عفو و درگزر

انسان ایک ایسی مخلوق ہے جسے مثالی خوبیوں اور خامیوں سے نوازا گیا ہے۔ انسان کے پیدا ہونے تک کسی مخلوق میں اس طرح کی متضاد صفات نہ تھیں۔ جب انسان جنت میں اپنے پر پھیلا رہا ہوتاہے اسی وقت وہ ایسا خبطی بھی بن جاتا ہے کہ دوزخ کی کھائیوں میں گرسکتا ہے۔ ان محاسن اور مقابح میں کوئی تعلق ڈھونڈنا بے کار ہے۔ یہ دو کنارے ہیں اسلئے کہ ان کا علت اور معلول دو مختلف جگہوں پر ظاہر ہو تا ہے۔

بارہا ایسا ہوتا ہے کہ انسان گندم کے کھیت کی طرح لہلہا رہا ہوتا ہے جبکہ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ باوجود یکہ وہ ایک چنار درخت کی طرح باوقار نظر آرہا ہوتا ہے وہ گر کر کبھی نہ اٹھ سکنے والابھی ہوجاتا ہے۔ ایسے بھی مواقع کم نہیں ہوتے جب وہ رشک ملائک ہوں اور ایسے بھی بہت مواقع ہیں جب ابلیس بھی ان سے شرما جائے۔

انسانوں کیلئے جن کی طبیعت میں بہت سے نشیب و فراز ہیں گرچہ انکی سرشت میں برائی کرنا نہ بھی ہو تب بھی اس سے بچنا ممکن نہیں اگرچہ برائی کرنا حادثاتی ہی کیوں نہ ہو لیکن ایسا ہوسکتا ہے۔ ایسی مخلوق کےلئےجو اپنی نیک نامی کو خراب کرنے والی ہو معاف کردینا بہت ضروری ہے۔

یہ کتنا اہم ہے کہ معافی مانگنا اور معافی کی توقع کرن اور جو چیزیں ہم سب سے رہ جایئں ان پر افسوس کرنا اور معاف کردینا اتنی ہی بڑی صفت اور اچھائی ہے۔ یہ سوچنا کتنا غلط ہے کہ معافی نیکی سے جدا ہے یا نیکی اور معافی الگ الگ چیزیں ہیں۔ جیسا کہ مشہور کہاوت ہے" خطا انسان کا شیوہ ہے اور معاف کرنا خدائی شیوہ ہے"۔ اور کسی نے کیا خوب کہا ہے؛ معاف کردیئے جانے کا مطلب ہے تلافی ہو گئی ہے۔ اسکا مطلب ہے ہم نے اپنی اصلیت اور اپنے آپ کو پالیا ہے۔ اسلئے رحیم ذات کی نگاہوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ کام وہ عمل ہے جو اس کی طرف رجوع اور جستجو کی دھڑکن کے بیچوں بیچ کیا جائے۔

تمام مخلوقات چاہئے وہ جاندار ہوں یا بے جان نے عفو و درگزر انسانوں سے ہی سیکھا ہے۔ جیسا کہ خدا نے اپنی معاف کردینے والی صفت بندوں کے ذریعے سکھائی ہے اسی طرح اس نے انسانون کے دلوں میں معاف کر دینے کی صفت بھی رکھی ہے۔ جب سب سے پہلے شر کو اپنی اصلیت کی وجہ سے ندامت اٹھانا پڑی جو کہ انسانی فطرت کا لازمی نتیجہ ہے تو آسمانوں سے اس کیلئے معافی نامہ بھی آیا اس لئے کہ اس نے دل سے اپنی غلطی کو تسلیم کیا تھا اور مخلصانہ دعایئں کی تھی۔

انسانوں نے امید اور اشک شوئی جیسےتحائف کو جو کہ انہوں نے صدیوں پر محیط اپنے آباء و اجداد سے حاصل کیا محفوظ رکھا ہوا ہے ۔ جب بھی انسان سےاپنے کاموں کی وجہ سے غلطی سرزد ہوتی ہے وہ معافی مانگنے کی طلمساتی گاڑی میں بیٹھنے کے بعد اور اپنے گناہوں کی وجہ سے جو شرمندگی اور خجالت اٹھانا پڑتی ہے اسکی رفعت کی وجہ سے وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ دائمی رحمت اور ایسی سخاوت عطا ہوتی ہے ۔ جسمیں انکو دوسروں کے عیوب سے صرف نظر کرنے میں آسانی ہے۔

