پاکیزگیٔ فکر
سوال: بعض اوقات آپ’’پاکیزگیٔ فکر‘‘اور’’ عزت فکر ‘‘جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں ،کیا یہ ممکن ہے کہ جناب ان کی مراد بیان فرمائیں ؟
جواب: فکر اور تحریک ان اہم چیزوں میں سے ہیں جو ہمیں وجود حقیقی کے رستے کی جانب رہنمائی کرتی ہیں اور ہماری ذا تیت کو منہ زور جھکڑوں سے بچاتی ہیں اوراس ذاتیت کی تجدید کا موقع فراہم کرتی ہیں ۔خاص مفہوم کے مطابق فکر کا درجہ تحریک سے پہلے ہےکیونکہ تفصیلی لحاظ سے فکر تحریک کے اندر پرورش پاتی ہے ۔مطلب یہ کہ اگر انسان کسی خاص موضوع پر توجہ دے اور اس کے بارے میں سوچے اور اسے درست انداز سے پڑھے تو اس موضوع کی سمجھ ،ان افکار کی تطبیق اور ان کو اوڑھنا بچھونا بنانے سے آتی ہےکیونکہ جب انسان اپنے افکار کی تطبیق کرنا چاہتا ہے تو اس کے سامنے نئی نئی راہیں کھلتی ہیں اور یہ بات اسے مزید گہرے افکار کی جانب لے جاتی ہے اور یوں وہ افکار (جو ابتدائی میں اجمالی ہوتے ہیں )ایک مضبوط بنیاد پر ٹھہر جاتے ہیں ۔اس لئے وہ سب سے اہم نظر یہ جو ہمیں اپنے تمام افکار اور ادادوں میں پیش نظر رکھنا چاہئے جو فکرکو اپناتے ہیں ،وہ تحریک کی پاکیزگی ہےخواہ وہ سوچ اور فکر اجمالی ہو یا تفصیلی ۔اس بنیاد پر ہم پر لازم ہے کہ پاکیزگیٔ فکر سے وابستگی کو ہم اپنی شخصیت کا مقتضاسمجھتے ہوئے ہر قسم کے حالات میں ان کی اس طرح حفاظت کریں جس طرح اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
اچھی سوچ اچھے کام
کچھ لوگ ہم سے مختلف انداز سے برتاؤ کر سکتے ہیں مگر ضروری ہے کہ دوسروں کی غلطی ہمیں ایک اور غلطی میں مبتلا نہ کرے۔
جی ہاں ، حالات اور عوامل جس قسم کے بھی ہوں ہمیں اپنے بنیادی اقدار کے بارے میں اپنے موقف سے نہیں ہٹنا چاہیے کیونکہ اگر کسی اور کے تصرفات کے ردّ عمل کے طور پر ہمارے افکار اور برتاؤ میں انحراف پیدا ہو جائے تو اس انحراف سے کئی نئے انحرافات جنم لیں گے جس کے نتیجے میں آخر کار ہم راہ راست سے بھٹک جائیں گے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دوسروں کو یہ موقع فراہم نہیں کرنا چاہئےکہ وہ ہمارے اذہان کو مشغول کر سکیں بلکہ انحراف پر مجبور کرنا تو اس سے بہت بڑی بات ہے ۔(اپنی فکری دنیا ،فکری منہج اور فکری آبشار کو بچانے کے لئے)ہم پر لازم ہے کہ ہم اس تاثر سے دور رہیں جو جذبات کو مشتعل کرتی ہے کیونکہ ان تمام اشتعال انگیزیوں کا بنیادی مقصدخیر کی طرف گامزن لوگوں کو ان کے اعلیٰ ہدف تک پہنچنے سے روکنااور ان کا رُخ دوسری طرف موڑ دینا ہے ۔بالفاظ دیگر اشتعال انگیزیوں کا بنیادی مقصدلوگوں کو اپنے ہدف کی طرف بڑھنے سے روک کر دوسرے رخ کی جانب موڑنا ہے ۔
اس سب کے باوجودجھوٹے الزامات کا فکرسلیم کے نمائندوں پر اثر نہیں ہونا چاہئے (اگرچہ ان کو حق حاصل ہے کہ وہ توضیح،تصحیح ،تکذیب بلکہ معاوضہ طلب کرکے بھی ان الزامات کا جواب دینے کا حق رکھتے ہیں )بلکہ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی پاکیزگی اور عزت کو محفوظ رکھنے کے لئے انتہائی درجے کی جدوجہد کریں ۔جی ہاں ،ہمیں سیدھے انداز میں سوچنا چاہیے تا کہ وہ تمام افعال اور تصرفات بھی درست ہو جائیں جن کی بنیاد اس فکر اور سوچ کے اوپر ہے ،ورنہ اگر ہم پر ہوا کے ساتھ چل پڑیں اور گر پڑیں تو ہم اس رستے سے بھٹک جائیں گے جس پر ہم چل رہے تھے اور مشکل راستوں میں پڑ کر،بالآخرراستے سے بھٹک جائیں گے۔
