قرآن کریم کے تئیس سال میں نازل ہونے میں کیاحکمت ہے؟

اگرقرآنِ کریم تئیس برس کی بجائے یک بارگی نازل ہوتا تو اعتراض کرنے والے کہتے:‘‘قرآن یک بارگی کیوں نازل ہوا؟آہستہ آہستہ کیوں نہیں نازل ہوا؟‘‘

ایسے مسائل میں یہ ایمان رکھناچاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جوکچھ نازل فرمایاہے وہ حق ہے، بصورت دیگر ہر معاملے میں سوالات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا، مثلاًنمازِظہرکی رکعات کی مجموعی تعداد دس کیوں ہے؟{qluetip title=[(1)]}(۱) نمازظہرکی فرض اورسنت رکعات کی مجموعی تعداد مراد ہے۔(عربی مترجم){/qluetip} نمازِجمعہ جمعہ کے دن ہی کیوں ادا کی جاتی ہے؟ زکوۃ کی مقدار چالیسویں حصے کی بجائے اکتالیسواں حصہ کیوں نہیں؟ ہمیں یقین رکھناچاہیے کہ ان میں سے ہر معاملے میں اسرارِبندگی پوشیدہ ہیں۔

اگرچہ نمازکی اپنی حکمتیں ہیں اور انسان کے دن میں پانچ مرتبہ اپنے پروردگار کے دربار میں حاضرہونے کے بہت سے فوائدہیں،لیکن جہاں تک رکعات کی تعداد کا معاملہ ہے توان کی تعداد اللہ تعالیٰ نے ہی مقررفرمائی ہے،مثلاً وتر اور نمازِمغرب کی تین رکعات اورعصرکی چار رکعات کاتعین من جانب اللہ ہے،لیکن اگریہ معاملہ ہم پر چھوڑدیاجاتااورہم سے کہاجاتاکہ تم روزانہ پانچ دفعہ نماز کی ادائیگی کے پابند ہو، تاہم نماز کی ادائیگی کا طریقِ کار تم نے خود طے کرناہے توہمارے درمیان اس بارے میں اختلاف رائے پیداہوتا۔ہر ایک مختلف تعدادطے کرتااور اپنے حالات و مشغولیات کے مطابق نمازوں کو ترتیب دیتا۔عقل کے ذریعے تعداد کا تعین وحی کے ذریعے اس کے تعین سے مختلف ہوتاہے۔وحی علم الٰہی کی روشنی میں انسان کی روحانی زندگی کے لیے پرحکمت اور ممتازلائحہ عمل طے کرتی ہے، لہٰذا نمازکی حکمتوں کے بارے میں توتحقیق کی جاسکتی ہے،لیکن رکعات کی تعدادکے بارے میں سوال نہیں کیا جا سکتا۔

قرآن کریم کے تئیس سال کے عرصے میں نازل ہونے میں ایسی ہی حکمتیں پائی جاتی ہیں۔قرآن کریم کانزول انسانی ترقی اورعروج کے ابتدائی دورمیں ہواہے،یہی وجہ ہے کہ اس دورمیں اللہ تعالی کے محبوب ترین اورکامل ترین نبی حضرت محمدﷺکی بعثت ہوئی۔متمدن اقوام کی تعلیم وتربیت کرکے انہیں ترقی کے اعلیٰ ترین مراتب تک پہنچاناآپﷺکے صحابہ کرام کے فرائض منصبی میں شامل تھا،لیکن دورِجاہلیت میں بری عادات اوراخلاق کے ان کے مزاج پر اس قدرگہرے اثرات تھے کہ وہ ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکے تھے۔رسول اللہﷺنے نہ صرف ان کی بری عادات اور اخلاق کو ایک ایک کرکے ختم کرناتھا،بلکہ اس کے بعد ان میں عمدہ اخلاق اورپسندیدہ عادات بھی پیدا کرنی تھیں۔اگرقرآن کریم ایک ہی دفعہ میں نازل ہو جاتا اور ان سے ان تمام امور کا بیک وقت مطالبہ کرتاتووہ عاجزآکر اس مطالبے کو پورا نہ کرپاتے، مزیدبرآں ایسا کرنا قوانین فطرت اور انسانی تکمیل پذیری کے اصولوں کے بھی خلاف ہوتا۔