معافی کی امید کےطفیل انسان سیاہ بادلوں سے جو کہ اسکے آفاق کیلئے خطرہ ہو سکتا ہے بالا جا سکتا ہے اور اس قابل ہو جاتا ہے کہ اپنی زندگی میں روشنی دیکھ سکے۔ وہ نیک بخت لوگ جو معافی کے پر اٹھانا جانتے ہیں وہ اپنی زندگی ان نغمات میں گزار دیتے ہیں جو ان کی ارواح کو خوش کر دے۔

وہ لوگ جنہوں نے معافی مانگنے کیلئے اپنے قلوب وقف کر دیے ہوں ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ دوسروں کو معاف کرنے کا نہ سوچیں۔انہیں جیسا معاف کیا جانا اچھا لگتا ہے ایسےہی معاف کرنا بھی ان کو پسند ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی معاف نہ کرے جبکہ اسےپتہ ہو کہ گناہوں کے سبب اندر میں لگی آگ سے چھٹکارے کا یہی طریقہ ہے کہ وہ دریائے معافی سے گہرا پانی پی لیں۔

جو لوگ معاف کرتے ہیں ان کو معاف کئے جانے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ جسے درگزر کرنا نہیں آتا اسے درگزر کئے جانے کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ جو انسانیت کیلئے برداشت کے دروازے بند کر دیتے ہیں وہ ایسے عفریت ہیں جو اپنی انسانیت گم کر بیٹھے ہیں۔ یہ ظالم جن کو کبھی بھی اپنے گناہوں کے سبب کچھ کرنے کی نہ سوجھی وہ کبھی معافی کی انتہا کو نہیں پا سکتے۔

حضرت عیسی نے ایک مرتبہ ایک مجمعے سے جو ہاتھوں میں پتھر لئے ایک گناہگار کو مارنے لگا تھا یوں خطاب کیا۔ "اگر تم میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو تو آگے بڑھے اور اسے پتھر مارنا شروع کرے"[1]۔ کیا اپنے من میں گناہوں کا احساس رکھنے والا اگر اس نظریہ کو صحیح سمجھ لے تو کبھی تصور کر سکتا ہے کہ دوسرے گناہ گار کو اس طرح پتھر مارے۔کاش آج کے وہ بد قسمت لوگ جو ا پنی زندگیوں کو دوسروں کی زندگیوں کے امتحان لینے میں گزار دیتے ہیں اس بات کو سمجھ سکیں! اصل میں دوسروں پر سنگ باری ہماری نفرت اور بد نیتی کا نتیجہ ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو ہم نے ان کے خلاف ایسا فیصلہ کیوں دیا پھر ایسا ممکن نہیں کہ ایسی سزا ان پر لاگو کی جائے۔ سچ یہ ہے کہ جب تک ہم اپنی انا کے بت اسی حوصلے کے ساتھ نہیں توڑیں گے جس حوصلے کےساتھ ابراہیم نے توڑے تھے تو ہم نہ تو اپنے متعلق نہ دوسروں کے متعلق صحیح فیصلہ کرنے کے قابل ہوں گے۔

