ترکی کی زوال پذیر جمہوریت

ترکی کی زوال پذیر جمہوریت

پچھلے چند سالوں سے ترکی کی صورت حال کا جائزہ نہایت مایوس کن ہے۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا یہ مسلمان اکثریت ممالک کا رشک تھا کہ ایک قابل عمل امیدوار عالمی انسانی حقوق، جنسی مساوات ، قانون کی بالادستی، کرد اور غیر مسلم شہریوں کے حقوق کی بلندی کے لیے جمہوریت کو فعال بنانے کے لیے یورپی یونین کی طرف چلا۔ یہ تاریخی موقع اب ترکی کی حکمران جماعت سے ضائع ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جس کو۔ اے ۔ کے۔ پی کے طورپر جانا جاتا ہے۔ ترکی کے موجودہ حکمران واضح اکثریت سے الیکشن جیتنے کا دعویٰ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن جیت ان کو آئین اور اختلاف رائے کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ خاص طورپر جب الیکشن انتہائی سرمایہ کاری اور میڈیا کی افادیت کے ساتھ جیتے جائیں۔ اے۔ کے۔پی کے رہنما اب ریاست پر ہر طرح کی جمہوری تنقید کرتے ہیں۔ بطور دشمن یا بدترین غدار کے طورپر جائزہ لیتے ہوئے وہ ملک کو مطلق العنانیت کی طرف لے جارہے ہیں۔ اب آزاد میڈیا تنظیموں کے ورکرز، افسران اور مدیران اس زوال کا شکار ہورہے ہیں۔ اور انہیں حالیہ قانون اور عدالتی نظام میں تبدیلی کے ذریعے جیلوں میں بند کیا گیا اور انہیں الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک نمایاں ٹیلی وژن چینل کے ڈائریکٹر کو دسمبر میں گرفتار کیا گیا وہ ابھی تک جیل میں ہے۔ عوامی افسران کو بدعنوانی کی تحقیقات کے بدلے جیل بھیج دیا گیا ۔ایک آزاد عدلیہ ، ایک فعال شہری معاشرہ اور میڈیا حکومت کی سرکشی کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔ ان کوپرخطر پیغام بھیجا جاتا ہے کہ جوحکومتی ایجنڈا میں رکاوٹ ڈالے گا۔ ان پر بہتان، پابندیاں اور من گھڑت الزامات لگائے جائیں گے۔ ترکی کے حکمران اب صرف مغرب سے دور نہیں بھاگ رہے بلکہ مشرق میں بھی اپنی اہمیت کھو رہے ہیں۔ ترکی کا مثبت اثر نہ صرف خطہ میں معیشت پر انحصار کرتا ہے بلکہ جمہوریت کو فعال بنانے پر بھی ہے۔

جمہوریت کی اصل روح قانون کی بالادستی، ہر فرد کی آزادی اوروہ بنیادی اسلامی اقدار جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہیں کسی سیاسی یا مذہبی رہنما کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ ان کوسلب کرے۔ یہ بہت پریشان کن بات ہے کہ مذہبی علما حکمران جماعت کے ظلم اوربدعنوانیوں پر نظریات کا اظہارکرتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں۔ وہ جو مذہبی پابندیوں کی علامات اور زبان کا استعمال کرتے ہیں لیکن مذہب کے انتہائی اصولوں کو پامال کرتے ہیں۔ وہ مذہبی اسکالرز کی طرف سے کسی حمایت کے حقدار نہیں۔