اس بارے میں ہم اپنی حالیہ زندگی سے بھی مثالیں پیش کرسکتے ہیں،مثلاًجن لوگوں کو تمباکو نوشی، شراب پینے، سڑکوں پر مٹرگشت کرنے یا ہوٹلوں میں فضول بیٹھنے کی عادت ہوتی ہے اگرآپ ان میں سے کسی سے کہیں کہ اگر تم آئندہ ہوٹل پرگئے تو تمہیں جان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے تووہ پھربھی کوئی عذر تلاش کرکے ہوٹل جا پہنچے گااور اگروہ کسی دن نہ جاسکا توگھرپراس کاساراوقت افسوس اورحسرت کرتے ہوئے گزرے گاحتیٰ کہ آخرکار عادت سے مجبورہوکرہوٹل کی طرف چل پڑے گا۔یہ ایک معمولی سے عادت ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے لیے اسے چھوڑنابہت مشکل ہوتاہے۔

اسی طرح تمباکو نوشی کے عادی شخص کو لے لیجئے۔اگر آپ اس سے کہیں: ‘‘برائے مہربانی تمباکو نوشی ترک کردیجئے،کیونکہ یہ نہ صرف آپ کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے،بلکہ بتدریج خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔’’تو اسے آپ کی یہ بات یوں لگے گی جیسے آپ نے اس کے سینے میں خنجرکے پے درپے وارکر دیئے ہوں،بلکہ اگرآپ کسی ڈاکٹرکی زبانی اسے بتائیں گے کہ تمباکو نوشی میں کوئی فائدہ نہیں ہے،بلکہ اس میں فلاں فلاں نقصان ہے تب بھی اسے تمباکو نوشی ترک کرنے میں شدید تردد ہو گا، حتی کہ بہت سے ڈاکٹر حضرات تمباکو نوشی کے نقصانات سے آگاہ ہونے کے باوجود اسے نہیں چھوڑتے۔

شراب خور کو لے لیجئے۔اس کی تو دنیا ہی کوئی اور ہوتی ہے۔وہ ہروقت نشے میں مدہوش رہتاہے،بلکہ اگروہ ایک درجہ مزیدنیچے آجائے توانسانیت کے دائرے سے ہی نکل جائے،لیکن اس کے باوجود اگر آپ اسے ایک دم شراب نوشی ترک کرنے کا کہیں گے توآپ کا یہ کہنا اس سے اپنی عادت اور نفسیات تبدیل کرنے کے مطالبے کے مترادف ہوگا۔

اگرآپ ان ہزاروں انسانوں کاتصورکریں گے جن کے رگ وریشے میں بری عادت و اخلاق سرایت کرکے ان کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھیں توآپ کو قرآنِ کریم کےبتدریج نزول کی ضرورت کااحساس ہوگا۔

قرآن کریم نے پہلے ان کی روحوں کو بری عادات واخلاق کی نجاست سے پاک کیااورپھران کے دلوں کو اعلی اخلاق سے مزین کیا اور مختصر سے عرصے میں کامیابی سے ہزاروں نفوس کی اصلاح کی۔ہمارے خیال میں تئیس سال میں قرآن کریم کے نزول کو تیزرفتار نزول سمجھا جانا چاہیے۔بدیع الزمان سعیدنورسی کہتے ہیں:‘‘اگردورِحاضر کے تمام فلسفی جزیرۂ عرب جاکر اپنی تمام کوششیں صرف کرڈالیں توکیا وہ سو سالوں میں بھی وہ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں،جو رسول اللہﷺنے ایک سال میں حاصل کی تھی؟’’ یہ ہمارا چیلنج ہے۔ہرشخص جانتاہے کہ شراب نوشی کے سبب ہرسال سینکڑوں گھر اجڑتے ہیں، گرین کریسنٹ سوسائٹیز{qluetip title=[(2)]}(۲) دیوگرین کریسنٹ سوسائٹیزمنشیات کے خلاف اقدامات کرتی ہیں۔(عربی مترجم){/qluetip} ہرسال اس موضوع پرمتعدد سیمینارزمنعقد کراتی ہیں اوراس موضوع کو مڈل اورہائی اسکولوں کے نصاب میں شامل کیاجاچکاہے،لیکن اس کے باوجود نشے کے عادی کتنے لوگوں نے نشے کو چھوڑا ہے اوراس سے نجات پائی ہے؟کیا یونیورسٹیاں اپنے تمام پروفیسرزکی خدمات حاصل کر کے نشے کے بیس عادی لوگوں کو بھی اس آفت سے نجات دلاسکتی ہیں۔اگرانہیں اتنی بھی کامیابی نصیب ہو جاتی تو ہم اسے ان کی بہت بڑی کامیابی تصورکرتے اور انہیں رسول اللہﷺکی کامیابیوں کے پہلو میں جلی حروف سے لکھتے،لیکن یہ بہت دور کی سوچ ہے۔یہ کارنامہ صرف ایک بارسرانجام دیا گیاہے اور دوست و دشمن سب جانتے ہیں کہ اسے دوبارہ سرانجام دینا ناممکن ہے۔