اچھی سوچ ،پر لطف زندگی
نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’وہ شخص کامیاب ہے جس کا سکوت اس کا تفکر اور اس کی نظر عبرت ہو‘‘ (الدیلمی، المسند2/421)۔اس پرنور قول کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان کو حنک فکر پر بھی اسی طرح اجر ملتا ہے جس طرح عبادت پر ملتا ہے ۔ اگر آدمی ان افکار میں مشغول رہے جن کو حاصل نہیں کیا جا سکتا ،تو اس کا مطلب توانائیوں کا ضیاع ہے کیونکہ اگر انسان کسی ایسے خیال کی تمنا کرے کہ اگر اس کے بس میں ہو تو وہ اس دنیا کی شکل بدل دے اور اسے زیادہ خوبصورت اور زیادہ متحرک کر دے ، تو میں سمجھتا ہوں کہ اس انسان کے تصورات اور خیالات بھی عبادت کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن انسان کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مسلسل اچھے امور میں مصروف رہے اور ان اچھے افکار کی روشنی میں کوشش جاری رکھے ۔حضرت بدیع الزمان سعید نورسی (طیب اللہ ثراہ)اپنی کتاب’’المکتوبات‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ :’’جس کی نظر اچھی ہو گی اس کا رویہ اچھا ہو گا ، اور جس کا رویہ اچھا ہو گا وہ اپنی زندگی سےلطف اندوز ہوگا‘‘۔مطلب یہ ہے کہ انسان کا اپنی زندگی کو ایک لذیذنغمے میں بدلنے اور اسے اس طرح گزارنے کا دارومدارکہ گویا وہ جنت کی گلیوں میں گھوم رہا ہے ،اس کی فکر کی اچھائی کا مرہون منت ہے ۔
علاوہ ازیں انسان کے پاس سوچنے کی فطری استعداد موجود ہےاور اگر وہ اپنی اس استعداد کو مثبت رستے پر استعمال نہ کرے تو یہ صلاحیت اسے انانیت اور بہیمیت جیسے منفی راستوں پر چلا سکتی ہے ۔آپ سوچ کی بات تو چھوڑیں ،انسان کے بھلائی میں بھی استعمال نہ ہونے والے تخیلات اور تصورات بھی انسان کو اس طرح منفی امور سے دوچار کر سکتے ہیں ۔اس لئے مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ ان افکار کے ہمراہ حرکت کرے جن پر اس کا ایمان ہے ،ان پر خوش ہو اور ہمیشہ پڑھنے اور سوچنے میں مصروف رہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ بنیادی مصادر سے مستفید ہوتا رہے اور زندگی میں کوئی خلا پیدا نہ ہونے دے ۔اسی طرح اس کو چاہیے کہ وہ اپنے ارادے کا حق ادا کرے اور ان جذبات اور افکار سے دور رہے جن کی وجدان اجازت نہیں دیتا ۔اگر وہ اپنی تمام کوششوں کےباوجود ان منفی ہواؤں کا شکار ہو جائے تو اس حالت میں اس کے لئے ضروری ہے (جیسے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ)وہ اس ماحول سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص ان خیالات میں غرق رہے جو فکر کی پاکیزگی میں خلل ڈالتے ہیں ،تو وہ ایک ایسے نقطے پر پہنچ جائے گا جہاں اسے لگے گا کہ وہ ساحل سے بہت دور آگیا ہے اورجہاں اسے ان منفی امور سے واپسی کا موقع نہیں مل سکتا جن میں وہ غرق ہو چکا ہے ۔ہاں ،اگر انسان حسد،بغض،کینہ ،غصہ اور اندرونی شہوت کا مقابلہ نہ کر سکے تو یہ امور تمام بندوں کو توڑ دیں گے اور اس کی وجہ سے انسان سے غلط فیصلے صادر ہوتے ہیں اور وہ غلط کاموں کا مرتکب ہوتا ہے ۔