عفو و درگزر انسانوں سے ہی شروع ہوتی ہے اور انہی کے ساتھ اپنی عروج پر پہنچتی ہے۔ اس حوالے سے ہم انتہا درجے کی عفو و درگزر اور بے خطائی تحمل ان لوگوں میں دیکھ سکتے ہیں جو انسانیت کیلئے ایک مثال ہیں۔بد نیتی اور نفرت دوزخ کے ایسے بیج ہیں جو انسانوں کے درمیان شیطانی نفوس نے پھیلائے ہیں ان لوگوں سے ہٹ کر جو بد نیتی اور نفرت کو ہوا دیکرزمین کو دوزخ نما بنا رہے ہیں ہمیں عفو کو ساتھ لیکر ان لوگوں کے چھٹکارے کیلئے کام کرنا چاہیئے جو بے شمار مشکلات کا شکار ہیں اور جومسلسل کھائی کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں۔ پچھلی چند صدیاں ان لوگون کی زیادتیوں کی وجہ سے جو عفو و درگزر اور تحمل کو نہیں سمجھتے انتہائی ناخوشگوار اور غلاظت بن کر گزری ہے۔ یہ تصور کرکے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ یہی نا عاقبت اندیش لوگ ہمارےمستقبل کے حکمراں بن سکتے ہیں۔

اس وجہ سے ہم اپنے اولادوں اور نسلوں کو جو سب سے بڑا تحفہ دے سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ ہم انہیں سکھائیں کہ معاف کرنا کیا ہو تا ہے اس حالت میں بھی معاف کرن سیکھیں جب دوسروں کے بد ترین سلوک اور الجھن میں ڈال دینے والے حالات کا سامنا کرنا پڑے۔ البتہ معاف کرنے والے نظریے سے، وہ طاغوتی لوگ جو دوسروں کو تنگ کر کے خوش ہوتے ہیں کبھی اتفاق نہ کریں گے۔ ایسے لوگوں کو کبھی معاف نہ کرنا چاہئے۔ ان کو معاف کرنا انسانیت کےساتھ زیادتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ ایسی چیز کو جو عفو و درگزر کے خلاف ہو کو کوئی بھی صحیح اور قابل قبول سمجھے گا۔

ایسی نسل جس نے ایسے ماضی مین آنکھیں کھولی ہیں جہاں مسلسل دباؤ اور پیہم خوف اور وہ بربریت کے سیاہ اندھیروں میں دھکیل دیئے گئے ہیں، جنہوں نے نہ صرف رات کے اندھیروں میں بلکہ دن کےاجالوں میں بھی کشت و خون کا گرم بازار دیکھا ہے۔ اس معاشرے سے کیا سیکھا جا سکتا ہے جس کی ہر آواز، سانس، خیال اور تبسم میں خون نے رنگ بھرا ہوا؟ اس نسل کو جو چیزیں دی گئی ہیں وہ اس سے بالکل برعکس اور الٹ ہیں جو انکو ملنی چاہئے یا جن کی ان کو تمنا تھی۔ اس نسل کی یہ عادت ثانیہ بن چکی ہے جو سالہاسال کی لاپرواہی اور غیر صائب تجاویز کے نتیجے میں ہوا یہ خرابی اور سرکشی آج سیلاب بن چکا ہے۔اے کاش وہ بصیرت کہاں ہے کہ آج بھی ہم ان کو صحیح طرح سمجھ سکیں!

ہمارا ایمان ہے کہ عفو و درگزر اور تحمل ہمارے بہت سارے زخموں کو مندمل کردے گا لیکن شرط یہ ہے کہ الہی آلہ ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو صرف اسی کی زبان سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو رویوں کے غلط نظریات سے جو ابھی تک استعمال ہوتے ہوئے آئے ہیں بہت سارے مسائل جنم لیں گے اور ہمیں مزید تذبذب کا شکار بنایئں گے۔

مرض کی تشخیص کر و، پھراس کا علاج کرو

کیا ہر مرہم، ہر زخم کا علاج ہوا کرتی ہے؟ ضیا پاشا[2]

برداشت اور فراخدلی[3]

ساگر کی وسعت سا وسیع ہو جاؤ اور ہر نفس کو اپنی آغوش میں لے لو! تمہارا ایمان تمہیں خبردار رکھے۔ انسانوں کیلئے کبھی نہ ختم ہونے والی محبت کو پروان چڑھاؤ! اور کسی شکستہ دل کو نہ بھلاؤ اور نہ اس سے لاتعلقی رکھو!