تئیس سال انتہائی مختصرمدت ہے،لہٰذاقرآن کریم نے جوکارنامہ سرانجام دیا ہے، وہ ایک معجزہ ہے۔رسول اللہﷺنے تئیس سال کی مدت میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ انسانیت ہزاروں سال میں حاصل کرسکی اورنہ ہی کبھی حاصل کرسکے گی۔

قرآن کریم نے جہاں لوگوں کی سینکڑوں بری عادات واخلاق کا ازالہ کیا، وہیں انہیں کوئی تکلیف یا ایذاء دئیے بغیراعلیٰ اوصاف واخلاق سے مزین بھی کیا۔قرآن نے مختلف مراحل میں بہت سے مسائل کاعملی حل پیش کیا،جن میں سے بعض مراحل کے لیے آج تئیس سال سے کئی گنازیادہ عرصہ درکارہے۔

اس دورکے انسان کے لیے اوامرونواہی کی ایک بڑی تعدادکوقابل قبول بنانے نیز برائیوں کے بتدریج خاتمے اورشخصیت کی بتدریج تعمیر کے لیے تئیس سال کی یہ مدت ناگزیرتھی،مثلاًاس مدت کے دوران شراب کو تین چار مراحل میں حرام قرار دیا گیا۔بچیوں کو زندہ درگورکرنے کی ممانعت دو مراحل میں ہوئی۔اس دورکے انسان میں اجتماعی شعور کوبیدار کر کے قبائلی زندگی کی تنظیم نو اور وحدت کا بندوبست کیا گیا، دوسرے لفظوں میں ان میں معاشرہ تشکیل دینے کی صلاحیت پیداکی گئی۔یہ اہداف بری عادات و اخلاق کا خاتمہ کر کے اور انتہائی مشکل اقدامات اٹھاکر ان کی جگہ اعلیٰ اخلاق پیدا کرکے حاصل کئے گئے۔ درحقیقت ان کاموں کے لیے اس سے کہیں زیادہ مدت درکار تھی۔

دورِحاضرمیں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک سال ہم مخصوص حالات کے پیش نظر معاشرتی اورانتظامی لحاظ سے ایک مخصوص پالیسی وضع کرتے ہیں،لیکن اس کے ساتھ ساتھ آئندہ سالوں میں پیش آنے والے حالات کی تبدیلی کا جائزہ بھی لیتے ہیں اور پھران متوقع تبدیلیوں کے پیش نظر اپنی پالیسیوں میں ردوبدل کرتے ہیں۔اس طرح دراصل ہم حالات و واقعات کی نبض ٹٹول کر اس کے مطابق منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عہدِنبوی میں بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا تھا۔