ظلم کے خلاف بات کرنا ایک جمہوری حق ہے۔ شہری ذمہ داری اور مذہبی فریضہ ہے۔ قرآن واضح کرتا ہے کہ لو گوں کو ناانصافی کے سامنے خاموش نہیں رہنا چاہیے ۔’’ اے ایمان والوانصاف کے دامن کو تھامو اور خدا کے گواہ بنو اگرچہ وہ آپ کے والدین یا عزیزو اقارب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘گزشتہ پچاس سالوں سے عوامی تحریک میں حصہ لینے پر میں خوش قسمت ہوں جس کا حوالہ بطور ’’ہزمت‘‘ دیا جاتا ہے ۔ جس کے لاکھوں حامی اورکارکن ترک شہری ہیں۔ یہ شہری دینی گفتگو، معاشرتی خدمت، بھلائی کی کوششیں اور تعلیم تک رسائی حاصل کرتے ہوئے زندگی کو بہتر بنا رہے ہیں۔ وہ ایک ہزار سے زیادہ جدید اسکول، تعلیمی آگاہی کے مراکز، کالج،اسپتال اور بھلائی کی تنظیمیں دنیا کے 150ممالک میں قائم کرچکے ہیں۔ حکمران جماعت کی بار بار ’’ہزمت‘‘ کارکنان کو ختم کرنے کی بیان بازی کچھ اور نہیں بلکہ اپنی آمریت کو سچ کہنے کے بہانے ہیں۔ ہزمت کارکنان نے نہ کوئی سیاسی پارٹی تشکیل دی ہے نہ ان کا کوئی سیاسی جذبہ ہے۔ تحریک میں ان کارکنان کی اندرونی ذمہ داری خدمت ہے کوئی اور بیرونی عمل کارفرما نہیں۔ مجھے امن کی اقدار، باہمی محبت، اور انسان دوستی کی تعلیم اور تبلیغ کرتے ہوئے پچاس سال گزر چکے ہیں۔ میں نے تعلیم ، معاشرتی خدمت اور باہمی یقین پرزور دیا ۔ میں ہمیشہ ایسی خوشی تلاش کرتا ہوں جس میں دوسروں کی خوشی ہو۔ اور دوسروں کی مدد کرتے ہوئے اللہ کی خوشنودی حاصل کرتا ہوں۔ اس کے اثرات مجھ پر جو بھی ہوں میں نے ہمیشہ تعلیمی اور سماجی منصوبوں کو فروغ دیا جو ہر فرد پر اچھے اثرات رکھتا ہے۔ میں سیاسی طاقت پر یقین نہیں رکھتا۔ مجھ سمیت بہت سے ہزمت کارکنان نے 2005 میں یورپی یونین کے ساتھ الحاق پر گفتگو کو شامل کرتے ہوئے حکمران جماعت کی حمایت کی۔ ہماری حمایت اصولوں پر مبنی تھی جیسا کہ آج ہماری تنقید ہے۔ یہ ہمارا فرض اور حق ہے کہ ہم حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں بات کریں جو کہ معاشرہ میں بہت اہم اثر رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے جمہوری اظہا ر نے عوامی بدعنوانی اور آمریت کے خلاف آواز اٹھانے پر ہمیں بدحالی کا شکار کردیا دونوں ہزمتHizmet تحریک کواور مجھے بھی نفرت بھری تقاریر ، میڈیا کی منفی ترغیب اور قانونی دباؤ کا شکار بنایا گیا۔ ترک معاشرہ کے تمام طبقات کی طرح ہزمت کارکنان کی حکومتی اداروں اور نجی سطح پر شمولیت ہے۔ یہ شہری اپنے قانونی حقوق سے انکار نہیں کرسکتے اور نہ ہی انہیں ہزمت کے ساتھ ہمدردی کے عوض نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ے جب تک وہ اپنے ملک کے قانون کی پاسداری اور اس کے اداروں کے قوانین اور بنیادی اخلاقی اصولوں کی پابندی کرتے ہیں۔ معاشرہ کے کسی طبقہ کا تجزیہ اور معائنہ کسی دھمکی کے انداز میں ناقابل برداشت ہے۔ ہم صرف اے۔ کے۔ پی کے ظلم کا شکار نہیں بلکہ پرامن ماحولیاتی احتجاج کرنے والے کرد، غیر مسلم شہری اور کچھ سنی مسلمان گروپ بھی حکومتی جماعت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ بغیر احتساب کے کوئی فرد یا گروپ حکومت کے غضب / زیادتی سے محفوظ نہیں۔ مذہبی پابندیوں کے باوجود شہری عالمی انسانی حقوق اور آزادی کے گرد متحد ہوسکتے ہیں اور متحد ہونا چاہیے اور جمہوری طور پر ان کی مخالفت کریں جو اس کو پامال کرتے ہیں۔

ترکی اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں جمہوریت اور انسانی حقوق کو ملتوی کردیا گیا ہے۔ میں امید کرتا اور دعا کرتا ہوں کہ صاحب اقتدار اس کو واپس غالب راہ پر گامزن کریں۔ ماضی میں ترک ان منتخب رہنماؤں کو رد کر چکے ہیں جو جمہوری راستے سے بھٹک گئے تھے۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے ملک کے مستقبل کے لئے دوبارہ قانونی اور جمہوری حقوق پر عمل کرنے کا دعویٰ کریں گے۔