انسان پر لازم ہے کہ وہ ایک طرف اس بارے میں اپنے ارادے کا حق ادا کرے تو دوسری جانب اللہ تعالیٰ سے حفظ وامان مانگے ۔اگر وہ ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے اپنی زندگی حفظ وامان میں گزارے گا ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ سب سے اچھے لوگ بھی بالکل الٹ سکتے ہیں ۔اس لئے ہمیشہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے اور جب ہم ڈگمگانے اور گرنے لگیں کہ ہم اپنی حالت کو درست رکھیں اور دوبارہ اللہ تعالیٰ سے یہ کہتے ہوئے لو لگا ئیں :}قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ{ ‘‘ [الاعراف:23](اے ہمارے رب ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر آپ ہماری مغفرت نہ کریں گے اور ہم پر رحم نہ کریں گے تو واقعی ہمارا بڑا نقصان ہو جائے گا )۔
جیسے کہ ہمارے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام نے کہا تھا ۔
فکر کے بہروپ میں خواہشات
پاکیزگی ٔ فکر کی خاطر جن امور کی جانب توجہ دینا لازمی ہے ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ خواہشات اور اہوا ء،فکر کا روپ دھار کر انسان کو سیدھے رستے سے نہ ہٹا دیں۔ ایسی حالت میں شرعی معیار ہی وہ واحد پیمانہ ہے جو خواہش ،ہوس اور فکر کا تعین کر سکتا ہے ۔مثلاًاگر آپ کسی انسان سے آپ کو غمگین کرنے اور تکلیف دینے والے اقوال یا افعال کے صادر ہونے سےآپ اس کے خلاف بھڑک اٹھیں ،تو تمہیں پہلے یہ بات دیکھنی چاہیے کہ اس قول یا فعل سے حق اور حقیقت کو کوئی نقصان پہنچا ہے یا نہیں ؟اگر ایسا نہیں ہوا ،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا غصہ تمہارے اپنے نفس کے لئے ہے اور تمہارے ردّ عمل کا سرچشمہ خواہش ہے جبکہ قرآن کریم نے اذیت سے دوبدو ہونے کا جو معیار مقرر کیا ہے وہ یہ ہے}وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ اَحسن{ (فصلت:34)(اور نیکی بدی برابر نہیں ہوتی (بلکہ ہر ایک کا اثر جدا ہے تو اب)آپ(مع اتباع)نیک برتاؤ سے (بدی کو )ٹال دیا کیجئے )۔اس معیار کے مطابق آپ کو تکلیف دینے والے انسان کے مقابلے میں آپ کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ اپنی مسکراہٹ اور خندہ پیشانی سے اس کے غصے کی شدت کو کم کریں ،لیکن اگر اس برائی کی وجہ سے مقدسات یا عمومی حقوق کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہو تو انسان کو اس سے درگزر کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ انسان صرف اپنے سے متعلق خاص حقوق کو ہی معاف کر سکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق معاف کرنے کا اختیار کسی کو نہیں دیا ۔اس لئے کوئی بھی شخص(خواہ اس کا مرتبہ کچھ بھی ہو)حقوق اللہ کے بارے میں نیابت نہیں کر سکتا ۔اگر بات اس کے خلاف ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی بے ادبی ہے ۔
