باہمی مکالمے کی بنیادیں

محبت ‘ ہمدردی ‘ برداشت اور عفو ودر گزر :۔

مذہب ہمیں محبت ‘ ہمدردی ‘ برداشت اور معافی کا درس دیتا ہے اس لئے میں ان آفاقی اقدار کے بارے میں چند الفاظ کہوں گا ۔

محبت ہر ذی روح میں موجود لازمی عنصر ہے ایک انتہائی چمکدار روشنی ایک ایسی عظیم طاقت جو ہر طرح کی مزاحمت پر غالب آسکتی ہے ۔

محبت ہر اس روح کوارفع واعلیٰ بنا دیتی ہے جو اسے اپنے اندر سمولے اور اسے ابدیت کی طرف لے جاتی ہے وہ لوگ جو محبت کے ذریعے ابدیت سے جڑ جاتے ہیں وہ اوروں میں بھی محبت کے ذریعے حاصل ہونے والی ابدیت اور اس ابدیت سے حاصل ہونے والے سرور کو دوسروں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں وہ اپنی زندگی اس نیت مقصد کے لئے وقف کردیتے ہیں اور اس کی خاطر ہر طرح کی تکلیف برداشت کرتے ہیں جس طرح ان کی آخری سانسوں میں لفظ ” محبت “ نکلتا ہے اسی طرح قیامت کے روز اٹھائے جانے پر بھی ان کے منہ سے ”محبت “ ہی نکلے گا ۔ ایثار پسندی در اصل وہ اعلیٰ احساس سے جو محبت کو فروغ دیتا ہے جو بھی انسان اس محبت میں شریک ہے انسانیت کا ایک بڑا ہیرو ہے ہر وہ انسان بھی جس نے اپنے اندر سے بغض اور کینہ کو نکال پھینکا ہو۔ ایسے ہیرو مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں یہ عظیم انسان ہر روز اپنے اندر محبت کی ایک نئی شمع روشن کرتے ہیں اور اپنے قلب کو محبت اور ایثار کا سوتا بنا دیتے ہیں لوگ انہیں ہمیشہ خوش آمدید کہتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں ۔ یہ ابدی زندگی کا حق آسمانی عدالت سے حاصل کرتے ہیں ان کے نشانات نہ ہی موت اور نہ ہی قیامت سے مٹتے ہیں یہ لوگوں کے دلوں تک براہ راست پہنچنے کا وہ ذریعہ ہے جو نبیوں نے اپنایا وہ لوگ جو اس کی پیروی کرتے ہیں انہیں رد نہیں کیا جاتا اگر بعض انہیں رد کریں تب بھی بہت زیادہ لوگ انہیں خوش آمدید کہتے ہیں جب محبت کی بناءپر انہیں ایک مرتبہ خوش آمدید کہہ دیا جائے تو پھر کوئی انہیں ان کا مقصد حاصل کرنے سے روک نہیں سکتا ۔

کائنات کی ہر شے ایثار وہمدردی کی بات کرتی ہے اسی لئے کائنات کو ایک ایسی جگہ قرار دیا جاسکتا ہے جہاں ہر کوئی محبت کا گیت گا رہا ہو ایک انسان کو ہر ذی روح کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرنا چاہئے کیونکہ انسان ہونے کا یہی تقاضہ ہے انسان جتنا زیادہ ہمدردی کا مظاہرہ کرے گا اتنا ہی خود کو بلند محسوس کرے گا اور جتنا ناجائز اور غلط کام ‘ظلم ‘ وزیادتی اور سختی کرے گا اتنا ہی خفیف اور شرمندہ محسوس کرے گا ایسے لو گ انسانیت کے لئے باعث شرم بن جاتے ہیں ہمیں نبی پاک محمد کی زبانی علم ہوتا ہے کہ ایک فاحشہ پیاس کی شدت سے جاں بلب کتے کو پانی پلانے پر جنت چلی گئی۔

