تحمل کی فضا قائم رہنی چاہیئے

اپنی "گمشدہ جنت" کے علاوہ ہم نے اپنی کچھ خصوصیات جیسےعلم، تحقیق، کام، کام کا طریقہ کار، کام کی جگہ نظم، باہم معاونت، اور کتاب حیات کا مطالعہ وغیرہ  کو بھی کھو دیا ہے۔ ایسی چیزوں میں سے جنہیں ہم کھو چکے ہیں سب سے اہم چیز شاید تحمل ہے۔ اس لفظ سے ہماری مراد یہ ہے کہ لوگوں کی رائے، عالمی نظریہ، نظریات، نسل یا مذہب کے فرق کے باوجود گلے لگانا۔ اس کا یہ بھی مطلب کہ ایسی چیزوں کو جنہیں ہم پسند نہ بھی کریں تب بھی اپنے اندر ضمیر، ایمان اور قلب سخا کی طاقت یا اپنے جذبات کی قوت سے قائم رکھنا۔ ایک اور نظرئیے سے دیکھیں تو اسکا مطلب یہ بھی ہے جیسا کہ مشہور ترکی شاعر یونس[1] نے کہا کہ مخلوق کو صرف اس لئے پیار کرنا کہ وہ خالق نے بنائی ۔

مخلوق کو صرف خالق کی وجہ سے پیار کرنا:

محبت وجود کی وجہ اور ماہیت ہے اور یہ سب سے مضبوط رشتہ ہے جو مخلوقات کو جوڑے ہوئے ہے۔ دنیا کی ہر چیز خدا کے دست قدرت کا نتیجہ ہے۔ اس لئے اگر آپ انسانیت یعنی خدا کی مخلوق کو محبت کے ساتھ نہین دیکھیں گے تو گویا آپ نے ان لوگوں کو جو خداسے پیار کرتے ہیں اور خود خدا کو گزند پہنچانے کی کوشش کی۔ جیسا کہ پکاسو کی پینٹنگ کے خلاف ہونے کا مطلب ہے کہ آپ نےاس کو بھی اور اس کے مدّاحین کو بھی دکھ پہنچایا ہے۔ اس کی ایک اور مثال اس طرح ہے کہ جیسے قصرالحمراء کی شان سے متاثر نہ ہونے - جو کہ کسی چیز کے عدم سے وجود تک لانے کا ایک عظیم شاہکار ہے - کا مطلب یہ ہے کہ اس عظیم شاہکار اور اس کے بنانے والوں کی بےوقعتی کرنا۔ اسی طرح مخلوق خدا دلوں کو فرحان کردینے والی خوبصورتی کا شاہکار اورخدا کی تخلیق کا نمونہ اورمظہر ہے۔ اس حوالے سے انسان، جانور، دوسری جاندار اور غیر جاندار مخلوق، اس کی قدرت کا نمونہ ہیں جنہیں ہمیں گلے لگانا چاہیے۔ ان چیزوں کی بے وقعتی کرنے یا تحقیر کرنے کا مطلب ہے بنانے والے کی بے وقعتی یا تحقیر کرنا۔ اس کے برعکس مخلوق اور انسانوں کےمتعلق ہماری سوچ خالق کی وجہ سے ہونٰی چاہئے۔ اگر مسلمان اسلحہ، اسلحہ خانے، دوسروں کو مارنے اور ذبح کرنے کی بات کرتے ہیں اور ایسا کرنے میں وہ انسانوں کے درمیان گہرا فرق رکھتے ہوں تو اس کا مطلب ہے ہم اپنی ماہیت سے دور چلے گئے ہیں۔

لیکن ہمین شکرگزار ہونا چاہیئے کہ اپنی گمشدہ جنت کے کچھ نشانات یعنی تحمل کو دوبارہ پا لیا ہے یہ ان خصوصیات میں سے ہے جنہیں ہم بھلا چکے تھے۔ ہم تحمل کو دوبارہ زندہ کر رہے ہیں جو ایک ایسی چیز ہے جو اسلام کی روح ہے اور ایسی چیز ہے جو قرآن میں اور محمدﷺ نے ہمیں بتلائی ہے۔ تحمل کے معاملے میں ہمارے لوگوں نے مبنی برتحمل کاموں کو خوش آمدید کہا ہے اور اس جذبے کو گرمجوشی سے قبول کیا ہے۔ ان اداروں کے علاوہ جو کہ قائم ہوئے ہیں لوگوں کی رضا کارانہ خدمات نے انتہائی دلچسپی پیدا کر دی ہے۔ قرآن میں ہے:

"وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں خدائے مہربان ان پر اپنی رحمت کرے گا" (المریم:96)

دوسرے لفطوں میں آسمان اور زمیں والے دونوں کے رہنے والے ان سے محبت کریں گے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے خدا آسمانوں میں بتا دیتا ہے کہ وہ دنیا میں کس سے محبت کرتا ہے اور آسمان والوں سے بھی کہتا ہے کہ ان سے محبت کرو اور جب ملائکہ ان سے محبت کرنے لگتے ہیں تو زمین والے بھی ان سے محبت کرنے لگتے ہیں۔

وہ بیج جو تحمل کہ وجہ سے بویا گیا تھا وہ پھلنا پھولنا شروع ہو گیا ہے جب وقت آئے گا تو یہ چمکےگا۔ ظاہر ہے اسکا انحصار اس بات پر ہے کہ اخبارات، ٹی وی، رسائل اور فاونڈیشن کس حد تک اس کی مدد کرتی ہیں۔

تحمل کی راہ میں کوئی واپسی نہیں ہوتی:

آسمانوں میں مقبولیت دنیا والوں پر مثبت ردعمل لاتی ہے۔ اس کے آثار واضح ہیں، ان واضح آثار میں سے ایک یہ ہے کہ محبت اور تحمل کے ہیروز کے لئے ہر جگہ دروازہ کشادہ کھول دیے گئے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحمل بڑھ اور ترقی پا رہا ہے۔ یہ اس حد تک صحیح ہے کہ جب سے تحمل کا موسم آیا ہے تو اس کی پیش رفت کو ختم کرنے کے لئےجب بھی مکالفتیں کی گئیں۔ لیکن کئی سالوں سے الگ دیکھی اور دکھائی جانے والی انتہائی دور اندیشی سے ردعمل دیا گی اور ہم کسی بڑے حادثے سے بچ گئے۔

میرا خیال ہے کہ آج کے بعد بھی اس چیز کا امکان ہے کہ کئی دوسرے مخفی منصوبے بھی آئیں گے اور عمومی امن کو خراب کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی لیکن ہمیں، جنہوں نے اس عمل کو شروع کیا ہے، پر عزم ہونا چاہئے کہ اس کو تکمیل تک پہنچائیں گے۔ ہمارے ارادے پختہ ہونے چاہئیں، جیسا کہ قرآن میں ہے:

"وہ لوگ جو جھوٹ کی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی سے لغو بات پر گزرتے ہیں تو آرام سے گزر جاتے ہیں" (الفرقان:72)

ہر بندہ اپنے عمل سے اپنا کردار دکھا رہا ہوتا ہے۔ کامل لوگوں کی زمہ داری ہے کہ نرمی سے کام لے۔ اگر کوئی قرآن کی تضحیک کرتا ہے اور نماز، روزہ اور زکواۃ کا اقرار کرتا ہے تو ایسا رویہ اس شخص کے کردار اور سٹائل کا حصہ سمجھا جائے گا۔ لیکن بطور مسلمان ان لوگوں کے ساتھ بھی جو بے مروتی کا اظہار کریں، برہم اور غصے والا نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں کسی کے خلاف غصے کرنے اور ٹھٹھہ اڑانے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک اور آیت میں ہے:

"ایمان والوں سے کہہ دو! کہ ان لوگوں کو معاف کردیں جو ایام اللہ کی امید نہیں رکھتے "(الجاثیۃ :14)

یہ اصل میں ہمارے ضمیر کی آواز ہے اگر آپ کسی نابینا کو دیکھتے ہیں تو کیا اسکی پٹائی شروع کر دیتے ہیں یا اس کا ہاتھ پکڑ کر اسکو راستہ بتاتے ہیں؟ اس نکتہ نظر کی بنیاد پرمستقبل کے نظریات بنانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے کی ناموزونیت کے درمیان ہم آینگی پیدا کریں تا کہ توازن کو جو خطرہ ہےاس سے بچا جاسکے اور ناخوشگوار واقعات کو دور اندیشی سے حل کیا جا سکے۔ جیسا کہ ترکی زبان کی کہاوت ہے" جو خوشگوار ہے اسے لے لو اور جو غم پیدا کرے اسے چھوڑ دو" اس لئے ہمیں ناخوشگوار چیزوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے اور اختلافات اور بد نظمی کا سبب نہیں بننا چاہئے۔

