رضاکاروں کے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کے بارے میں موقف

رضاکاروں کے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کے بارے میں موقف

سوال:بعض لوگ ہرموقع پر ان لوگوں کے بارے میں کئی شبہات کو ہوا دیتے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردیا ہے۔ وہ ان پر الزام تراشی کرتے ہیں اور ان کے بارے میں جھوٹ گھڑتے ہیں اور عمومی فضا کو آلودہ کرتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کے بارے میں کون سا اسلوب اپنایا جانا چاہیے؟

جواب: سب سے پہلے میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ تحریک خدمت پر لگائے جانے والے اکثر جھوٹے الزامات کا جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہر جواب اور ر د کا مطلب ہے جو لوگ اس کو پہلی بار سن رہے ہیں، ان کے لیے ان الزامات کی صحت کا دروازہ کھولنا ۔ یہاں تک کہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے جوابات بعض لوگوں کے یہ سوال پوچھنے پر مجبور کرسکتے ہیں کہ:’’ کیا یہ لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ سچ مچ مجرم ہیں؟‘‘اس لیے یہ بات درست نہ ہوگی کہ آپ ان الزامات اور بہتانوں کا غلط ہونے کو بیان کریں جن کا جھوٹ بالکل واضح ہے، وہ الزامات لگانے والے ظاہر ہیں اور ان کے اہداف بھی معلوم ہیں کیونکہ عقل اور وجدان فوراً اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ ان الزامات کا آپ سے کوئی تعلق نہیں۔

دلیل پیش کرنا دعویٰ کرنے والے کی ذمہ داری ہے

علاوہ ازیں یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ: ’’دلیل پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ہے اور انکار کرنے والے پر قسم میں‘‘۔ اس لیے اگر کوئی شخص ہمارے خلاف کسی بات کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دعوے پر دلیل لائے اور اسے ثابت کرے جبکہ ہم تو کہتے ہیں کہ یہ سارے الزامات جھوٹے ہیں اور اگر کوئی ہم سے اس پر قسم کھانے کا مطالبہ کرے تو ہم بڑی آسانی سے قسم کھا سکتے ہیں کہ ’’واللہ باللہ تاللہ ان امور کا ہم سے کوئی تعلق نہیں جوتم ہماری طرف منسوب کرتے ہو۔‘‘

مزید برآں میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو لوگ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی شرم کے اللہ تعالیٰ کے حکم کو بلند کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والے ان فدائین کے بارے میں بات کرتے ہیں جن کا مقصد رضائے الہٰی کے سوا کچھ نہیں، یہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے انسانی مرتبے کو بھی برقرارنہیں رکھ سکے اور اگرچہ میں اپنے آپ کو سب سے حقیر سمجھتا ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کی بندگی سے مشرف ہونے والا ایک انسان ہونے کے لحاظ سے ان الز امات اور بہتانوں کا جواب دینے کے لیے ان کے مقام پر اترنے کو ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کی بے ادبی سمجھتا ہوں۔ اسی طرح حضرت محمد مصطفی ﷺ کی امت کا ایک فرد ہونے کے اعتبار سے ان غیر معقول اور غیر منطقی الزامات کا جواب دینے کو آنحضرت ﷺ کی ایک طرح کی بے ادبی خیال کرتا ہوں کیونکہ زندہ ضمیر ان پر بھڑک اٹھتا ہے اور ان کا جواب دینے میں ان لوگوں کے مقام پر اترنے کا خطرہ ہے۔

دوسری طرف اگر آپ اپنے خلاف بولنے والے ہر شخص کا جواب دینے کی کوشش کریں گے تو اس سے تمہاری مشغولیت بہت بڑھ جائے گی اور تمہارے قیمتی اوقات اور گھڑیاں ضائع ہو جائیں گی اور آپ وہ عظیم کام نہیں کرسکیں گے جن کو کرنا آپ پر لازم ہے۔ اس سے بھی اگلی بات یہ ہے کہ الزام تراشی کرنے والے تمہارے جوابات میں ردوبدل کریں گے کیونکہ وہ غلط منطقی انداز سے کام کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ان جوابات سے مزید سوالات جنم لے سکتے ہیں۔ان سب اسباب کی وجہ سے ان جھوٹے لوگوں کو جواب دینے کو فضول سمجھتا ہوں جو ہمارے خلاف کچھ غیر ذمہ دار انہ الفاظ بولتے ہیں اور ذاتی طورپر اس سے چشم پوشی کو بہتر سمجھتا ہوں۔

ظالمانہ طاقت کا جنون

اس کے باوجود( ہمارے اپنے اسلوب کو برقرار رکھتے ہوئے)ان الزامات کا جواب دینا، وضاحت کرنا اور حقیقت کو واضح کرنا ضروری ہے بشرطیکہ ان الزامات کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے ذہن میں تشویش پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل تکرار کی وجہ سے عقل سلیم کے مالک لوگ بھی ان کی جانب مائل ہوسکتے ہوں۔ اس رخ سے (اگر آپ کی اجازت ہو تو) میں چند امور اور ان کے خدوخال کے بارے میں مختصراً کچھ عرض کرنا چاہوں گا:

آج تک ان مختلف گروہوں پر بہت سے حملے اور ظلم کئے گئے ہیں جو ان لوگوں نے بنائے تھے جو امت کے مفاد کے لیے کام کرنا چاہتے تھے اور اس کے لئے محنت کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پتھر صرف پھلدار درخت کو مارے جاتے ہیں۔ خاص طورپر جو لوگ سیاسی مصلحت اور ذاتی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں، انہوں نے ان لوگوں کو جھکانےکے لیے اپنی پوری کوشش کرڈالی مگر اپنی خواہش کے مطابق کام کرنے پر مجبور نہ کرسکے ۔ پس جب امت کی تقدیر پر ایسی ظالمانہ قوت غالب آگئی جس کو قانون اور انصاف کے ذریعے درست کرنا مشکل ہوتا ہے تو اس وقت اس کا معیار صرف یہ کافرانہ سوچ رہ جاتی ہے کہ: ’’جب میرے پاس طاقت ہے تو میرا حق ہے کہ جو چاہوں کروں۔مجھ پر اعتراض کرنے کی کسی میں سکت نہیں‘‘۔

اس وجہ سے اس بنیادی فکر کو سمجھنا اور اس کے پورے پس منظر کے ساتھ اچھی طرح ادراک کرنا ضروری ہے جس کی وجہ سے یہ سارے واقعات پیش آرہے ہیں کیونکہ ظالمانہ طاقت پر گھمنڈ کرنے والا شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ :’’جب میں طاقتور ہوں تو جو میرے جی میں آئے گا کروں گا اور لوگ اسے ظلم و جور سمجھتے رہیں بلکہ اگر ضرورت پڑے تو میں سر بھی اڑا سکتا ہوں۔ یہ سراس نظام پر قربان ہو جائیں جو میں اپنی مخصوص فکری دنیا کے مطابق قائم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ بلکہ بعض لوگوں کو ختم کرنے کے بارے میں ایسے افکار کا برملا اظہار بھی کیا جو ان کی صف میں شامل نہیں۔ ایسے لوگوں کے طر یقہ کار کو آپ ’’انتظامی یا اداری انتخاب‘‘ کا نام دے سکتے ہیں جیسے کہ ڈارونزم کے پیروکار’’فطری انتخاب‘‘ کے قائل ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور کفر اور ایمان اور منافقت کے درمیان جنگ زمانہ قدیم سے لے کر اب تک جاری ہے جو ان تمام امور کی بنیادمیں پوشیدہ ہے۔ اسی طرح منہج نبوت اور شیطانی وسوسوں اور اللہ کے رستے اور شیطان کے رستے میں مقابلہ اور رسہ کشی جارہی ہے۔ اس لیے ہمیشہ منہج نبوت کے اوپر چلنے والوں کے خلاف شیطان کے چیلوں نے اپنی عداوت کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا ہے لیکن بعض نے ’’فاوست مفستو‘‘(1) کے نفاذ کے وقت دین اور دینداروں کو براہ راست نشانہ بنایا جبکہ کچھ دیگر لوگوں نے یہی کام دینداروں کا لبادہ اوڑھ کر انجام دیا۔ جی ہاں، ان دونوں فریقوں کا منہج اور طریقہ ایک دوسرے سے جتنا بھی مختلف ہو، اس رسہ کشی سے وہ جن اہداف تک پہنچنا چاہتے ہیں، وہ یکساں ہیں۔

اگرچہ تم جنت کے لیے یڑھی بنالو تو بھی۔

قربانی دینے والے جو لوگ اللہ کے حکم اور فضل سے دنیا کے مختلف گوشوں میں پہنچے ہیں آج انتہائی اہم خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان لوگوں نے جو بیج بوئے ہیں وہ ان شاء اللہ دس یابیس سالوں کے بعد اللہ کے حکم سے اس طرح اگیں گے اور آگے بڑھیں گے جس طرح زمین میں بوئے جانے والے بیج اگتے ہیں۔ جی ہاں، آج اطمینان اور سکون کے ایسے چھوٹے چھوٹے جزیرے وجود میں آگئے ہیں جن پر محبت اور امن کی فضا چھائی ہے۔ ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کر م سے ایک دوسرے کو سمجھنے والے لوگ آپس میں یکجا اور ایک ساتھ رہتے ہیں۔