انکی بھلائی کیلئے اچھائی کا پسندیدگی سے اظہار کرو۔ ایمان والوں کی قدردانی کرو اور ان کے ساتھ نرمی والا معاملہ کرو۔ غیر مومنوں سے اس نرمی سے ملو کہ انکی نفرت اور دشمنی پگھل جایئں ایک مسیحا کی طرح لوگوں کو اپنی پھونک سے نئی زندگی عطا کرو۔

یاد رکھو کہ تم بہتریں راستے پر ہو اور اس پیغمبر کے متبع ہو جو ہدایت کا نور تھے۔ یاد رہے کہ تمہارے پاس انکی رہنمائی بہت ہی مکمل اور واضح وحی کی شکل میں موجود ہیں۔ اپنے فیصلوں میں توازن اورصاف ذہن رکھو اسلئے کہ بہت سارے لوگ اس رحمت سے محروم ہیں۔

برائی کو اچھائی سے مٹاؤ اور ترش روی کو بھول جاؤ۔ کسی انسان کا رویہ اسکے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ تحمل کا پرچار کرو ان لوگوں کے ساتھ بلند ہمت بنو جو زیادہ نہیں جانتے۔ ایمان سے بھرپور نفس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہےکہ مکمل طور پر ایسی محبت کی جائے جسکا اظہار اعمال سے بھی ہو اور ان چیزوں سے نفرت ہو جن کے متعلق نفرت بتائی گئی ہے۔ دیکھو کہ تمہارے ساتھ خدا کا کیا معاملہ ہے، اس کو پیمانہ بنا کر دوسروں کے ساتھ معاملہ کرنا سیکھو تا کہ آپ دوسروں میں حق کا پرچار کر سکو اور دونوں عالم کی دہشت اور تنہائی سے بچ سکو۔

صرف وہی لوگ جو عقل استعمال نہیں کرتے یا جو محض حماقت اور جسمانی لذتوں کے غلام ہیں وہی ایسی بات کرتے ہیں کہ مسلمان انکو نقسان پہنچا دیں گے۔ تم کسی روحانی مربی سے رابطہ کرو تاکہ وہ تمہارا دل چالو کردے اور تمہاری آنکھوں کو آنسوؤں سے بھر دے۔خدا کی نظروں میں وقعت کا اندازہ اس سے لگاؤ کہ تمہارے دل میں خدا جکی کتنی جگہ ہے اور لوگوں کی نظروں میں اپنی قدر و منزلت کا اندازہ اس سے لگاؤ کہ تم انکے ساتھ کیسا معاملہ کرتے ہو۔ سچ کو ایک لمحے کیلئے بھی نہ چھوڑو اور پھر بھی "دوسرے انسانوں کے ساتھ انسان بن کر رہو"۔

ایسے رویے کا جو تمہیں دوسروں سے پیار کرنا سکھائے خاص خیال رکھو اور ان پر دھیان دو اور پھر اپنے آپ کو باور کراؤ کہ اس انداز سے رویہ اپنانے میں وہ بھی تم سے محبت کریں گے۔ ہمیشہ اچھے رویے اپناؤ اور خبردار رہو۔ اپنے نفس کو کبھی بھی اپنا منصف نہ بناؤ اسلئے کہ یہ تمہارے سوا سب کو گنہگار اور بد قسمت دکھلائے گا۔ اور پیغمبر خدا ﷺ مخبر صادق کے قول کے مطابق یہ وہ کیفیت ہے جو تمہاری ہلاکت کا سبب ہوگی۔ اپنے نفس کے ساتھ سختی اور سنگدلی سے پیش آؤ اور دوسرے کے ساتھ ترس والا اور نرم رویہ اختیار کرو۔

اپنی وقعت، عزت اور محبت کے تحفظ کی خاطر سچائی سے محبت کرو اور اسی کی خاطر نفرت کرو اور سچ کی طرف کشادہ دل رہو۔

تحمل[4]

