاج اور تر یاق تیار کیا جاتا ہو وہ لوگ جو اس تریاق کی تیاری اور اس کا انتظام کرتے ہیں اساتذہ کہلاتے ہیں ۔

مدرسہ وہ جگہ جہاں ہر چیز سکھائی جاتی ہے خواہ اس کا تعلق دنیاوی زندگی کے ساتھ ہو خواہ آخرت کی زندگی کے ساتھ ۔ یہاں انتہائی اہم تصورات اور واقعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے اورمدرسہ طلباءکو اس قابل بناتا ہے کہ وہ فطری اور انسانی اصولوں کو سمجھ سکیں ۔ یہ وہ راہ دکھاتا ہے جس پر چل کر موجودات اور واقعات سے پردہ اٹھنے لگتا ہے اور طالب علم کی سوچ اور فکر میں پختگی پیدا ہوتی ہے خلاصہ یہ ہے کہ مدرسہ وہ عبادت گاہ ہے جہاں اساتذہ متبرک اور پاکیزہ ہستی کا مقام رکھتے ہیں ۔

حقیقی استاد وہ ہوتے ہیں جو خالص بیج بوتے ہیں اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔ وہ خود کو ایک نیک کام کے لئے وقف کرتے ہیں اور بچوں کی زندگی اور دنیاوی معاملات میں رہنمائی کرتے ہیں ۔مدرسہ کیوں کہ حقیقی تعلیمی ادارہ ہوتا ہے اس لئے یہاں بچوں کو مثالی تصورات سے لیس کرتے ہوئے ان کے دل میں زبان کی محبت اور اس کے موثر استعمال کی تربیت دی جانی چاہئے اور انہیں اعلیٰ اخلاقیات اور انسانی اقدار کی تربیت بھی دی جانی چاہئے ان کی سماجی شناخت انہی بنیادوں پر قائم کی جانی چاہئے ۔

تعلیم تدریس سے مختلف ہے پڑھا بہت سے لوگ سکتے ہیں لیکن تعلیم بہت کم لوگ دے سکتے ہیں ۔ ایسی کمیونٹیز جو اعلیٰ تصورات ،اخلاقیات اور انسانیت سے خالی اقدار پرقائم ہوں اجڈ اور گنوار افراد کی مانند ہیں اور جو لوگ ایسے لوگوں پر بھروسہ کرتے ہیں ہمیشہ مایوس ہوتے ہیں اور جو لوگ ایسے لوگوں پر انحصار کرتے ہیں بے یار ومدد گار رہ جاتے ہیں ۔ لوگوں کو ان اقدار سے لیس کرنے کا ایک بہترین ذریعہ مذہبی تعلیم ہے

کسی کمیونٹی کی بقاءاصول پرستی اور اخلاقی صفات کی پاسداری کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں لازمی حد تک رسائی پر منحصرہے اس لئے بچوں کو ابتداہ ہی سے فنی اورتجارتی تعلیم دی جانی چاہئے ۔ اسکول محض ایک ایسی عمارت کا نام نہیں جہاں محض علمی ونظری معلومات دی جائے ۔بلکہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں بچوں کو زندگی کے لئے تیار کیاجاتا ہو ۔

تعلیم میں صبر واستقامت کی بہت اہمیت ہے لوگوں کو تعلیم دینا بہت مقدس کام ہے لیکن زندگی کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے ۔ خود کو ایک مثالی نمونہ بنانے کے ساتھ ساتھ ایک استاد کو یہ بھی چاہئے کہ وہ مطلوبہ نتائج کے حصول کا انتظارصبر واستقامت کے ساتھ کرے ۔ وہ اپنے طلباءکو اچھی طرح سمجھتا ہو اور اس کا پیغام طلباءکے ذہن ، ان کے دل اور ان کی روح میں اترنا چاہئے لوگوں کو تعلیم دینے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان پر فرداً فرداً توجہ دی جائے اور یہ نہ بھولا جائے کہ ہر فرد ایک الگ دنیا کی مانند ہے۔

مدرسہ بچوں کو پڑھنے کے مواقع ہمہ وقت فراہم کرتا ہے اور اس وقت بھی طلباءسے ہم کلام ہوتا ہے جب یہ بظاہر خاموش ہو ، یہی وجہ ہے کہ مدرسہ بظاہر زندگی کے ایک دور سے تعلق رکھتا ہے لیکن زندگی کے ہر دور اور ہر واقع پر اس کا اثر غالب ہوتا ہے اپنی آئندہ کی زندگی میں طالب علم اس علم کو بروئے کار لاتے ہیں جو انہوں نے مدرسے میں حاصل کیا ہوتا ہے اور ہمیشہ اس کے زیر اثر رہتے ہیں ۔ استاد کو طالب علم کے دل تک پہنچنے کا راستہ تلاش کرنے کا طریقہ معلوم ہونا چاہئے اور اس کے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑنے چاہئیں ۔ جو علم وہ طلباءتک پہنچانا چاہتے ہیں اس سے اپنے ذہن وقلب کی تخلیص کرنی چاہئے

اچھا سبق وہ ہوتا ہے جو طلباءکو محض معلومات پہنچانے کی بجائے ان کی ذہنی سطح کو اس حد تک بلند کردے کہ وہ ان باتوں کو بھی سمجھنے لگیں جنہیں وہ پہلے نہیں جانتے تھے وہ حقائق کی گہرائی میں جھانک سکیں اور مظاہر کو ان جانی دنیا کی علامت کے طور پر دیکھیں ۔