ان تبدیلیوں سے وہ لوگ پریشان ہیں اور پریشان ہوتے رہیں گے جن کو دوسروں کو قبول کرنے میں مشکل درپیش ہے ، جو لڑائی جھگڑے کی تائید کرتے ہیں حالانکہ وہ حسد،عناد اور بغض کے مریض ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے تمام وسائل کو بھلائی کے لیے نہیں بلکہ ان لوگوں کے خلاف سازش کرنے کے لیے وقف کردیا ہے جنہوں نے عالمی امن کو وجود میں لانے کے لیے آپس میں اتحاد کیا ہے اور اس لیے یہ لوگ ان کو اپنے اس رستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح وہ اس نفسیاتی جنگ کے ذریعے ان کی روحانی قوت کو توڑنا اور ان کے مورال کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ اس بارے میں ان کا طریقہ یہ ہے کہ:’’اس پر کیچڑ اچھالو۔ اگر کیچڑ اس سے نہ بھی چپکی تو اسے گندہ تو کردے گی۔‘‘چنانچہ وہ ایسے ایسے جھوٹے الزمات تراشیں گے جن کوقبول کرنا عقل سلیم کے لیے ناممکن ہوگا۔ اس طرح وہ رائے عامہ کوخراب کرنے اور عام لوگوں کے اذہان کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ ان لوگوں کی نیت اور سوچ خراب ہے، اس لیے تم جو بھی کرو ان کو راضی نہیں کرسکتے اور بدنامی کی مہم کبھی نہیں رک سکے گی۔ اس وجہ سے وہ تمہارے سب سے مخلصانہ اور سب سے فائدہ مند اور معقول سرگرمیوں کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا کریں گے یہاں تک کہ اگر تم ایسی سیڑھی بنا دو جس پر چڑھ کر لوگ جنت کے قلب میں پہنچیں تو بھی تم اس کے ذریعے بعض لوگوں کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنو گے اور وہ لوگ اپنے غلط اور غیر منطقی اسلوب کے مطابق تمہارے اندر ایسی کوئی چیز تلاش کریں گے جس پر تنقید کرسکیں۔ مثلاً وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ: ’’تم لوگ جنت میں جانے والوں کے لیے سیڑھی بنا کر ان کے لیے مشقت کیوں کھڑی کررہےہو۔ اگر آپ لوگ یہاں ایک لانچنگ پیڈ بنا کر لوگوں کو میزائل پر بٹھا دو تو کیا ہوجائے گا؟ کیونکہ اس طرح آپ لوگوں کو زیادہ آرام کے ساتھ جنت بھیج سکتے ہو!‘‘

کمزور ہو تو ذلیل اور طاقتور ہو تو ظالم

جب حالات ایسے لوگوں کے موافق نہیں ہوتے تو وہ غیر جانبداری اور جمہوریت کے لباس میں نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جوں ہی ان کو طاقت ملتی ہے تو جن لوگوں کو اپنا مخالف سمجھتے ہیں ان کو تباہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے البتہ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جن لوگوں نے بھی اللہ کے رستے میں چلنے والوں کا رستہ روکنے کی کوشش کی اور ان کے بارے میں کہا کہ:’’فلاں فلاں کو تباہ کرنا ضروری ہے‘‘ ان کی سازشیں خود ان کے اوپر وبال بن گئیں اور انہوں نے خود اپنے آپ کو تباہ کردیا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں اپنے رستے پرچلنے والوں کی حفاظت فرمائی، اسی طرح وہ آئندہ بھی صراط مستقیم پر چلنے والے اور روحانی اقدار کو زندہ کرنے کی سعی کرنے والوں کی حفاظت فرمائے گا جو ساری دنیا کو اپنی روحانی جڑوں سے نکلنے والے اقدار کا بتانے کے لئے حرکت میں رہتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ یقیناً ہر اس شخص کو سزا دے گا جو ایسے شخص کا رستہ روکنے کی کوشش کرے گا۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسرے لوگ جو کچھ بھی کریں، اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان لانے والے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی شخصیت اور علامتوں سے دستبردار نہ ہوں۔ میں ذاتی طورپر یہ دعا کرتا ہوں کہ:’’اے میرے رب! مجھے ان لوگوں کے ساتھ احسان کرنے کا موقع نصیب فرما جو مجھے ایذا دیتے ہیں اور جب ان سے ملاقات ہو تو ان کی مدد کی توفیق عنایت فرما‘‘۔ اگر وہ اس کا سبب پوچھیں تو میں نے ان سے کہوں کہ:’’ہر شخص اپنے طریقے کے مطابق کام کرتا ہے جبکہ میری شخصیت مجھ پر لازم قرار دیتی ہے کہ میں اپنے طریقے کے مطابق اس طرح کام کروں۔‘‘ میں یہ کہتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے قربانی اور فداکاری کی طاقت مل جائے تاکہ ہم ظلم و جور اور غداری اور اہانت کی اس بڑی مقدار کے باوجود اتحاد و یگانگت کی روح تعمیر کرسکیں۔

(1) فاوست مفستو: عظیم جرمن شاعر گوٹے کے مشہور ڈرامے ’’فاوست‘‘ کے ہیرو ہیں اور فاوست اس ڈرامے میں ایک ایسے نوجوان کا کردار ادا کرتا ہے جو شیطان کے جال میں پھنس چکا ہے اور اس کا نام ’’مفستو‘‘ ہے اور ’’فاوست مفستو‘‘ کے درمیان جنگ سے مراد زمانہ قدیم سے جاری بنی آدم اور شیطان کے درمیان جنگ ہوتی ہے۔

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