بحیثیت قوم لگتا ہے ہم شدید قسم کی پرشوق صحت یابی اور نشاۃ ثانیہ کی طرف جا رہے ہیں۔ اگر باد مخالف ہمارا راستہ نہ روکے تو آنے والے سال ہمارے " کچھ بننے کے سال"ہوں گے۔ لیکن افاقے اور نشاۃ کے طریقوں میں اختلاف ہے۔ پچھلی چند صدیوں سے کوئی ایسا اتفاق رائے بننے میں دشواری ہو رہی ہے کہ کون سے ذرائع اختیار یا رد کئے جائیں جن کی بدولت فکری،ثقافتی زندگی میں انقلاب آ سکے۔اسی طرح اس پر بھی اختلاف ہے کہ معاشرے میں نئی روح کی لہر کس طرح اور کس انداز سے دوڑائی جائے۔

وہ نازک فرق جو لگتا ہے کہ ماضی اورمستقبل میں امتزاج پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہو اس سے ہمیں امید پیدا ہو رہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ایسا لگتا ہے کہ مشکل دن بھی آنے والے ہیں اس لئے بطور قوم مستقبل کی طرف جاتے ہوئے، ان اعذار کے خلاف جو پھوٹ، گرو ہیت اور ان مشکلات میں جو اتفاق رائے تک پہنچنے میں حائل ہیں، لگتا ہے تحمل سب سے محفوظ پناہ گاہ اور قلعہ ثابت ہوگا۔

ہمارے اندر اتنی برداشت ہونی چاہئے کہ دوسروں کی غلطیوں پر اپنی نظریں بند کر لیں۔ مختلف نظریات کا احترام کریں اور ہر وہ چیز جو قابل معافی ہے اسے معاف کردیں۔ دراصل جب ہمارے ناقابل تردیدحقوق کی بھی پامالی کی جائے تو ہمین انسانی اقدار کا احترام کرنا چاہیئے اور انصاف کا بول بال کرنا چاہئے حتی کہ گھٹیا خیالات اور نا پختہ ترین نظریات میں بھی - ماسوائے اپنے نظریات جن سے پیغمبرﷺ کی ہدایات کی روشنی میں اور اپن آپ قابو میں رکھتے ہوئے نباہ ممکن نہ ہو - ہمیشہ نرم خوئی سے جواب دینا چاہئے وہ نرم دلی جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے یعنی " موعظہ حسنہ" اس سے دوسرے کے دل مائل ہو جایئں گے۔ وہ نرم خوئی جو نرم دلی، اچھے اور نرم رویے کے نتیجے میں پید ا ہوتی ہیں۔ ہمارے اندر اتنی برداشت ہونی چاہئے کہ ہم کسی نظریئے کی مخالفت کرتے ہوئے بھی مستفید ہو رہے ہوں۔ یعنی ایسا کہ ہمارا دل، روح اور ضمیر فعال اور خبردار ہو اگرچہ ان نظریات سے بالمشافہ یا بالواسطہ کوئی سبق بھی حاصل نہ ہو رہا ہو۔تحمل، ایک ایسی اصطلاح جسے ہم کبھی کبھی، احترام، رحم ، برداشت کی جگہ بھی استعمال کرتے ہیں، اخلاقی نطاموں کا سب سے اہم عنصر ہے۔ یہ روحانیت کے موضوع کا ایک اہم ذریعہ اور کامل انسانوں کی سماوی خوبی ہے۔

تحمل کےشیشے کے تحت مومنوں کی صفات نئی گہرائیاں حاسل کر لیتی ہے اور ابد کی طرف بڑھ جاتی ہے خطائیں اور لغزشیں بہت کم ہو جاتی ہے اور اس طرح ختم ہو جاتی کہ وہ انگشتانہ میں بھی سما جایئں۔ دراصل اس ذات کا جو وقت اورجگہ کی قید سے آزاد ہو وہ تحمل کے مخروطی مستوی سے گزر کر جاتا ہے اور ہم اور ساری مخلوق اس لمحے کو سینے سے لگانے کو انتطار کرتے رہتے ہیں۔ اسی سینے سے لگانے کو وسعت کی وجہ سے ہی تھا کہ ایک بار ایک فاحشہ عورت جس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلای تھا 'رحمت کے دروازے " تک پہنچ گئی تھی اور اپنے آپ کو اس راہداری میں پایا جو عصمت اور جنت کی طرف لے جانے والی تھی۔ اسی طرح خدا اور رسول کی محبت کی گہرائی کو پانے والا نشے میں مدہوش شخص نے دہل کر سب کچھ چھوڑا تو صحابیت کا درجہ دیا گیا۔ ایک اور مثال جسمیں خدا کی چھوٹی سی مہربانی سے ایک خونی قاتل اپنی نفسیاتی جبلت سے تائب ہو کر اعلی درجات پا گیا۔ ایک ایسا درجہ جو اس کی فطری قابلیت کو پیچھے چھوڑ گیا۔ اور ایسا جہاں تک وہ حقیقت میں پہنچ گیا۔

