آیت مبارکہ ﴿لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ﴾(البقرۃ: ۲۵۶) ‘‘دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔’’ کا کیا مطلب ہے؟

چونکہ جبر دین کی روح کے منافی ہے،اس لیے بنیادی طور پر دین میں کسی قسم کا جبر نہیں پایا جاتا۔اسلام میں ارادے اور اختیار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور اس کی تمام تعلیمات کی عمارت اسی بنیاد پر استوار ہے،لہٰذا کوئی بھی عمل خواہ اس کا تعلق عقائد کے ساتھ ہو یا عبادات و معاملات کے ساتھ اگر اسے جبر کے تحت سرانجام دیا جائے تو اس کا کوئی اعتبار ہے اور نہ ہی وہ قابل قبول ہے،کیونکہ ایسی صورتحال میں کیا گیا عمل ‘‘انماالأعمال بالنیات’’ {qluetip title=[1]}(1) البخاری،بدء الوحی؛ مسلم، الامارۃ؛ أبوداؤد، الطلاق؛ ابن ماجۃ، الزھد.{/qluetip} (اعمال کا مدار نیتوں پر ہے۔) کے بنیادی اصول سے متصادم ہے۔

جس طرح اسلام اپنی تعلیمات کے بارے میں جبر اور زبردستی کو روا نہیں سمجھتا،اسی طرح وہ دوسروں کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے پر مجبور کرنے کو بھی جائز نہیں سمجھتا،کیونکہ وہ لوگوں کی آزادیوں کو برقرار رکھتے ہوئے ان سے خطاب کرنے کو پسند کرتا ہے،مثلاًجب اہل ذمہ جزیہ اور خراج کی ادائیگی کو قبول کر لیں تو اسلام انہیں زندگی کا تحفظ فراہم کرتاہے،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عفو و درگزر کے سلسلے میں اسلام میں بہت وسعت ہے۔

دین کوئی ایسانظام نہیں،جسے جبر اور طاقت کے بل بوتے پر نافذ کیا جا سکتا ہو،کیونکہ دین کا اہم ترین جزو ایمان ہے،جوکہ خالص قلبی اور وجدانی چیز ہے۔کوئی بھی خارجی طاقت انسان کے قلب و وجدان پر اثرانداز نہیں ہو سکتی۔انسان صرف داخلی اور نفسیاتی محرک کے تحت ہی ایمان کو قبول کر سکتا ہے،لہٰذا اس حیثیت سے دین میں کسی قسم کا جبر نہیں پایا جاتا۔

ابوالبشرحضرت آدم علیہ السلام کے دورسے آج تک دین نے کسی پر بھی زبردستی نہیں کی،بلکہ اس کا ارتکاب ہمیشہ کفار کی طرف سے کیا گیا ہے،کیونکہ وہ لوگوں کو ان کے دین سے جبر اور طاقت کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن کسی مسلمان نے کبھی بھی کسی کافر کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا،تاہم بعض اوقات یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم کی بہت سی آیات مبارکہ میں جہاد و قتال کی ترغیب دی گئی ہے،کیایہ ایک قسم کا جبرواکراہ نہیں ہے؟