جبکہ ایک دوسری عورت اس لئے جہنم رسید کی گئی کہ اس نے ایک بلی کو بھوکا مرنے دیا عفو ودر گزر نیکی سے الگ نہیں اور عفو ودر گزر ایک بڑی خوبی ہے نیکی عفو ودر گزر سے جدا نہیں ہر انسان اس کہاوت کو جانتا ہے کہ غلطی کرنا چھوٹوں کا کام اور معاف کرنا بڑوں کا ۔ کسی اچھی بات سے معاف کئے جانے کا مطلب سچائی میں جھانکنا ہے اس لئے انفینٹیو میری کے بقول اپنی ذات میں جھانکنا اور خود کو ٹٹولنا ہی بڑا زبردست کام ہے تمام زندہ اور بے جان چیزوں کو انسانیت کے ذریعے معاف کرنا سکھایا گیا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی معافی کی صفت کی جھلک انسانوں میں ظاہر کی قلب انسان کو عفو ودر گزر سے روشناس کرایا جب حضرت آدم ( پہلے انسان) بلندی سے پستی میں جانے کے صدمے سے دوچار ہوئے تب اللہ تعالیٰ نے ان کی خطا معاف کرکے انہیں تھام لیا اور انہیں نبی کا درجہ دے کر سر فراز کیا خطا کرنے کے بعد انسان میں معاف کئے جانے کو جو شدید جذبہ پیداہوتا ہے اس کے سہارے شرمندگی اور ندامت کے تکلیف وہ احساس پر غالب آکر انسان رحمت خداوندی سے فیضیاب ہوتا ہے اور دوسروں کے گناہوں سے بھی صرف نظر کرتا ہے حضرت عیسیٰ نے ایک مجمع سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جو کہ ایک عورت کو سنگسار کرنے کے لئے بے تاب تھا " تم میں سے جو بھی گناہوں سے پاک ہے اس عورت پر سنگباری میں پہل “کرے کیا کوئی بھی اس شرط کو سمجھتے ہوئے کسی عورت پر پتھر برسا سکتا ہے جبکہ وہ خود بھی سنگسار کئے جانے کے قابل ہو ؟ صرف وہی بد بخت ایسا کرسکتے ہیں جو دوسروں سے پاکیزگی کا امتحان پاس کرنے کا مطالبہ کریں ۔

کینہ اور نفرت جہنم کے وہ بیج ہیں جو لوگ شرارت کی نیت سے بکھیرتے ہیں وہ لوگ جو شر پھیلاتے ہیں اور اس دنیا کو جہنم میں بدل دیتے ہیں ان کے برعکس ہمیں عفو ودر گزر کا دائرہ ان لوگوں تک وسیع کردینا چاہئے جو اپنی مشکلات کے ہاتھوں بند گلی میں جا پھنسے ہوں ۔ جو لوگ نہ تو دوسروں کو معاف کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو برداشت کرتے ہیں ان کی زیادتیوں نے پچھلی ایک یادو صدیوں کو سب سے زیادہ بھیانک دور بنادیا ہے اگر یہی لوگ مستقبل میں بھی حکمرانی کرتے رہے تو یہ یقیناً ایک خوفناک دور ہوگا اس لئے آج کی نسل اپنی اولاد اور آل اولاد کو جو سب سے بہترین تحفہ دے سکتی ہے وہ انہیںعفو ودر گزر کا درس دینا ہے خواہ کیوں نہ انہیں تلخ ترین رویے اور پریشان کن حالات کا سامنا ہو ۔

ہمیں یقین ہے کہ در گزر اور برداشت ہمارے زیادہ تر زخموں کو مندمل کردے گابشرطیکہ یہ آفاتی ہتھیاران لوگوں کے ہاتھ میں ہوا جو اس کی زبان سمجھتے ہوں ۔

ہماری برداشت کا دائرہ اس قدر وسیع ہونا چاہئے کہ ہم دوسروں کی خطاﺅں سے صرف نظر کر سکیں اختلاف رائے کا احترام کر سکیں اور ہر اس چیز کو معاف کر سکیں جو معاف کئے جانے کے قابل ہو حتیٰ کہ اس وقت بھی جب ہمارے لازمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہو تب بھی ہمیں انسانی اقدار کا احترام کرنا چاہئے اور انصاف قائم کرنا چاہئے انتہائی روکھے خیالات اور تلخ ترین تصورات کے مقابلے میں بھی ہمیں اسی احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہئے جس کا نبی حکم دیتے رہے ہیں اور اسی نرمی کا برتاﺅ کرنا چاہئے جسے قرآن نرم لہجہ کہتا ہے ہمیں یہ اس لئے کرنا چاہئے کہ ہم دوسروں کے دلوں کو چھو سکیں اور اس کی خاطر دوسروں کے لئے اپنے قلب ‘ اپنی زبان اور اپنے رویے کو نرم کریں ۔ ہماری برداشت کا دائرہ اس قدر وسیع ہوکہ متضاد خیالات سے بھی استفادہ کرسکیں کیونکہ یہ ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم اپنے قلب ‘ اپنی روح ‘ اور اپنے ضمیر کو صحیح حالت میں رکھیں باوجود اس کے کہ یہ ہمیں کچھ نہیں سکھاتے برداشت جو کہ ہم بعض اوقات احترام اور ہمدردی کی جگہ فیاضی اور فراخ دلی کی جگہ استعمال میں لاتے ہیں اخلاقی نظام کا لازمی عنصر ہے یہ روحانی تربیت کا بھی لازمی ذریعہ اور درجہ کمال کو پہنچے مردوزن کے اندر موجود آفاقی خوبی بھی ہے ۔