اگر ہم دوبارہ اپنے موضوع کی طرف آئیں تو کہنا ہو گا کہ :جی ہاں، کبھی کبھا ر خواہشات اور اہواء فکر کا بہروپ دھار لیتی ہیں اور (شیطان اور نفس امارہ کی تحریک سے)انسان ان کو فکر سمجھ لیتا ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ ان کے زیر اثر غلطیوں کا ارتکاب بھی کر ے ۔اس کا مشاہدہ آپ ٹیلی ویژن کی ان گفتگوؤں میں دیکھ سکتے ہیں ،جن میں لوگ ایک دوسرے پر بغیر سوچے سمجھے تنقید کرتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ وہ بات کرتے ہیں جومدمقابل کے قول کے برعکس ہوتی ہے ،خواہ اس کی بات درست ہو یا غلط اور یوں لگتا ہے کہ ان کا کام مخالفت ہی ہے ،یہاں تک کہ اگر مد مقابل (بفرض محال)یہ کہہ دے کہ’’میں اللہ کے فضل وکرم سے تمہیں اسی وقت جنت میں داخل کر سکتا ہوں ‘‘اور اس شخص کے اشارے سے ان کے سامنے جنت کے دروازے چوپٹ کھل جائیں اور وہ لوگ جنت کے جمال کو پوری جاذبیت کے ساتھ دیکھ بھی لیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ :’’ہر گز نہیں ،ہم اس جنت میں داخل نہیں ہوں گے ۔ہمیں اس دنیا کی خاطر زیادہ کوشش کرنی چاہیے ۔تم ہمیں سستی اور کاہلی کا راستہ دکھا رہے ہو !‘‘مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ زیادہ منطقی اور قابل قبول افکار کے مقابلے میں غلط فلسفے کے ذریعے جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کے الفاظ شیطان کی طر ف سے ہوتے ہیں جن کا سرچشمہ خواہش ہوتی ہے جبکہ انسان کو یہ وہم ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں اس کی فکر اور خیال کا نتیجہ ہیں ۔بعض مومنین شیطان اور نفس امارہ کے اس جال میں پھنس سکتے ہیں ۔مثلاً ہوسکتا ہے کہ اگر کی شخص کو موت کی یاد دلائی جائے تو اپنی خواہشات او راہواء مثلاً زندگی ،اولاد ،اہل وعیال اور دنیا کی لذتوں کی محبت کو خدمت کے غلاف میں لپیٹ سکتا ہے اور خواہش کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہے کہ :’’مجھے زندہ رہنا چاہیے تا کہ حق اور حقیقت کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکوں ‘‘۔جبکہ سچے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کے شوق میں غمگین رہے ، رسول اللہ ﷺسے ملاقات کا مشتاق ہو اور اس دسترخوان پر پہنچنے کی خواہش کرے جس پر حضرت ابوبکر، حضرت عمر ،حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم بیٹھتے ہیں اور ان کے عمومی ماحول میں شریک ہو ، لیکن اس کے باوجود اسے احتیاط سے کام لیتے ہوئے یہ کہنا چاہیے کہ :’’میرے رب میں جلدی کرکے کہیں آپ کی بے ادبی کا مرتکب نہ ہو جاؤ ں ،کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ میری اجل آچکی ہے یا نہیں ‘‘۔اس مقام پر وجدان ایک اہم فیصل ہوتا ہے ،اس وجہ سے انسان کو چاہیے کہ اپنے تمام اعمال کو اپنے وجدان کے سامنے جھکائے اور اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے تمام اختیارات اور فیصلوں کے بارے میں درست معیاروں کی جانب رجوع کرے ۔اگر وہ ایسا کرے گا ،تو خواہش کو ہدایت اور منطقیت اور معقولیت کو خواہشات اور اہواء کے ساتھ گڈ مڈکرنے سے بچ جائے گا۔
- Created on .