ہم سے ہر ایک چاہتا ہے کہ ہمیں اسی عینک سے دیکھے اور ہم چاہتے ہیں کہ عفو و درگزر کی ہوائیں مسلسل گردش میں چلتی رہیں۔ ہم میں سب سے ہر ایک چاہتا ہے کہ اپنے ماضی اور حال کی اس برداشت کی فضا کا حوالہ دے جو پگھلتا، دوسری شکل اختیار کرتا، صاف ہوتا اور تزکیہ کرتا ہو اور پھر مستقبل کی طرف بغیر کوئی محسوس کئے حفاظت کےساتھ چل پڑے۔ ہم نہین چاہتے کہ ہمارے حال کی وجہ سے کوئی ماضی پر تنقید کرے یا مستقبل کو تاریک کرے۔ ہم میں سے ہر ایک تا حیات محبت اور احترام چاہتا ہے۔ تحمل اور عفو و درگزر کی امید لگاتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ فراخ دلی اور محبت کےساتھ اسے سینے سے لگایا جائے۔ جب ہم گھر میں شرارتیں کرتے ہیں تو اپنے والدین سے اور جب سکول میں بد تمیزی کرتے ہیں تو اپنے استادوں سے تحمل اورعفو کی امید رکھتے ہیں ۔ ان معصوم لوگوں سے جن کےساتھ ہم نا انصافی اور ظلم کیا گیا ہو جج اور مستعیث سے عدالت میں تحمل اور عفو چاہتے ہیں۔ فوج کے کمانڈروں، پولیس، آفیسران اور احکم الحا کمین سے سب سے بڑی عدالت میں تحمل اور درگزر چاہتے ہیں۔

لیکن کیا ہم جو چاہتے ہیں ہم اسکے مستحق بھی ہیں کہ نہیں؟ جو کوئی بھی معاف نہیں کرتا اسکو کوئی حق نہیں کہ توقع رکھے۔ ہر کوئی اس درجہ کی بے احترامی پائے گا جتنی اس نے دوسرے کی کی ہے ۔ جو محبت نہیں کرتا وہ محبت کیئے جانے کے قابل نہیں۔ جو ساری انسانیت کو تحمل اور عفو سے گلے نہیں لگاتے وہ اس قابل بھی نہیں کہ انہیں معافی یا درگزر نصیب ہو۔ وہ بد قسمت جو دوسروں کو برا بھلا کہتا ہے اس کو کوئی حق نہیں کہ دوسروں سے عزت پائے۔ جو برا کہتے ہیں انہیں برا کہا جائے گا۔ جو مارتے ہیں انہیں بھی مارا جائے گا۔ اگر سچے مسلمان درج ذیل اصولوں کو اپناتے اور اپنی راہ پر چلتے ہوئے لوگوں کی باتوں کو اپنے سینوں میں دفن کرتے رہتے تو دوسرے لوگ تقدیر کے انصاف کو ان کے خلاف جو ہمیں برا کہتے ہیں ، نافذ کرتے۔

"جب وہ فضول اور بیہودہ باتوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو آرام سے گزر جاتے ہیں"۔(الفرقان؛72)

وہ ممالک جو بدعنوانی، عدم برداشت اور بے رحم٘یت سے بھرپور ہیں وہاں اس طرح کی چیزیں جیسے اظہار خیال کی آزادی، نرمی سے تنقید اور انصاف کے اطوار کے مطابق تبادلہ خیال اور صاف ذہن کے ساتھ بات چات جیسی چیزیں مفقود ہوتی ہے۔ میری نظر میں کھوکھلے نعروں کے باوجود کئی سالوں سے ترقی نہ ہونے کی اصل وجہ یہی ہو سکتی ہے۔