اگر ہم اسی طرح چلتے رہیں تو بہت جلد جہاں ہم ہیں اس سے بہت آگے پہنچ جائیں گے۔ یقیناً اندرونی اور بیرونی دونوں جانب سے کوشش کی جائے گی کہ توازن کو بگاڑ دیا جاے۔ لیکن تحمل کو باقی رکھنے کے لئے ہمیں کئی بار مر مر کر جینا ہوگا تا کہ اسے بچایا جاسکے۔ جس کے بعد ہر طرف محبت کے سیلاب ہوں گے اور محبت لوگوں کی آنکھوں اور دلوں سے ٹپک رہی ہوگی۔ انشاءاللہ ہر کوئی دوسرے کو محبت سے گلے لگائے گ اور اکیسویں صدی تحمل کی صدی ہوگی۔ مجھے بڑی شدت سے اس کا انتطار ہے اس لئے کہ تحمل کے ایک یا دو سال کافی نہیں۔ ہم پر عزم ہیں کہ تحمل کی ایک یا دو صدیاں ہوں گی۔ دراصل ہم چاہتے ہیں کہ تحمل دنیا کے اختتام تک رہے ہم چاہتے ہیں کہ تحمل کئی ادوار ہو اور اس راہ سے پلٹنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

زمرد کے پہاڑوں کے دو پھول : تحملّ اور مکالمہ

مکالمہ کا مطلب ہے دو یا دو سے زیادہ بندوں کا کچھ چیزوں پر بات کرتے کےلئے ملنا جس سے ان کے درمیان ایک رابطہ قائم ہوجائے۔ اس حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مکالمہ وہ کاروائی ہے جو انسانوں میں بطورمحور رکھی گئے ہے اسلئے کوئی شک نہیں کہ ہر آدمی کو اسکے خلوص اور نیت کے مطابق اجر ملتا ہے۔اگر لوگ اپنے اعمال کو اخلاص اور اچھی نیت سے ادا کریں تو وہ کامیاب ہیں۔ اگرچہ دوسرے لوگ انہیں ناکام سمجھتے رہیں۔ رسول خدا ﷺ نے فرمایا "اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے"[2] اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مومن کی نیت اسکےعمل سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اگر عمل کی بنیاد اچھی نیت پر ہوگی تو یہ اچھا بن جائےگا۔ سو جو کچھ بھی کوئی کرے اسمیں وہ پہلے اپنے خلوص کو جانچ لے اور اللہ سے اسکی رضا مانگے۔ اسلئے کسی کو ان تعلقات کو جو محبت مکالمہ اور تحمل کے نام پر مختلف لوگوں میں قائم ہو رہے ہے برا سمجھ کو اسکی مذمت کرنی چاہئے۔

معاشرہ اتنے سارے زخم کھانے کے بعد اور اتنی دفعہ دہل جانے کے بعد اب اور کسی آفت کے سہنے کا متحمل نہیں ہے۔ اگر طاقت کا غیر جمہوری ارتکاز، اس قوم کا ناقابل حرکت بوجھ بن جائے اور قابلیت اور فیصلے اس طاقت کے ساتھ جو ان ارتکازات کی جگہ لے لیں، تو پھر یہ شریف قوم کبھی بھی اپنے آپ کو تندرست نہ پا سکے گی۔ اس حادثے کے نتیجے میں یہ جنت نظیر ارضی شاید آج سے 20 برس پیچھے کی طرف دھکیل دی جائے۔ یہ ممکن ہے کہ ہم کچھ چیزوں کو کھو جایئں اور ان گمشدہ چیزوں کے لئے زندہ رہیں اگرچہ وہ ایسی چیزیں ہوں جن پر آج ہم تنقید کرتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر ہم مکاملہ کی بات کریں اس یقین کے ساتھ کہ " صلح جوئی ہی بہتر ہے"(النساء:128) تو پھر ہمیں اس کا اظہار کرنا پڑے گ کہ ہم ملکی اور غیر ملکی سطح پر امن سےرہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امن اسلام میں انتہائی اہم چیز ہے۔ لڑائی اور جنگ صرف ثانوی واقعات ہیں جو مخصوص وجوہات اور شرائط کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایسا ماحول جہاں سب لوگ امن و آشتی سے رہ سکیں، اس سر زمین پر قائم نہیں ہو سکتا تو پھر ہمارے لئے معاشرےاور انسانیت کے لئے کوئی کار خیر کرنا ممکن نہ ہوگا۔

اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں:

اگرہم اس مسئلے کو ایک اور انداز سے دیکھیں تو مسلمانوں کو غلط سمجھا گیا ہے جسکی وجہ سے انہیں دباؤ اور بد سلوکی کا سامن کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کو بنیادی فطری حقوق، جیسا کہ کام کرنے کا حق وغیرہ سے بھی محروم کیا جاتاہے۔ دباؤ کی یہ صورت جو مسلمانوں کے ساتھ برتی جاتی رہی ہے، اس کا سبب انسان پرستی، انسانی حقوق، سخاوت، محبت اور تحمل جیسی اچھی صفات کا نہ ہونا ہے۔ حالانکہ یہ ساری اسلام کی خصوصیات ہیں پھر بھی انہی خصوصیات اور اچھایئوں کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول کر استحصال کیا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کا ہمیشہ یہی بنیادی رویہ- جو کہ عیاری اور فریب دہی پر مبنی ہے- رہا ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو یہاں بھی اور بیرون ملکوں میں بھی دیکھنا نہیں چاہتے۔ جو دعوی کیے جا رہے ہیں وہ غلط ہے اس لئے کہ مسلمان کبھی ہٹ دھرم نہیں ہوتا۔ اگرچہ ان خصوصیات کے حامل کچھ لوگ اسلامی معاشرے میں بھی ہوں گے لیکن یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ہر مسلمان کو یہ سمجھا جائے کہ وہ سوجھ بوجھ اور برداشت سے عاری ہے۔ آج مسلمانوں نے کسی کو کیا نقصان پہنچایا ہے اور انہوں نے کون سی برائی کا ارتکاب، کس کے خلاف کیا ہے؟ اچھے مقاصد کے باوجود، کچھ لوگوں کو ناحق طریقے سے غیر متغیر باور کرایا جاتا ہے ، ان کو غلط میزان سے ناپا جاتا ہے، ان کو محبت، برداشت، آزادی اور جمہوریت کے نام پر مختلف الزامات سے قربانی کا بکرا بنایا جا تا ہے۔ ان جھوٹے الزامات کا نشانہ بننے کو باوجود سچے مسلمان کسی کو نقصان نہیں پہنچا تے اوران الزامات کی تردید کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ لیکن ایک گروہ انکو الزامات سے بری قرار نہیں دیتا۔ دراصل مسلمانوں کے بے داغ اور پاک نفوس اور ان مقدس اور ارفع ذرائع سے جو ان کے پاس ہیں سے ہمیشہ خوبصورتی ہی پھوٹی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ہو بھی نہیں سکتا۔ قرآن اور سنت اور فقہاء عظام کی تشریحات میں ایسا کچھ فیصلہ یا حکم یا رویہ موجود نہیں ہے جو محبت، برداشت اور مکالمہ، ایک دوسرے سے ملنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے مانع ہو۔

ہم ایسے مذہب کو جو سب کا بھلا چاہتا ہو اور بغیر کسی استثناء کے سب کی نجات چاہتا ہو، ان سب کے بر خلاف نہیں گردانتے۔ قرآن مجید کے درج ذیل آیات اس حقیقت کی صحیح ترجمانی کرتی ہیں۔

"اور اگر تم تحمل کا رویہ اپناؤ، برداشت کرو اور معاف کرو تو بےشک خدا بھی معاف کرنے والا، مہربان ہے"۔(التغابن: 14)

"اللہ آپ کو ان لوگوں کے معاملے میں، جنہوں نے آپ سے لڑائی نہیں کی نہ آپ کو آپکے گھروں سے نکالا اس بات سے نہیں روکتا کہ آپ انکے ساتھ نیکی اور انصاف کریں" ۔(الممتحنہ: 8)

