کہا جاتا ہے کہ اسلام عقل و دانش سے ہم آہنگ مذہب ہے،لیکن اس کی بنیاد تسلیم و اطاعت کی متقاضی نصوص پر ہے۔کیا یہ دونوں باتیں بیک وقت درست ہوسکتی ہیں؟
یہ بات درست ہے کہ اسلام عقل و دانش سے ہم آہنگ بھی ہے اور وہ تسلیم و اطاعت کا تقاضا بھی کرتا ہے، لیکن عقل و دانش اور تسلیم و اطاعت میں تضاد نہیں،کیونکہ بعض باتیں عقل و دانش کے مطابق ہوتی ہیں اور تسلیم کا تقاضا بھی کرتی ہیں،نیز کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اگر کوئی بات تسلیم کا تقاضا کرے تو وہ لازماً غیر منطقی بھی ہو گی۔عقل اس قسم کے دعوے کو تسلیم نہیں کرسکتی۔ذیل میں ہم عقل و دانش کی روشنی میں اس موضوع کی وضاحت کریں گے۔
اسلام نے کائنات پر بحث کرنے والی اپنی کتاب میں ایمان کے ضروری مسائل کو چھیڑا ہے اور منطقی اور عقلی انداز میں ان کی وضاحت کی ہے۔اس انداز میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور ربوبیت کو ثابت کرنے کے بعد اس کے لازمی نتیجے نبوت پر بھی مؤثر دلائل کے ساتھ بحث کی ہے،کیونکہ اس الوہیت اور ربوبیت کی وضاحت اور دعوت و تبلیغ کے لیے انبیائے کرام کی بعثت ناگزیر ہے۔اسلام نے مضبوط عقلی اور منطقی دلائل کے ذریعے اس بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے۔موت کے بعد ابدی زندگی گزارنے کے لیے انسانوں کا دوبارہ اٹھایا جانا بھی ضروری ہے،ورنہ ان میں ودیعت دوام کی طبعی محبت بے معنی ہو جائے گی۔چونکہ اللہ تعالیٰ بے فائدہ کام کرنے سے منزہ ہیں،اس لیے انسان کی ایسی ابدی زندگی کی طرف راہنمائی ناگزیر ہے۔جس ذات نے کائنات کو پہلی دفعہ وجود بخشا وہی ذات اسے دوبارہ پیدا کرے گی۔
قرآن کلام الٰہی ہے۔جن و انس مل کر اس کی سورتوں کے مشابہ ایک سورت بھی پیش نہیں کرسکتے۔جس طرح قرآنِ کریم کلام الٰہی ہے،اسی طرح تورات،زبور اور انجیل وغیرہ جیسے پہلے صحیفے بھی اپنی اُس اصلی اور پاک صورت میں،جس کی قرآنِ کریم نے تصدیق کی ہے،خدا کا کلام ہیں۔
جن موضوعات پرہم پہلے سیر حاصل گفتگو کرچکے ہیں ہم انہیں یہاں نہیں چھیڑیں گے۔یہاں ہم نے ان کا ذکر صرف تمہید کے طور پر کیا ہے۔تمام عقائد کو عقلی اور منطقی دلائل سے ثابت کرنے کے بعد ہم آخرکار ایک ایسے مقام پر پہنچتے ہیں،جہاں منطق کی بیساکھیوں کی مدد سے چلنا ممکن نہیں،کیونکہ انسان کے دل اور وجدان میں محسوس ہونے والے حقائق اس قدر قوی تر ہوتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں تمام دلائل بودے نر آتے ہیں،تاہم اس کا تعلق انسان کی شخصیت کے ساتھ ہے اور یہ بالکل طبعی بات ہے،چنانچہ امام ربانی جیسی عظیم شخصیات نے ‘‘ سیر من اللہ’’ کی تکمیل کے بعد بھی لکھا ہے کہ انسان کو دلائل کی ضرورت رہتی ہے،تاہم اس کا تعلق عظیم ہستیوں سے ہے۔ہمارے جیسے لوگوں پر یہ بات صادق نہیں آتی۔
اللہ تعالیٰ کے تمام افعال اور اقدامات حکمت و دانش پر مبنی ہوتے ہیں،کیونکہ اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہیں۔ان سے کسی بے فائدہ کام کا صدور ممکن نہیں۔مشاہدہ ہے کہ طبیعیات، کیمیاء، فلکیات اور فلکیاتی طبیعیات کے میدان میں کام کرنے والے سائنسدان ان علوم کے قوانین کی روشنی میں ثابت شدہ اصول و مبادی تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ماہر سے ماہر شخص کی کارکردگی اللہ تعالیٰ کی کاریگری کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی،لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں عقلی اور منطقی حکمتیں ہوتی ہیں۔