کئی برسوں سے بداخلاقی کی کئی مثالیں موجود ہیں جنہیں میری قدریں واضح طور پر بیان کرنے سے مانع ہیں۔ اگرچہ ان کے مرتکبین نے تحمل کا اپنا حصہ وصول کر لیا ہے اسکے باوجود کوششیں جاری ہیں اورمعصوم لوگوں کو " پسماندہ دیوانے جو اپنے نطریاتی ادوار کی حمایت کرتے ہیں" کا الزام دیا جارہا ہے۔ 'بنیاد پرستی" بھی ایک قسم کی تزئینی اصطلاح ہے جس کے ذریعے انکو تہمت لگائی جاتی ہے۔ اسی طرح اسلام پر الزام ہے کہ وقت کے تقاضوں کو پور نہیں کرتا۔ ہم اکثر بڑے افسوس سے دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو اپنے مذہبی احساسات بتانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے ان کو ترقی کے مخالف، دیوانے اور بنیاد پرست کہا جاتا ہے۔ بدقسمت ہیں وہ لوگ جنکو ایک 'اچھے مسلمان' اور 'اندھے دیوانے' میں فرق ہی نہیں پتہ۔

ایسے معاشروں میں جہاں لوگ ایک دوسرے کو تحمل یا جن ملکوں میں برداشت کی فضا مکمل طور پر نہیں بن سکی وہاں مشترکہ خیالات یا ایک جیسے ضمیریت کی بات کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے ملکوں میں بعض نظریات تصادم کے جال میں دوسرے نظریات کو ختم کر جایئں گے۔ مفکرین کا کام بے کار ہو جائےگا۔ اور ان ملکوں میں صحیح خیالات یا ایمان و خیالات کی آزادی کا تصور قائم کرنا مشکل ہو جائے گا۔جہاں ایسی چیزوں کو ترقی نہیں ملے گی وہاں ایسا نہیں کہا جا سکتا کہ مملکت صحیح انصاف پر استوار ہے۔ اگر ایسا نظر بھی آئے تو یہ فریب سے زیادہ کچھ نہیں۔ حقیقت میں جہاں تحمل نہیں وہاں صحتمند ذرائع ابلاغ، عالمانہ خیالات یا اہم ثقافتی سرگرمیاں بھی نہیں ہوتیں۔ جب ہم کسی ایسی چیز کو دیکھتے ہیں جو اس طرح کا نام رکھتی ہو تو وہ چند بے ثمر ، یکطرفہ کوششیں ہوتی ہیں جو کچھ خیالات اور کچھ فلسفہ پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان سے کسی تازہ، کارآمد اور مستقبل کیلئے فائدہ مند چیز کی توقع عبث ہے۔


* یہ آرٹیکل 1980 میں لکھا گیا تھا۔ اور اولًا (زمانہ اور نئی نسل) کیانک، ازمیر 2003 (سابقہ ایڈیشن1984ء) ص۔57ت 60میں شائع ہوا۔

[1] یو حنا کی انجیل، باب 8 ،آیت 7

[2] ضیا پاشا (متوفی 1880ء) انیسویں صدی کا بااثر ادبی شخص جو" نوجوان ترکوں" کا نمائندہ اور رکن تھا۔ جو ایک زیر زمین فوجی تنطیم تھی جو استنبول میں 1865ء میں بنائی گئی۔

[3] ضرب الامثال کا یہ مجموعہ 1984 میں لکھا گیاتھا اور حال ہی میں ایک جلد میں Olcu veya Yoldaki Isiklar کیانک ، ازمیر 2000 میں شائع ہوا۔ انگریزی طبع Pearl of Wisdom، دی فاونڈیشن، نیو جرسی سے 2000ص 61شائع ہوا۔

[4] یہ آرٹیکل 1996 میں لکھا گیا اور اولًا  ( وہ خیالات جو ثمر آور ہیں) کیانک، ازمیر 1996ص 19تا 72 میں شائع ہوا۔