مسلمان ایک قدآوردرخت کی مانند آہستہ آہستہ نشوونما پاتے اوراپنے آپ کو نئے حالات اورتقاضوں کے مطابق ڈھالتے۔ہرروز قافلۂ اسلام میں نئے نئے افراد شامل ہوتے اور انفرادیت کے عادی انسان میں اجتماعی شعور پیداکرنے کے لیے ہرروز ایک نئے شعور اور فکر کی ضرورت پیش آتی، لیکن یہ سب کچھ بتدریج،مسلسل اورمنظم انداز میں ہوتا،اسی حکمت عملی کانتیجہ ہے کہ زمانی اعتبارسے مختصرہونے کے باوجود یہ مراحل اسلام کے ابدی حقائق اور خصوصیات کی عکاسی کرتے ہیں۔اگریہ تبدیلیاں تئیس سال کے دورانیے میں پیش نہ آتیں،بلکہ انہیں آنِ واحد میں یک بارگی اپنانے کا مطالبہ کیا جاتا تو وہ غیرمتمدن معاشرہ اس بوجھ کوبرداشت نہ کرسکتا۔ہم اس صورتحال کو سورج کی شعاعوں سے انسانی جسم میں ہونے والے تغیرات سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔اگر کوئی شخص سرد علاقے میں چلا جائے تو اس کی جلد میں معمولی تبدیلیاں رونما ہوں گی،لیکن وہ یک بارگی بیس حسبی تغیرات (Mutations)کی بقدر تبدیلی برداشت نہ کرسکے گا،بلکہ فوراً مرجائے گا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک مخصوص فضائی دباؤ میں رہنے والے شخص کو ایک دم بیس ہزار فٹ کی بلندی پر لے جایاجائے۔اچانک اس قدربلندی پرجانے سے اس کی موت واقع ہو جائے گی حتی کہ ہوائی جہاز بھی جب اس قدر بلندی پرجاتے ہیں تو آکسیجن ماسک وغیرہ جیسی ضروری تدابیراختیارکرتے ہیں۔

جس طرح یک بارگی بیس ہزارفٹ کی بلندی پرجاناانسانی موت کاباعث بن جاتاہے،اسی طرح اگر قرآن کریم کے یک بارگی نازل ہونے کی صورت میں زندگی،فرد اور خاندان کے بارے میں غیرمتمدن تصورات کے حامل معاشرے سے قرآن کریم کے تمام احکامات پربغیرکسی کمی بیشی کے عمل کرنے کامطالبہ کیاجاتاتوکوئی بھی شخص اسے پورا نہ کرسکتا،کیونکہ یہ معاشرے کویک بارگی بیس ہزارفٹ کی ناقابل تحمل بلندی تک اٹھانے کے مترادف ہوتا۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن کریم کاتئیس سال کے دوران بتدریج نازل ہوناانسانی طبیعت اورفطرت کے عین مطابق ہے۔

چونکہ انسان کوکائنات سے جداکیاجاسکتا ہے اورنہ ہی کائنات میں ہونے والے ارتقا کو نظراندازکرکے انسان سے برتاؤکیاجاسکتاہے، اس لیے ہمیں اس کے ساتھ قوانین فطرت کے مطابق برتاؤ کرناچاہیے۔جس طرح کائنات میں بتدریج نمو ہوتاہے اور قوانین فطرت بھی بتدریج کام کرتے ہیں،اسی طرح انسانی نمو،ارتقااورتکمیل پذیری بھی بتدریج ہوتی ہے۔ترقی کی بنیاد اور اعلیٰ اصولوں کے مجموعے کی حیثیت رکھنے والے قرآن کے تئیس سال کے عرصے میں بتدریج نازل ہونے کے پیچھے بھی یہی حکمت کار فرما تھی۔

نزول وحی کے دورانیے کاتئیس سال پرمحیط ہونابھی حکمت پر مبنی تھا،ورنہ یہ مدت چوبیس یاپچیس سال بھی ہوسکتی تھی۔قدرت الہٰیہ کاتقاضایہ تھاکہ سیدالانبیاء ﷺکی عمرمبارک تریسٹھ سال ہو، جن میں سے تئیس سال زمانہ نبوت پرمحیط ہیں۔آپﷺکی عمرمبارک چونسٹھ سال بھی ہوسکتی تھی،لیکن اس صورت میں عہد نبوت چوبیس برس کا ہو جاتا۔ہم آپﷺکی عمر اور نبوت کی مدت کو اسی حکمت الہٰیہ کے تناظرمیں دیکھتے ہیں۔واللہ اعلم

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