ثقافت

ثقافت ایک ایسا سرچشمہ ہے جس کی طرف ہر قوم اپنے مخصوص خطوط پرتعمیر و ترقی کرنے اور بلندیوں کی طرف بڑھنے کے سلسلے میں بار بار رجوع کرتی ہے۔ قوم کی زندگی میں پائے جانے والے آہنگ اور قوم کی منتخب کردہ سمت کے ساتھ ثقافت کے مصدقہ سرچشموں کے گہرے تعلقات ہمیشہ موجود رہے ہیں ۔

* * * * *

ثقافت ایک معاشرے کی زبان‘ تربیت‘ روایات‘ صنعت اور فن جیسے جذبات سے معرضِ وجود میں آتی ہے۔اور پھر جوں جوں یہ زیرِ عمل آتی ہے توں توں اُس معاشرے کی طرزِ حیات کی صورت اختیار کرتی جاتی ہے۔اِس کے تقریباَ ہر حصّے میں ایک طرح کے بنیادی عناصر کا مجموعہ موجود ہوتا ہے۔ اِن بنیادی عناصر کو جان بوجھ کر نظرانداز کرنانابینا پن ہو گا۔ معاشرے کو ان عناصرسے دور رکھنے کی کوشش کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ معاشرے کو گمراہ کر کے اُسے غیر منظم کیا جا رہا ہے اور یوں اُسے ذہنی اُلجھاﺅ میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔

* * * * *

قوموں کے ایک دوسرے کے ساتھ تھوڑا بہت میل جول رکھنے کی وجہ سے ثقافت ‘ کسی حد تک تمدن کی طرح ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے تک پہنچ سکتی ہے۔لیکن اگر بیرونی ثقافت کی درآمد کے وقت قومی روح کا آلہءتقطیر صحیح طور پرکام نہیں کرتا‘ جس کے باعث ثقافت میں ضروری کاٹ چھانٹ اور صفائی نہیں ہوتی ‘ تو پھرثقافت اور تمدن کے بحران سے کسی صورت بچا نہیں جا سکتا ۔

* * * * *

حقیقی ثقافت‘ حقیقی دین‘بلند اخلاق‘ فضیلت اور حاصل کردہ علوم کی کُٹھالی میں اُبل اُبل کر پختہ ہوتی ہے۔ جس ماحول پر بے دینی‘بداخلاقی اور جہالت حکمران ہوں وہاں نہ حقیقی ثقافت کے متعلق بحث کرنے کا کوئی امکان ہوتا ہے اور نہ ہی اُس ماحول میں پرورش پانے والے انسانوں کے لیے اس سرچشمے سے استفادہ کرنا ممکن ہوتا ہے۔

* * * * *

وہ معاشرے جو دوسری قوموں کی ثقافت اور تمدن کے ساتھ ایک طرح کے ازدواج میں آ کر اپنی ہستی اور بقا کے دوام کی کوشش کرتے ہیں وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے وہ درخت جن کی شاخوں پر دوسروں کی ملکیت کے پھل لگا دئیے جائیں ۔ یہ لوگ اپنے آپ کو دھوکا بھی دیتے ہیں اور دوسروں کے مذاق کا نشانہ بھی بنتے ہیں ۔

* * * * *

ثقافت قوم اور جمیعت کی فطرت سے معرضِ وجود میں آتی اور پروان چڑھتی ہے۔ ایک قوم کی ثقافت ایسے ہی ہوتی ہے جیسے ایک درخت کے پھل اور پھول۔ جو قومیں اپنی ثقافت کو پختگی کی منزل تک نہیں پہنچا سکتیں یا اُسے کھو دیتی ہیں وہ اُس درخت کی طرح ہوتی ہیں جسے پھل لگتا ہی نہ ہو ‘ یا لگ کر جھڑ گیا ہو۔ ایسے درختوں کے مقدر میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ آج نہیں تو کل اُنہیں کاٹ کر ایندھن بنا لیا جائے گا۔

ہر قوم کی زندگی میں ثقافت کا ایک نہایت اہم مقام ہوتا ہے۔ کسی قوم کے ماضی سے اچھی طرح گندھی ہوئی اور اُس کی روح کی جڑوں سے خوب اچھی طرح بندھی ہوئی ثقافت اُس قوم کے زندہ رہنے اور ترقی کرنے کی راہیں کھول دیتی ہے اور اُنہیں روشن کر دیتی ہے۔اس کے برعکس ہر روز ثقافت کے بارے میں سوچ اور ادراک کے مختلف اور مسلسل پیچ و خم قوم کو کھاتے رہتے ہیں اور پھر اُسے دھڑام سے گرا دیتے ہیں ۔

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