جہاد زندگی کا سرچشمہ

جہاد زندگی کا سر چشمہ ہے۔مسلما نو ں کو ہمیشہ کی زندگی عطاکرتا ہے اور پژ مردگی سے نجات دلاتا ہے ۔جس قوم کے افراد میں مادی اور معنوی جہاد ختم ہو جائے تو کئی انواع واقسام کی اخلاقی برائیاں ، آپس کی لڑائیاں اور فسادات جنم لیتے ہیں اور قوم خود ہی تباہ و برباد ہو جاتی ہے ۔عثمانی اس حقیقت کی زندہ مثال ہیں ۔قدرت نے عثمانیوں اور اس طرح کی دیگر اقوام کے ساتھ یہی سلوک کیا کہ وہ تباہ و برباد ہوئیں اور اپنی موت آپ مر گئیں ۔پھر اس حالت کے خاص اسباب ہیں جس قوم کے حکمران اپنی زندگی میں خواہشات نفس کے پیچھے چل پڑیں ۔شہوت پرستی اور بد اخلاقی میں پڑ جائیں ۔ اللہ کے دین کی سر بلندی کوچھوڑ دیں اور یہی بری عادتیں مجاہدین اور فوجوں میں بھی رواج پا جائیں تو ایسے ممالک اپنی قدرومنزلت اور شان وشوکت کھو دیتے ہیں اور ہمیشہ کی بد بختی اور نا امیدی ان پر چھا جاتی ہے۔اسی طرح کی بد بختی نے سلطنت عثمانیہ جیسے عظیم الشان ملک کو دنیا کے نقشے سے مٹا کر رکھ دیا۔

جب سے ہم نے جہاد کا راستہ ترک کیا ہے ہمارے درمیا ن فرقہ پرستی اور تخریب کاری نے ڈیرے ڈال دیے ہیں ۔ آج امت مسلمہ کے اندر جو فرقہ پرستی ہے ،تخریب کاری اور اختلافات ہیں یہ انہیں جہنمی پودوں یعنی حنظل اورزقوم کے پھل ہیں جو گزشتہ عرصے میں ہمارے ہاں تنا ورخت کی شکل اختیار کر گئے۔اس انحطاط و زوال سے نکلنے کی جہاد کے سواکوئی صورت نہیں ۔مومن کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اور غایت جہاد ہی ہے،اور اسی کے لیے اپنے آپ کو قربان کرنا ہو گا۔جب تک مومن اپنے خون پسینہ سے جہاد کے درخت کی آبیاری نہیں کریں گے معاشرہ کی تطہیر مکمل نہیں ہو سکتی۔

حضرت حرام بن ملحان ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنہوں نے خون پسینے سے جہاد کی خدمت کی اور شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے ۔وہ جنگ کے دوران جب سینے پر تیر کھا کر زمین پر گر پڑے تو پکار اٹھے :

”اللّٰہ اَکبر فُزتُ وَرَبِّ الکَعبَۃِ“

”اللہ اکبر کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔“

اگر ہم حرام بن ملحان کی زندگی میں ملنے والی غنیمت اور اس عظیم ذائقے کا تقابلی جائزہ لیں جو انہیں اللہ کی راہ میں نصیب ہواتو ان کی کامیابی کا رازمعلوم ہو جائے گا،اس لیے کہ جہاد ہی سب سے فائد ہ مند تجارت ہے۔اللہ تعالیٰ اس ارشاد گرامی میں ہمیں اس کامیاب اور فائدہ مند تجارت کی طر ف بلاتا ہے ،فرمایا :

ٰٓیاََیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا ہَل اَدُلُّکُم عَلٰی تِجَارَةٍ تُنجِیکُم مِّن عَذَابٍ اَلِیمٍ o تُومِنُونَ بِاللّٰہِ وَرَسُولِہ وَتُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ بِاَموَالِکُم وَاَنفُسِکُم ذٰلِکُم خَیرلَکُم اِِن کُنتُم تَعلَمُونَ ۔(الصف:۱۱۱)

”اے لوگو جو ایمان لائے ہو میں بتاﺅ ں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب علیم سے بچا دے؟ایمان لاﺅ اللہ اور اس کے رسول پراور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے یہی تمہارے لیے بہترہے اگر تم جانو۔ “

اس سے مراد یہ ہے کہ کہ اللہ تعالیٰ کہنا چاہتا ہے اے مومنو میں تم کو کامیاب ترین تجارت کی طر ف بلاتا ہوں تم ہمیشہ کی کامیاب سعادت مند زندگی حاصل کرواور جنت میں ٹھکانہ لو اور اس کے ساتھ دوزخ کی زندگی سے بھی نجات پاﺅ۔

بلاشبہ جہاد دنیا کے کونے کونے کے لیے روشنی کا پیغام ہے۔اور دنیا کی تمام اندھیر نگریوں میں اسم محمد سے اجالا کرنے والا ہے۔قرآن مبین کے نور سے سارے جہانوں کو منور کرنے والا ہے۔یہی جہاد ہے جو قیامت تک جاری رہے گااور مومن دنیا کی قوموں کے درمیان امت وسط ہونے کافریضہ انجام دیتے ر ہیں گے۔

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