انفس اور آفاق میں بکھری اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ایمان باللہ کی طرف راہنمائی کرتی ہیں۔ ہم آغاز میں عقل و منطق کو اور انتہا میں اطاعت و تسلیم کو پاتے ہیں۔جب ہم اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں تو اس کی باتوں کی پیروی بھی ہم پر ضروری ہے،جس کے نتیجے میں خودبخود عبادات مثلاً صوم و صلاۃ،حج اور زکوٰۃ کے مسائل کی ضرورت پیش آتی ہے۔
ان عبادات کی ادائیگی اطاعت و تسلیم کا ایک مظہر ہے،لیکن ہم ان مسائل کی عقلی اور منطقی توجیہہ اور ان میں موجود حکمتیں بھی بیان کرسکتے ہیں۔نمازوں کے اوقات میں یقیناًبہت سی حکمتیں مضمر ہیں،اسی طرح نماز کی حرکات و سکنات بھی بے معنی نہیں ہیں،بلکہ ان کے خاص مقاصد ہیں۔وضو کے دوران مخصوص اعضاء کو دھونے میں بھی فوائد اورحکمتیں ہیں۔معاشرتی زندگی کی تشکیل میں باجماعت نماز کا اہم کردار ہے،اسی طرح مالدار اور غریب طبقے کے درمیان توازن قائم کرنے میں بہت سی حکمتوں کے حامل نظام زکوٰۃ کا اہم کردار ہے۔روزے کے صحت سے متعلق فوائد تو بے شمار ہیں۔اسلام کے تعزیراتی قوانین میں بھی بہت سی حکمتیں کار فرما ہیں۔ہم ان پر عقل و منطق کی روشنی میں غوروفکر کریں تو ہمیں اطاعت و تسلیم تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔
حج کی مثال ملاحظہ فرمایئے:ہم نے پہلے ارشاد خداوندی: ﴿ وَلِلّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً﴾(آل عمران: ۹۷) ‘‘اور لوگوں پر اللہ کا حق یعنی فرض ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے۔’’کی وجہ سے حج کو ایک فریضے کی حیثیت سے قبول کیا،لہٰذا بیت اللہ تک سفر کی استطاعت رکھنے والے ہر مرد و زن پر حج فرض ہے۔اس فریضے کی ابتدا اطاعت و تسلیم سے ہوتی ہے، اسی لیے ہم حج کے لیے جاتے ہوئے ’’لبیک اللہم لبیک‘‘ کہتے ہیں، اس کے بعد ہم حج کی وجہ سے عالم اسلام کو حاصل ہونے والے فوائد پر غوروفکر کرتے ہیں توہم دیکھتے ہیں کہ یہ ہر لحاظ سے مسلمانوں کا ایک عالمی اجتماع ہے،جو مختصر ترین وقت میں مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند بنانے کے لیے راہ ہموار کرتا ہے،نیزاگر معاشرتی انصاف کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو امیر و غریب اور علماء اور عوام کا ایک جیسی حالت میں ایک پلیٹ فارم پر ایک ہی مقصدیعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے اظہارِبندگی کے لیے جمع ہونا ہمارے اس یقین کو تقویت پہنچاتا ہے کہ اسلام ایک عالمی مذہب ہے۔
لہٰذا ہم عقل ومنطق سے آغاز کرکے اطاعت و تسلیم تک پہنچیں یا اطاعت و تسلیم سے آغاز کرکے عقل و منطق تک رسائی حاصل کریں،اس سے نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔اسلام ایک پہلو سے عقلی اور منطقی ہے اور ایک دوسرے پہلو سے اطاعت و تسلیم سے عبارت ہے۔ایک خاص مسئلے میں عقل و منطق سے آغاز ہوتا ہے اور اطاعت و تسلیم تک پہنچنا مقصود ہوتا ہے اور کسی دوسرے مسئلے میں عقل و منطق تک رسائی کے لیے اطاعت و تسلیم سے آغاز کیا جاتا ہے۔جس خدائی نظام کے تحت کائنات کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے موجود ہے،یہ اس کی لازمی خصوصیت ہے۔
- Created on .