ہرگزنہیں ... اس میں کسی قسم کا جبرواکراہ نہیں،کیونکہ جہاد توکفار کی طرف سے کئے جانے والے جبرواکراہ کے عمل کو روکنے کے لیے مشروع ہواہے،یہی وجہ ہے کہ جو شخص بھی دین اسلام کو قبول کرتاہے وہ آزادانہ طور پر اپنی مرضی سے ایسا کرتا ہے۔اسلام میں جہادکی مشروعیت اس آزادی کی حفاظت کے لیے ہے۔یہ آزادی جہاد ہی کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔ ہم اس موضوع کی ایک دوسرے پہلو سے درج ذیل الفاظ میں وضاحت کرسکتے ہیں۔بعض آیات کا حکم متعین ادوار کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے۔یہ ادوار ترقی و کمال اور تنزل و زوال کے یکے بعد دیگرے آنے والے مختلف مراحل کے درمیان بھی آسکتے ہیں،لیکن حکم انہی ادوار کے ساتھ مخصوص رہے گا۔اس کی ایک مثال سورت کافروں کی درج ذیل آیات مبارکہ ہیں: ﴿قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ o لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ o وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ o وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ o وَلَاأَنتُمْ عَابِدُونَ مَاأَعْبُدُ o لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ﴾ (الکافرون) ‘‘اے پیغمبر ﷺ! کہہ دو کہ اے کافرو! جن بتوں کو تم پوجتے ہو ان کو میں نہیں پوجتا اور جس معبود کی میں عبادت کرتا ہوں اس کی تم عبادت نہیں کرتے اور میں پھر کہتا ہوں کہ جن کی تم پرستش کرتے ہو ان کی میں پرستش کرنے والا نہیں ہوں اور نہ تم اس کی بندگی کرنے والے معلوم ہوتے ہو جس کی میں بندگی کرتا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارا رستہ میرے لیے میرا رستہ۔’’ ان آیات کا حکم مخصوص دور اور زمانے کے لیے ہے۔

یہ وہ ادوار اور مراحل ہیں،جن میں مسائل کی وضاحت اور ان کا حل پیش کیا جا رہا تھا، مسائل کی وضاحت ،ان کے حل کی پیش کش اور دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش جبر اور طاقت کے استعمال کے بغیر گفتگو،نصیحت اورہدایات کی صورت میں کرنی چاہیے۔اس سلسلے میں دوسروں کی گمراہی اور دشمنی کی پرواہ کئے بغیر اپنے نفس کی حفاظت اور ہدایت اور دین کو انفرادی سطح پر اپنی ذاتی زندگی میں ڈھالنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔اس قسم کے ادوار سے متعلق احکام تمام ادوار کے لیے نہیں ہوتے،لیکن اس کایہ مطلب بھی نہیں کہ یہ بعد کے کسی بھی دور میں قابل عمل نہیں۔یہ ایک غلط فہمی ہے۔اسلام کی تاریخ میں اس قسم کے ادوار بارہا آچکے ہیں اورآج کل ہم ایسے ہی دور سے گزر رہے ہیں۔

تاہم اسی آیت مبارکہ میں ایک اورحکم بھی ہے،جو ہر دور کے لیے ہے اور ہمیشہ واجب العمل ہے۔اس کا تعلق اسلامی ریاست کی حدود میں بسنے والی اقلیتوں کے ساتھ ہے۔انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں،بلکہ ہر کسی کو دینی عقائد اختیار کرنے کی آزادی فراہم کرنا ضروری ہے۔

اسلامی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ عیسائی اور یہودی ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتے رہے ہیں اور اہل مغرب کو بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ یہودونصاریٰ ان کے اپنے ممالک میں بھی اس قدر امن و سلامتی کے ساتھ نہیں رہے جس قدر امن و سلامتی انہیں عالم اسلام میں میسر رہی ہے۔ جب انہوں نے جزیے {qluetip title=[2]}(2) مسلمان زکوۃ ادا کرتا ہے،جبکہ اہل ذمہ عسکری خدمات اور ملکی دفاع سے مستثنیٰ ہونے کی بنا پر جزیہ ادا کرتے ہیں۔جب ایک دور میں مصر کے کاشتکاروں نے زراعت پر بھرپور توجہ دینے کے لئے عسکری خدمات سے مستثنیٰ کئے جانے کا مطالبہ کیا تو انہیں بھی جزیہ ادا کرنا پڑا۔ (عربی مترجم){/qluetip} کی ادائیگی کو قبول کر کے ہماری حفاظت میں رہنا منظور کیا تو ہم نے بھی ان کی حفاظت کی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا،لیکن کسی نے بھی انہیں دائرہ اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہیں کیا۔ماضی قریب تک ان کے اپنے مخصوص مدارس تھے،وہ اپنے مخصوص شعائر پر قائم تھے اور ان کی پابندی کرتے تھے۔ہمارے سنہرے ترین ادوار میں بھی اگر کوئی شخص ان کے علاقے میں جاتا تو یوں محسوس کرتا جیسے وہ یورپ میں رہ رہے ہوں۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہیں کس قدر آزادی میسر تھی۔سوائے اس کے کہ وہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش نہ کریں ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہ تھی۔انہیں مسلمانوں کو بہکانے کی اجازت نہ تھی اور یہ پابندی مسلمان معاشرے کی حفاظت کے لیے ناگزیر تھی۔