"اے نبیﷺ ! ان ایمان والوں سے کہ دو کہ ان لوگوں کو معاف کر دیں جو اللہ کے ایام میں یقین نہیں رکھتے تا کہ اللہ لوگوں کو اپنے ہاتھوں کی کمائی کے مطابق بدلہ دیں"۔( الجاثیہ: 14)

دراصل جب ہم قرآن کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ محبت میں لپٹا ہو ا ہے اس لئے ایمان والوں کو چاہیئے کہ ان خوبیوں کو جو پہلے سے ہماری ہیں دوبارہ حاصل کر لیں تا کہ مسلمانوں کا منفی تصور ختم ہو سکے۔ یہ منفی تصور جان بوجھ کر پیدا کیا گیا ہے اور ہمیں چاہئے کہ ایک بار پھر اسلام کی ضروری حقائق "حکیمانہ طریقے سے" ان لوگوں کو بتائیں جو اپنے آپ کو مہذب سمجھتے ہیں۔

ہمیں اس خدائے بزرگ و برتر کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے جو سچائی کے جانثاروں اورمحبت کے ہیرؤوں، جو کہ محبت برداشت اور مکالمہ کا پیغام پوری دنیا میں پہنچا تے رہے ہیں اور جو اسلام کے نئے تصور محبت سےمعمور قلوب کے ساتھ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کو مسلسل اپنے انعامات سے نوازتا ہے۔

خدا کی رضا کی تلاش:

میں یہاں زور دینا چاہتا ہوں کہ مسلمان مکالمہ اور تحمل کو اختیار کر کے کچھ بھی نہیں کھوئیں گے۔ مسلمان ہمیشہ خدا کی رضا چاہتا ہے جو کہ بڑی کامیا بی ہے۔ اس حوالے سے جو چیزیں کچھ لوگوں کو نقصان دہ نظر آئیں، وہ مسلمانوں کے ہاں کامیابیاں تصور ہوتی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب کچھ حالات بڑےخوشنما لگتے ہیں، لیکن مسلمان ان کو نقصان دہ تصور کرتے ہیں۔ مزید برآں ہمیں اسلام کے متعلق کوئی ابہام نہیں، نہ ہی مقدس کتاب قرآن مجید اور اسلام کے سب سے متبرک نمائندے حضرت محدﷺ فخر کائنات کے متعلق کوئی شک ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اسلام باوجود رکاوٹوں کے اپنے مستقبل کے راہ پر گامزن رہے گا۔ قرآن کا ہر مضمون عقل سے ثابت شدہ ہے یہ ایک ایسی کتاب ہے جو مستقبل کے سارے مسائل کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ سیدالمرسلین جن کے متعلق برنارڈ شا نے کہا تھا "وہ قہوہ پینے کی طرح ہر مسئلے کو حل کرتے ہیں"ان کو دنیا میں قیامت تک آنے والے مسائل کے حل کے لئے مبعوث کیا گیا تھا۔ پچھلی صدیوں کی طرح آج اورآئندہ آنے والے وقتوں کے مسائل جو بظاہر ناقابل حل تصور ہوتے ہیں وہ ان دل و دماغ کے فن تعمیر کے ماہرحل کر دیتے ہیں اور اپنی بنیادیں ان مقدس ذرائع پر قائم کرتے ہیں۔

ہمیں کوئی فکر نہیں ہے اس لئے کہ قرآن اور رسول پاک کے روشن ارشادات و فرامین مسائل کے انبار بھی ہوں تو ان کا حل پیش کرتے ہیں۔ میری رائے میں جو ان شمعوں کو ساتھ لئے ہوئے ہیں انہیں خدا کی مہربانی سے جہاں کہیں بھی ہونگے اور جس سے بھی مکالمہ کریں گے کوئی فکر کی بات پیش نہیں آئے گی۔ یہاں ضروری امر یہ ہے کہ ہم اپنے ان ذرائع کوسمجھیں اور جہاں ضرورت ہو ان کا استعمال کریں۔ اسی طرح ہمیں ان ذرائع کو اپنی غلطیوں اور جسمانی اور دنیاوی خواہشات کے ساتھ جوڑ کر بیجا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ ان ذرائع سے صرف خدا کی رضا اور آخرت طلب کرنی چاہئے۔