برداشت کے عدسے تلے ایمان والوں کی خوبیاں ایک نئی گہرائی اور ابدیت حاصل کرتی ہیں اور ان کی خامیاں اور کمزوریاں سکڑ کر معمولی سی رہ جاتی ہیں در حقیقت زمان اور مکان کی قید سے آزاد ذات کا ہمارے ساتھ سلوک ہمیشہ عفو ودر گزر کے منشور سے گزر کر ہم تک پہنچتا ہے اور ہم اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ اس کی رحمت ہمیں اور دیگر تمام مخلوقات کو اپنے حصار میں لے لے ۔ اس رحمت کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے والی فاحشہ بھی رحمت خداوندی کی حقدار بنی اور جنت تک پہنچ گئی ۔ اللہ اور اس کے نبی کی محبت میں ڈوبا ہوا ایک شخص اچانک اٹھا اور نبی کا رفیق بن گیا ۔ اورزرہ برابر رحمت خداوندی کی بدولت ایک قاتل شدید نفسیاتی عارضے سے باہر نکل آیا اور اس بلندی کی طرف بڑھا جسے پانا اس کی فطری صلاحیتوں کے پیش نظر مکمل نہ تھا لیکن اس نے اس بلندی کوپا لیا ۔

ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں اسی عد سے میں دیکھیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ عفو ودر گزر کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہمارے گرد چلتے رہیں ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ماضی اور حال پر عفو ودر گزر اور بخشش کا سایہ رہے اس کے سائے میں ہم پاکیزہ اور پاک صاف ہوجائیں اور بلا کسی بے چینی واضطراب کے مستقبل کی جانب بڑھ سکیں ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے ماضی پر تنقید ہو یا ہمارا مستقبل ہمارے حال کی وجہ سے تاریک ہو ہم سب گھر کے اندر سر زد ہونے والی خطاﺅں اور شرارتوں کے جواب میں اپنے والدین کی طرف سے محبت احترام اور بخشش اور برداشت کی توقع کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں گلے لگاتے ہوئے ہمارے اندر پیار اور آزادی کا احساس جگا یا جائے یہی رویہ سکول میں ہمارے اساتذہ کا ہمارے ساتھ ہو ۔ اسی طرح خدائے بزرگ وبرتر کی عدالت میں بھی ہمیں معافی مل جائے

تاہم ہم جس چیز کے حقدار ہیں وہ بہت اہم ہے جو دوسروں کو معاف نہیں کرتا خود بھی معافی کا حقدار نہیں ہوتا ہمیں اتنا ہی عدم احترام کا سامنا ہوگا جتنا کہ ہم خود بے ادب ہوں گے وہ جو دوسروں سے پیار نہیں کرتا محبت کے قابل نہیں ہوتا وہ جوبنی نوع انسان کے لئے معافی اور بخشش کا جذبہ نہیں رکھتا اسے بھی معافی اور بخشش نہیں ملے گی وہ جو دوسروں کو کوستا ہے اسے بھی جواب میں کوسنے ہی ملیں گے وہ جو دوسروں کو برا کہتے ہیں انہیں بھی برا کہا جائے گا اور جو دوسروں کو ایذائیں پہنچاتے ہیں انہیں بھی ایذائیں ملیں گی ۔

اگر سچے مسلمان اپنے راستے پر چلتے رہیں اور دوسروں کی غلط باتیں قرآنی اصولوں کی روشنی میں برداشت کرتے رہیں یعنی جب یہ غلط بات سنیں یا ان کے ساتھ غلط برتا ﺅ کیا جائے تو اس کی پرواہ نہ کریں اور یہ کہ دوسروں کی خطاﺅں سے صرف نظر کریں تو دوسرے انہیں ان کی خطاﺅں کے سزا دیں گے ۔

حرف آخر

وہ لوگ جو دنیا کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں پہلے خود اپنی اصلاح کریں دوسروں کو زندگی کے سیدھے راستے پر لانے کے لئے انہیں خود اپنے اندر کو بغض وعناد اور حسد سے پاک کرنا ہوگا اور اپنی ظاہری دنیا کو نیکی اور بھلائی سے سجانا ہوگا وہ لوگ جو تنظیم ذات اور خوداختیاری سے بہت دور ہوچکے ہیں جو اپنے جذبات کو پاک کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں ابتداءمیں بہت پرکشش اور دروں بین نظر آتے ہیں لیکن وہ دیر پاتا ثر قائم نہیں کر سکتے اور یہ لوگ جو جذبات ابھارتے ہیں جلد ہی غائب ہوجاتے ہیں

نیکی ‘ خیر وبھلائی خوبصورتی سچائی ہی در اصل اس دنیا کا اور انسانیت کا اصل جوہر ہیں خواہ کچھ بھی ہو ایک روز انسانیت اس جوہر کو پا لے گی کوئی اسے روک نہیں سکتا ۔