دین میں انحراف کے سدباب سے متعلق احکام کا جبرواکراہ سے کوئی تعلق نہیں۔ان کا تعلق صرف ان لوگوں سے ہے،جنہوں نے اپنے پورے اختیار اور مرضی سے دین کو قبول کیا ہے اور اِن احکام کو قبول کر کے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے،مثلاً اگر کوئی شخص اسلام سے پھر جائے تو اسے مرتد سمجھا جائے گا۔اسے اسلام میں واپس آنے کی مہلت دی جائے گی اور اگر اس کے بعد بھی وہ اسلام کی طرف نہ لوٹے تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔یہ دراصل اپنے عہد کو توڑنے کی سزا ہے جو کہ معاشرے کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ریاست مخصوص نظام کے تحت ہی چل سکتی ہے۔اگر ہر فرد کی خواہشات کو بنیاد قرار دے دیا جائے تو ریاست کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا،لہٰذا تمام مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے پیش نظر اسلام مرتد کی زندگی کو تحفظ فراہم نہیں کرتا۔

جوشخص بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے وہ بعض کام سرانجام دینے اور بعض کاموں سے باز رہنے کا التزام کرتاہے۔اس کا جبرواکراہ سے کوئی تعلق نہیں۔جس طرح اگر کوئی عاقل بالغ شخص نماز میں ہنسے تو وضو کے ٹوٹنے اور نماز کو لوٹانے کی صورت میں اسے سزا دی جاتی ہے اور اگر کوئی حاجی حالت احرام میں سلے ہوئے کپڑے پہنے یا حشرات الارض کو مارے تو اسے مخصوص سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حالانکہ اگر وہی شخص نماز کے باہر ہنسے یا حج اور احرام کے اوقات کے سوا کسی اور وقت میں حشرات الارض کو مارے تو اسے کچھ بھی نہیں کہا جاتا،اسی طرح اگرچہ اسلام کسی کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہیں کرتا،لیکن اپنے پورے اختیار سے حلقہ بگوشِ اسلام ہونے والوں کو بے مہار بھی نہیں چھوڑتا۔بلاشبہ اسلام کے کچھ مخصوص اوامر و نواہی ہیں،جن کی پابندی کا وہ اپنے پیروکاروں سے مطالبہ کرتاہے۔وہ انہیں نماز،روزہ،حج اور زکوۃ کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور انہیں شراب،جوئے،بدکاری اور چوری سے روکتا ہے۔وہ ان احکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ان کے جرم کے مطابق سزائیں بھی دیتا ہے،لیکن یہ سزائیں جبرواکراہ کے تحت آتی ہیں اور نہ ہی ان کا اس سے کسی قسم کا تعلق ہے۔

اگر ہم تھوڑا سا بھی غوروفکر کریں تو یہ بات معلوم ہو سکتی ہے کہ اس قسم کی تدابیر میں انسانوں کا ہی فائدہ ہے،کیونکہ ان تدابیر کے ذریعے فرد اور معاشرہ دنیا اور آخرت کی سعادت پاتاہے۔دین میں صرف اسی قسم کا اکراہ پایا جاتا ہے،جسے دوسرے لفظوں میں جنت کے راستے میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