جسطرح ہمیں قرآن اور رسول خداﷺ کے متعلق اور ان کے انصاف کے متعلق کوئی ابہام نہیں ہے اسی طرح کوئیٰ وجہ نہیں کہ کوئی بھی ہمارے متعلق ابہام کا شکار ہو لیکن پھر بھی اگر کچھ لوگ بے بنیاد ڈر کی وجہ سے خوف زدہ ہوں تو وہ وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو ان ذرائع اور قوت عمل رکھنے والےکے قابل اعتبار ہونے کے بارے میں پریشان ہوں جن کا وہ سہارا لیتے ہیں۔

جو مارے ان کیلئے بے دست، جو برا کہیں ان کیلئے بے آواز[3]

جب سے "جرنلٹس اینڈ رائٹرز فاونڈیشن" بنائی گئی ہے اس وقت سے لیکر آج تک – اگر چہ چیزیں ہمیشہ اس طرح نہیں ہوئے جس طرح کہ ہونے چاہئے تھے – ہم کہہ سکتے ہیں کہ فاونڈیشن نے کارہائے نمایاں سر انجام دئیے ہیں۔لیکن کسی نہ کسی وجہ سے میں کسی میں بھی شریک نہیں ہو سکا۔ اسلئے ان کی کامیابیوں میں میرا کوئی حصہ نہیں۔

جیسے مثال کے طور پر انہوں نے فٹبال کےمشہور کھلاڑیوں کو یہاں بلایا اور بوسنیا کیلئے امداد جمع کی۔ ہر سال یہ لوگ کچھ مخصوص گروپوں کو یہاں بلاتے ہیں - جیسا کہ آج کی رات کا ہمارا یہاں اجتماع ہے - تا کہ مختلف النوع پلیٹ فارموں پر بات ہو سکے اور اس سے کم از کم تبادلہ خیالات کا موقع ملتا ہے۔ فاونڈیشن نے ہمارے اپنے خیالات اور ںظریات سے صرف نظر کرتے ہوئے کچھ نظریات کا عندیہ دیا ہے تا کہ ان پر بات چیت ہو سکے اسکے نتیجے میں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک دوسرے سے خوف کھانے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور یہ کہ کوئی بھی شخص کسی بھی شخص سے جس سے وہ چاہے مل سکتا ہے۔ اگر ہم آج سے پہلے ایک دوسرے سے نہیں مل سکے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اس میں صرف اور صرف ہمارے بھٹکے ہوئے تو ہمات شامل تھے۔ جسکے نتیجے میں ہم ایک دوسرے کے متعلق ایک اہم ذمہ داری سے لا پرواہی کرتے رہے۔

ترکی میں فاؤنڈیشن کو تحمل کی نمائندہ تصور کیا جاتا ہے۔اصل میں اس نے اپنی پہچان بھی تحمل سے ہی کروائی ہے۔ جہان بھی اس کا تذکرہ ہوتا ہے ساتھ تحمل کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ فاؤنڈیشن کے تصور نے ایک طرح کا حسد پیدا کر دیا ہے جسکے نتیجے میں بہت ساری تنظیمیں بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ آج خوش قسمتی سے ہر کوئی یہی نغمہ گا رہا ہے۔ اس وجہ سے میرا عقیدہ ہے کہ تحمل بہت جلد پورے ملک میں زیریں سطح پر پھیل جائے گا۔ جب کہ میرے ایک فنکار دوست نے کہا تھا کہ ہم انشاءاللہ جلد سر کے ساتھ سر، دل سے دل اور ہاتھ سے ہاتھ ملا کر ایک "خوشحال مستقبل" کی طرف چلنا شروع کر دیں گے۔

جب حضورﷺ اس دنیائے فانی سے رخصت ہو رہے تھے توآپﷺ نے فرمایا:

"میں اہل کتاب، عیسائیوں اور یہودیوں کو آپ کے اعتماد میں چھوڑ کر جا رہا ہوں"[4]

حضرت عمرؓ کو جب ؛نیزہ لگا اور وہ جام شہادت نوش کر رہے تھے تو انہوں نے فرمایا:

"میں اہل کتاب کو آپ کے اعتماد میں چھوڑے جا رہا ہوں اللہ سے ڈرو اور ان سے انصاف کے ساتھ معاملہ کرو"[5]

ملازگریت[6] میں اپنے دشمنوں کو شکست دینے کے بعد سلطان البرسلان[7] نے فوجی سرداروں کو اپنے خیمے میں کھانے پر مدعو کیا اور ان کواپنے کچھ آفیسران کے ہمراہ بحفاظت انکے دارالحکومت قسطنطنیہ (استنبول) پہنچانے کا بندوبست کیا۔

یروشلم میں جب سلطان صلاح الدین ایوبی نے حکومت بنائی تو رات کے وقت رچرڈ، جو صلیبی فوج کا کمانڈر تھا، کے خیمے میں تشریف لے گئے اور اسکی مرہم پٹی کی حالانکہ رچرڈ کی سپاہ نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کی تھا۔

ہم اس ثقافت کے پیرو کار ہیں جس نے اس طرح کے عظیم لوگ پیداکئے۔ ہم اس ثقافت کے وارث ہیں جو دنیا کی سب سے وسیع، جامع اور عالمی برداشت کی حامل ثقافت ہے۔یہ نظریہ آج سمندر کی لہروں کی طرح پھیل کر پوری دنیا تک پہنچ رہا ہے میرا پورا یقین ہے کہ آنے والے برس تحمل اور محبت کے سال ہونگے۔

اس فریم ورک میں ہم دنیا کو بہت کچھ دیں گے بھی اور وصول بھی کریں گے نہ صرف یہ کہ ہم اپنوں کےساتھ لڑائی نہیں کریں گے بلکہ دوسری تہذیبوں، ثقافتوں اور دنیا بھر کے دوسرے عقائد کے لوگوں کے ساتھ بھی نہیں لڑیں گے۔ وہ مسائل جو بحث مباحثہ اور تصادم کو جنم دیتے ہیں مکمل طور پر حل ہو جایئں گے اور ایک بار پھر محبت کی طاقت کو سمجھتے ہوئے ہم اس قابل ہو جائیں گےکہ اپنے دل محبت اور نرم دلی سے کھول دیں۔ خدا کی مدد سے ہم مکالمہ اور تحمل جیسے اہم مسائل پر توجہ دینے کے قابل ہو جایئں گے جسکی آج دنیا کو بہت ضرورت ہے۔

جب میں نے عزالدین اردگان[8] کو دیکھا تو مجھے تاریخ ک ایک اہم واقعہ یاد آگیا۔ خارجیوں[9] کا ذکر کرتے ہوئے جو قانونی حکومت کے خلاف بغاوت کرکے نہروان میں حملے کی تیاری کرنے کیلئے جمع ہو رہے تھے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا "یہ ہمارے لئے صحیح نہ ہوگا کہ ہم ان پر حملہ کریں جب تک کہ وہ ہم پر حملہ نہ کریں"

ہم اس طرح کے قائدین کی ثقافت کے پروردہ ہیں۔ اس وقت جب ہم تحمل کے بہت زیادہ محتاج ہیں، خدا کے فضل سے معاشرے کا ہر شعبہ تحمل اور مکالمہ کے لئے کھڑا ہو گیاہے اور اس سے اچھی بات یہ ہے کہ اس کے ہر سمت میں توقع سے زیادہ پھیلنے کے امکانات ہیں۔

شاید میں آپ کا زیادہ وقت لے رہا ہوں لیکن میں اپنے اندر کے درد کو بتائے بغیر کیسے یہاں سے جاسکتے ہوں۔ترکی معاشرہ جسکے ساتھ اندرونی طور پر بھی برا کیا گیا ہے کسی تحمل کا منتظر ہے۔ اسے پانے کے بعد جہاں ایک قدم جانا چاہئے تھا وہاں تین قدم لئے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ کچھ کمزور اور غیر اہم لوگوں نے ڈینگیں مار کر اور بہکی بہکی باتیں کر کے اپنے کمزوریوں کا اظہار کیا ہے لیکن اپنے آپ کو طاقتور دکھانے کے لئے گھات لگا کر بیٹھے ہیں تا کہ مکالمہ کی طرف لے جانے والے پل توڑ دیں۔ ہمیں بہت سارے امتحانوں سے گزرنا ہے۔ ہماری قوم جس نے پہلے ہی بہت سے امتحان خوش اسلوبی سے پاس کئے ہیں ان مستقبل کے امتحانوں سے بھی افراد کی یکجہتی کے ساتھ گزر جائے گی اور معاشرتی ہم آہنگی کی راہ میں ہر رکاوٹ کو عبور کرے گی۔

ہم جو کچھ مانگ رہے ہیں وہ بہت قیمتی چیز ہے تحمل اور مکالمہ سے ہم جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بہت گراں ہے جس طرح قیمتی چیزوں کو حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح انکے حصول کے بعد ان کی حفاظت کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ مکالمہ اور تحمل سے معاشرتی ہم آہنگی کا حصول دراصل دو قیمتی چیزوں کا حصول ہے جس سے تیسری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

خدا ہمارا مختلف طریقوں سے امتحان لے گا تا کہ ہم احساس کر سکیں کہ ان چیزوں کی کیا قدر ہے اور ہمٰیں ان کےلئے ضرور کھڑے ہو نا چاہئے۔ ہم سارے امتحانات برداشت کریں گے۔ جیسا کہ یونس نے کہا ۔

؂ خدا کی بارگاہ سے کوئی سختی آن پڑے

ی جب کوئی مہربانی انکی ہاتھ لگے

دونوں سے دل کو سکون ملت ہے

رحمت سے اور غصے سے چین ملتا ہے

ہمیں اسطرح ہونا چاہئے کہ "جب کوئی مارے تو ایسے ہوں کہ ہمارے ہاتھ ہی نہیں، اور جب کوئی برا بھلا کہے تو جیسے ہماری زبان ہی نہیں" اگر کوئی چاہے پچاس مرتبہ بھی توڑ کر ٹکڑے ٹکرے کرنے کی کوشش کرے تو پھر بھی ہم ٹوٹنے والے نہیں۔ اور ہر ایک کو محبت اور شفقت سے گلے لگایئں گے۔ اور ایک دوسرے سے پیار کرتے ہوئے کل کا سفر جاری رکھیں گے۔

میری دعا ہے کہ آج کی یہ شام رحمت اور مغفرت کا موجب ہو۔ میں آپ سب کو دل کی گہرایئوں سے مبارکباد دیتا ہوں۔


[1] یونس آمرے (1320-1238) ایک شاعر اور صوفی جسکا ترکی ادب میں کافی اثر ہے وہ صوفی فلفسہ خصوصاً رومی سے اچھی طرح واقف تھے اور رومی کی طرح ہی اناطولیا میں صوفی ازم کے نمائندے کے طور پر جانے جاتے ہیں(لیکن صرف شہرت کی حد تک)

[2] بخاری، بدء الوحی؛ 1 عتق، 6؛ مسلم، امارات، 155؛ ابو داؤد، طلاق،11

[3] مصنف نے یہ تقریر'جرنلٹس اینڈ رائٹرز فاؤنڈیشن' کی طرف سے منعقد کئے گئے رمضان عشائیہ میں11 فروری 1995 کو استنبول میں کی۔

[4] ابو داؤد، امارت،33؛ متقی الھندی، کنز العمال،4:362

[5] یحیی بن آدم، کتاب الحرج: 54

[6] ملازگیرت (یا منز یکرت ) کی جنگ :1071ء میں بازنطینی بادشاہ رومانوس ششم دیوگینس نے سلجوقی ترک سلطان البرسلان کے خلاف لڑی اور نتیجۃً اناطولیا کا بیشتر حصہ سلجوقیوں کے زیر تسلط آگیا۔

[7] سلطان البرسلان (1072 -1032ء) سلجوقی بادشاہوں میں سب سےعظیم اور مشہور بادشاہ گزرا ہے اس نے بازنطینی فوج کو 1071ء میں شکست دی اور اناطولیا کے دروازے سلجوقیوں کے لئے کھول دیئے۔

[8] ڈاکٹر عزالدین (پیدائش 1940ء) قانون کے پروفیسر ہیں اور حالاً Cem Vakfi جو ترک علوی شہریوں کی فاؤنڈیشن ہے کے صدر ہیں

[9] ایک اقلیتی فرقہ جو حضرت علیؓ سے الگ ہو گیا تھا اور پھر ان پر قاتلانہ حملہ بھی کرایا